سماجی زندگی میں ادب و احترام کی اہمیت

اقصیٰ منور

ادب کے لغوی معنی تہذیب کے ہیں۔ انسان کا رہن سہن، بات چیت کا انداز،پہننے اوڑھنے کا سلیقہ تہذیب ہے۔ علمی لحاظ سے عا لموں اور فلسفیوں نے ادب کی تعریف کچھ اس طرح سے کی ہے کہ یہ وہ حسن کلام اور تاثیر کا نام ہے جو چیز ادب کو عام انسانی گفتگو اور تقریر سے ممیز کرتی ہے۔ یہ وہ کلام کا حسن اور تاثیر ہے کہ جس کی مدد سے انساں اپنی بات کو خوبصورت طریقے سے ادا کرتا ہے اور اتنے مؤثر طریقے سے ادا کرتا ہے کہ سننے والا اثر قبول کرے اور جو کچھ بات کرنے والا چاہتا وہ اثر ڈال سکے۔ اس قسم کے کلام کوادب کہتے ہیں۔

ایک بہترین معاشرے کا وجود اس کے افراد کے درمیان ادب سے ہی ممکن ہے۔ ہماری سماجی زندگی میں گزربسر، رہن سہن، ملنے جلنے اور رسموں رواج کو برتنے کے لیے ادب و احترام کے ہی اصول لگتے ہیں اور اسلام ہمیں بہترین ادب کے اصولوں کا درس دیتا ہے۔

حضرت عُمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں: ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے تھے کہ اچانک سفید لباس میں ملبوس ایک شخص آیا، اس کا لباس نہایت صاف ستھرا اورسر کے بال بالکل سیاہ تھے۔ ہم میں سے کوئی اسے نہیںپہچانتا تھا۔ بہرحال، وہ شخص آپ ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گیا اور عرض کیا یامحمد ﷺ ! مجھ کو اسلام کی حقیقت کے بارے میں بتائیے! آپ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر تم بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہو، تو حج کرو۔ مسافر نے عرض کیا بے شک، آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔حضرت عُمرؓ فرماتے ہیں ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ ﷺ سے سوال بھی کرتا ہے اور پھر جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس شخص نے پھر پوچھا اے محمد ﷺ ! ایمان کی حقیقت کے بارے میں بتائیے! آپ ﷺ نے فرمایا! تم ایمان لائو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس بات کا یقین رکھو کہ بُرا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے، وہ سب کچھ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے۔ مسافر نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ اس شخص نے پھر پوچھا احسان کے بارے میں بتائیے! آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، اور اگر ایسا ممکن نہیں، تو یہ دھیان رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس شخص نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں بتائیں، کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ مسافر نے کہا کہ اس کی نشانیاں ہی بتادیں۔ آپ نے فرمایا لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی، فقیر، بکریاں چرانے والے عالی شان عمارات بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ حضرت عُمرؓ فرماتے ہیں، پھر وہ مسافر چلا گیا۔ مَیں نے تھوڑی دیر توقف کیا۔ آپ ﷺ نے خود ہی پوچھا کہ اے عُمرؓ! جانتے ہو کہ یہ شخص کون تھا؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے، جو تم کو دین سکھانے آئے تھے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے، اور سیکھنے کا پہلا اصول، جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم انسانوں کو سکھایا گیا، وہ ادب ہے۔ اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ، علم کی کمی ادب سے پوری ہوسکتی ہے، لیکن ادب کی کمی علم سے پوری نہیں ہوسکتی۔

اپنے دل میں اللہ سے محبت، اللہ کے رسول ﷺ سے محبت، اللہ کے دین سے محبت، اللہ کی مخلوق کی محبت کے جذبے کو محسوس کرنا ادب کی ہی بدولت ہے۔ محبت محنت یا قسمت کی بجائے، ادب سے حاصل ہوتی ہے۔ ادب محبت کی پہلی سیڑھی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں

ادب پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے اصول حیات، طرز سلوک اور معاشرت کے آداب وحی الی پر مبنی ہے۔ اللہ عزوجل نے معاشرت و معیشت کے تمام اصول پوری جمعیت کے ساتھ فصاحت و بلاغت کے ساتھ قرآن میں بیان کردیے ہیں پھر آپ ﷺ نے اپنے اسوۂ حسنہ سے ان احکامات پر عمل کرکے دکھایا۔ اس لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے جب ہم ادب و احترام کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے قرآن و حدیث کی طرف گامزن ہوتے ہیں تو سماجی آداب میں سب سے بلند مقام اخلاق کا ہے۔ اسلام نے زندگی میں سب سے زیادہ مقام اخلاق کو دیا ہے۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے: مسلمانوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔

اور فرمایا: میزان میں جو چیز سب سے بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے

ادب و احترام میں سب سے پہلا حق اللہ تعالی کا ہے۔ اللہ تعالی کا ادب یہ ہے کہ اس کے حکم کو بجا لایا جائے۔ اسلامی تاریخ کی روشنی میں یہ بات بیان ہے کہ ادب ہی کی بنا پر حضرت جبرائیل علیہ السلام سیّدالملائکہ بنے اور شیطان نے بھی اللہ کے بندے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرکے اللہ کی بے ادبی کی تھی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہوگیا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا ادب بھی ھم پر فرض ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے کہ:

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کروجیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔

اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد صحابہ کرام ؓ کا کچھ عجیب حال ہو گیا تھا، وہ آپ ﷺ سے گفتگو کرنے میں بہت احتیاط برتنے لگے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ حاضر خدمت ہوکر عرض کرنے لگے، یارسول اللہ ﷺ ! قسم ہے کہ میں مرتے دم تک آپ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی سر گوشی کرتا ہے، سیدنا عمر فاروق ؓ اس قدر آہستہ بولنے لگے تھے کہ بعض اوقات دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔

ہمیں ہمارا مذہب جس طرح ہرنبی، ولی اور مومن کا احترام کرنا سکھاتا ہے بالکل اسی طرح اپنی سماجی زندگی میں ماں باپ، بزرگ، رشتہ دار،اساتذہ کرام، ہمسائے,دوست اور بڑوں کے احترام کا درس دیتا ہے۔ چھوٹوں کا ادب یہ ہے کہ ان کے ساتھ شفقت کی جائے۔ نیز ہر ایک کے ساتھ خوبصورت رویہ رکھنا ادب ہے۔کسی کو اذیت نہ دیں، دکھ نہ دیں، دل نہ توڑیں اور عزت نفس مجروح نہ کریں۔ ہر ایک کا لحاظ کرنا ادب ہے۔ اسلام نے ادب واحترام میں خدا اور نبی ﷺ کی ذات کے بعد ماں باپ کی ذات کو قابل احترام ٹھہرایا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے:

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم دیا ہے۔ (العنکبوت)

اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر مذ ہب اور تہذیب والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتی ہے۔ مگر اسلام میں والدین کو سب سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔اسلام میں تو ماں باپ کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے۔

اسی طرح قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور ان کا احترام یقیناً باعثِ سعادت ہے کہ حدیث ِ پا ک میں ان سے صلہ رحمی کرنے پر عمر میں اضافہ اور رزق میں وسعت کی بشارت ہے۔

دینِ اسلام استاد کے ادب و احترام کا بھی حکم دیتا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:

مَنْ لَّااَدَبَ لَه لَا عِلْمَ لَه.

