قرآن اور نسبت رسول ﷺ

حافظ محمد طیب زرفی

اللہ پاک نسبتوں کا محتاج نہیں بلکہ وہ نسبتوں کا خالق ہے مگر وہ ذات صمدیت بے نیاز ہو کر بھی جگہ جگہ محبوب حجازی ﷺ کی نسبتوں سے بات کرتی ہے۔ذات کبریا،محبوب خدا کی نسبتوں سے آشنا ئی کراتی ہے اور مخلوق کو رسول ﷺ کی نسبت سے باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت و اہمیت اور ناگزیریت بھی آشکار کرتی ہے فرمان عالیشان ہے:

وَاذقال ربک للملئکة انی جاعل فی الارض خلیفة.

(بقرة: 30)

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

یہاں اللہ تعالیٰ حضور اکرم ﷺ سے حضرت آدمؑ کے نائب بنانے کا واقعہ ذکر فرما رہے ہیں لیکن آیت کے اندر "ربک"کا لفظ لگا کر مالک کون و مکاں نے اپنی مخلوق کو اس لاڈلے رسول ﷺ سے نسبت استوار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ "ربک" کے بغیر بھی مضمون بیان ہو سکتا تھا لیکن قرآن پاک کا ایک ایک لفظ اپنی اپنی جگہ افادیت و انفرادیت کا حامل ہے اور ایک ایک سطر اپنے اندر حکمت و دانائی کے موتی سمیٹے ہوئے ہے۔

ذرا چشمِ تصور سے دیکھئے جب ان آیات کا نزول ہوا ہوگا اور جبرائیلؑ ان آیات کی وحی لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہونگے اور حضور اکرم ﷺ نے جبرائیلؑ سے "ربک"کا پیار بھرا لفظ سنا ہو گا تو صاحب لولاک ﷺ کی خوشی کا عالم کیا ہو گا ؟نبی مختار ﷺ نے اپنے سینے میں کتنی ٹھنڈک محسوس کی ہوگی؟ چہرہ انور پر تبسم کا عالم کیا ہوگا؟ وہ کتنے پُرکیف لمحات ہوں گے؟ وہ کتنی برکات آفریں گھڑیاں ہوں گی؟ اپنے محبوب نبی ﷺ کو خوش خوش دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی گھٹائیں کیسے امڈ امڈ کر آئی ہونگیں ؟پھر کرم کے بادل کس طرح برسے ہونگے؟

مذکورہ بالا آیت میں"ربک" کی جگہ "رب الملائکۃ" بھی آجاتا تو بات میں میں فرق نہ پڑتا بلکہ مزید ربط پیدا ہو جاتا اور بات زیادہ نکھر جاتی کیونکہ آگے فرشتوں کا ذکر ہے اور ترجمہ یوں بنتا کہ "جب فرشتوں کے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، لیکن خالق کون و مکاں یہاں سدرۃ المنتھیٰ والی نسبت کو چھوڑ کر قاب قوسین والی نسبت کو مزید پکا اور مضبوط کرنے کا سبق دے رہے ہیں جوکائنات کی ارفع و اعلیٰ نسبت ہے۔ اس نسبت پر ساری نسبتیں قربان ہو جاتی ہیں اور اس تعلق پر آکر سارے تعلق ختم ہو جاتے ہیں۔ اس رشتے پر آکر سارر رشتے گم ہو جاتے ہیں۔ یہ نسبت دنیا میں بھی مقدم اور عقبیٰ میں باعث نجات ہے۔اعلیٰ حضرت نے اس نسبت کی کڑیوں کو یوں بیان کیا ہے کہ:

تجھ سے در، در سے سگ، اور سگ سے ہے نسبت مجھ کو
میری گردن میں بھی دور کا ڈورا تیرا

سورۃ فیل کو پڑھ لیں "الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل"، "کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں سے کیا کیا "محبوب ارض و سما یہاں اپنے محبوب نبی ﷺ کو عام الفیل میں ابرہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کا انجام بتا رہے ہیں۔ ماضی کا یہ قصہ قرآن مجید کے اندر سینکڑوں واقعات کی طرح ایک واقعے کے طور پر درج ہے لیکن "ربک" کے لفظ نے پوری آیت کے مفہوم میں ربط رسالت ﷺ کا وہ پیغام دیا ہے جو اس لفظ کے بغیر ممکن نہ تھا۔

فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ "حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا "کہ مصداق ارشادات ربانی حکمت پر مبنی ہیں، لیکن یہ الگ بات کہ فرقہ وارانہ پت جھڑ کے موسم میں دین کا ایسا خشک تصور پیش کیا گیا جو جذبہ محبت سے عاری اور جدا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری آنکھوں سے نادانی کی اس پٹی کو اتارنے کے لیے بار بار تعلق بالرسول کے لطیف اشارے قرآن مجید میں جگہ جگہ فرمائے اور بار بار اس نسبت کی طرف توجہ دلائی ہے۔جب خدا اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت تاجدار ختم نبوت ﷺ کا واسطہ درمیان میں لانے کااہتمام فرماتا ہے تو ہم بندے ہو کر رسول ﷺ کے واسطے کو چھوڑ کر خدا سے براہ راست تعلق کو کس طرح قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ دین کا اصول تو یہ ہے کہ جو خدا سے تعلق جوڑنا چاہتا ہے وہ شافع محشر ﷺ کے قدموں سے لپٹ جائے۔

بقول عالم فدائی

خدا کو ڈھونڈنا گر ہے، تو آو جاتا ہے
خدا کے عرش کو اک راستہ مدینے سے

سورۃ والضحیٰ کا مطالعہ فرمائیں، ما ودعک ربک وما قلی "تیرے رب نے نہ تجھے چھوڑا ہے اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے"ان آیات کا شان نزول کچھ یوں ہے کہ کچھ دیر کے لیے وحی کا نزول منقطع ہو گیا۔حکمت یہ تھی کہ مولا نے اپنے محبوب نبی ﷺ کو ہجروفراق کے لمحات کی تشنگی دے کر ان کی محبت کو مزید نکھارنا اور ابھارنا تھااور یہ کہ ہجر کی لذت سے آشنا کرنا تھا۔ ادھر بد بخت کفار مکہ اور نامراد منافقین نے واویلا شروع کر دیا کہ محمد (ﷺ) کے رب نے محمد (ﷺ) کو چھوڑ دیا۔ خدا نے محمد (ﷺ) سے تعلق توڑ لیا ہے۔اب تو وحی کا سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے (معاذ اللہ) وغیرہ وغیرہ۔

قانون قدرت ہے کہ جب خدا اپنے مقبول بندے کو مقام نبوت پر سرفراز فرماتا ہے تو پھر اس تعلق کو منقطع نہیں کرتا۔ ایک لمحہ کے لیے بھی نبوت کا تعلق نہیں ٹوٹتا۔ پوری تاریخ نبوت میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرتشر یف لائے۔ کہیں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ خدا نے نبوت کا منصب واپس لیا ہو یا تعلق ختم کیا ہو۔یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔ کفار مکہ کے پروپیگنڈے کے رد عمل میں بتقضائے بشریت طبیعت مبارکہ پر تھوڑا سا بوجھ آیا، دل میں یہی آیا کہ اے مولا! اب کفا رکے واویلے کا خود ہی جواب دے لہذا سورۃ والضحیٰ کی مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ اس سورت میں رب ذوالجلال نے تین بار ربک کا پیار بھر الفظ لگا کر ترتیب وار کفار کے سارے پروپیگنڈے کے سارے زہر کو ہر ہر سطح پر نیست و نابود فرمایا۔ کفار نے تو صرف تعلق ختم ہونے کی ڈفلی بجائی تھی۔ مولا نے اس کے جواب میں صرف تعلق بحا ل ہونے کی بات نہیں کی بلکہ اپنی شان کے مطابق کفار کا منہ یوں بند کیا ہے "ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ "محبوب ﷺ تمہارا رب عنقریب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاو گے۔

