یوم پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں

سمیہ اسلام

آزادی کی نعمت انمول ہے۔ اسی کا نام وقار و عظمت ہے۔ 14 اگست پاکستان کے مسلمانوں کے لئے خصوصی طورپرایک یادگار اور تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔ کیونکہ چودہ اگست 1947کواسلامی ملک پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیادپردنیاکے نقشے پرمعرضِ وجودمیں آیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وطن عزیزملک پاکستان کے حصول کی خاطرہمارے اسلاف (بزرگوں) نے اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت دی جانے والی قربانیوں کا ہم بغور مطالعہ کریں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جب مسلمان، انگریزکے غلام تھے۔ لیکن وطنِ عزیز کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے متحدہ مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ، گوشت گارے کی جگہ، اورخون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جن کی عظیم قربانیوں کے بعد وطن عزیزپاکستان کا قیام وجود عمل میں آیا۔

وطن عزیز پاکستان جس کی عظمت کو آج پوری دنیا مانتی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی وطن سے محبت کرنی چاہیے۔ اس کے بانی سے عقیدت اوراس کے مصوّر سے دلی لگاؤ رہنا چاہیے۔ کیونکہ جس وطن عزیزکے قیام کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ اتنی گراں قدر تخلیق کااندازہ تو وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں اپنے تن من دھن قربان کیا ہو۔ بس ہم نے تو یہی سوچ رکھا ہے جیسے باپ دادا کی وراثت میں یہ وطن عزیز ملا ہو۔ حالانکہ پاکستان کے حصول کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے شہادت کاجام نوش کیا۔ کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بچے قتل کیے گئے۔ جو ساری عمر اپنے بچوں کے لئے ترستے رہے ہوں گے۔ بے بسوں کے سامنے ان کے خاندانوں کے افراد کوکمروں میں بندکرکے نذرآتش کیا گیا۔ ہزاروں عصمتیں لٹنے، لاکھوں گھراجڑنے کے بعد پاکستان بنا۔ زندہ آزاد و مختار قومیں ہمیشہ اپنے وطن سے کھل کر محبت اور اپنی آزادی کا جشن بھی شایان شان طریقے سے مناتی ہیں۔ کیونکہ آزادی کی خوشیاں منانا ان خوشیوں میں شریک ہونا ان کی رونقیں دوبالا کرنا یقینا زندہ اورمحب وطن قوموں کاشیوہ ہے۔ خالق کائنات مالکِ ارض وسماوات قرآن مجید میں بھی ہمیں یہی حکم دیتا ہے کہ جب بھی کسی نعمت کا تم پر حصول ہو تو اس پر خوب خوشی کا اظہار کرو۔ یعنی کہ سجدہ تشکر بجالاؤ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور دونگا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب سخت ہے‘‘۔ قیام پاکستان سے قبل پورے برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ رہا ہے۔ حالانکہ انگریزوں کے قبضہ سے پہلے مسلمانوں کی حکومت تھی۔ جب انگریزقابض ہوئے تومسلمان غلامی کی زندگی بسرکرنے لگے۔ مسلمانوں پرطرح طرح کے ظلم وستم ہونے لگے۔ بالآخرمسلمانوں نے متحدہوکرمسلسل دن رات محنت کی۔ جوشخص جتنی محنت کرتاہے اس کاپھل اللہ پاک اس کوضرورعطاکرتاہے۔ مسلمانوں کی دن رات مسلسل محنت رنگ لے آئی اور اللہ پاک نے آج کے دن یعنی 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ اور اس طرح مسلمان اپناالگ وطن ملک پاکستانِ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