(المنبهات، ص: 13)

یعنی جو بے ادب ہو، وہ علم سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔

اسی لیے بزرگانِ دین اپنے استادوں کا بے حد ادب و احترام کرتے تھے ۔ ان کی موجودگی میں نگاہیں جھکائے، ہمہ تن گوش ہو کر علم حاصل کرتے ۔

جب انسان ہر نماز کے بعد اپنے ہاتھ، اپنے رب کے سامنے اٹھاتا ہے اور اس سے اپنی دعائیں مانگتا ہے، اپنی مجبوریوں بتاتا ہے، اپنی اداسی بتاتا ہے، اپنی حاجت کو پورا کرنے کی دعا مانگتا ہے، تو اللہ اس کی دعا کو ضرور سنتا ہے۔ اگر تو اس انسان کے دل میں نا امیدی اور تکبر ہے تو وہ کبھی بھی دعا مانگنے کا لطف اور اپنے رب کے سامنے فریاد کرنے کا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ اللہ کے سامنے جب ایک انسان دعا مانگتا ہے تو اس میں سب سے اہم چیز انسان کی عاجزی، انکساری اور ادب و احترام ہے۔ انسان صرف اللہ کے سامنے جھک کر دعا ہی مانگ سکتا ہے اور اللہ ادب کے ساتھ مانگی گئی دعاؤں کو ضرور کرتا ہے۔

انسان جب ایک ساتھ رہتا ہے توایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ایسے موقع پر اگر انسان حدود کی رعایت نہ کرے تو بہت سے فتنے پیدا ہوں گے؛ اس لیے قرآن نے اس کے لیے کچھ حدود وآداب مقرر کیے ہیں مثلاً اجازت لے کر جاؤ نیز اجازت کا طریقہ یہ ہے کہ: دروازہ سے باہر سلام کرو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰایها الذین آمنوا لاتدخلوا بیوتاً غیرَ بیوتِکم حتٰی تستأنِسُوا وتُسلِّموا علٰی اهلِها ذٰلکُم خیر لکم لعلکم تذکرون. (نور)

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں مت جاؤ؛ مگر اجازت لے کر اور گھروالوں کو سلام کرکے، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے؛ تاکہ تم سبق حاصل کرو۔

اگر دوسرے کے گھر کی عورتوں سے کچھ لینا ہوتو اس کا ادب یہ بتایاگیا:

وَاذا سَألتُموهُنَّ مِنْ وَراءِ حجاب ذلکم أطهر لقلوبِکم وقلوبِهن. (احزاب)

جب ان گھروالیوں سے کچھ مانگو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو، اسی میں تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے پاکی ہے۔

آپس میں سلام کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ سلام کا جواب سلام سے بہتر ہونا چاہئے:

اذا حُییتم بتحیةٍ فَحَیّوا بِأحسنِ منها أورُدّوها. (نساء)

ترجمہ: جب تم کو سلام کیا جائے تو اس کا جواب اور بہتر پیرائے میں دو یا کم از کم اسی کو دہرادو۔

کسی مجلس میں ہوتو آپس میں کان میں بات کرنے کو خلاف ادب قرار دیاگیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنّما النجویٰ من الشیطٰن. (مجادلة)

کانا پھونسی کرنا شیطان کا کام ہے۔

گفتگو کا سلیقہ بتایاگیا کہ نرمی اور ملائمت کے ساتھ اور سامنے والے کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے، ارشاد ہے:

فقولا لهُ قولاً لیناً. (طٰهٰ)

ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔

وَاغْضُضْ مِن صوتِک انَّ انکرَ الأصواتِ لصوتُ الحمیر. (لقمان)

پست آواز میں بات کرواس لیے کہ سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔

قولٌ معروف ومغفرة خیر من صدقة یتبعها اذیً.

اچھی بات کہنا اور درگذر کرنا، اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔

ہماری سماجی زندگی میں ادب واحترام ایک بے حد اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادب و احترام ہی ہے جو ہمیں اشرف ا لمخلوقات میں شمار کرتا ہے یہی وہ چیز ہے جو جانوروں اور انسان کے درمیان حد فاصل قائم کرتی ہے ورنہ زندگی جینے کے ڈھنگ تو جانوروں کو بھی آتے۔ اچھا ادب و احترام یہی ہے کہ ہم ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آہیں اور ہرحقدار کو اس کا حق دیں اور محبت کے ساتھ رہیں کیونکہ ادب ہی پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں سے۔