مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ: قائد کی دستِ راست اور مشیرِ خاص

ڈاکٹر انیلہ مبشر

ہماری عصری، قومی اور سیاسی تاریخ کے پس منظر میں مادر، ملت محترمہ فاطمہ جناح قوم کی رہبری و رہنمائی کے جذبے سے سرشار ایک بیباک حق گو، اثر آفرین اور ہمہ جہت شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ایک طرف تو آپ وہ عظیم المرتبت خاتون تھیں جس نے بطور ہمشیرہ مشرقی شرافت و صداقت کے دائرے میں رہتے ہوئے بہن بھائی کے رشتے کو اوج ثریا تک پہنچادیا۔ دوسری طرف تحریک پاکستان کے پُرآشوب دور میں اپنے سیاسی تدبر، دور اندیشی، معاملہ فہمی کی بدولت بابائے قوم محمد علی جناح کی مشیر خاص اور دستِ راست رہیں۔ قوم کی خواتین کے لیے تحریک پاکستان کے اساسی نظریہ اور عمومی جذبات کی ترجمان اور شمعِ ہدایت ثابت ہوئیں اور پھر قائداعظم کی ناگہانی رحلت کے بعد آپ انیس برس تک پاکستان کے اساسی نظریے کی محافظ اور پاکستان میں جمہوریت کی بقا و بحالی کی خاطر استعمار پسند قوتوں اور جمہور کش عناصر کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والی مجاہدہ تھیں۔ ابتلا اور آزمائش کے اس دور میں قوم مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی رہنمائی کو فراموش نہیں کرسکتی۔

محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں اور محمد علی جناح آپ کے سب سے بڑے بھائی تھے۔ بہت کم عمری میں آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ 1901ء میں آپ کے والد بھی اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے محمد علی جناح نے سب سے چھوٹی بہن کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا اور انھیں 1902ء میں بمبئی کے اہم انگریزی سکول باندرہ کانونٹ بورڈنگ اسکول میں داخل کروادیا۔ بقول شریں بی جو فاطمہ جناح کی بڑی بہن تھیں، محمد علی جناح نے تمام خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنی چھوٹی بہن کو انگریزی بورڈنگ سکول میں داخل کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ فاطمہ جناح اپنے بھائی کی زیر سرپرستی تعلیم حاصل کرتی رہیں۔

1910ء میں کھنڈالاسینٹ پیٹرک اسکول سے میٹرک کیا پھر گھر میں تیاری کے بعد جونیئر اور سینئر کیمبرج کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ 1919ء میں کلکتہ کے احمد ڈینٹل کلینک میں دندان سازی کی تعلیم حاصل کی اور 1922ء میں بمبئی واپس آکر ایک ڈینٹل کلینک کھول کر پریکٹس شروع کردی۔ 1929ء میں قائداعظم کی نجی زندگی ایک سانحہ سے دوچار ہوئی اور ان کی اہلیہ رتن بائی کا انتقال ہوگیا۔ ایسے میں محترمہ فاطمۃ جناح نے اپنا کلینک بند کردیا اور بھائی کے پاس رہنے لگی تاکہ اُن کی تنہائی کا مداوا ہوسکے۔ 1929ء میں قائداعظم گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے۔ قیام لندن میں بھی آپ اُن کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ علامہ اقبال اور دوسرے مسلم قائدین کے اصرار پر آپ 1934ء میں وطن واپس آگئیں اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کے مشکل ترین کام کا آغاز کیا۔

