مادرِ ملت فاطمہ جناحؒ کی ملی و سیاسی خدمات

سعدیہ کریم

محترمہ فاطمہ جناح جنہیں مادر ملت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح کی چھوٹی بہن ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر دندان ساز اور مدبر سیاستدان بھی تھیں۔ انھوں نے پاکستان کے قیام اور اس کی ترقی کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ قائداعظم کی بہن ہونے کے حوالے سے انھیں قومی شہرت ملی تھی۔ مادر ملت فاطمہ جناح ایک قد آور شخصیت تھیں اور قائداعظم کا فخر تھیں۔

پیدائش و تعارف:

فاطمہ کی والدہ مٹھی بائی اور والد پونجا جناح تھے وہ قائداعظم کی چھوٹی بہن تھیں۔ مادر ملت فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ دو سال کی ہوئیں تو والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا بڑی بہن مریم نے ان کی پرورش کی۔ فاطمہ کی پیدائش کے موقع پر اُن کے بڑے بھائی محمد علی جنہیں قائداعظم ہونے کا شرف حاصل ہوا اس وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ میں مقیم تھے۔ جب فاطمہ بڑی ہوئیں اور حالات کو سمجھنے لگیں تو گھر والوں سے محمد علی کے بارے میں پتہ چلا۔ بڑی بہن محمد علی کی تصویر کشی کرتے ہوئے بتاتی کہ وہ بہت خوبصورت، دراز قدر اور چاند کا ٹکڑا ہے۔ فاطمہ بار بار محمد علی کی باتیں پوچھتی اور انہی کی باتوں میں مشغول رہا کرتی۔ ایک دن پتہ چلا کہ محمد علی بھائی تعلیم مکمل کرکے واپس پاکستان آرہا ہے تو سارے خاندان سے زیادہ خوش فاطمہ تھیں۔ جب محمد علی جناح پاکستان آئے تو فاطمہ کی عمر 4 برس ہوچکی تھی۔

ابتدائی تعلیم:

فاطمہ جناح کے والد نے ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے گھر پر ہی انتظام کررکھا تھا۔ 1901ء میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا اس کے بعد ان کے بھائی محمد علی نے ان کی تعلیم کی ذمہ داری لی۔ تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ فاطمہ کی تربیت و پرورش محمد علی نے خود کی۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم کا رواج تھا۔ جب محمد علی نے فاطمہ کو انگریزی سکول میں داخل کرانے کا ارادہ کیا تو پورے خاندان نے ان کی مخالفت کی لیکن ان کے بھائی نے مخالفت کو کوئی اہمیت نہ دی۔ خاندان کے لوگوں نے محمد علی کا رویہ دیکھ کر فاطمہ کو قائل کرنا شروع کردیا کہ وہ بد دل ہوجائے اور علم حاصل کرنے سے انکار کردے مگر فاطمہ نے کہا کہ جو فیصلہ کرلیا جاتا ہے اس پر قائم رہنا چاہئے۔ یہ وہ سبق تھا جو انھوں نے اپنے بھائی سے حاصل کیا تھا۔

شروع شروع میں فاطمہ کو سکول جانے سے خوف آتا تھا مگر محمد علی جناح نے نہایت مدبرانہ انداز میں اس خوف کو دور کیا۔ انھوں نے ایک دن فاطمہ کو سیر کرانے کا کہا اور بگھی میں بٹھا کر اسے سیر کراتے ہوئے باندرہ کے اسکول میں لے گئے بکھی ایک جگہ پر روکی وہاں پر بچیاں خوبصورت کپڑے پہنے لکھنے پڑھنے میں مصروف تھیں۔ محمد علی فاطمہ کو چپ چاپ سیر کرواتے رہے اور اسکول کے مختلف حصے دکھاتے رہے۔ جب فاطمہ تھک گئی تو گھر واپس لے گئے۔ اسی طرح کئی بار وہ فاطمہ کو سکول کی سیر کروانے لے کر گئے جب فاطمہ مانوس ہوگئی تو اس نے خود اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے سکول میں داخل کروایا جائے۔ سکول گھر سے کافی دور تھا کانونٹ کے سکول میں ہی رہائش بھی تھی۔ محمد علی ہر اتوار کو سکول میں فاطمہ سے ملنے جایا کرتے تھے۔ فاطمہ بہت ذہین اور ہونہار تھیں۔ ان کی اساتذہ بھی ان سے بہت خوش تھیں۔ ہر وقت صاف ستھری حالت میں رہتیں اچھے اخلاق کے ساتھ سب سے پیش آتیں۔ اپنی کتابیں اور دوسرا سامان نہایت قرینے اور سلیقے سے رکھتی تھیں۔ ہمیشہ سچ بولتی تھیں۔ سکول کے ہر سماجی کام میں پیش پیش رہتی تھیں۔

