محمد شفقت اللہ قادری

حرف کی جمع حروف، حروف کا مجموعہ لفظ اور لفظ کی جمع الفاظ کہلاتے ہیں۔ جب الفاظ دیگر الفاظ کے ساتھ چلتے ہیں تو فقرہ معرض وجود میں آتا ہے اور فقرات کا اجتماع عبارت کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ کسی بھی نقطۂ نظر کے اظہار کے لیے عبارت ایک اہم ذریعہ ہے۔ لوح محفوظ کی تخلیق سے بھی پہلے حروف تخلیق ہوئے۔ لوح محفوظ آٹھ حروف تہجی کا مجموعہ ہے جو حکم کُن سے معرض وجود میں آیا۔ قرآن مجید ہی سب سے پہلے لوح محفوظ کی زینت بنا، اس کے حروف کی کل تعداد تین لاکھ تئیس ہزار سات سو ساٹھ (3,23,7,60) ہے اور الفاظ کی تعداد چھیاسی ہزار چار سو تیس (86430) ہے۔ الفاظ کا مجموعہ کلام آیات قرآنی ہیں، ان کی مجموعی طور پر کل تعداد چھ ہزار دو سو اڑتیس (6238)اور کل نقاط کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار چھ سو چوراسی (1,05684) ہے۔

قرآن مجید عظیم ترین الوہی کلام:

قرآن مجید سے بڑھ کر روئے کائنات پر کوئی معتبر اور عظیم کتاب موجود نہیں۔ یہ وہ کلام الہٰی ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پڑھا ہوا ہے۔ اس میں شامل سب حروف اور الفاظ خالق کائنات کی صفاتی شان کے حامل ہیں اور لافانی ہیں۔ حکم قرآنی ملاحظہ ہو:

اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ.

(الحاقة، 69: 40، التکویر، 81: 19)

’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول ( ﷺ ) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالتاً اور نیابتاً بیان فرماتے ہیں)۔‘‘

حروف اور الفاظ قرآن مجید کی بنیاد اور اساس ہیں۔ یہی حروف اور الفاظِ حکم یزدانی کے اشارے سے پوری کائنات کے نصاب حیات و ممات کی منبع و سرچشمہ ’’کتاب مبین‘‘ کی زینت بنے یوں قرآن مجید منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوا۔ قیامت تک معارف قرآنی کے سوتے پھوٹتے رہیں گے۔ بلاشبہ حروف و الفاظ کی تخلیق کے بغیر یہ کائنات بے مقصد، بے رنگ اور بے نور ہوتی، الفاظ کی تخلیق گری نے پوری کائنات رنگ و بو کو لفظوں کی سحر انگیزی سے محو وجد کردیا ہے۔ وگرنہ قیامت تک کوئی فلسفہ کوئی منطق اور نقطہ نظر معرض وجود میں نہ آتا۔ آیات قرآنی جگہ جگہ ارض و سماوات کی تخلیق اور عالم ہائے ہفت کی تشکیل پر غورو فکر کرنے کی دعوت دیتی نظر آتی ہیں جیسا کہ فرمایا گیا۔

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.

(آل عمران، 3: 190)

کائنات کے تخلیقی ارتقاء اور مختلف مراحل اور مدارج کا ذکر کرتے ہوئے خالق ارض سماوات نے فرمایا:

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ج یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّهَارِ وَیُکَوِّرُ النَّهَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی.

(الزمر، 39: 5)

’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں) مسخّر کر رکھا ہے ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں) چلتا ہے۔‘‘

اسی طرح قرآن مجید کا حکم اور امر، عقل دانش انسانی سے بالا تر رہتا اگرتخلیق و امر کائنات کی دلالت کے سر بستہ راز الفاظ قرآنی کی شکل میں منکشف نہ کیے جاتے۔ خالق کائنات کس شان بے نیازی سے ماضی حال اور مستقبل پر محیط اپنے علم کا اظہار فرماتا ہے۔ درج ذیل آیت کریمہ میں ملاحظہ کریں۔

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ.

(الاعراف، 7: 7)

’’پھر ہم ان پر (اپنے) علم سے (ان کے سب) حالات بیان کریں گے اور ہم (کہیں) غائب نہ تھے (کہ انہیں دیکھتے نہ ہوں)۔‘‘

حکم کن فیکون سے کائنات ارض و سماوات کا معرض وجود میں آنا مافوق العقل ہی رہتا۔ اگر نطقِ نبوی ﷺ سے الوہی حکام و معارف قرآن مجید کی شکل میں ظاہر نہ ہوتا۔ اس ضمن میں تخلیق کائنات کا اسلوب قرآنی ملاحظہ ہو:

سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لاَ یَعْلَمُوْنَ.

