انسانی ترقی میں تعلیمی اداروں کا کردار

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ انسانی معاشرے کے دو عدد کردار ایسے ہیں جو ہر زمانے میں حضرت انسان کے لیے اہم رہے۔ ان میں پہلا کردار جس شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے وہ استاد اور دوسرا اہم ترین کردار طبیب کا ہے۔ یہ دو افراد ایسے ہوتے ہیں کہ یہ اگر محض ایک کرسی ڈال کر سڑک کنارے بھی بیٹھ جائیں تو خلقِ خدا ان سے استفادہ کرنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے۔ استاد کو اولیت اس لیے حاصل ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کسی نہ کسی استاد کی تربیت سے ہی نمو و پرورش پاتے اور عروج کا سفر طے کرتے ہیں۔ گویا یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ انسانی ترقی میں استاد اور باالفاظ دیگر تعلیمی اداروں کا کردار ہر دور میں کلیدی رہا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ جب درختوں کی گھنی چھائوں میں بیٹھے اساتذہ کرام علومِ فلکیات و علوم ریاضی سمیت کہیں فقہ اور حدیث کے جید عالم اور کہیں رومی، رازی اور غزالی کی صورت میں تاریخ کے اوراق پر ان مٹ نقوش چھوڑ گئے۔ کہیں ابن سینا کا نام اپنی گونج چھوڑتا دکھائی دیا تو کہیں لائیم کے باغ میں بیٹھا ارسطو تعلیم کے خزانے لٹاتا نظر آیا۔ یہاں تک کہ تاریخ کے صفحات پر وہ دلچسپ مگر دلخراش منظر بھی رقم ہوا جس میں سقراط علم کی حقانیت پر ڈٹے رہنے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پیتا نظر آتا ہے۔ قصہ مختصر تاریخ انسانی کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھیں تو ان گنت ایسے نام ہیں جو معلم ہونے کی بنا پر آج تک احترام اور ستائش کی نگاہ سے دیکھے اور یاد کیے جاتے ہیں۔

لیکن یہاں اس امر کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جس طرح کتاب ہدایت قرآن مجید میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے۔ اسی طرح تعلیم دینے والوں کی تعلیمات کس قدر پُر اثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔ اس کا انحصار بھی معلم یا تعلیمی اداروں میں موجود افراد کی نیت پر ہوتا ہے۔ امت مسلمہ کے شاندار ماضی میں جن درسگاہوں یا اساتذہ نے ان مٹ نقوش چھوڑے یا قوموں کی زندگی میں بہترین ترقی کے ضامن ہوئے وہ سب نیت کے نیک اور خوف خدا دل میں رکھنے والے لوگ تھے۔ ایسے لوگ جو رب کائنات کی رضا کو مقدم جانتے تھے اور ان کا علم حاصل کرنا اور پھر علم کی اشاعت و ترویج کرنا۔ دونوں ہی عبادت کا درجہ رکھتے تھے۔ حضرت اقبال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے نظر آئے:

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

نیتوں کی یہ نیکی عمل میں ایسی برکت پید اکردیتی ہے کہ بقول غالب

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

کی مانند معلم اور درسگاہیں انسانی ترقی و نشوونما میں الہامی کردار ادا کرتی ہیں۔ کہیں دور نہ جایئے۔ برصغیر پاک و ہند کی ہی تاریخ لے لیجئے۔ جب وقت کے ظالم ہاتھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو حاکم سے محکوم بنایا تو سر سید احمد خان ایک تعلیمی انقلاب کی صورت میں تحریک علی گڑھ سے برصغیر کے مسلم نوجوانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ علوم دینی کے ساتھ جب جدید سائنسی علوم کا حصول مسلمان نوجوانوں کے لیے ممکن ہوا تو معاشرتی اور معاشی ترقی کا باعث بنا۔ دور قدیم ہو یا جدید انسانی ترقی میں تعلیمی درسگاہوں کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ یہ درسگاہ صفہ جیسی عظیم روحانی درسگاہ ہو یا ابن سینا، الزاہراوی، امام غزالی، مولانا روم جیسی ہستیوں کا حلقہ اثر مشہور کیمیا دان جابر بن حیان کے معلمین/ اساتذہ میں شمار ہونے والے الحمیاری کا ذکر ہو یا خلاف عباسیہ کے دور میں تحقیقاتی اداروں سے وابستہ رہنے والے علم فلکیات کے ماہر ابراہیم الفزاری کی لکھی اور ترجمہ کی گئی تصانیف کی بات ہو۔ بابائے کیمیا کا لقب پانے والے جابر بن حیان کی تحقیق و تصنیفات کی ستائش ہو۔