یہاں بھی رب کون و مکان نے ربک کے پیار آفریں لفظ سے فرمایا کہ ساری مخلوق میری رضا کی جویا رہتی ہے مگر میرے لاڈلے رسول ﷺ میں تیری رضا چاہتا ہوں۔ دنیا مجھے منانے کے لیے کوشاں ہے اور میں تجھے راضی رکھنے کا سوچتا ہوں۔ اب تیرا کوئی ناخلف اور بے وفا امتی ہی تیری اور میری رضا کو جدا جدا کرنے کی کارستانی کرے گا لیکن تیرے باوفا امتی کے ذہن میں ایسا بد گمان نہیں آسکتا کیونکہ قرآن کے اندر جابجا ایسی آیات اسی حقیقت کو مستظہر کر رہی ہیں۔ اسی طرح "فلنولینک قبلۃ ترضہا"،"اے وسیلہ دارین ہم عنقریب تمہیں اسی قبلے کی طرف پھیر دیں گے جس پر تو راضی ہوگاکے اندر بھی رب کائنات اپنے محبوب ﷺ کی رضا پر ہی قبلہ کا تعین فرمارہا ہے۔

خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ

ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ، میں جہاں مصطفی ﷺ کی رضا کا ذکر ہے وہاں عطائے مصطفی ﷺ کا ذکر بھی فرمادیا۔ فرمایا"محبوب ﷺ تمہیں اتنا دیں گے کہ تم خوش ہو جائو گے۔اور پھر بعد ازاں "انا اعظینک الکوثر" (محبوب ﷺ ہم نے تمہیں کثرت کی کثرت (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عطا کرد ی گویا تمہیں مالک بنا دیا)کے الفاظ کے ساتھ عطا کا ذکربھی فرمادیا۔کسی کو مالک بنانے سے وہ چیز خدا کی ملکیت سے نکل نہیں جاتی بلکہ بیک وقت خالق اور مخلوق دونوں مخلوق دونوں مالک ہوتے ہیں۔ لیکن فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ خدا مالک حقیقی اور مخلوق مالک مجازی ہوتی ہے۔ فرمایا محبوب ﷺ ہم مالک حقیقی اورتم مالک مجازی ہوئے اب جسے چاہو، جتنا چاہو اور جب چاہو بانٹتے پھرو۔

پس اللہ پاک نے حضوراکرم ﷺ پر اپنی نوازشات، عطائوں، سخاوتوں اور انوار و تجلیات کا یوں اتمام کیا کہ حدیث شریف میں ہے کہ:"انی اعطیت مفاتیخ خزائن الارضِ" (رواہ الشیخان، ابوب دائود نسائی)"بے شک مجھے خزانوں کی چابیاں عطا کر دی گئی ہیں "گویا آپ کو خزانہ الوہیت کا قاسم بنا دیا ہے اور خیر کثیرآپ ﷺ کو عطیہ کردی ہے اور فیضان کا جتنا کرم حضور اکرم ﷺ پر ہوا اسکی ہلکی سی جھلک دیکھنے کے لیے بھی صاحب بصیرت درکار ہے۔کوئی نابینا کیا دیکھے گا۔یہ سارا پردہ دیکھنے اور نہ دیکھنے کا ہے۔بقول شاعر

آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشہ دیکھے
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے

اللہ رب العزت نے بات یہیں ختم نہیں کی بلکہ کفار کی آرزوؤں کو خاک میں ملادیا ہے اسی سورٰۃ کی آخری آیت میں "ربک" کے حسین اور چمکدار لفظ سے نسبت کے تعلق کااظہار فرمایا "واما بنعمۃ ربک فحدث"، "اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو۔

"ک"ضمیر متصلہ ہے یہ جب لفظ رب کے ساتھ متصل ہوتی ہے تو اس کا معنی "تیرا رب"،تیرا پالن ہار""تجھے بنانے والا"تیرے پیکر حسن کو تراشنے والا"تجھے مقام و مرتبہ عطا کرنے والا‘‘ تجھے بلندیوں سے نوازنے وا لا بنتا ہے۔جس طرح رب بھی ایک ہے اسی طرح اصل میں مربوب بھی ایک ہے اور وہ تاجدار انبیا ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ خدا کی ہر نعمت پہلے مصطفیٰ ﷺ کو ملتی ہے بعد میں ان کے وسیلے اور فیض سے ساری مخلوق میں بٹتی ہے۔اس لیے حضور ﷺ کی ذات اقدس، اللہ رب العزت کے سارے فیضان ربوبیت کا اجمال ہے اور تمام کائنات اس اجمال (حضور اکرم ﷺ) کی تفصیل ہے۔