(یٰسین، 36: 36)

’’پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کیے، ان سے (بھی) جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود اُن کی جانوں سے بھی اور (مزید) ان چیزوں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے۔‘‘

لفظ کُن کی کارفرمایاں:

لفظ کن خالق عظیم کا ارادہ ہے اور فیکون اس کے ارادے کی تکمیل ہے۔ اسی طرح جب خالق ارض و سماوات حشر بپا کرنا چاہے گا تو فرمائے گا:

وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ.

(الانعام، 6: 73)

’’اور جس دن وہ فرمائے گا ہوجا تو وہ (روزِ محشر بپا) ہوجائے گا۔۔‘‘

چنانچہ عقل و دانش کو پہچان بخشنے والے یہ حروف اور الفاظ ہی ہیں، بصورت دیگر فہم و فراست کے یہ تانے بانے اور بڑے بڑے نکتہ دانوں کی لَن ترانیاں بھی نہ ہوتیں۔ الغرض تخلیق کائنات کی ابتدا اور کائنات کی انتہا خالق عظیم کے تخلیق کردہ دو الفاظ ہی ہیں یعنی کہ کن فیکون کن رب عظیم کا ارادہ ہے اور فیکون اس کے ارادے کی تکمیل ہے۔ ایک آیت ربانی ایسی ہے جو چار لفظوں پر مشتمل ہے جس کے اندر دونوں جہانوں کی رعنائیاں پنہاں ہیں آیت کریمہ ملاحظہ ہو:

اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.

(النور، 24: 35)

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ‘‘

حدیث قدسی ہے کہ ’’میں ایک مخفی (چھپا ہوا) خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں ظاہر ہوگیا۔ پھر خالق کا تخلیق لفظ آسمان ہے جو نور خدا کے فیض اور پَرتو سے تخلیق ہوا۔ اس ظہور کی ایک شکل یہ عالم ناسوت ہے۔ یہ ارض و سماوات سب اس کی شان کا مظہر ہیں۔ سماوی کائنات جو اربوں اور کھربوں کہکشاؤں، سیاروں، ستاروں پر مشتمل ہے اور ہر ایک اپنے اپنے محور پر محو گردش ہے۔ کرہ ارضی کی پہچان دشوار ہوجاتی یہ اپنی فوقیت و اہمیت سے عاری رہتی۔

زمین کی تخلیق نہ ہوتی تو موت کے بعد ابن آدم کے بے گورو کفن اجسام خاکی اپنی آخری آرام گاہ اور مسکن کی تلاش میں رہتے۔ یہ زمینِ ہی تو ہے جو اربوں کھربوں اجسام خاکی کی امانت دار اور پناہ گاہ ہے۔ سماوی کائنات سے اوپر عالم نور ہے۔ نور سے مرادحقیقتِ الوہیت اور وجود خدا ہے۔ یہ نور خدا ہی تھا کہ جس کے فیض اور پَر تو سے روح محمد ﷺ وجود پذیر ہوئی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نور محمدی کی تخلیق بعنوان ’’خلقی وحدت کی تقسیم اور نور محمد ﷺ ‘‘ بر تصنیف انسان اور کائنات کی تخلیق و ارتقاء، صفحہ نمبر87 پر ایک دلچسپ علمی اور نورانی نکتہ بیان فرماتے ہیں:

جس طرح ہم ساری اور طبیعی کائنات کی تخلیق میں رتق اور رفتق کے عمل میں ایک خلقی وحدت کی تقسیم اور تفریق کے نظام کو دیکھتے ہیں، اسی طرح یہ اصول ہمیں اس سے پہلے غیر مادی کائنات کی تخلیق اور اصل ابتدا خلق میں بھی کار فرما نظر آتا ہے۔ جب لوح قلم، عرش و کرسی اور ملائکہ وغیرہ کی تخلیق عمل میں آئی، تب بھی ان سب کو ایک ہی نورانی وحدت سے تعبیر کیا گیا۔ اس نورانی وحدت کا نام نور محمدی ﷺ تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اے جابر رضی اللہ عنہ ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا یعنی کہ اپنے نور کے فیض اور پَرتو سے حضور انور کی روح معرض تخلیق میں آئی۔ لفظوں کی اہمیت کے حوالے سے آیت مذکورہ بالا کے چار الفاظ چار عظیم تخلیقات سے عبارت ہیں اور انہیں چار الفاظ کی سحر انگیزی پوری کائنات کے نظام پر غالب ہے۔ عالم مخفی سے آشکار ہونے کے بعد خالق کائنات نے جو روح اقدس اپنے نور کے پَر تو اور فیض سے تخلیق کی وہ چار حرفی لفظ محمد ﷺ ہے جن کو محبوب خدا تعالیٰ ٹھہرایا گیا۔ جو شب معراج عرش معلی پر مقام قاب قوسین او ادنیٰ کے مکیں ہوئے۔ لفظ اللہ اور لفظ محمد ﷺ سے معتبر بابرکت حرمت آفریں اور حامل توقیر لفظ تخلیق نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا، دونوں عظیم الفاظ دونوں جہانوں اور چودہ طبقات ارض و سماوات پر محیط ہیں۔ جب خالق کائنات کسی ادیب انشا پرداز، مصنف، خطیب، خوش الحان اور خوش گلو پر اپنی بے پایاں عنایات اور عطاؤں کا نزول فرماتے ہیں تو بارگاہ ایزدی سے ان کے قلوب و اذہان پر نکات کے سُچے موتی نور بن کر بارش کی طرح اترتے ہیں اور روح کی اندھیر، ویران بستی کو ضیائے نور سے روشن کردیتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی خطیب، ادیب، انشا پرداز، اپنے شعر و سخن وری، انشا پردازی اور فن خطابت سے عشق کرنے لگتا ہے تو تعشق قلبی کے باعث لوح محفوظ سے باوضو الفاظ ہاتھ باندھے قطار اندر قطار عقل و خرد کی وادی میں الہام کی طرح ہیں۔ اس عمل کو عطائے عشق کہتے ہیں۔

توفیق ایزدی سے خیالات احاطہ تحریر میں آتے ہیں۔ اگر ادیب، مصنف، شاعر، قلمکار، خطیب اپنی سوچوں کو پردۂ عقل و خرد اور صفحہ قرطاس پر بکھیرنے سے پہلے باوضو ہوکر لوح محفوظ سے خالق ارض و سماوات کی مدد طلب کرے تو الفاظ تخلیق و جستجو کی پالکی میں سوار ہوکر درِ طالب پر دستک دیتے ہیں۔ یہ امر الہٰی لکھاری کے احاطہ خیال سے بھی باہر ہے۔ اسی امر الہٰی کا قرآنی اسلوب درج ذیل ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت بھی ہے۔

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ. وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ. وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ. یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ.

(طه، 20: 25۔28)

’’(موسیٰ علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ اور میرا کارِ (رسالت) میرے لیے آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ کہ لوگ میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں۔‘‘

یہ جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طلب مدد الہٰی کا قرآنی اسلوب ہماری کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے صراط ہدایت بھی ہے اور ہر مصنف، ادیب قلمکار اور شاعر کے لیے نسخہ کیمیا بھی۔ وادی تخیلات میں موجود لاکھوں، کروڑوں الفاظ قرآن عظیم کے اندر مقید عربی کے 3,23760 حروف اور 86,4,30 (چھیاسی ہزار چار سو تیس) الفاظ کے تابع اور مرہون منت ہیں جو عطائے لوح محفوظ ہیں۔ یہ لفظ لامحدود معنوی اہمیت اور فیوضاتی کرشمہ گری کا حامل ہے۔ کائنات میں کوئی فلسفۂ منطق اور نقطۂ نظر معرض وجود میں ہرگز ہرگز نہ آتا اگر الھوی عطائے لفظی کا قرآنی اسلوب حضور اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب انور پر نازل نہ ہوتا۔

حضرت آدم اور کلمات توبہ:

خالق عظیم نے تخلیق آدم کے بعد انہیں تمام اشیا کے اسماء سکھائے جو حروف اور الفاظ سے ہی ترتیب دیئے گئے تھے۔ جب حکمت ایزدی کے تحت حکم عدولی کے باعث حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے نکلتے وقت خالق عظیم سے خطا کی معافی چاہی تو رب تعالیٰ نے حضرت آدم کے قلب پر دعائے توبہ القا کردی۔ عربی الفاظ کا مجموعہ دعائے آدم یہ تھی:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.