سائنسدان ابن سائنسدان یعنی محمد الفزاری کی جانب توجہ کی جائے جن کے والد بھی سائنسدان تھے اور نام ابراہیم الفزاری تھا۔ ریاضی، فلکیات، علم النجوم اور جغرافیہ کے شعبہ جات میں 780 عیسوی تا 850ء تک ناقابل فراموش اور گرانقدر خدمات سرانجام دینے والے الخوازرعی کو سراہا جائے یا محدثین کرام کی اس لمبی فہرست کو جنھوں نے گنجینہ ہائے علم کے دروازے ہم پر کھولے۔ ان میں احمد بن حنبل اور بخاری جیسے عظیم محدثین سرِ فہرست ہیں۔ یوں تو محدثین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور تاریخ کے پتوں پر درج انگنت نام ایسے ہیں جنہوں نے سائنس، طب، ریاضی، فقہ، حدیث اور سیاحت و ثقافت کے ضمن میں علوم و فنون کے گنج ہائے گراں مایہ لٹائے ہیں اور یہ تمام نابغہ روزگار ہستیاں اپنے اس معیار کو پہنچیں تو اس کا سہرا ان تعلیمی درسگاہوں کو جاتا ہے۔

جہاں سے انہوں نے کسب فیض کیا۔ دور حاضر پر غائرانہ نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ تعلیمی درسگاہوں کی بہتات کے باوجود تعلیم و تربیت کا فقدان معاشرے میں موجود ہے۔ ایسے افراد بھی مل جاتے ہیں جو ڈگری یافتہ تو ہیں لیکن علم یافتی نہیں لیکن ان سب حقائق کے باوجود دور جدید کی تمام تر ترقی کی وجہ یہ تعلیمی درسگاہیں ہی ہیں جو علوم و فنون کے وسائل سے لیس نسل نو کی علمی آبیاری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر یہ درسگاہیں اپنا کردار ادا نہ کریں تو ایسے ماہر طبیب، انجینئرز، بزنس مین اور وکیل کہاں سے وجود میں آئیں۔ یہ تعلیمی درسگاہیں ہی ہیں جو انسان کو جینا سکھاتی ہیں اور ستاروں پہ کمند ڈالنے کا حوصلہ کرتی ہیں۔ نپولین بونا پارٹ نے شاید اسی اہمیت کے پیش نظر یہ کہا تھا: کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تم کو کامیاب قوم دوں گا۔

کیونکہ بلاشبہ انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔ بحیثیت مسلم ہمارے تو عقائد میں معلم اور مادر علمی کو نہایت عقیدت اور احترام بیان کیا جاتا ہے۔ خود سرور کونین، رحمت اللعالمین، شافع محشر، امت محمدی کے سردار، سردار الانبیاء محمد مصطفی ﷺ نے اپنے آپ کو معلم کیا اور اسلامی عقائد میں انسانی ترقی و عروج کی بنیاد علم صالح کے حصول کو ہی قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نمایاں علوم مثلاً سائنس، طب، ریاضی، جغرافیہ، علم نجوم، بحری سفر وغیرہ کے موجد مسلمان اسلاف ہیں مگر اندیس کے ان بیش بہا ذخائر کتب کو جب اغیار اقوام چھین کر لے جانے میں کامیاب ہوئیں تو ہم مسلمان اپنے اسلاف کی کتب اور درسگاہوں سے محروم ہوکر غیر کے دست نگر ہونے پر مجبور ہوگئے کیونکہ اس حقیقت سے انکار کسی طور ممکن نہ تھا کہ انسان کی ترقی میں تعلیمی درسگاہیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی درد ناک محرومی کو اقبال نے یوں بیان کیا:

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