سماوہ سلطان

واقعہ کربلا سے ہم سب واقف ہیں، نہ صرف مسلمان بلکہ ہر قوم ہر مذہب کسی نہ کسی حد تک اس سے آگاہ ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی انسانیت کی بقا کیلئے تھی۔ لیکن ہم کربلا کو اگر ایک عظیم اور کامل درسگاہ کے طور پر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس واقعہ میں کتنے درس موجود ہیں۔ اس واقعے کا ہر پہلو بامعنی اور بامقصد ہے اس کے پیچھے حکمت پوشیدہ ہے۔ تمام 72 شہداء اور امام کے اہل خانہ نے لازوال درس دیا ہے۔

60 ہجری میں جب یزید ابنِ معاویہ تخت نشین ہوا تو امام حسین نے اس کی بیعت لینے سے انکار کیا یعنی اس کو امام اور خلیفتہ المومنین ماننے سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ یزید ایک فاسق شخص تھا، ہر قسم کے گناہ میں غرق تھا۔ اس جیسے شخص کو اگر امام حسین علیہ السلام تسلیم کر لیتے تو ان کی زندگی ان کا گھرانہ سب محفوظ رہتا، بچ جاتا لیکن اسلام باقی نہ رہتا۔ ان کی فوقیت اپنے نانا ﷺ کے دین کی بقا تھی نہ کہ اپنا گھر۔ اس پر یہ سبق ملتا ہے کہ ظالم اور برے حکمران کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی جہاد ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے بیعت قبول نہ کر کے حریت کا درس دیا ہے۔ امام فرماتے ہیں کہ

’’ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی ہی زیادہ قربانی دینا پڑے گی۔‘‘

کربلا کا سب سے اہم درس یہی تو ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور حق و باطل میں فرق جاننا۔ حسین علیہ السلام ہمیں ایک فکر دے کر گئے ہیں جو فکرِ حسینی ہے۔ یہ ایک مقصد کا نام ہے، ایک مشن کا نام ہے اور یزیدیت ایک فتنہ ہے جو کربلا کے بعد ختم نہیں ہو گیا بلکہ ہر دور میں جو حق کا ساتھ دینے والے ہیں وہ حسینی ہیں اور باطل یزیدی ہی تو ہیں۔

بقول امام حسین علیہ السلام:

’’جب تمہاری زندگی میں دو ایسے راستے آ جائیں کہ ظالم تمہیں گردن نہ اٹھانے دے اور دین تمہیں گردن نہ جھکانے دے تو تیسرا راستہ گردن کٹانے کا راستہ ہے۔‘‘

حضرت امام حسین اپنے وصیت نامہ میں جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں:

اِنّی ما خَرَجتُ اَشراً ولا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فی اُمَّهِ جدّی، اُریدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهی عن المنکر و اُسیر بسیرهِ جدّی و اَبی علیّ بن اَبی طالب.

ترجمہ: ’’میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔‘‘

امام نے یہ سکھا دیا کہ ظالم کے سامنے سر کٹ تو سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔ یہ قربانی صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہے۔ کیونکہ ظلم چاہے جہاں بھی ہو رہا ہو اور جس پر بھی ہو رہا ہو اس کی مخالفت ہی درسِ کربلا ہے۔ آج ہم خود کو امام حسین کا پیرو کار اور عقیدت مند تو کہتے ہیں لیکن کیا ہم اپنے اردگرد موجود یزیدوں کے خلاف بول رہے ہیں؟ کیا ہم معاشرے میں ہونے والے ظلم کے مخالف ہیں؟ اگر ہم ظلم پر خاموش رہ رہے ہیں تو یعنی ہم ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔

امام حسین نے مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت فرمائی اور اپنے اہل وعیال کو ساتھ لیا جس میں ہر عمر کے لوگ تھے، عورتیں تھیں۔ تو جو جنگ کے ارادے سے جاتے ہیں وہ بچوں اور عورتوں کو ساتھ نہیں لے جاتے۔ لیکن امام عالی مقام کا مقصد جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا تھا۔