(الاعراف، 7: 23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے تخت بلقیس حاضر خدمت کرنے کا حکم فرمایا تو آپ کے ایک امتی آصف بن برخیا نے کہا کہ میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا اور ایسا ہی ہوا۔ آصف بن برخیا نے جو اسم اعظم پڑھا وہ عربی حروف و الفاظ کا مجموعہ تھا۔ اسی طرح جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر خالق عظیم سے درخواست جلوہ حق تعالیٰ کی تھی تو اس کے الفاظ تھے۔ رب ارنی (الہٰی مجھے اپنا جلوہ دکھا) اور خالق عرش عظیم نے جن الفاظ میں جواب دیا وہ تھے (لن ترانی) (موسیٰ تو مجھے نہ دیکھ سکے گا)

تاریخ قرآنی کا اہم عظیم اور معروف واقعہ وہ ہے جب رب عظیم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ

اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ.

(البقرة، 2: 34)

’’آدمؑ کو سجدہ کرو۔‘‘

تو سب نے سجدہ آدمؑ کیا سوائے ابلیس کے اس نے انکار اور تکبر کیا۔ یہ سب قرآنی الفاظ حضرت آدم کے شرف کو بیان کرتے ہیں۔

پھر اسی تناظر میں جائزہ لیں تو حلال اور حرام کے الفاظ بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور معاشرتِ اسلامی میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ ان پر اسلامی معاشرے کی تہذیبی ثقافتی روایت کا دارو مدار ہے۔ اوامر و نواہی کا مطلب ناجائز کی ممانعت کے احکامات الہٰی ہیں اور حلال امور کے احکام کو امر بالمعروف کہتے ہیں۔

اسی طرح دو الفاظ ایسے ہیں جو حیات و ممات یعنی زندگی اور موت سے تعبیر ہیں۔ دونوں خالق کائنات کے تابع اور دسترس قدرت الہٰیہ میں ہیں اور لفظ قبر بھی موت کے نتیجہ میں الاٹ کیے گئے قطع اراضی کا نام ہے جو برزخ اور ابدی زندگی کا باب حقیقت ہے۔

اس طرح تین حرفی لفظ قتل بھی خصوصی اہمیت کا حامل اور معاشرتی برائی کا آئینہ دار لفظ ہے جس کے عمل پذیر ہونے سے پوری انسانیت کا قتل گردانا جاتا ہے۔ انسانیت کا پہلا قتل قابیلِ نے اپنے بھائی ہابیل علیہ السلام کا کیا تھا پھر تین حرفی لفظ جنت اور چار حرفی لفظ جہنم سے جو مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہیں انسان کو اعمال صالحہ کے نتیجہ میں جنت اور اعمال بد کے نتیجہ میں جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اعمال صالح والوں کے لیے نیکی کے بدلے میں جنت کی بابت قرآن کہتا ہے:

وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ.

(البقرة، 2: 25)

’’اور (اے حبیب!) آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے (بہشت کے) باغات ہیں‘‘۔

اور اعمال بد کرنے والوں کے لیے خاص حکم خداوندی ہے اور جہنم کے عذاب الشدید کی وعید ہے۔ وہ جہنم جس کے سات دروازے ہیں اور جہنمیوں کے الگ الگ گروہ ہر دروازے سے داخل ہوں گے۔ جہنمیوں کے لیے حکم الہٰی ہے:

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ ط لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی.

(طهٰ، 20: 74)

’’بے شک جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو بے شک اس کے لیے جہنم ہے، (اور وہ ایسا عذاب ہے کہ) نہ وہ اس میں مرسکے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا۔‘‘

معارف اسم اللہ:

لفظ ’’اللہ‘‘ پوری مخلوقات کے لیے اسم اعظم ہے لفظ اللہ کا ایک ایک حرف اپنی لامحدود شان وسعت پذیری کے ساتھ دو عالم میں جلوہ گر ہے۔ اسے اسم ذات بھی کہتے ہیں اور اس لیے کہ یہ اسم ذات باری پر دلالت کرتا ہے جس کی کئی حکمتیں ہیں۔ اس میں سے ایک ترکیب لفظی میں پنہاں ہے۔ اس لفظ سے کوئی حرف بھی حذف کردیا جائے تب بھی بقیہ حروف ذات باری تعالیٰ کی نشان دہی کے لیے اپنا معنی برقرار رکھتے ہیں۔ مثلاً اللہ کا پہلا حرف حذف کردیں تو للہ باقی رہ جائے گا جس کا معنی ہے اللہ کے لیے اگر دوسرا حرف لام حذف کردیں اور پہلا بحال رکھیں تو الہ باقی رہ جائے گا جس کا معنی ہے معبود اگر پہلے دونوں حروف حذف کردیں تو لہ رہ جائے گا جس کا معنی ہے اس کے لیے اور اگر پہلے تینوں حروف حذف کرلیے جائیں تو ہ باقی رہ جاتا ہے یہاں وہ پھر اسی کی ذات کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہاں (ھ، وہ ) بطور جز استعمال ہوتا ہے۔ گویا اللہ ایک ایسا لفظ ہے جس کا ہر حرف جزو کے اعتبار سے ذات حق پر معنوی دلالت کرتا ہے۔

