فکر شیخ الاسلام: دل کا نور کیسے چھن جاتا ہے

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ.

(آل عمران، 3: 14)

’’اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)۔‘‘

جو دل بتوں سے بھرے پڑے ہوں بھلا اس میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت رکھے گا۔ اپنے محبوب بندوں کی محبت کے لیے دل چنتا ہے۔ پس اپنی محبت کے لیے اور چنے ہوئے دلوں میں سے بھی چنیدہ دل چنے گا۔

اس لیے دو محبتیں ایک دل میں جمع نہیں ہوتیں۔ اسی طرح دو غم ایک دل میں جمع نہیں ہوتے۔ غم دنیا اور غم آخرت، غم دنیا اور غم مولا ایک دل میں جمع نہیں ہوتے۔ اس طرح دو خوف ایک دل میں جمع نہیں ہوتے۔ خوف اہل دنیا اور خوف الہٰی جو دنیا داروں سے ڈرتا ہے وہ اللہ سے نہیں ڈرتا۔ وہ زبان سے کہتا پھرے جھوٹ ہے۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا یہ معنی ہے ’لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (یونس، 10: 62). لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ‘ کا معنی دو طور پر آسکتا تھا۔ لاخوف علیہم بھی آسکتا تھا لیکن یہاں لاخوف علیہم کہا۔ لا خوف علیہم ہوتا تو اس میں اطلاق ہوجاتا کہ کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا۔ اس میں خوف دنیا کی بھی نفی ہوجاتی خوف آخرت کی بھی نفی ہوجاتی۔ فرمایا: لا خوف علیہم ایک قسم کا خوف نہیں ہوتا دوسری قسم کا خوف ہوتا ہے۔ اللہ اپنا خوف ڈال دیتا ہے مگر دنیا کا غم چھین لیا جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ.

(البقرة، 2: 155)

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے۔‘‘

پہلے خوف سے آزمایا جاتا ہے بھوک سے آزمایا جاتا ہے نفع و نقصان سے آزمایا جاتا ہے مال چھین کر آزمایا جاتا ہے۔ مال دے کر آزمایا جاتا ہے۔

سیدنا فاروق اعظمؓ نے فرمایا جب مال نہ ملا تھا تنگدستی تھی ہم صبر میں آزمائے گئے۔ کامیاب ہوگئے جب غناء آگیا، مال کی کثرت آگئی۔ آزمائے گئے تو ناکام ہوگئے۔ لوگوں کی بات بتارہے ہیں کچھ لوگ تنگدستی میں ناکام ہوتے ہیں کچھ لوگ فراخ دستی میں ناکام ہوتے ہیں۔ تنگدستی کی ناکامی میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ خوشحالی اور فراخ دستی کی ناکامی میں شکر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں۔

یہ دھیان نہیں رہتا کہ کس نے دیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اپنے ہنر سے کمایا ہے لا نبلوا یہ چناؤ کے لیے ہے کہ کیسا ہے پھر اچھا پالے، جب سارے ٹیسٹ ہوجائیں امتحان میں دل کامیاب ہوجائے، ثابت قدم رہے۔ صحرا میں اڑے پھرنے والے پتے کی طرح نہ رہے کہ دنیا کی آندھیاں میں کبھی اڑ کر ادھر جاتا ہے کبھی ادھر جاتا ہے بلکہ اللہ کی محبت و خوف پر اس کا دل جما رہے پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اے میری محبت اس بندے کا دل ایسی سیج ہے اس پر تو سوجا اس کے دل کی دلہن بن جا اس کے دل میں جم جا۔ اس لیے یہ وہ دل ہے جس نے ہر محبت اپنے دل سے نکال دی ہے۔ ہر رغبت نکال دی ہے۔ جب دل کا کوٹھا ہر حرص سے پاک ہوتا ہے تو اللہ کی محبت دلہن بن کر دل کی سیج میں آجاتی ہے۔ حضرت فضیل ابن عیاض نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے طرق سے حدیث رسول اللہ ﷺ روایت کی جب بندہ اللہ کا محبوب، دوست ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود بھی ان کو دنیا کی محبت سے بچانے کا اہتمام کرتا ہے۔

لہذا اللہ محبوب بھی بن گیا محب بھی بن گیا وہ خود بھی حفاظت کرتاہے کہیں ان کے دل کسی دوسری محبت میں پھنس نہ جائیں کہتا ہے:

یا دنیا مری علی اولیاء.