امام حسین نے مسلم بن عقیل کو اپنا سفیر بنا کر پہلے کوفہ بھیج دیا تاکہ وہ وہاں کے حالات سے آگاہ کریں۔ اب یہاں مسلم بن عقیل نے ہمیں درس دیا ہے کہ جب مقصد رضائے خدا کا حصول ہو تو پھر کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے امام حسین سے یہ نہیں کہا کہ مولا میں تو آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ مل کر جہاد چاہتا ہوں۔ انہوں نے امام حسین کے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا اور پھر تنہا کوفہ میں مخالف لشکر سے مقابلہ کر کے شہید ہو گئے۔ ایسی عظیم ہستی تھے مسلم کی جب کوفہ والوں کو امام نے خط میں ان کے آنے کا لکھا تو کہا 'میں اپنا بھائی بھیج رہا ہوں، اپنا سفیر بنا کر'۔ سفیر حسین ہونا کوئی معمولی بات نہیں، پھر جتنی مشکلات اور تکالیف سے وہاں مسلم بن عقیل کو گزرنا پڑا، یہ ان کی امام حسین سے محبت تھی اور رضائے الٰہی کی طلب تھی کہ وہ ہر آزمائش سے کامیاب ہو کر شہید ہوئے۔

جب امام حسین علیہ السلام کا قافلہ مکہ پہنچا تو حج کیلئے احرام باندھ لئے۔ اب حالات یہ ہیں کہ اپنا شہر، اپنے نانا کا شہر مدینہ امام کیلئے غیر محفوظ بن گیا تو ہجرت کر کے خدا کے گھر مکہ آئے ہوئے ہیں۔ یہاں معلوم ہوا کہ یزید نے کچھ حاجیوں کو امام حسین کے قتل کا حکم دے رکھا ہے کہ دورانِ طواف ان پر حملہ کر دیا جائے۔

امام حسین جانتے تھے کہ ان کی شہادت ہونی ہی ہے، وہ چاہتے تو وہیں حج جاری رکھتے تو بھی تو خدا کی راہ میں جان دیتے لیکن نہیں! وہ تو نواسہ رسول تھے، وہ تو اس اعلیٰ مرتبے کی ہستی تھے کہ ہماری سوچ ان کی عظمت کا اندازہ نہیں کر سکتی۔ اپنے بھائی حضرت عباس علمدار کو کہتے ہیں کہ عباس! احرام کھول دو۔ ہم حج نہیں کریں گے، عمرہ کر کے یہاں سے چلے جائینگے! پھر وہاں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

'میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے احرام میں تلواریں چھپا رکھی ہیں، وہ میرے قتل کیلے آئے ہیں۔ میں حسین ابنِ علی اپنی موت سے نہیں ڈرتا بلکہ خانہ کعبہ کی حرمت خون خرابے سے پامال نہ ہو اس لیے یہاں سے جا رہا ہوں۔'

اب اس بات سے یہ سبق ملتا ہے کہ نماز، روزہ، حج تب ہی قبول ہوگا جب نیت اللہ کی خوشنودی ہو گی اور جب حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور انکی آل کے ساتھ وفاداری ہوگی۔ جو نماز اہل بیت پر درود و سلام بھیجے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی وہی اہل بیت حج چھوڑ کر جا رہے ہیں لیکن کوئی ان کے ساتھ نہیں گیا۔

