مشاورت، قرآن و سنت کی روشنی میں

سجاد فیضی

اسلام ایک ایسا عالم گیر دین ہے جو ہمیں حیات کے تمام ادوارمیں مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے۔عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو معا شرت، معیشت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت، طب ہو یا انجینئرنگ، اسلام نے ان تمام امور کے متعلق بنیادی اوراصولی تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب دین اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کا دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ تعلیمات اسلامی نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں ہموار کرتی ہے، بلکہ اس دنیوی زندگی میں بھی اطمینان ،سکون اور ترقی کے منھج سے بھی آگاہی فراہم کرتی ہیں، معاملات دنیا میں سے ایک معاملہ مشاورت ہے، جس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں ’’شوریٰ‘‘ نام کی ایک سورت ہے۔

اگر ہم اسلامی ریاست کے نظام زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اہل ایمان کے تمام امور باہمی مشورے سے چلتے ہیں۔ چنانچہ مشورے کے بارے میں قرآن کریم میں دوجگہ صریح اور نہایت واضح طور پر آیا ہے۔

وَشَاوِرْهُمْ فِی لْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ.

اور آپ ﷺ ان (صحابہ) سے کام میں مشورہ لیجئے۔ پھر جب آپ مشورے کے بعد کسی بات کا عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجئے۔

سورہ شوریٰ میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کی ایک صفت یہ بیان فرمائی کہ:

وَأَمْرُهُمْ شُورَیٰ بَیْنَهُمْ.

اور ان کے (اجتماعی) امور باہمی مشورے سے انجام پاتے ہیں۔

یہاں دو لفظ غور طلب ہیں۔ ایک امر۔ عربی زبان میں لفظ امر کا استعمال حکم اور حکومت کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور کسی مہتم بالشان قول و فعل کے لئے بھی۔ مذکورہ آیتوں میں دونوں معنوں کا احتمال ہے۔ سو ان آیات میں امر کے معنی ہر اس کام کے ہیں جو خاص اہمیت رکھتا ہو، خواہ وہ حکومت سے متعلق ہو یا دوسرے معاملات سے دوسرا لفظ شوریٰ ہے جس کے معنی کسی غور طلب معاملے میں لوگوں کی رائے حاصل کرنا۔ اس کے بارے میں چند اقوال ملاحظہ فرمائیے۔ شوریٰ اس معاملے کوکہتے ہیں جس پر مشورہ کیا جائے۔ (اہل الرائے سے مشورہ کرنا)۔ ان کے معاملے ذاتی رائے سے طے نہیں پاتے بلکہ باہمی مشورے سے جس امر پر اتفاق ہوجائے اس پر عمل ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملات مشاورت سے چلانے میں اور فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیتے۔

پس پہلی آیت کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ غور طلب معاملات میں جن میں حکومت کے جملہ معاملات بھی شامل ہیں۔ صحابہ کرام سے مشورہ کرلیا کریں۔ اسی طرح دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومنوں کے تمام غور طلب معاملات، خواہ وہ حکومت سے متعلق ہوں یا دوسرے امور سے، باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ مشورے سے مستغنی تھے کیونکہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی تھی۔ وَشَاوِرْهُمْ فِی لْأَمْرِ کے حکم سے حقیقت میں امت کی تعلیم مقصود ہے تاکہ امت میں مشورے کا طریقہ جاری ہوا اور جب کوئی ایسا دینی یا دنیوی امر پیش آجائے جس کے بارے میں کوئی حکم خداوندی واضح طور پر موجود نہ ہو تو اس کے بارے میں ایسے لوگوں سے مشورہ کیا جائے جو مشورہ دینے کے اہل ہوں اور جن کی رائے قابلِ وثوق ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت وَشَاوِرْهُمْ فِی لْأَمْرِ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نے مشورے کو میری امت کے لئے رحمت بنا دیا ہے، سو جو کوئی مشورہ کرے گا وہ ضرور ہدایت پائے گا اور جو کوئی مشورے کو چھوڑ دے گا وہ ضرور گمراہ ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اصحاب رسول سے زیادہ کسی کو مشورہ کرتے نہیں دیکھا۔

مشورے کی شرعی حیثیت:

بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اذا کانت امراء کم خیار کم و اغنیاء کم سمحاء کم امور کم شوری بینکم فظهر الارض خیر لکم من بطنها واذاکانت امراء کم شرار کم و اغنیاء کم تجلاء کم و امور کم الی نساء کم فبطن الارض خیر لکم من ظهرها.

جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورے سے ہوتے ہوں تو تمہارے لئے زمین کے اوپر رہنا بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے۔ جب اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس بارے میں وہے رائے دے جو وہ اپنے لئے تجویز کرتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم قرآن میں صراحاً نازل نہیں ہوا اور اس کے متعلق ہم نے آپ سے کچھ نہ سنا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لئے اپنے لوگوں میں سے عبادت گذار (فقہاء) کو جمع کرکے ان کے مشورے سے اس کا فیصلہ کرو۔ کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔

مذکورہ احادیث سے یہ امور بالکل واضح ہیں:

صرف ان چیزوں میں مشورہ لینا مسنون ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث کا کوئی واضح اور قطعی حکم موجود نہ ہو۔

قطعی اور واضح احکامِ شریعہ کے بارے میں نہ مشورے کی ضرورت ہے اور نہ مشورہ لینا جائز ہے۔

مشورہ ان لوگوں سے لینا چاہئے جو تفقہ اور عبادت گزاری میں ممتاز ہوں۔

مشورہ دینے والے کا صاحب عقل و رائے ہونا ضروری ہے۔

آپ ﷺ کا صحابہ کرام سے مشورہ کرنا:

رسول اللہ ﷺ مہمات امور میں صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام بھی آپس میں مشورہ کرتے تھے۔ خلاف راشدہ کی تو بنیاد ہی شوریٰ پر قائم تھی۔

غروہ بدر کے موقع پر ابتداء آپ ابوسفیان کے قافلے کو روکنے کی غرض سے مدینے سے نکلے تھے۔ پھر جب آپ نے وادی ذفران میں پڑاو ڈالا تو آپ کو اطلاع ملی کہ قریش اپنے قافلے کی حفاظت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت آپ نے مہاجرین و انصار کو مشورے کے لئے جمع فرمایا اور ان کو قریش کی خبر دی۔ یہ سنتے ہی پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر اظہار جان نثاری فرمایا۔پھر حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا یارسول اللہ (ﷺ) ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا رب دونوں جار کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں اور بائیں، آگے اور پیچھے لڑیں گے۔ پھر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ آپ صحابہ کرام کا جواب سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کے نام پر چلو۔

بدر ہی کے موقع پر آپ ﷺ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں صحابہ کرام سے مشورہ طلب کیا اور فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان پر قدرت دی ہے، حضرت ابوبکر نے عرض کیا سب اپنے ہی عزیز و اقارب ہیں اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ سب کی گردن اڑا دی جائے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے ان کو آگ میں جلانے کا مشورہ دیا۔ آپ نے حضرت ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا اورقیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کا حکم دیا۔

غزوہ احد کے موقع پر آپ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا کہ مشرکین کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کیا جائے یا باہر نکل کر۔ پھر صحابہ کرام کے مشورے سے آپ نے مدینے سے باہر نکل کر مقابلے کا فیصلہ فرمایا۔

غزوہ خندق کے موقع پر بھی آپ نے مہاجرین و انصار کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا۔ مجلس مشورہ میں حضرت سلمان فارسی بھی تھے جو انہی دنوں ایک یہودی کی غلامی سے نجات حاصل کرکے اسلام کی خدمت کے لئے تیار ہوئے تھے، اُنہوں نے مشورہ دیا کہ فارس کے بادشاہ ایسی صورت میں خندق کھود کر دشمن کا راستہ روک دیتے تھے۔ آپ نے حضرت سلمان فارسی کا مشورہ پسند فرمایا۔

بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ ﷺ کے داماد ابوالعاص بھی تھے۔ اہل مکہ نے جب اپنے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے فدیہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے وقت ان کو دیا تھا۔ آپ ﷺ اس کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے۔ پھر آپ نے صحابہ کرام کے مشورے سے وہ ہار بھی واپس فرما دیا اور ابوالعاص کو بھی قید سے رہا کردیا۔ اس کے چند سال بعد فتح مکہ سے پہلے ابوالعاص تجارت کی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اہل مکہ کا سرمایہ بھی کے ساتھ تھا۔ شام سے واپسی میں مسلمانوں کے ایک دستے نے ان کا تمام مال ضبط کرلیا۔ پھر آپ نے صحابہ کرام سے مشورے کے بعد ان کو تمام مال و تجارت واپس کردیا۔ اس کے نتیجے میں جلد ہی ابوالعاص مشرف باسلام ہوگئے۔

ان واقعات سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ ریاستی و حکومتی معاملات کے ساتھ ساتھ، سماجی و سیاسی معاملات میں بھی صحابہ کرام سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہ کرام میں بھی اہم ریاست اور ایسے دینی امور میں جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی صریح حکم نہ تھا۔ مشاورت کا طریقہ ہمیشہ جاری رہا۔

ازواجِ مطہرات کے ساتھ مشاورت:

رسول اللہ ﷺ ازواجِ مطہرات کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ بعض اوقات کسی مسئلے پر ان کے ساتھ تبادلہ خیالات بھی کرتے۔ اگرچہ وحی کی تائید حاصل ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کو ان سے رائے لینے کی ضرورت نہ تھی، لیکن درحقیقت آپ ﷺ اس طرز عمل سے اپنی امت کو عورت کی قدر و منزلت سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے عورت کو معاشرے میں یہ مقام حاصل نہ تھا۔ آپ ﷺ نے عملی طور پر اس کا آغاز اپنے گھر سے فرمایا۔