(مسند الشهاب، ج2، ص 325)

خبردار! اے دنیا سن لے میرے اولیاء پر کڑوی بن کر رہ اور ان کے لیے بہت میٹھی نہ بن کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تجھ میں مبتلا ہوجائیں۔

کوئی چیز اس کائنات میں ایسی موجود نہیں جو من و عن لفظ و حروف کے اعتبار سے کامل تربیب و ترکیب کے اعتبار سے اسی شکل میں ہو جیسی زبان مصطفی ﷺ سے نکلی تھی۔ سوائے دو چیزوں کے ایک قرآن اور دوسری حدیث کے۔ قرآن کی حفاظت اللہ نے خود کی اور حدیث کا اہتمام اللہ نے حضور ﷺ کے امت کے آئمہ کے ذریعے کروایا۔

انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون۔ اب ہم آقا علیہ السلام کے لب مبارک دیکھ نہیں سکتے، آواز سن نہیں سکتے صحابہ کرامؓ کی طرح مجلس میں بیٹھ نہیں سکتے چہرہ انور تک نہیں سکتے سوائے اس خوش نصیب کے جس کو خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت ہو یا حالت بیداری میں کچہری نصیب ہوجائے یہ تواقل چیزیں ہیں مگر کتنی خوش نصیب ہے امت محمدی کہ قرآن کو جس طرح حضور ﷺ نے پڑھا اسی شکل میں ان کے پاس موجود ہے۔ جب پڑھتے ہیں الم ذلک الکتاب لاریب فیہ۔ اسی ترکیب و ترتیب سے پڑھتے ہیں جس طرح حضور ﷺ نے پڑھا تھا۔ قرآن پڑھ کر حضور ﷺ کے پڑھے ہوئے کی نقل کرتے ہیں۔

اولیاء اللہ جیسا اعمال صالح میں کمر بستہ کوئی نہ تھا۔ اولیاء اللہ اطاعت، تقویٰ اور نیکیوں میں سب سے آگے بڑھے ہوئے تھے۔ یہی تو شعار اولیاء تھا۔ یہ عمل ان کی زندگی میں تھے مگر ان چیزوں نے انھیں ابدال، قطب و غوث نہیں بنایا بلکہ یہ اعمال مددگار ہوئے۔ تین چیزیں غوث، قطب ابدال میں ایسی تھیں جنھوں نے انھیں بلند رتبوں پر پہنچایا۔

1۔ سخی نفوس:

ان نے نفوس سخی تھے۔ نفس میں کسی کے لیے کدورت نہ تھی۔ اگر نہ ملا تب بھی غم نہیں کرتے تھے بھوک و فقر و فاقہ آگیا تب بھی پریشان نہیں ہوتے تھے۔

2۔ سلامت صدور:

دوسری چیز سلامت صدر ان کے دلوں میں کبر نہیں آتا تھا۔ان کے دلوں میں ’’میں‘‘ نہیں تھی، کوئی نیچے بیٹھا دیتا تو دل تنگ نہ ہوتا، کوئی اوپر بٹھا دیتا تو دل خوش نہ ہوتا، کوئی ادب کرتا تو دل پھولتا نہ تھا۔ کوئی بے ادبی و گستاخی کرتا تو دل غمگین نہ ہوتا ان کے دل اتنے وسیع ہوتے تھے کہ وہ کسی کے عمل کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ دلوں کی سلامتی تھی۔ دنیا کے حال ان کے دلوں کو متغیر نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ان کے دلوں کی سلامتی اللہ کے تعلق میں تھی۔ دنیا کے تعلق میں نہ تھی۔

3۔ نصحل الامۃ:

تیسری بات نصحل الامۃ وہ ہمیشہ امت کے لیے سراپا نصیحت رہتے۔ امت کو ہمیشہ خیر کی دعوت دیتے۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کو جو خدمت دین کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ یہ نصحل الامۃ ہے۔ حضور علیہ السلام کے دین کے فروغ کے لیے حضور ﷺ کے دین کی اقامت کے لیے، حضور کے دین کے استحکام کے لیے، حضور کی امت کی بہتری کے لیے ان سفر کرنا، تکلیف اٹھانا، بھاگ دوڑ کرنا، دین کی خدمت کا جذبہ لے کر مارا مارا پھرنا، عمر بھر کے نوافل سے بہتر ہے اور روزوں سے بہتر ہے۔

حضرت ابن فضیل عیاض یہ بتانا چاہ رہے ہیں یہ جو ولائیتیں ملتیں ہزارہا نفل اور نمازیں پڑھیں لیکن ان نفلوں نے ہمیں قطبیت تک نہیںپہنچایا کہ رب خود خوش ہوجائے کہ پوچھے بندے کیا حال ہے؟ ہم قطبیت کے درجے تک اس لیے پہنچے کہ ہماری زندگیاں اتنی وفادار ہوگئی تھیں۔ دنیا کچھ کرتی پھرے ہم اس کی نوکری میں لگے رہتے تھے۔