طوافِ کعبہ میں مشغول رہ گئے حاجی
بہت قریب سے گزری نجات کی کشتی

اب جب امام حسین اپنا قافلہ لے کر کربلا پہنچ گئے تو وہیں اپنے خیمے لگا لئے۔ اب یہاں جو درس ہے وہ ہے تسلیم و رضا کا۔ جب سات محرم سے اہل بیت پر پانی بھی بند کر دیا گیا تو اس وقت ان کے صبر کا امتحان شروع ہوا۔ آبِ کوثر جن کی میراث ہے وہ پیاسے تھے۔ اس وقت اگر امام چاہتے تو اللہ سے بارش برسانے کی دعا کرتے، اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑھیاں رگڑنے سے پانی کا چشمہ پھوٹ سکتا ہے تو کیا امام حسین کے قدموں کی ٹھوکر سے چشمہ نہ نکلتا؟ لیکن سید شہدا صبر کے عروج پر تھے۔ آپ علیہ السلام نے کسی بھی قسم کی غیبی مدد نہیں طلب کی۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ کہتے اور بات پوری نہ ہوجاتی۔ جو خود جنت کے سردار ہیں، جن کے نانا وجہ تخلیق کائنات ہیں، باپ مولائے کائنات ہیں اور والدہ خاتونِ جنت ہیں، یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ غربت کے عالم میں مدد چاہتے اور یزیدی لشکر نیست و نابود نہ ہو جاتا۔ لیکن وہ خدا کی رضا میں راضی تھے۔ صبر کے پیکر تھے۔ فرمانے لگے:

رضا الله رضا اهل البیت.

یعنی جو اللہ کی رضا ہے وہی ہم اہلبیت کی رضا ہے۔

یہی بات ہے جو کربلا کو سب سے معتبر بنا دیتی ہے کہ کوئی ظاہری یا غیبی مدد نہیں تھی۔ کوئی جنات یا فرشتوں کا عمل دخل نہیں تھا محض حسین علیہ السلام تھے یا ان کے انثار جو راہ خدا میں اپنی جانیں دینے کو تیار تھے۔

9 محرم الحرام کو عمر ابن سعد نے یزید کا پیغام آ سنایا کہ آپ بیعت قبول کر لیں ورنہ آپ کے قتل کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ امام نے حجت تمام کی اور ان کو ایک بار پھر راہ راست کی طرف بلایا لیکن انہوں نے جنگ کا اعلان کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک رات کی مہلت مانگ لی۔ اس رات میں اپنے تمام ساتھیوں کو ایک خیمے میں اکٹھا کیا اور فرمایا کہ لشکرِ یزید کا مقصد میرا قتل ہے میں تم سب سے راضی ہوں اور اللہ بھی تم سے راضی ہو۔ جو اس وقت جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے میں روز محشر آپ سب کی شفاعت کی ضمانت دیتا ہوں۔۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنے بیٹے حضرت علی اکبر سے فرمایا کہ چراغ بجھا دو۔ تاکہ جو جانا چاہے بغیر ندامت کے جا سکے۔ کچھ دیر بعد حضرت عباس کو صدا دی کہ عباس! چراغ چلا دو۔ جب دیکھا تو سب ہی اپنی جگہ پر موجود تھے۔ اگرچہ لشکرِ حُسین صرف 72 افراد پر مشتمل تھا لیکن یہ سب کے سب اعلیٰ کردار اور عظمت کے پیکر تھے۔ یہاں وفاداری کا درس ملتا ہے کہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر سب امام کے ہمراہ کھڑے تھے۔

10 محرم الحرام کا دن شروع ہوا جو کہ یومِ عاشور تھا۔ سخت گرمی، بھوک اور پیاس کے عالم میں امام اور ان کے ساتھی لاکھوں کے لشکر کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھے۔