وطن عزیزپاکستان کی آزادی اللہ تعالیٰ کی کسی بڑی نعمت اورفضل وکرم سے کم نہیں۔ کیونکہ اللہ رب العالمین نے 14 اگست 1947کے دن مسلمانوں کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلاکرانہیں ایساخطہ ارض ِ پاک عطاکیاجوہرقسم کے معدنی وسائل سے مالامال ہے۔ جس کی وادیاں اپنے اندر رعنایاں لیے ہوئے ہیں۔ اللہ کے فضل وکرم اور بزرگوں کی قربانیوں کے بعدہمیں ہرقسم کی آزادی اورہرقسم کاسامان عیش وعریش کے لئے میسرہے۔ تجارتی،زرعی،صنعتی اوردیگرمیدانوں میں اپنالوہامنواکرترقی کررہے ہیں۔ وطن اس جگہ یامقام کوکہتے ہیں جہان انسان اقامت پذیرہوتاہے۔ جب انسان کسی جگہ پراپنی قیمتی زندگی کاکچھ اہم حصہ گزارلیتاہے۔ توانسان کواس جگہ سے فطری طورپرمحبت ہوجاتی ہے۔ پھرجب کسی مجبوری کے تحت انسان اس سرزمین سے جداہوتاہے تواس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ جلدسے جلداپنے وطن یعنی پہلی منزل تک پہنچ سکوں۔

وطن پر فدا ہر مسلمان ہے
کہ حبِ وطن جزوِ ایمان ہے

یہ ہماراقومی اوراخلاقی فریضہ ہے کہ ہم نئی نسل جوپاکستان کاقیمتی اثاثہ ہیں جنہوں نے اس وطن عزیزکی باگ دوڑسنبھالنی ہے(کوقیامِ پاکستان کے لئے دی جانیوالی قربانیوں سے روشناس کرائیں اوران کی یادتازہ کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ بات ہرکسی پرروزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کاثمرہے اگرہمارے بزرگ یہ قربانیاں نہ دیتے توشایدآج بھی ہم آزادنہ ہوتے۔

تحریک پاکستان میں صرف مردنہیں بلکہ خواتین کاکرداربھی ہماری تاریخ کاسنہری باب ہے۔ آج بھی ملکی درپیش مسائل اورچیلنجزسے نجات حاصل کرنے کاواحدذریعہ ہمیں قیامِ پاکستان اور1965ء کی جنگ آزادی والاجذبہ اپنے اندرپیداکرنا ہوگا۔ کیونکہ وطن عزیز پاکستان اسلامی ریاست اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجودبے شمارمسائل اورتنزلی کا شکار ہے۔ جن سے نجات کاواحدذریعہ مخلص قیادت کاچناؤاور نوجوانوں میں بالخصوص قیام ِپاکستان والاجذبہ بیدارکرناہوگا۔ جوہمارے وطن کی طرف میلی نگاہ سے دیکھے گااس کواینٹ کاجواب پتھرسے دیاجائیگا۔ کیونکہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کی بنیاد اینٹ گارے سے نہیں بلکہ اپنے خون اور ہڈیوں سے رکھی تھی اور یہ ملک خداداد پاکستان کلمہ لا الہ الااللہ کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا۔ جب تک ہم اپنے اختلافات بھلا کر باہم متحد ہوکر جدوجہد نہیں کرتے اس وقت تک ہمارے دشمن ہم پر مسلط بھی رہیں گے اور ہماری بنیادیں بھی کھوکھلی کرتے رہیں گے۔