معارف اسم محمد ﷺ :

لفظ محمد ﷺ میں حروف تہجی کی سحر انگیزی کے باعث چار حرفی لفظ محمد ﷺ نے دو عالم کو اپنی شان رسالت محمدی میں چھپا رکھا ہے۔ الفاظ حروف کا مجموعہ ہوتے ہیں اگر ان میں سے کسی حرف کو حذف کردیا جائے تو بقیہ حروف اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔ لیکن اس کلیے سے اسم اللہ اور اسم محمد مستثنیٰ ہیں۔ اسم اللہ کا ذکر پہلے ہوچکا۔ اسم محمد کا ہر حرف بامعنی ہے اگر م ہٹا دیا جائے تو حمد رہ جاتا ہے جس کا معنی ہے تعریف و توصیف، اگر ح کو مزید کم کردیا جائے تو ممد رہ جاتا ہے جس کامعنی ہے مدد کرنے والا۔ اگر اس کا ابتدائی حرف کم کردیا جاے تو باقی مد رہ جائے گا جس کا مفہوم ہے بلند یہ حضور ﷺ کی عظمت و رفعت کی جانب اشارہ ہے۔

تکریم لفظی ملاحظہ کریں جس سے الفاظ کی فوقیت اجاگر ہوتی ہے جو رب کائنات کے حضور خاص اہمیت و قبولیت کا مقام رکھتے ہیں جیسا کہ خالق عظیم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پوری تریسٹھ سالہ زندگی مبارک کی قسم کھائی۔

لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ.

(الحجر، 15: 72)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘

پھر رب کعبہ نے قلم اور اہل قلم کی قسم کھائی اور معظم کردیا۔

نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ.

(القلم، 68: 1)

’’نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قسم جو (فرشتے) لکھتے ہیں۔‘‘

اسی طرح جب قرآن مقدس معظم لوح محفوظ سے بیت العزت اور پھر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا تو اس عظیم الشان کتاب المبین کی قسم کھائی جو حقیقتاً کلام اللہ ہے۔

وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ.

(یٰسین، 36: 2)

’’حکمت سے معمور قرآن کی قَسم۔‘‘

اسی طرح رب العزت نے لفظ قیامت تخلیق کیا قسم کھائی۔

لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰـمَةِ.

(القیامة، 75: 1)

’’میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی۔‘‘

اسی طرح خالق عظیم رب جلیل نے رات تخلیق کی تو قسم کھائی:

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی.

(اللیل، 92: 1)

’’رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)۔‘‘

رب عظیم نے دن تخلیق کیا تو قسم کھائی اور فرمایا:

وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰی.

(اللیل، 92: 2)

’’اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھے۔‘‘

پھر رب عظیم نے اپنی تخلیق نوری فرشتوں کی قسم اٹھائی پھر خالق ارض سماوات نے لفظ ہواؤں کی قسم کھائی جب خالق عظیم نے آسمان و زمین تخلیق کیے اور ان کی قسم کھائی:

وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰهَا. وَالْاَرْضِ وَ مَاطَحٰهَا.

(الشمس، 91: 5-6)

’’اور آسمان کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جس نے اسے (اذنِ الٰہی سے ایک وسیع کائنات کی شکل میں) تعمیر کیا۔ اور زمین کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جو اسے (امرِ الٰہی سے سورج سے کھینچ دور) لے گئی۔‘‘

اسی طرح رب کائنات نے لفظ سورج اور لفظ چاند کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:

وَ الشَّمْسِ وَضُحٰهَا. وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَا.

(الشمس، 91: 1-2)

’’سورج کی قَسم اور اس کی روشنی کی قَسم۔ اور چاند کی قَسم جب وہ سورج کی پیروی کرے (یعنی اس کی روشنی سے چمکے)۔‘‘

جب خالق عظیم نے انسان تخلیق کیا تو لفظ انسان کی قسم کھائی اور اسے توازن کے ساتھ پیدا کرنے والے کی قسم کھائی:

وَنَفْسٍ وَّ مَاسَوّٰهَا.