اللہ ہر جہاں میں اپنی پہچان کرانے کے لیے کسی کا محتاج نہیںبلکہ ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ لیکن وہ ذات بے نیاز ہو کر بھی حضور ﷺ کو اپنی پہچان کا ذریعہ بناتی ہے اور اپنی شناخت کے لیے منتخب کرتی ہے اور اپنی ربوبیت کا اظہار نسبت رسالت سے کرتی ہے۔یہ سارا فلسفہ ربک میں مضمر ہے۔ اس لیے فرمایا کہ میری مخلوق مجھے نہیں دیکھ سکتی اگر کوئی مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو میرے ختم الرسل ﷺ کو دیکھے اور پہچانے۔ اس لیے تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: من رانی فقد راالحق (بخاری 1036۔2) "جس نے مجھے دیکھااس نے خدا کو دیکھا"

حضور اکرم ﷺ کو خدا نے قاب قوسین و ادنیٰ کے مقام پر اپنے جلووں کا مظہر اتم بنا دیا۔ آپ ﷺ کو حسن کائنات اور کائنات حسن بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا جو میرے نبی کو دیکھنے کی بجائے مجھے بلاواسطہ دیکھنے کی تمنا کرے گا اس کو موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ستر بندوں کی طرح کوئلہ بنا کر راکھ کر دیا جائے گا۔ تمہارے اندر اتنا حوصلہ اور ظرف نہیں ہے کہ تم الوہی جلووں کو بے نقاب نظر نظر میں سما سکو۔یہ اعجاز فقط ایک ہی آنکھ کو حاصل ہے جس کے بارے ارشاد فرمایا:ما زاغ البصر وما طغیٰ،"چشم مصطفی ﷺ نہ درماندہ ہوئی اور نہ حد ادب سے (آگے) بڑھی۔ مولا نے واضح فرمادیا کہ تم میرے جلووں کے مظہر اتم (مصطفی ﷺ) کو تکتے رہا کرو۔ اپنی نظروں سے اس کے چہرے کی تلاوت کیا کرو اور اے میری مخلوق!مصطفٰی ﷺ کے چہرے کو تکنا میری سنت ہے کہ میں بھی اسے ہر وقت اپنی نظروں میں سمائے رکھتا ہوں، قرآن اس بات کی طرف یوں اشارہ فرماتا ہے کہ "فانک باعیننا" (طور، 28) میرے محبوب ﷺ ! تم ہر وقت میری نگاہ میں رہتے ہو۔ رب کائنات کی ذات پاک بے نیاز ہونے کے باوجود اپنے محبوب ﷺ کی شان کو اجاگر کرنے کے لیے، تعلق بالرسول ﷺ کو صحیح سمت دینے لیے نسبت رسول ﷺ کا ذکر کرتی ہے۔ پس "ربک"ایک محبت بھرا لفظ ہے، جس میں اپنائیت ہے، جس میں اظہار محبت ہے۔ اس میں عقل والوں کے لیے حکمت اور مخلوق کے لیے سبق پنہاں ہے۔ اس میں ایک تعلق کا ذکر، ایک سمت کا تعین اور ایک منزل کا منہاج ہے اور اس میں ایمان کے مرکز و محور کا بیان ہے۔ اس ساری عیاں حقیقت کے باوجود خود ساختہ توحید کے خمار میں ادب رسالت ﷺ سے محروم ہو کر کوئی راندہ درگاہ بننے کا سامان خود کررہا ہوتو اسے کیا کہیے گا۔؟