کہیں دوستی کی ایک بہترین مثال ملتی ہے جو امام کے بچپن کے دوست حضرت حبیب ابن مظاہر نے قائم کی۔ جیسے ہی انہیں کوفہ میں امان حسین کا خط ملا تو وہ تڑپ اٹھے کہ جلد از جلد امام کے پاس پہنچ سکیں وہ نصرت حق کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ آئے اور امام کی طرف سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ تو کہیں ضعیفی میں بھی راہ خدا میں شہادت کا جذبہ رکھنے والے مسلم ابن عوسجہ کی مثال ملتی ہے کہ جن کے ہاتھوں میں رعشہ ضرور تھا لیکن حوصلہ جوان تھا۔ فرماتے ہیں قسم بخدا! اگر مجھے اس بات کا علم ہو جائے کہ میں قتل ہو جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مجھے جلا کر خاکستر کر دیا جائے اور ایسا ستر مرتبہ کیا جائے گا تو بھی میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ آپ کی نصرت میں شہادت کے درجے پر فائز ہوجاؤں۔ تو کہیں حُر نے یہ درس دیا کہ اگر گناہ جتنے بھی ہوں توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوتا ہے۔ ندامت کی پٹی باندھ کر مولا کے حضور آئے۔ مولا تو کریم ابن کریم ہیں، انہوں نے حر کو گلے لگا لیا۔ حر نے اذن جہاد کی اجازت لی اور جام شہادت نوش فرماکر اہل دنیا کو ایک ابدی پیغام سنا گئے کہ ہم حر ہیں، دنیا میں بھی آخرت میں بھی! یہ حسین علیہ السلام کی درسگاہ ہے۔ یہاں حر بنائے جاتے ہیں۔

پھر وہب کلبیؓ آتے ہیں اور پیغام حریت دے جاتے ہیں کہ دیکھو ضمیر زندہ رہنا چاہیے تاکہ حق قبول کرنے میں مذہب و ملت دامن گیر نہ ہوں۔ آپ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن جونہی صدائے حق کا علم بلند ہوا، امام حسین علیہ السلام کی نصرت کو چلے آئے اور امام کے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر کے حریت کی اعلیٰ مثال قائم کر دی۔

امام حسین علیہ السلام کی ہمشیرہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے دونوں بیٹے عون اور محمد، امام علیہ السلام کی بارگاہ میں بھیجے اور کہا کہ یہ آپ سے پہلے شہید ہونگے اور ان کم سن بھائیوں نے شہادت پائی تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے سجدہ شکر کیا۔

تیرہ برس کے کمسن حضرت قاسم ابن حسن نے شجاعت کا درس دیا جو بار بار امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آتے اور اذن وغا کا سوال کرتے۔ جب مولا نے شہادت کی یہ تڑپ دیکھی تو سوال کیا، بیٹا قاسم! موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟ جناب قاسم جواب دیتے ہیں، شہد سے بھی شیریں!

یہ ان کے ایمان کی پختگی تھی، وہ جانتے تھے کہ اگلے جہان میں انہی کیلئے نعمتیں ہیں اور پھر انہوں نے بھی شہادت پائی۔ ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔

حضرت عباس نے وفاداری اور عقیدت کا درس دیا۔ جب نہرِ فرات پہ پانی لینے گئے اور مشکیزہ بھر لیا تو خود بھی پیاسے تھے مگر پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا کہ پہلے اپنے مولا اور ان کے گھر والوں کو پانی ملے۔ پھر اپنے دونوں بازو قربان کر دیئے لیکن مشکیزہ منہ سے پکڑ لیا کہ خیموں تک پانی پہنچا سکیں۔ پھر ان پر تیروں سے حملہ کیا اور وہ بے بازو ہو کر گھوڑے سے گر پڑے۔ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو کبھی بھائی کہہ کر نہ پکارا ہمیشہ مولا کہا اور آخری وقت میں بھی صدا تھی، مولا، غلام کا آخری سلام قبول کریں۔

پھر مولا حسین علیہ السلام نے اپنے اٹھارہ سالہ بیٹے حضرت علی اکبر علیہ السلام کو میدان میں بھیجا۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شخصیت کو امام نے خیمہ کے نزدیک کھڑے ہو کر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’اللهم اشهد علی هٰولآء القوم قد برز الیهم غلام اشبه الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک و کنّا اذا اشتقنا الی نبیّک نظر نا الی وجهه.‘‘