(الشمس، 91: 7)

’’اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم۔‘‘

اسی طرح خالق کائنات کے اسمائے حسنیٰ ننانوے اور محبوب خدا محمد مصطفی ﷺ کے (ننانوے) توصیفی اسمائے گرامی خصوصیات الہٰیہ اور خصوصیات محمدیہ کے آئینہ دار ہیں اور اسم اعظم کے متلاشی انہی اسمائے گرامی میں سے اسم اعظم تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہر شان الہٰی اور شان محمدی اسم اعظم ہے تاہم کائنات کا اسم اعظم لفظ اللہ ہے۔ روئے کائنات ننانوے اسمائے الہٰی اور ننانوے اسمائے محمدیہ الفاظ کی دنیا کے حاکم الفاظ ہیں۔ اسی طرح لفظ عشق محبت کی معراج ہے۔ عشق خالق عظیم کی فطرت الوہی ہے اور لفظ عشق کی وجہ تسمیہ محبوب کبریا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے۔

لفظ کا لغوی مفہوم:

یہ درست ہے کہ چند حروف تہجی کے باہمی انضمام سے لفظ معرض وجود میں آتے ہیں اور چند حروف کا باہمی مجموعہ لفظ کہلاتا ہے اور الفاظ کو سوچ کی مالا میں پرونے سے جملے تشکیل پاتے ہیں۔ جملوں کا تسلسل کسی عنوان کی تکمیل کا باعث بنتا ہے۔ آئمہ کرام لغت کے نزدیک منہ سے نکلا ہوا ایک کلمہ لفظ کہلاتا ہے۔

لفظ کا تشریحی مفہوم:

لفظوں کے موتی سوچ کی مالا میں پرونے والا شاعر، دانشور اور ادیب کہلاتا ہے اور لفظوں کے موتی سماعتوں میں پرونے والا محقق اور خطیب کہلاتا ہے۔ کسی محقق، خطیب اور دانشور ادیب کے لفظوں کو موقع محل کے مطابق قرینے اور سلیقے سے استعمال کرنے کو نطق کی سحر انگیزی کہتے ہیں۔

لفظوں کی سحر انگیزی اور ہمکلامی:

لفظوں اور انسانوں میں بہت سی اقدار مشترک ہوتی ہیں جیسا کہ انسانوں کی طرح الفاظ بھی سانس لیتے ہیں مگر ہمیں سنائی نہیں دیتا۔ اسی طرح انسانوں کی رگوں میں زندگی لہو بن کر دوڑتی ہے اور الفاظ کی رگوں میں تخیل، فکر، سوچ اور مقصد حرارت آفریں، زندگی بخش خون کی طرح جوش مارتا ہے۔ اسی طرح انسان بولتے ہیں اور لفظ بھی گفتگو اور ہمکلامی کرتے ہیں۔ لفظوں کی زبان دانشور ادیب اور محقق سمجھتے ہیں۔ انسانوں کی طرح لفظوں کی بھی پیدائش ہوتی ہے۔ انسانوں کی فطری ارتقاء پذیری شکم مادر میں ہوتی ہے اور لفظوں کا تخلیقی ارتقائی سفر دانشوروں کی عقل و دانش میں طے ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح لفظوں کی بھی ایک دلفریب دنیا ہوا کرتی ہے اور انسانوں کی طرح لفظوں کے بھی قبیلے اور نسلیں ہوتی ہیں۔ الفاظ بھی انسانوں کی طرح رشتے ناطے رکھتے ہیں فرق اتنا ہے کہ ہمیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح انسانوں کی طرح لفظ بھی ظالم اور بے رحم ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرح لفظ بھی شفیق اور مہربان ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرح لفظ بھی بے مروت اور بے وفا ہوتے ہیں۔ اسی طرح لفظوں کا فریب بھی ایک خاص سحر انگیزی طاری کردیتا ہے۔ لاکھوں حسیں چہرے لفظی فریب کی زد میں آکر اپنی خواہشات کی ناؤ تلاطم خیز بپھری لہروں کے بے رحم تھپیڑوں کے سپرد کردیتے ہیں اور پھر ایک قاتل بھنور خاموشی سے سمندر کی تہہ میں ہزاروں پُرتمکنت چہرے اتار دیتی ہے اور قصہ پارینہ ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ لفظوں پر لطافت محبت کی پالش چڑھائی جائے تو سونا بن جاتے ہیں اور اگر لفظوں پر نفرت اور تلخ لہجے کی پالش چڑھائی جائے تو پیتل بن جاتے ہیں اور زہر اگلنے لگتے ہیں۔