ہر اگست ہم سے یہی تقاضاکرتی ہے کہ خوب محنت کرنی ہے خوب پڑھنا ہے انسانوں کو انسانیت کا صحیح سبق دینا ہے۔ ہمیں کسی کی سازشوں نے جو جشن کی صورت میں ہمیں الجھائے رکھتی ہیں بچنا ہے۔ یہ ہمارا مقصدِحیات نہیں ہے، یہ ہمیں اپنی صحیح سمت پیش قدمی سے روکنے کیلئے دشمن کی سازشیں ہیں۔ دشمن کہ آلہ کار ہمارے درمیان ہم سے بن کر رہ رہے ہیں انہیں پہچاننا ہے، انکی نشاندہی کرنی ہے۔ یہ ملک ترقی کی راہ جب ہی گامزن ہوگا جب ہم جشن آزادی پر وقار طریقوں سے منائنیگے ہم زندہ دل قوم ہیں۔ ہمیں بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کہ وہ تاریخی الفاظ کام، کام اور کام ہمیشہ یاد رکھنے چاہئیں۔ ہمیں دل کی گہرائیوں سے اس عرضِ پاک کی بقاء کیلئے دعا گو رہنا چاہیے مگر عملی طورپر بھی اپنی اس محبت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آئیں اس اگست ہم یہ عہد کریں اور شہری ہونے ثبوت اپنے ہر فعل سے دینگے اور محنت اور لگن سے کام کرینگے یہاں تک کہ پاکستان کو صف اول کہ ممالک میں لاکر کھڑا نہ کردیں۔ انشاء اللہ۔

پاکستان زندہ باد
پاکستان پائند ہ باد

اس مبارک دن کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل کو مملکتِ خداداد پاکستان کے قیام کے پس منظر سے پوری طرح روشناس کرانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ انہیں اس بات کا کامل ادراک ہونا چاہیے کہ آزادی سے پہلے ہم تمام کلمہ گو مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب کے سب غیر مسلموں کے قبضے میں تھے۔ ہماری تہذیب و تمدن، ہماری ثقافت و شرافت، ہماری عزت و ناموس، ہمارا قرآن، ہمارا ایمان، ہمارا اسلام، سرورِ کائنات کا پیغامِ تزک و احتشام، تمام کا تمام غیر مسلموں اور استبدادی طاقتوں کا غلام تھا۔

دوسرا بڑا تقاضا اس یومِ آزادی کا یہ ہے کہ ہم اپنی صفوں میں کامل اتحاد پیدا کریں۔ کسی بھی طرح کے گروہی، لسانی وصوبائی عصبیت پسندی یا کسی بھی دیگر بنیاد پر تفریق کا شکار نہ ہوں۔ بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قوم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا: اتحاد، ایمان، تنظیم۔ یعنی کسی بھی قوم کے لئے ترقی و کامرانی حاصل کرنے کے لئے سنہری اصول یہی تین ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے۔ اپنی دیانت داری اور ایمان کو ہمیشہ اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کررکھے۔ اس لئے ہم میں سے ہر فرد کو خود سے اور اس مملکت سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے اپنے دائرہ ِ عمل میں اتحاد، ایمان اور تنظیم کے اصولوں پرپوری طرح عمل کریں گے اور اس تسلسل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گے۔ علامہ علیہ رحمتہ نے یہ بھی فرمایا تھا۔

14اگست کے عظیم دن کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے لئے ہر معاملے میں خود انحصاری کا راستہ اختیار کریں کیونکہ یہ افراد اور اقوام کو اپنے اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس راستے پر چلنے سے عارضی مشکلات تو پیش آئیں گی اور دشواریاں بھی حائل رہیں گی لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر فتوحات حاصل کرنے والی قوم اپنے ماضی کو یقینا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ پاکستان کو سنوارنا اور اس کی ترقی یقینی بنانا ہماری انفرادی و اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ رکھنا ہوگا اور قوم کو موجودہ مسائل و مشکلات کی گرداب سے نکالنے کے لئے مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ مسلسل کوشش کرتے رہنا ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اپنی بلند نظری اور وسعتِ قلبی سے اپنے ملک میں بسنے والے ہر باشندے سے رواداری، صبروتحمل، محبت وایثارکے ساتھ خوش معاملگی سے رہیں۔ اقوامِ عالم سے بھی بین الاقوامی معاملات جس مہارت ِ کار اور خوش اسلوبی کا تقاضا کرتے ہیں اسے اسی طرح سرانجام دیں۔