اس کو مل ہی نہیں سکتا کبھی توحید کا جام
جس کی نظروں سے پوشیدہ ہے رسالت کا مقام

اب اس زبان زدعام آیت کی طرف آئیے جو فلسفہ تبلیغ کے لیے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، کیا اس آیت کا مقصد محض تبلیغ برائے تبلیغ ہے یا اس کے اندر کچھ اور درس بھی پنہاں ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا "ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ (النحل،25)،اے نبی محترم ﷺ ! انہیں اپنے رب کی طرف بلاو۔اگر یوں آیت ہوتی کہ مخلوق کے رب کی طرف بلائوتو یہ بات مزید واضح ہو جاتی لیکن اللہ پاک نے رب العالمین کا لفظ لگانے کی بجائے اس فلسفہ تبلیغ کی آیت میں اس جگہ "ربک"کے دل آویز لفظ کا اہتمام فرما کر ہماری سوچوں کا رخ رسالت کی طرف موڑ دیا ہے کیونکہ توحید، رسالت کی واحد دلیل ہے۔ توحید کا اثبات بواسطہ رسالت ہے، توحید کا حصول بذریعہ رسالت ہے، توحید کا اظہار بواسطہ رسالت ہے۔ لیث قریشی یوں کہتا ہے کہ

جس نے اے سلطان خوباں تجھ کو پہچانا نہیں
اس نے ذات کبریا کو مطلقا جانا نہیں

یوں بھی کہا جا سکتا تھا کہ اے محبوب ﷺ ! لوگوں کو رب کی طرف بلا، رب کا راستہ دکھا، لوگوں کو کائنات کے رب کی طرف بلا، بات تو بہر صورت رب ہی کی ہوتی کہ وہی ہر ایک کا رب ہے لیکن رب العالمین نے اس اندازسے بات نہ کی بلکہ دیگر نسبتوں کی بجائے اپنی ربوبیت کی بات اپنے محبوب ﷺ کی نسبت و اضافت کے حوالے سے کی۔ فرمایا: اے محبوب ﷺ ! لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلا، انہیں میری پہچان کروا، انہیں میرا رب ہونا بتلا، انہیں میری پہچان اپنے رب ہونے کے ناطے سے کروا، انہیں میری یاد دلا لیکن میری پہچان ایسی نہ کروا کہ تجھے بھول جائیں، انہیں میری طرف بلا لیکن ایسے نہیں کہ تیرے وسیلے سے بے خبر ہوجائیں، انہیں میری توحید کی خبر دے لیکن ایسی نہیں کہ تیری رسالت سے بے نیاز ہوجائیں بلکہ انہیں میری میری طرف بلا لیکن اس طرح کہ یہ تیرے ذریعہ سے مجھ تک پہنچیں گویا میری یاد انہیں تیری یاد سے ملے، میرا راستہ انہیں تیرے راستے سے ملے، میرا جمال انہیں تیرا جمال سے ملے، میرا کمال انہیں تیرے کمال سے ملے، میرا تعلق انہیں تیرے تعلق سے ملے، میری نسبت انہیں تیری نسبت سے ملے، میری بندگی انہیں تیری غلامی سے ملے اور میری رضا انہیں تیری رضا سے ملے۔ یہ میرے بندے بنیں لیکن اس طرح سے کہ پہلے تیرے باوفا امتی بنیں، یہ مجھ تک پہنچیں لیکن اس طرح سے کہ پہلے تجھ تک پہنچیں، یہ میرے در پر آئیں لیکن اس طرح سے کہ پہلے تیری دہلیز پر جھکیں۔

پس اس آیت میں ربک کے ذریعے رب کی پہچان ہوگئی کہ کونسارب؟ ورنہ کوئی سورج کے رب ہونے کی بات کرتا تو کوئی چاند کے کے رب ہونے کی بات کرتا، کوئی گنگا کے رب ہونے کی بات کرتا تو کوئی جمنا کے رب کے ہونے کی بات کرتا۔ اس طرح ہر کوئی جدا جدا نسبت سے رب کی پہچان کرتا۔فرمایا تم ان سب نسبتوں کو بھول جاو، رب فقط اس کو مانو جو میرے مصطفی ﷺ کا رب ہے، وہی پوری کائنات کا رب ہے،کیونکہ رب کی پہچان کے حوالے سے ذات رسول ﷺ سب سے بڑا حوالہ ہے۔