مسلمانوں پر صلح حدیبیہ بہت گراں گزری تھی۔ اسی دوران رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کے ارادے سے آنے والوں کو اپنے قربانی کے جانور ذبح کرکے احرام سے نکلنے کا حکم دیا، لیکن صحابہ نے اس خیال سے اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کی کہ شاید اس حکم میں کوئی تبدیلی ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ حکم ارشاد فرمایا، لیکن صحابہ کرام کو ابھی بھی حکم کے تبدیل ہونے کی اُمید تھی۔ خدانخواستہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ماننے سے انکار نہ تھا، بلکہ وہ کسی اور حکم کے منتظر اور اُمیدوار تھے، کیونکہ وہ مدینے سے طوافِ کعبہ کے ارادے سے نکلے تھے اور ان کے خیال میں صلح حدیبیہ کے عملی طور پر نافذ ہونے سے پہلے اس میں تبدیلی کا امکان موجود تھا۔

جب نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کا یہ طرز عمل دیکھا تو آپ ﷺ نے اپنے خیمے میں تشریف لے گئے اور اپنی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ حضرت ام سلمہ بہت صاحب فہم وفراست خاتون تھیں۔ اگرچہ وہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ ﷺ اپنی بیوی سے مشورہ کرکے اپنی امت کو ایک معاشرتی اصول سمجھانا چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے مشورے کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے نبی! اگر آپ پسند فرمائیں تو باہر نکلیے اور کسی سے کوئی بات کیے بغیر اپنے قربانی کے اونٹ کو ذبح فرما دیجئے اور اپنے حجام کو بلا کر اپنا سرمنڈوادیجئے۔ رسول اللہ ﷺ کے ذہن میں بھی یہی بات آرہی تھی، چنانچہ آپ ﷺ چھری لے کر باہر نکلے، اپنے قربانی کے اونٹ کو ذبح فرمایا اور اپنے سر کو منڈوا دیا۔ جب صحابہ کرام نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی اٹھے، قربانی کے جانور ذبح کیے اور ایک دوسرے کے سرمونڈنے لگے حتی کہ یوں لگتا تھا کہ وہ غم کی شدت میں ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ اب انہیں پتا چل گیا تھا کہ یہ فیصلہ اٹل ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

سوچنے کا مقام ہے کہ کتنے لوگ اپنی بیویوں سے اس انداز سے مشورہ کرتے ہیں؟ کتنے سربراہانِ خانہ خاندان کا نظام چلانے میں اپنی بیوی سے مشاورت کو روا رکھتے ہیں؟ ہم اس قسم کے سوالات معاشرے کے تمام اکائیوں کی سطح پر اٹھا سکتے ہیں۔ مغربی ذہنیت سے متاثر لوگ جو اس بات کا واویلا مچاتے ہیں کہ اسلام عورت کو قیدی بناتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر سے دریافت کریں کہ حقوق نسواں کے کون سے علمبردار اسے اس قدر بلند مرتبہ عطا کرسکتے ہیں؟

بھلائی کے دوسرے کاموں کی طرح مشاورت کا عملی آغاز بھی رسول اللہ ﷺ کے گھر سے ہوا۔ آپ ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات سے مشاورت فرمایا کرتے تھے۔ ہم ابھی تک اس مقام تک پہنچے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس پر اسرار دروازے کے تالوں کو کیسے کھولیں بلکہ ہم نے تو ابھی تک اس دروازے پر دستک بھی نہیں دی۔ عورت کو ابھی تک ان لوگوں کے ہاں بھی دوسرے درجے کے انسان کی حیثیت حاصل ہے، جو اس کے حقوق کی حفاظت کے دعویدار ہیں، لیکن ہم عورت کو ایک اکائی کے نصف کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ عورت ایسا نصف ہے، جس کے بغیر دوسرا نصف بے کار ہے۔ ان دونوں نصفوں کے ملاپ سے انسانی اکائی تشکیل پاتی ہے۔ اس اکائی کی غیر موجودگی میں کسی بھی چیز کے بارے میں گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ اس کے بغیر انسانیت، نبوت، ولایت، اسلام اور امت کے مفاہیم بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ عورتوں سے نرمی سے پیش آتے تھے اور اپنی احادیث کے ذریعے دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: کامل ترین مومن عمدہ ترین اخلاق والا مومن ہے اور تم میں سے اپنی بیویوں کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرنے والے سب سے بہتر اخلاق والے انسان ہیں۔ اور میں اپنے اہل خانہ سے سب سے بہتر سلوک کرنے والا ہوں۔