محمد علی نے کانونٹ سکول سے فارغ ہونے کے بعد فاطمہ کو 1906ء میں سینٹ ہیٹرک سکول گھنڈالا میں داخل کروایا تھا جہاں سے 1910ء میں میٹرک کرنے کے بعد وہ بھائی کے پاس اُن کے گھر آگئیں۔ محمد علی ہر وقت عدالتی کاموں میں مصروف رہتے تھے لیکن اپنی بہن کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے تھے۔ ہائیکورٹ جاتے تو فاطمہ کی بگھی میں ساتھ بٹھا لیتے اور راستے میں اپنی بڑی بہن کے گھر چھوڑ دیتے اور عدالت سے واپسی پر فاطمہ کو ساتھ گھر لے آتے۔ شام کو سیرو تفریح کراتے اور پرائیویٹ طور پر انھیں سینئر کیمبرج کے امتحان کی تیاری کرواتے۔ اس طرح 1913ء میں فاطمہ نے پرائیویٹ طالبہ کے طور پر سینئر کیمبرج کا امتحان بھی پاس کرلیا۔

قائداعظم کی صحبت اورمحبت کا نتیجہ یہ ہوا کہ فاطمہ جناح کی شخصیت میں غیر معمولی حسن اور نکھار آگیا۔ وہ بے تکان، صاف اور بامحاورہ انگریزی بولتی تھیں۔ جنرل نالج بہت وسیع تھا گھر کی لائبریری میں موجود دنیا کے ہر ادب اور فن کی کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رہتی تھیں۔ محمد علی بھائی کے ساتھ رہتے ہوئے انہیں سیاست کا شوق بھی پیدا ہوگیا تھا۔

بھائی سے محبت اور وابستگی:

بہن بھائی کی آپس میں بہت زیادہ محبت تھی۔ اکثر لڑائی جھگڑا بھی ہوجاتا اور آپس میں ناراض ہوجاتے فاطمہ کئی کئی گھنٹوں تک کمرے سے باہر نہ آتیں۔ اس موقع پر بھائی انہیں مناتے اور فاطی کہہ کر پیار سے بلاتے تو فوراً مان جاتیں جہاں تک وہ علم حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ محمد علی جناح نے انہیں تعلیم دلوائی اور ہر طرح کے لاڈ اٹھائے ان کی ہر خواہش کو پورا کیا اور انھیں ہر موقع پر اپنے ساتھ رکھا۔

محمد علی جناح کی شادی کے بعد فاطمہ جناح اپنی بہن کے گھر منتقل ہوگئیں اور آٹھ سال تک وہیں مقیم رہیں لیکن بھائی سے مستقل رابطہ رکھا۔ 1919ء میں فاطمہ جناح نے ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا اور 1922ء میں Dentist کی سند حاصل کرکے واپس بمبئی آگئیں۔ 1929ء میں محمد علی جناح کی بیوی رتی جناح کا انتقال ہوگیا۔ محمد علی کی تنہائی اور پریشانی کو دیکھتے ہوئے فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور پھر ایک ایسی لازوال رفاقت کا آغاز ہوا جو محمد علی جناح کے انتقال تک قائم رہی اور جس کے شب و روز فاطمہ جناح کی قربانیوں اورایثار سے منور ہیں۔

سیاسی زندگی کا آغاز:

فاطمہ جناح نے اپنے بھائی سے سیاست کے گُر سیکھے انھوں نے بھائی کے گھر کا پورا انتظام وانصرام سنبھالا اور بھائی کو گھریلو مصروفیات سے بے نیاز کردیا۔ ایک شفیق بہن کی حیثیت سے محمد علی جناح کی زندگی کا ایسا نظام الاوقات ترتیب دیا جس سے انھیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں آسانی میسر ہوگئی۔

1935ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو فاطمہ جناح نے بھی ہندوستان کی مسلم خواتین کو بیدار کرنے کے لیے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کے ہر جلسے میں شریک ہوتیں۔ قائداعظم مسلم خواتین پر بعض ناروا پابندیوں کی وجہ سے بہت متفکر رہا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’جس قوم کی نصف آبادی عضو معطل بن کر ایک طرف بیٹھی رہے وہ قوم کسی بھی عظیم تحریک کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔‘‘

فاطمہ جناح نے اسی نصف آبادی کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور خواتین کی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی ترقی کے لیے کام شروع کردیا۔ ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ ’’فاطمہ میرے سیاسی کاموں میں نہ صرف انتھک ساتھی ہے بلکہ بعض اوقات اس کے مشوروں سے بھی مستفید ہوتا ہوں۔‘‘