اللہ پاک نسبتوں اضافتوں کا محتاج نہیں، یہ ساری محتاجی ہماری ہے۔ مولا اپنی پہچان نسبت مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے مخلوق کو مخلوق کے لیے ہی کرواتا ہے پس فرمایا: لوگوں مجھے پہچانوں لیکن یوں کے مصطفی ﷺ کا رب ہونے کے حوالے سے پہچانو۔ اس لیے کہ اگر یہ نسبت قائم ہوگئی اور تم نے مجھے ختم الرسل ﷺ کے رب ہونے کے حوالے سے پہچان لیا تو پھر کوئی تمہیں بھٹکا نہیں سکے گا۔ اگر لاکھوں انسان بھی تمہیں اپنی طرف بلائیں اور کہیں کہ آئو رب ادھر ہے تو تمہیں گمراہ نہ کر سکیں گے۔ لہذا یہ بات دل کی تختی پر نقش کر لینی چاہیے کہ کوئی شخص نسبت رسول ﷺ کے بغیر اللہ کی پہچان حاصل نہیں کر سکتا۔ نسبت یا اضافت کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب بہت ساری چیزیں سامنے ہوں اور کسی ایک کی نشاندہی کرنی ہو۔ پس ساری کائنات میں جب رب فقط ایک ہی ہے تو یہاں اضافت کی ضرورت باقی نہیں رہی لیکن یہاں قرآن مجید میں جابجا "تمہارا"کی نسبت لگائی جار ہی ہے۔ چنانچہ یہاں جو نکتہ واضح کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ اضافت کی ضرورت اس لیے نہ تھی کہ اللہ کی پہچان میں کوئی مغالطہ ہونے کا احتمال تھا بلکہ اس لیے کہ رب کا ذکر "تمہارا" کی اضافت کے ساتھ ہوتا تاکہ لوگ پہچان جائیں کہ منزل رب ہی ہے اور اس تک پہنچنے کا واحد راستہ اس کا رسول ہے۔ مقصود رب ہی ہے لیکن اس تک رسائی کا واحد ذریعہ ذات مصطفی ﷺ ہے۔مطلوب رب ہی ہے لیکن اس کو پانے کا واحد وسیلہ اس کا محبوب نبی ﷺ ہے۔

بقول شاعر

اور کوئی نہیں راستہ دوستو
مصطفی ﷺ سے ملو گر خدا چاہیے

جب کفار نے توحید کی دلیل مانگی تو تاجدار انبیا نے اپنی عمر پاک کو توحید کے اثبات کی دلیل کے طور پر پیش کیا، فقد لبثت فیکم عمرا (یونس،16)کہ میری چالیس سالہ زندگی ملاحظہ کر لیں۔میری کتاب زیست کا ہر ہر ورق پڑھ لیں، جتنا چاہے میری زندگی کو جانچ لیں، پرکھ لیں، میری زندگی صاف شفاف ہے اور بس۔ کوئی دھبہ نظر آئے بھی تو کیسے ؟نبی آخر الزمان ﷺ کی عمر پاک کی قسم تو رب نے قرآن پاک میں اٹھائی ہے، لعمرک (الحجر: 72)کا لفظ پیدائش سے لے کر وصال تک 63 برس کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ محبوب ﷺ تیری زندگی ہر عیب سے پاک اور ہر نقص سے مبرا ہے۔بقول شاعر

تیری حیات پاک کا ہر لمحہ پیغمبر لگے

انهم لفی سکرتهم یعمهون.