ضرب لہجوں کی مار دیتی ہے شفقتؔ
صاحب لفظ کوئی بھی برا نہیں ہوتا

انسانوں کی طرح الفاظ سفاک اور قاتل بھی ہوتے ہیں۔ انسانوں کی طرح لفظ بھی گرتے ہوئے بے سہارہ لوگوں کو سہارا دیتے ہیں اور ڈھارس بندھاتے ہیں۔ انسانوں کی طرح الفاظ بھی اچھی اور بری یادیں چھوڑتے ہیں۔ اچھے اور خوبصورت انسان سحر انگیزی کا قرینہ رکھتے ہیں اور خوبصورت لفظ بھی میٹھے بول کا جادو رکھتے ہیں۔ خوبصورت اور اچھے الفاظ انسان کی توقیر و تکریم اور رفعت کا باعث ہوا کرتے ہیں۔

اسی طرح مغلظ اور فحش الفاظ اسی انسان کو بے توقیری ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیتے ہیں۔ انسانوں کی روح نفس ناطقہ کہلاتی ہے اور لفظ کی روح نفیس خیال اور نفیس منشا کہلاتی ہے۔ انسانوں کی طرح لفظوں میں بھی زندگی کی رمق اور چاشنی، نفیس خیال، نفیس مدعا اور نفیس منشا بن کر دوڑتی ہے۔ چند انسانوں کی طرح چند الفاظ بھی جذبات سے لبریز ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرح لفظوں کے بھی دل دھڑکتے ہیں۔ اسی طرح جیسے انسانوں کو گھمنڈ و تکبر بے توقیر کردیتا ہے۔ اسی طرح خوبصورت لفظوں کو لہجہ کی کڑواہٹ رسوا اور بے حمیت کردیتی ہے۔

انسان رسوا کب ہوتا ہے کچھ حادثے رسوا کردیتے ہیں
جیسے اچھے لفظوں کو کچھ لہجے رسوا کردیتے ہیں

انسانوں کے منہ سے نکلے ہوئے چند الفاظ پھولوں کی طرح لگتے ہیں اور چند الفاظ گولی کی مانند جسم خاکی سے پار ہوجاتے ہیں اور اتنا گہرا گھاؤ لگاتے ہیں کہ زخم بھرنے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ گولی کا گھاؤ مرہم سے بھر جاتا ہے بعض اوقات زبان سے نکلے لفظوں کا زخم کبھی بھی نہیں بھرتا۔ گہری تکلیف کا احساس عمر بھر رہتا ہے۔ انسان کا باقاعدہ آغاز بشری تخلیق آدم علیہ السلام سے ہوا اور روح اول تخلیق آدم سے بھی پہلے تخلیق کی گئی جو مقصد تخلیق کائنات منبع جود و سخا جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی روح اقدس تھی۔ خالق نے سب سے پہلے لفظ جو تخلیق کیا وہ اللہ اور دوسرا لفظ آسمانوں پر احمد اور زمین پر لفظ محمد تخلیق ہوا اور پھر جب محمد کریم ﷺ کو اپنا محبوب بنایا تو لفظ عشق تخلیق کیا۔

اللہ کے بعد لوح محفوظ پر جو لفظ کندہ کیا گیا وہ احمد اور محمد ہی تھا۔ انسان جہاں خلیق اور مہذب ہے وہاں ظالم، بے رحم اور سفاک قاتل بھی ہے یعنی کہ ننگ آدمیت ہے۔ اسی طرح انسانوں کی طرح بعض الفاظ بھی ننگ تہذیب ننگ ادب ہوا کرتے ہیں اور مہذب معاشرے میں بعض انسانوں کی طرح باعث شرم اور باعث ذلت ہوتے ہیں۔ مصنف اور لکھاری کے لیے بے توقیری اور بے وقعتی کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے میں چند زہریلے انسانوں کی طرح چند زہریلے لفظوں کے اژدھا بھی انسانوں کو ڈستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ زہریلے سانپ کے ڈسنے کا تریاق تو ہوتا ہے اور انسان بروقت علاج کے باعث بچ بھی جاتے ہیں لیکن لفظوں کے اژدھے کا ڈسا کبھی کبھی بعض اوقات پانی بھی نہیں مانگتا اور اندر ہی اندر وادی موت میں چلا جاتا ہے۔