نصحل الامہ یہ سنت انبیاء ہے اس کے لیے انبیاء و رسل آئے۔ امت کی بھلائی کے لیے، امر خیر لے کے لیے تگ و دو کرنا اس کے لیے انبیاء پر ظلم ہوئے لیکن ان کے ماتھوں پر شکن نہیں آئے۔ انبیاء علیہم السلام کو چیرا گیا انھوں نے النصحل الامہ نہیں چھوڑا۔ بعض انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ، پاؤں کاٹے گئے انھوں نے النصحل الامہ نہیں چھوڑا۔

حضرت فضیل فرماتے ہیں: ’’جو شخص اپنے بھائیوں کے لیے زبان سے محبت ظاہر کرے۔ صفائے قلب اور مودت ظاہر کرے مگر دل میں ان کے لیے بغض عداوت و عناد چھپا رکھا ہو۔ اللہ اس پر لعنت بھیجتا ہے۔ اس کو بہرہ گونگا اور اندھا کردیتا ہے۔ اس کی بصیرت چھین لیتا ہے۔ ‘‘

سلامت صدر یہ ہے کہ ظاہر و باطن بھی ایک ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ظاہر میں متقی بنتے ہیں۔ ظاہر میں دین کے خادم اور ظاہر میں اہل آخرت بنتے ہیں اور باطن میں طالب دنیا ہوتے ہیں۔ باطن میں حریص دنیا ہوتے ہیں۔ اس پر حضرت فضیل ابن عیاضؓ نے فرمایا:

’’سارا شر گھر کے اندر رکھا گیا ہے۔ ساری خیر وہ بھی گھر کے اندر رکھی گئی ہے۔‘‘

شر کی چابی دنیا کی رغبت کا نام ہے۔ گھر سے طلب اٹھتی ہے۔ اس رشتہ دار کو دیکھا کہ اس کا رہن سہن ایسا ہے۔ فساد ڈالا ہمارا رہن سہن بھی ایسا ہو۔ اس کے گھرمیں فراوانی دیکھی گھر میں فساد ہوا ہمارے گھر میں بھی فراوانی ہو۔ ہمارے ہاں بھی وسائل ہوں ایسا فرنیچر ہو ایسا گھر ہو ایسی گاڑی ہو۔ فرمایا خیر کا چشمہ بھی گھر سے پھوٹتا ہے۔ شر کا چشمہ بھی گھر سے پھوٹتا ہے۔

اور خیر کی چابی دنیا سے بے نیازی ہے۔ خیر کی چابی دنیا کا زہد ہے۔ شر کی چابی دنیا کی رغبت و حرص ہے۔ اگر اپنی زندگی میں حرص دنیا کے بت پالتے رہیں اور اپنے اوپر جو لباس چاہے اوڑھ لیں۔ اس کا مطلب ہے ہمارے اندر شر ہے۔ لہذا کوئی عبادت نور پیدا نہیں کرے گی۔

پس اپنے احوال کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اعمال کام آسکیں۔ احوال اور اندر کا حال بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ اعمال اور قال کام آسکیں۔ باطن کو بدلنا ہے تاکہ ظاہر قبول ہوسکے۔ جس کا باطن اچھا نہیں ہے کسی کا ظاہر مقبول نہیں ہوتا بلکہ اس سے دل سخت ہوجاتا ہے پھر دل تاریک ہوجاتا ہے۔ جب دل میں کثاوت آجاتی ہے تو وہ پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے۔ ایمان کا نور سلب ہوجاتا ہے۔ معرفت ختم ہوجاتی ہے۔ اس پر نصیحت اثر نہیں کرتی۔ اللہ کا ذکر اثر نہیں کرتا۔ اس کی محبت نہیں ڈالی جاتی۔

تین چیزوں سے دل سخت ہوجاتی ہے۔ پوچھا گیا کون سی فرمایا کثرت الکل، کثرت النوم، کثرت الکلام۔ زیادہ کھانا، زیادہ سونا اور زیادہ بولنا۔ زیادہ کھانے سے دل سخت ہوجاتے ہیں تاریک ہوجاتے ہیں کثرت نوم اس سے دل تاریک ہوتا ہے۔ فضول و لغو گفتگو زیادہ کرنا۔ گفتگو میں دین، وعظ، سنت اور تربیت کی گفتگو شامل نہیں وہ عبادت و سنت ہے۔