محمد علی جناح اپنی بہن کی سیاسی بصیرت پر بہت اعتماد کرتے تھے جب بھی ان کا سیکرٹری کوئی مسودہ ٹائپ کرکے لاتا تو آخری منظوری کے لیے اسے فاطمہ جناح کو دکھایا جاتا۔ اکثر اپنے بیانات بھی فاطمہ جناح کو پڑھائے بغیر جاری نہیں کرتے تھے۔ وہ فاطمہ کو جنرل کونسل کہتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ’’میں ہر اہم بیان جاری کرنے سے قبل اسے جنرل کونسل یعنی فاطمہ جناح کو دکھاتا ہوں۔ فاطمہ میری بہترین مشیر اور دوست ہے۔‘‘

محمد علی جناح ہر سیاسی میٹنگ میں فاطمہ کو ساتھ لے جاتے تھے۔ 1930ء میں گول میز کانفرنس میں بھی فاطمہ ان کے ساتھ تھیں۔

خواتین میں آزادی کی تحریک پیدا کرنا:

فاطمہ جناح مسلم خواتین کے اجتماعات میں قائداعظم اورمسلم لیگ کے لائحہ عمل کو پیش کرتیں خواتین کو مقاصد تحریک سے آگاہ کرتیں اور انھیں تلقین کرتیں کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کامل حق ادا کریں۔ وہ مسلم بہنوں کی حوصلہ افزائی کرتیں اور اُن کی بہترین کارکردگی پر انھیں خراج تحسین پیش کرتی تھیں۔ وہ خواتین کو پیغام دیتی تھیں کہ عورت کا ہاتھ ہی آج کے بچوں اور کل کے نوجوان کی زندگی کا رخ تبدیل کرسکتا ہے۔ عورت کی کوشش سے ہی ان قومی شعبوں کی ترقی ممکن ہے جن کا تعلق عوام کی اقتصادی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح انھوں نے اپنی تقاریر کے ذریعے برصغیر کی خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا۔

فاطمہ جناح کا خیال تھا کہ وہ خواتین جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل رہے ہیں وہ بہت خوش قسمت ہیں اور وہ اپنی غیر تعلیم یافتہ بہنوں کی اصلاح کے لیے بہت کچھ کرسکتی ہیں۔ وہ مسلم وویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیا کرتی تھیں اور مسلم طالبات کی حوصلہ افزائی اور مستقبل کے لیے رہنمائی فراہم کرتیں۔

اپریل 1943ء میں دہلی وویمن اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے طالبات سے کہا کہ ’’اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیا کے حالات سے باخبر رہیں اور روزمرہ کے واقعات، سیاسی مسائل اور ان دیگر امور میں گہری دلچسپی لیں جو ہماری قومی زندگی اور ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘

فاطمہ جناح نے خواتین کے لیے تعلیم نسواں اور تعلیم بالغاں کے مراکز بھی قائم کیے۔ وہ خواتین کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھیں مسلم خواتین ان کا بے حد احترام کرتیں اور اُن کے جلسے میں شرکت کے لیے اپنے تمام کام چھوڑ دیتی تھیں۔

1940ء کے جلسے میں قائداعظم نے فاطمہ جناح کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ایک وقت ایسا آیا تھا کہ ہمیں ایک عظیم انقلاب کا سامنا تھا ہم گولیوں کی بوچھاڑ میں تھے حتی کہ موت ہمارے سامنے تھی اس نازک دور میں فاطمہ نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا اور میرے شانہ بشانہ رہی۔‘‘

فاطمہ جناح فرماتی تھیں کہ ’’میں نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کے لیے ایک سپاہی کی طرح دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران بھائی مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ رکھتے تھے لیکن انھوں نے مجھے کوئی سیاسی عہدہ نہیں دیا کیونکہ انھوں نے یہ ملک اپنے یا اپنی بہن کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے بنایا تھا۔‘‘

1947ء میں پاکستان منتقل ہونے کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے فاطمہ جناح کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ ’’مس فاطمہ جناح نے برابر میری حوصلہ افزائی کی اور میری مدد جاری رکھی۔ جب برطانوی فوج مجھے گرفتار کرنا چاہتی تھی میری بہن نے ہی میرا حوصلہ بڑھایا اور جب میں حالات سے مایوس ہوتا جارہا تھا تو اسی نے میرے دل میں امید کی شمع روشن کی۔ وہ میری صحت کے بارے میں خصوصاً بڑی فکر مند رہتی ہیں۔‘‘