بابائے قوم قائداعظم کی ہمشیرہ کی حیثیت سے فاطمہ جناح بلند ترین کردار پر فائز نظر آتی ہیں۔ حصول پاکستان کے اس پُرصعوبت دور میں وہ اپنے بھائی کے لیے بڑا سہارا تھیں۔ 1935ء کے بعد شاید ہی کوئی ایسا موقع ہو جب کسی اجلاس، کانفرنس یا ملک کے طوفانی دوروں میں اپنے بھائی کے ہم قدم نہ ہوتی ہوں۔ انھوں نے گھر اور گھر سے باہر اپنے بھائی کے لیے ایسا اطمینان بخش ماحول پیدا کررکھا تھا کہ قائد ہر فکر سے آزاد ہوکر اپنے نصب العین کی طرف قدم بڑھاتے چلے گئے۔ تحریک پاکستان کے اس دور میں وہ بے لوث مجاہدہ، وفا شعار بہن اور امور خانداری سے دلچسپی رکھنے والی مشرقی خاتون نظر آتی ہیں۔ اپنے قابل صد احترام بھائی کی شفقت اور محبت کا جواب اس عظیم صلہ سے دیا کہ اپنی پوری زندگی اور ذاتی راحت و آسائش کو عظیم بھائی پر قربان کردیا۔ ان کا بھائی مسلمانوں کی آزادی کی سیاسی اور قانونی جنگ لڑ رہا تھا اور انھوں نے تہیہ کررکھا تھا کہ ہمیشہ اپنے بھائی کی رفاقت میں رہیں گی اور اُن کے آرام و سکون کا پورا خیال رکھیں گی۔ مثلاً آپ قائد کے کھانے پینے کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ اپنی ذاتی نگرانی میں ان کے پسند کے کھانے تیار کرواتیں۔ کھانے میں شریک ہوکر ان کے ایک ایک لقمے کا خیال رکھتیں۔ نوکروں کی اصلاح اور گھریلو اخراجات کا حساب کتاب رکھتیں۔ قائد سے سیاسی ملاقات کرنے والوں کی فہرست سے آگاہ رہتی تھیں اور سیاسی مہمانوں اور رہنمائوں کے قیام و طعام کا انتظام کرتیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی رفاقت نے قائد کو جو تقویت فراہم کی اس کا اعتراف قائداعظم نے ان الفاظ میں کیا:

’’میں جب گھر واپس آتا ہوں تو میری بہن میرے لیے امید کی کرن اور مستقل روشنی بن جاتی۔ میں پریشانیوں میں گھرا رہتا اور میری صحت خراب ہوتی جاتی لیکن فاطمہ کے حسن و تدبر سے میری تمام پریشانیاں دور ہوجاتیں۔‘‘

9 اگست 1947ء کو کراچی کلب میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

’’مس فاطمہ جناح میرے لیے حوصلہ افزائی اور مدد و اعانت کامستقل سرچشمہ رہی ہیںجن دنوں اندیشہ تھا کہ برطانوی حکومت مجھے گرفتار کرکے مسلمانوں کی خدمت سے محروم کردے گی ان دنوں یہ میری بہن ہی تھی جس نے میرے حوصلے کو بلند رکھا۔ جب انقلاب رونما ہونے کو تھا فاطمہ کی باتیں میرے لیے حوصلہ انگیز تھیں۔ ان کو میری صحت کی ہمیشہ فکر رہی انہی کی وجہ سے میں صحت مند رہا۔‘‘

تحریک پاکستان کے انقلاب آفرین دور میں قائد کے شانہ بشانہ محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی جدوجہد بھی نہایت ثمر آفرین تھی۔ قائداعظم کی صحبت میں رہنے اور نامور سیاسی شخصیات سے ملاقات اور میل جول کے بعد خود مادر ملت بھی سیاسی رموز سے آشنا ہوگئیں۔ انھوں نے اپنے بھائی کے سیاسی افکار اورنظریات کو تہہ دل سے قبول کیا اور خلوص نیت سے ان کی ترویج کا بیڑہ بھی اٹھایا۔ قائداعظم سمجھتے تھے کہ مسلم خواتین کو میدان عمل میں نکلنا چاہیے کیونکہ عورتوں کے تعاون کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ چنانچہ محترمہ فاطمہ جناح نے مسلم خواتین میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم خواتین پردے اور سماجی آداب کے مطابق سیاست تو دور کی بات ہے گھر کی چار دیواری سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ مگر آپ نے انھیں سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے مثالی کردار ادا کیا۔