’’خدایا! تو اس قوم جفاکار کے مظالم پر شاہد رہنا کہ ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے کہ جو تیرے رسول ﷺ سے گفتار، کردار، اور رفتارمیں سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جب بھی ہم کو رسول ﷺ کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تھا تو ہم اس کی زیارت کر لیتے تھے۔‘‘

پھر علی اکبر خدمت امام میں آئے اور جنگ کرنے کی اجازت چاہی فوراً آپکی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے مولا نے علی اکبر علیہ السلام کو سینہ سے لگایا اور خود اپنے ہاتھوں سے علی اکبر علیہ السلام کو لباس جنگ پہنایا وہ چمڑے کاپٹکا جو امیر المؤمنین کے تبرکات میں سے تھا کمر پر باندھا اور میدان میں بھیج دیا۔

پھر ان کے سینے سے نیزہ خود نکالا اور کہا: ’’نہ میری آنکھ پہ پٹی بندھی ہے نہ میرے بیٹے کے ہاتھ بندھے ہیں میں اس کو ایسے ہی راہ خدا میں دے رہا ہوں۔‘‘

جب امام کے سب ساتھی اور سب پیارے شہید ہو گئے تو اس غربت کے عالم میں ایک جن جس کا نام ذعفر تھا، امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے میرے مولا! ان لوگوں کی کیا مجال کہ آپ پر اور آپ کی آل پر ظلم ڈھائیں! میں اپنے ساتھ لاکھوں جِنات کا لشکر لایا ہوں جو ابھی لشکر یزید کو ختم کر دے گا۔ آپ مجھے اجازت دیں۔

امام نے فرمایا: ’’ٹھہرو زعفر! یہ صرف شجاعت کا امتحان نہیں بلکہ صبر کا امتحان ہے، یہ دیکھو جبرائیل اور میکائیل کھڑے ہیں اور بہت سے فرشتے بھی۔ دیکھ! یہ آسمان میری نصرت کیلئے برسنے کو تیار ہے اور یہ زمین پھٹنے کو تیار ہیں لیکن میں نے سب کو صبر کرنے کا کہا ہے تم بھی صبر کرو اور دیکھو کہ اولاد آدم میں کچھ لوگ جو خاص ہیں وہ کیوں خاص ہیں۔‘‘

پھر اپنے چھ ماہ کے بیٹے حضرت علی اصغر علیہ السلام کو بارگاہِ خدا میں قربان کردیا۔ اب کوئی نہیں بچا سوائے امام حسین علیہ السلام کے۔

خیموں میں جا کے سب سے رخصت لی اور امام زین العابدین سے کہا ابھی تمہیں بہت مشکلات اٹھانی ہیں لیکن ہر قدم پر میرے نانا کی رسالت کی گواہی دیتے رہنا۔ اب امام گھوڑے پہ سوار ہوئے کہ میدان کی طرف جائیں تو ان کی چار سال کی شہزادی بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا ذوالجناح کو کہنے لگی کہ میرے بابا کو نہ لے جاؤ، جو وہاں جاتا ہے واپس نہیں آتا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا، میرے خون سے نانا کا دین بچے گا اس لیئے صبر کرو اور دعا کرو۔

پھر آپ میدان میں آ کر صدا لگاتے ہیں کہ:

"اے لوگو! میں حسین ابنِ علی ہوں، نبی کا نواسہ، علی و فاطمہ کا بیٹا، جس کیلئے اللہ کے رسول ﷺ بار بار فرماتے تھے 'حسین منی وانا من الحسین' ۔ میں رسول اللہ ﷺ کا خون ہوں کیوں میرا قتل کرنا چاہتے ہو کیا میں نے شریعت میں کوئی ترمیم کی ہے یا کسی انسان کا حق غصب کیا ہے؟ کیوں میرے بچوں کو ناحق مارا ہے! اب بھی راہ راست پہ آ جاؤ۔ آج جو اسلام کا پرچم تم ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہو یہ میرے بابا علیؓ نے بلند کیا تھا خیبر فتح کرنے والے کے بیٹے کو آج یہ صلہ دے رہے ہو"