فاطمہ جناح کی سیاسی خدمات:

پاکستان کے قیام کی تحریک میں فاطمہ جناح نے لازوال کردار ادا کیا۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کو منظم کرنے اور مسلمانان ہند کی جماعت بنانے کے لیے پورے ہندوستان کا دورہ کیا تو فاطمہ جناح ان کے ساتھ رہیں اور ہر مشکل مرحلے پر انھیں مفید مشورے دیتی رہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتیں۔ مسلم لیگ کے ہر جلسے میں شرکت کرتیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل میں ان کا نام سرفہرست تھا۔ 1939ء کے بعد وہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی مستقل رکن رہیں۔ مسلم لیگ کو متحرک اور فعال بنانے کے لیے خیبر سے لے کر راس کماری تک قائداعظم کے ساتھ رہیں۔ مسلم خواتین کے ذہنوں میں مسلم لیگ کے مخالفوں کے سخت پروپیگنڈے اور تنقید کو ختم کرنے میں فاطمہ جناح نے اہم کردار ادا کیا۔ خواتین ان کی باتوں کو نہایت دلچسپی سے سنتیں اور اپنے خیالات میں نکھار پیدا کرتیں۔ وہ مسلم خواتین کی بہترین رہنما اور رہبر تھیں۔ وہ خواتین کو عملی طور پر سیاست میں شامل ہونے کی ترغیب دیتی تھیں۔ ایک جلسے میں خواتین کو ترغیب دیتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ

’’اپنے ورثہ میں ہمیں ایک شاندار تاریخ ملی ہے۔ گزشتہ دو سو سال کی گردش روزگار نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی لہر جو کلکتہ کی طرف حرکت کررہی ہے اور مسلم ہندوستان بیدار ہورہا ہے، ان شاء اللہ ہم زیادہ دن گزرنے سے پہلے ہی اپنی اصلی حالت پر آجائیں گے اور خود کو اپنی شاندار اسلامی تاریخ اور قیمتی اسلامی روایات کے شایان شان ثابت کریں گے جو اب تک ہمارے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔‘‘

فاطمہ جناح کی نصیحتوں کا فیض اور اثر یہ ہوا کہ مسلم خواتین نے مسلم لیگ کی اعانت کے لیے مینا بازار منعقد کرنے شروع کیے۔اپریل 1944ء میں ایک مینا بازار کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ’’مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے ایک ایسا کام شروع کیا جو فائدہ مند ہے۔ اسی طرح آپ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرسکتی ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ قوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے ہم اپنا کردار ادا کریں اورمجھے امید ہے کہ ہماری بہنیں قوم کی معیشت کو سدھارنے میں اپنا حصہ ڈالیں گی۔‘‘

1944ء میں لاہور کے انتخابات میں مسلم لیگ کی زبردست کامیابی پر مسلم خواتین کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ ’’میں اپنی قوم کی بہنوں کو مبارکباد دیتی ہوں جنھوں نے نہایت شاندار خدمات سرانجام دی اور دنیا کو بتادیا کہ پنجاب کے مسلمان پاکستان اور صرف پاکستان چاہتے ہیں۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ جیت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔‘‘

قائداعظم کی وفات کے بعد بھی وہ خواتین کو ان کا قومی مقصد یاد دلاتی رہیں۔

حاصل کلام:

فاطمہ جناح ایک پُراثر سیاسی شخصیت تھیں۔ انھوںنے اپنی پوری زندگی ایک ہی مقصد کے حصول میں گزاردی۔ اپنے قول ، فعل اور عمل سے برصغیر کی خواتین میں شعور بیدار کیا۔ انھیں ایک مقصد پر مجتمع کیا۔مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا درس دیا عورتوں کو اُن کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا۔ اُن میں دینی اور ملی خدمت کے جذبات کو ابھارا۔ مسلم خواتین کو اپنا دینی وقار قائم رکھتے ہوئے سیاست میں سرگرم کیا۔ مسلم خواتین کی حوصلہ افزائی کی اور منزل کے حصول تک ثابت قدم رکھنے کے لیے لمحہ بہ لمحہ ان کی رہنمائی کرتی رہیں۔

قیام پاکستان کے لیے اُن کی لازوال کاوشوں اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ہر دور میں موجود خواتین کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا کردار خواتین کے لیے مشعل راہ ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے ڈٹ جانا اور اپنی تمام تر توانائیوں کو عمل میں لاتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتے رہنے کا درس ہمیں فاطمہ جناح کی زندگی سے ملتا ہے۔آج کے دور میں جب ملک انتہائی ابتر سیاسی حالات کے بھنور میں ہے خواتین کو فاطمہ جناح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