اداریہ: سانحہ ماڈل ٹاؤن …ناانصافی کے 8 سال

نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ

17 جون 2014 ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے، اس دن ریاستی ادارے پولیس نے حکومتِ وقت کی ایماء اور ہدایت پر ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ اور نہتے شہریوں پر گولیوں کی بارش کی، جس کے نتیجے میں دو خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ سمیت 14 افراد کو شہید اور 100 کو زخمی کر دیا گیا۔ مورخہ 17 جون 2022ء کو شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آٹھویں برسی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اور شہداء کے لواحقین 8سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ابھی تک انصاف سے محروم ہیں۔ یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے جس کا مقصد حکومت کے ماورائے آئین و قانون طرزِ حکمرانی کیخلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد کو روکنا تھا۔ یہ محض حادثہ نہیں تھا بلکہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ اگر یہ محض حادثہ ہوتا تو سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی ہوتی، انہیں بے گناہوں کی جانیں لینے پر برطرف کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران اور اہلکاروں کو پرکشش عہدوں سے نوازا گیا، انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئیں، انہیں پسند کی تقرریاں دی گئیں، یہاں تک کہ پولیس کی مدعیت میں جھوٹی ایف آئی آر درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کاٹرائل انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں زیر سماعت ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے تشکیل پانے والی نئی JITنے مورخہ 14 جنوری 2019ء سے لیکر 20 مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام زخمی افراد ، چشم دید گواہان اور شہداء کے لواحقین کے بیانات قلمبند کرلیے تھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے بھی نئی JITکے روبروپہلی دفعہ تمام زبانی ودستاویزی ثبوت شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔

نئی JITنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان بشمول سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اورموجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہPSO ٹوسابق وزیراعلیٰ پنجاب، سابق آئی جی مشتاق سکھیرا سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش مکمل کرلی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے؟ اس کے پیچھے کیا سازش کار فرما تھی؟ اس وقوعہ کے پیچھے کو ن کون سے سازشی عناصر موجود ہیں؟ اور یہ سازش کہاں سے چلی؟ اور کس طرح اس سازش پر عملدر آمد ہوا؟

جب یہ نئی JIT حقائق کے بالکل قریب پہنچ گئی اور اس کے سامنے حق اور سچ نکھر کر سامنے آگیا تو فوری طورپر کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور انہوں نے 22اپریل 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ذریعہ JITکی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کروالیااورنئی JIT کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مزید تفتیش سے روک دیا گیا تاکہ JIT ان تمام ملزمان سابق وزیراعظم نوازشریف، موجودہ وزیراعظم شہبازشریف، موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، سابق PSO ٹو وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر توقیرشاہ و دیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، انھیں گنہگار ٹھہرا کر انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش نہ کردے اور ان منصوبہ ساز ملزمان اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افرادکے ٹرائل کا آغاز نہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل کا علم نہ ہو سکا۔ جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو معلوم ہوا تو وہ فوری طورپر عدالت میں پہنچ گئے اور فل بنچ کے سامنے ساری صورتحال رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو لاہور ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کردیاگیا۔شہدائے ماڈل ٹاؤن کاانصاف ہمارے ایمان کا حصہ ہے جب تک سانس باقی ہے مظلوموںکو انصاف دلوانے کے لئے قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