چند مہذب اور نفیس خلیق پُرکشش اور عظیم لوگوں کی طرح الفاظ بھی نفیس پاکیزہ، مطاہر، پرکشش اور مہذب ہوتے ہیں ادیب اور مصنف کے نفیس اور پاکیزہ ذہن کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تخلیق آدم علیہ السلام کے وقت خالق کائنات کے حکم سجدہ آدم پر لفظ اقرار نے فرشتوں کو مقبول بارگاہ الوہیت بنادیا اور لفظ انکار نے متکبر ملعون ابلیس کو راندہ درگاہ ایزدی بنادیا۔

اگر انسان معراج پائے تو خالق کائنات اسے اپنا محبوب اور حبیب بنالیتے ہیں اور قاب قوسین کی پالکی میں بٹھا کر ’’م‘‘ کے گھونگھٹ میں بے نقاب بے حد و بے حساب دیدار کراتے ہیں۔

جس طرح حضرت انسان کی تخلیق و پیدائش اس کی ماں کے بطن سے ہوتی ہے۔ اسی طرح لفظوں کی تخلیق دانشور، ادیب اور شاعر کے دامن ادراک و جستجو میں ہوتی ہے۔ جی ہاں کبھی کبھار انسانوں کی طرح لفظ بھی بے وقعت اور بے حمیت ہوجاتے ہیں اور حیثیت اور مرتبے سے گر جاتے ہیں تو ان پر موت واقع ہوجاتی ہے۔ بڑی دلچسپ عجیب بات یہ ہے کہ انسانوں کی طرح لفظوں کے بھی حواس خمسہ ہوتے ہیں یعنی کہ قوت لامسہ چھونے کی قوت قوت باصرہ دیکھنے کی قوت، قوت شامہ سونگھنے کی قوت، قوت سامعہ سننے کی قوت، قوت ذائقہ چکھنے کی قوت کیونکہ جب ادیب یا مصنف اپنے قلم کی نوک سے اچھوتے جہاں تخلیق کرتا ہے تو سحر انگیز طلسمی لفظوں کا سہارا لیتا ہے اور پھر لفظ حقیقت کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ماحول کی وقعت انگیزی کو چھوکر اپنے لمس کا احساس دلاتے ہیں۔ لفظ آنکھیں بن کر ماحول کا نظارہ کرتے ہیں اور اپنی قوت باصرہ کا احساس دلاتے ہیں۔ اسی طرح الفاظ باقاعدہ کان بن جاتے ہیں اور سنتے ہیں جس سے ان کی قوت سامعہ کا پتہ چلتا ہے اور پھر اسی طرح الفاظ ماحول کی کڑواہٹ اور مٹھاس محسوس کرتے ہیں جس سے ان کی قوت ذائقہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ الفاظ ماحول کی چار سو پھیلی خوشبو سونگھتے ہیں جس سے ان کی قوت شامہ اور ذوق شامہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ الغرض حواس خمسہ کا باہمی ملاپ منطقی نقطہ پر پہنچ کر علم کہلاتا ہے۔

انسان راہ حق میں بہتّر (72) تن قربان کرواکر اسلام زندہ کرے تو معرکہ کربلا کے خونی الفاظ وجود پذیر ہوتے ہیں اور کربلا معلی میں لفظ خون سے وضو کریں تو لفظ شہادت حسین علیہ السلام وجود پذیر ہوتا ہے۔ خالق کائنات حکم دے تو مقرب فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ تعظیمی بجا لائیں۔ خالق ارض و سماوات اگر لفظوں کو حکم دے تو قرآن میں ہمیشہ کے لیے مقید ہوکر قیامت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹیں اور قرآن کی صورت لوح محفوظ کی زینت بنیں۔ اہل علم لفظوں کے سمندر بہادیتے ہیں اور لغت کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے علم و حکمت کے لفظی موتی نکال کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں۔ اسی طرح اہل کشف اپنی کشف المحجوبی کے باعث کروڑوں لفظوں کے سمندر ایک گھونٹ سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ تخلیق کائنات اور تخلیق لوح قلم سے بھی پہلے جو پہلا لفظ تخلیق ہوا وہ لفظ ’’کُن‘‘ تھا۔

لفظ کُن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور فیکون خداوند کریم کے ارادے کی تکمیل ہے۔ تخلیق کائنات سے بھی قبل روح اقدس محمد ﷺ تخلیق ہوئی اور لطیف نکتہ یہ ہے کہ تخلیق لفظ کُن ہی وجہ تخلیق روح محمد ﷺ ٹھہری۔ خالق کائنات کے ارادے میں پیکر حسن محمد ﷺ مکمل طور پر موجود تھا، جب لفظ کن تخلیق کیا اور فرمایا کن تو روح محمد ﷺ تخلیق ہوگئی۔