(الحجر: 72)

محبوب ﷺ یہ لوگ تمارے مقام و مرتبہ سے بے خبر ہیں، کلا نمد ھئو لا و ھئو لا من عطا ربک (بنی اسرائیل:20) مخلوق میں سے ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں لیکن اے (ساقی کوثر ﷺ) یہ سب کچھ تیرے رب کی عطا ہے۔ مالک ارض و سما نے یہاں کتنے اچھوتے انداز میں ربک کے معطر و معتبر لفظ کا التزام کیا ہے:

کسی کو کچھ نہیں ملتا تیری عطا کے بغیر
خدا بھی کچھ نہیں دیتا تیری رضا کے بغیر

مولا نے کتنے واضح انداز سے بیان فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مصطفی ﷺ کی طرف جائے اور تعلق بنائے بغیر خدا سے عطائوں اور مرادوں کی جھولی بھر لے گا، مصطفی ﷺ کے در پر جبین نیاز جھکائے بغیرخدا کی نوازشات کا خود کو حقدار بنا لے گا، در رسول ﷺ پر سر تسلیم خم کیے بغیر کثرت نوافل سے (جو کی خدا کی عبادت ہے) خود کو بخشش کا سزاوار ٹھہرا لے گا، زہد و تقویٰ کی زیادتی سے قربت الہی ٰ کے مزے لے لے گا، قائم الیل و صائم النھار بن کر رب کو منا لے گا، توحید اور آخرت کی فکر کر کے اعمال کا ذخیرہ کر لے گا، یہ سارے اعمال اپنی جگہ حق لیکن ربک کا مٹھاس بھر اکلمہ اعمال پر نسبت رسول ﷺ کو مقدم کرنے کی پکار ہے۔

ہر عطا خواہ دولت ایمان ہو، دولت عمل ہو، دولت اخلاص ہو، دولت قال ہو، دولت حال ہو، خواہ دولت عرفان و ایقان ہو۔ اس کو رب محمد ﷺ کی عطا سمجھ کر قبول کرو،ہر عطا کے باب میں دھیان مصطفی ﷺ کی طرف جائے کیونکہ مرکز تقسیم ذات مصطفی ﷺ ہے۔بے شک خدا اور مصطفی ﷺ دو ذاتیں ہیں، ذات کا فرق ضرور ہے لیکن جہاں تک معرفت، قرب، وصال، اطاعت اور نعمتوں کی عطا کا تعلق ہے ان میں کوئی فرق اور بعد نہیں اس لیے حضرت شاہ احمد رضا خان بریلویؒ بیان کر گئے:

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب ﷺ
کہ محبوب و محب میں نہیں میرا، تیرا

اگر کسی نے تعلق بالرسول ﷺ کو چھوڑ کر کتنی ہی اعمال کیے ہوں، نصرت رسول ﷺ سے اغماض برت کر جہانگیری کے جھنڈے گاڑے ہوں، ادب رسول ﷺ کا حصار توڑ کر خالی عمل پہ تکیہ کیا ہو۔ تو سن لے کہ اس کے پہاڑ جتنے بھی اعمال بھی بھسم کر کے راکھ کر دیئے جائیں گے، پھر ٹھنڈے پانی سے کیے وضو کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا، نیند قربان کر کے پڑھی ہوئی صلوۃ تہجد اس کے منہ پہ مار ی جائے گی اور اسے کانوں کان تک خبر نہ ہونے دی جائے گی۔ فقط اس لیے کہ اس نے رسول ﷺ کی اتباع کو چھوڑ کر براہ راست اللہ کو پانا چاہا، خدا کے رسول ﷺ کی غلامی کا قلاوہ اپنے گلے سے اتار کر خدا سے تعلق بنانا چاہا، اس نے صاحب قرآن کو چھوڑ کر خود ہی قرآن سمجھنا چاہا، تاجدار کائنات کو نظر انداز کر کے خالق کائنات کو نظر میں رکھنا چاہا، اس نے سرور دین ﷺ سے اغماض برت کے دین والا بننا چاہا، اس کی یہ حرکت خوش فہمی تو ہو سکتی ہے لیکن دین فہمی نہیں کہلا سکتی، پیر نصیر الدین نصیرگولڑوی ؒ نسبت رسول ﷺ کو یوں شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔

نسبتوں سے نہ اگر ہو تو محاسن بھی گناہ
وہ شفاعت پہ ہوں مائل تو جرائم بھی قبول
داعی مشرب توحید بھی یہ بات سنے
شاید آ جائے اسے راس،یہ حرف معقول
صرف توحید کا شیطان بھی قائل ہے مگر
شرط ایماں ہے محمد ﷺ کی اطاعت یہ نہ بھول