محترمہ فاطمہ جناح 1934ء کے بعد سے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی مستقل رکن تھیں۔ 1938ء میں محترمہ فاطمہ جناح کی زیر صدارت آل انڈیا ویمنز سنٹرل سب کمیٹی تشکیل پائی تو آپ بمبئی سے اس کی مستقل رکن منتخب ہوئیں۔ اس مرکزی کمیٹی کا پہلا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تو جہاں بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم نواب حفیظ الدین اور بیگم نواب بہادر یار جنگ کے ہمراہ آپ نے خواتین سے خطاب کیا اور خواتین کو متحرک کرنے میں مثالی کردار ادا کیا۔ 1940ء میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو مزید تیز کردیا۔ مسلم خواتین کی تنظیم نو کی غرض سے گائوں گائوں، شہر شہر اور قریہ قریہ پورے ہندوستان کے طوفانی دورے کیے، اجلاس اور جلسے منعقدکیے۔ انھیں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک جھنڈے تلے جمع کیا اور مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی بیدار کیا اور میدان عمل میں اتار کر تحریک میں ایک نئی جان ڈال دی۔

اگست 1942ء میں کوئٹہ میں خواتین کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

’’ہم مسلمان بہت چین کی نیند سوچکے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوم نے ہمیں کمزور سمجھ کر دبانا شروع کردیا۔ اگر ہم کچھ دن اورنہ جاگتے تو ہمارا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری بقا ہماری قوت پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں میں ایک طلسماتی طاقت دے رکھی ہے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں لیکن جب کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو اس پر ثابت قدم رہیں۔‘‘

مسلم خواتین کو متحرک اور فعال کرنے کی عظیم خدمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائداعظم نے مادر ملت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ فاطمہ ہی کا کام تھا کہ وہ تحریک پاکستان کے لیے مسلم خواتین کو متحد کرتیں اور اس تحریک کے لیے خواتین کو لے کر میدان عمل میں آتیں۔ یقینا یہ ان کی عظیم خدمت ہے جو انھوں نے قوم کے لیے سرانجام دی۔‘‘

11 ستمبر 1948ء میں قائداعظم کی رحلت کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے شمع ہدایت کو روشن رکھا۔ آپ نے حق گوئی اور بیباکی کا وہی راستہ اختیار کیا جس کی نشاندہی قائد نے فرمائی تھی۔ آپ نے بڑی بے خوفی سے تحریک پاکستان کے اساسی نظریہ اور عوامی جذبات کی ترجماننی کی۔ ظلم، رشوت ستانی اور غیر جمہوری اقتدار کے خاتمے اور بحالی جمہوریت کے لیے بے مثل قربانی اور جرات کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کے ابتدائی مہ و سال میں جب مسلم لیگی زعما کرام اپنا حقیقی مشن بھول گئے تو محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں۔ جنھوں نے اپنی تقاریر اور خطبات سے ان کی سمت درست کرنے کی کوشش کی مگر اس دور کی لیڈر شپ نے دور اندیشی کا مظاہرہ نہ کیا اور جمہوریت کش عناصر کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے۔ آپ نے پیرانہ سالی اور کمزور و ناتواں صحت کے باوجود 1965ء میں ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا، تحریک بحالی جمہوریت کو چٹا گانگ سے کراچی اور پشاور سے کوئٹہ تک منظم کیا اور قوم کو اتحاد کا پیغام دیا۔ اگرچہ نادیدہ قوتوں کی بدولت وہ یہ انتخاب تو نہ جیت سکیں مگر قائد کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر بڑے وقار، تدبر، جرات اور بصیرت و فراست سے قوم کی رہنمائی فرمائی۔

8 اور 9 جولائی 1967ء کی درمیانی شب بقول علامہ اقبال ’’آئینِ جوانمرداں ... حق گوئی بیباکی‘‘ اور جمہوریت کی شمع امید اس جہان فانی سے رخصت ہوگئیں۔ دل شکستہ قوم کو ولولہ تازہ عطاکرنے والی شفیق ماں، مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی جہد مسلسل کو قوم کبھی فراموش نہ کرپائے گی کیونکہ آپ کی ذات گفتار و کردار، عزم و حوصلہ، تدبر و دانش اور حق پرستی کا ایک ایسا نمونہ تھی جسے بجا طور پر قائداعظم کا عکس جمیل کہا جاسکتا ہے۔