فوجِ یزید جس میں ہزاروں علماء دین بھی تھے کوئی بھی امام کے ساتھ نہ آیا۔ بقول حضرت سلطان باہو:

جے کر دین علم وِچ ہوندا تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ھُو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا اَگے حسین دے مردے ھُو
جے کجھ ملاحظہ سرور دا کردے تاں تمبو خیمے کیوںسڑدیھُو
جے کر مندے بیعت رسولی تاں پانی کیوں بند کردے ھُو
پر صادق دین تنہا دا باھُو جو سر قربانی کردے ھُو

اور پھر سب نے امام کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور تیر برسنے لگے جس کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا اس نے کربلا کی گرم ریت امام پر پھینکنی شروع کر دی۔ یوں ان کا سارا جسم زخموں سے چُور ہو گیا۔ تمام انبیاء، تمام فرشتے سب یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ حضرت علی و بی بی فاطمہ سلام اللہ علیھا بھی اپنے بیٹے کی عظیم قربانی دیکھنے کیلئے وہاں موجود تھے۔

اتنے میں عرش سے آوازِ قدرت آئی۔

یٰٓاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ.

ترجمہ:اے اطمینان پا جانے والے نفس!

ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً.

ترجمہ: اب لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی وہ تم سے راضی۔

(سورہ الفجر: آیت 27-28)

پھر حسین علیہ السلام نے اپنا سر سجدے میں رکھا تو شمر نے تلوار چلائی۔ آواز آئی، اے روحِ حُسین تو نے بندگی کا حق ادا کردیا۔ آوازِ علی ؓ آئی، اے حسین! تو نے میرے خون کا حق ادا کر دیا۔ آوازِ مصطفی ﷺ آئی، اے حسین! تو نے میرے کندھوں کی لاج رکھ لی!

پھر آواز قدرت آئی کہ تو نے میری بندگی کی لاج رکھ کی، امامت کو تچھ پہ فخر ہے اور تیرے خدا کو بھی تجھ پہ فخر ہے۔ آ جاؤ کہ آسمان تمہارے قدم چومنے کو بے تاب ہے!

پھر امام نے فرمایا:

’’اے خدا میری اولاد کی اور میرے انصار کی قربانی قبول فرما اور مجھ سے راضی ہو جا۔ میں شکر کرتا ہوں کہ دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچانے کیلئے تو نے مجھے چنا۔‘‘

کربلا والوں کے حوصلے تھے دید کے قابل

جہاں پہ صبر مشکل تھا وہاں پہ شکر کرتے تھے

پھر ان مبارک سروں کو نیزوں پر چڑھایا گیا، اور ان کے گھرانے کو اسیر بنایا گیا۔ پھر شام میں صبر و رضا کی ایک الگ داستان ہوئی۔ امام کا سر یزید کو ملا لیکن وہ بھی جھکا ہوا نہ ملا بلکہ بلند و بالا ہی ملا۔

تو کربلا کا درس صبر اور رضائے الٰہی میں راضی ہونا ہے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، عزت، وفا اور محبت کا درس ہے۔ اور یہ بتایا گیا کہ مسلمان ہونے کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ سب بھی نمازی تھے، حج بھی کر رہے تھے، نعرہ تکبیر بھی لگا رہے تھے لیکن یاد رہے کہ عمل نہیں تو آپ مسلمان نہیں، اہلبیت سے محبت اور وفاداری نہیں تو زرہ بھر کوئی عبادت کسی کام کی نہیں۔

اللہ ہمارے دلوں کو محبت اہلبیت سے سرشار رکھے اور ہمیں حسینیت کے درس کو سمجھنے اور عمل کرنے والا بنائے۔

حسینؑ تیری محبت پہ فیصلہ ہوگا
ہے کون کون حقیقت میں مصطفیؐ کے ساتھ