(یہاں اطاعت سے مراد محبت و ادب رسول ﷺ ہے) کلا نمد ھئو لا و ھئو لا من عطا ربک میں ربک کی جگہ ربھم یا رب العالمین کا لفظ لگایا جائے تو مضمون مزید رواں ہو جاتا اورترجمہ یوں بنتا کہ "ہم مخلوق میں سے ہر ایک کی مدد کرتے ہیں اور یہ مخلوق کے رب کی عطا ہے۔ لیکن وجدان کہتا ہے کہ اللہ پاک کو جو خوشی ربک کر کہہ کر ملتی ہے وہ رب العالمین اور رب المخلوقات کہہ کر نہیں ملتی، بے شک وہ ہر ایک کا رب ہے، رب انس و جن ہے،بحرو بر کا رب ہے، خشک و تر کا رب ہے، لیکن خدا کو خیر البشر کا رب کہلانے میں مزا ہی کچھ اور آتا ہے۔ ساقی کوثر ﷺ کا پالنے والا، رحمۃ اللعالمین ﷺ کا رتبہ بڑھانے والا اور نور مجسم ﷺ کو شان عطا کرنے والا کہلا کراس کی محبت کی تسکین ہوتی ہے۔

بعض ذہنوں میں یہ سوچ آسکتی ہے یا لائی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ اگر فرض محال عطائوں کے تقسیم کنندہ ہیں تو یہ صرف ظاہری حیات تک کا مقام تھا، اس وقت جبرائیل ؑ حکم لے کر آتے تھے اور وحی کا نزول ہوتا تھا، لیکن اب تو آپ وصال فرما چکے ہیں لہذا اب یہ عطائوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مجہول سوچ کا اگلی آیت میں در کر دیا اور فرمایا "اے رحمت عالم ﷺ ! تیرے رب کی عطائوں کا سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا"۔ جو بھی تیری نسبت، تیرے وسیلے، تیرے توسط سے ہم سے کبھی بھی استمداد کا طلبگار ہوں گا ہم اس کی جھولیاں بھرتے رہیں گے، ہم اس پر نعمتیں نچھاور کرتے رہیں گے،جو تیرے گنبد خضریٰ سے ہو کر ہماری طرف آئے گا ہم اسے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹائیں گے جو تیرا وسیلہ لے کر ہماری بارگا میں آئے گا ہمارا کرم اسے اپنی آغوش میں لے کر اس کا دامن مراد بھرتا رہے گا۔ جو تیرے توسط سے ہمارے در پہ دست سوال دراز کرے اگ ہم اس کی حاجت اس کے لبوں سے نکلنے سے پہلے ہی پوری کرتے رہیں گے۔

کوئی مانے یا نہ مانے اپنا تو یہ عقیدہ ہے
خدا دیتا ہے لیکن دیتا ہے صدقہ محمد ﷺ کا

آج امت مسلمہ کی صور ت ھال دیکھ کر دل پسیج جاتا ہے، آنکھ چھلک جاتی ہے، جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے ہم نے بدقسمتی سے ذات رسول ﷺ کو مناظروں کا موضوع بنا دیا ہے، مجادلوں کا مرکز بنا دیا ہے، جبکہ اللہ پاک ہمیں قرآ ن کو نسبت رسول ﷺ کے حوالے سے پڑھنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اگر اس انداز سے یہ امت محمدیہ قرآن کا دامن تھام لے تو اللہ رب العزت کی قسم! امت کے سارے جھگڑے، دنگا فساد، دھینگا مستی اور قتل و غارت ختم ہوجائیں، نفرت و کدورت کی جگہ محبت و موودت کا سامان ہو لیکن شرط یہ ہے کہ الوہی انداز سے قرآن کو پڑھا اور پڑھایا جائے، سمجھا اور سمجھایا جائے، اللہ پاک حضور اکرم ﷺ کے نعلین پاک کے تصدق سے ہمیں دین کی صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