خواتین پر بیماریوں کے اثرات

مریم اقبال

صحت اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا نعم البدل کوئی نہیں، لیکن بیماری انسان کو کسی بھی وقت اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور اس کے نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی اقسام کی بیماریاں ہیں جن میں مبتلا ہوکر انسان نہ صرف پریشانی کا شکار رہتا ہے بلکہ کبھی کبھی جان سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتا ہے۔ بیماری بھی موت کی طرح سفاک اور سنگین ہوتی ہے نہ ہی عمر دیکھتی ہے اور نہ ہی کوئی مقام و مرتبہ دیکھتی ہے اور یہ قدرت کا نظام ہے۔ بیماریوں کی اقسام مختلف ہوتی ہیں اور اس کے اثرات بھی مختلف عمر کے لوگوں پر مختلف ہی ہوتے ہیں اور مردو و عورت و بچوں پر بھی بیماریوں کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔

پاکستان میں صحت کے حوالے سے خواتین کی بیماریوں کے بہت سے مسائل ہیں، جن میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صحت میں دیگر سماجی شعبوں کے مقابلے میں جنسی(حیاتیاتی) اور صنفی (رویے اور سماجی) متغیرات کو تحقیق اور عمل کے لئے مفید پیرامیٹرز (parameters) تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ جنسوں کے درمیان حیاتیاتی فرق مرد و عورت کی مخصوص بیماریاں متعین کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک، جنس اور جنس سے متعلق بیماریوں کی آگاہی کی اہمیت خواتین کی مخصوص بیماریوں پر کام کرتی تھی لیکن مردوں اور عورتوں کی مشترکہ بیماریوں تک نہیں پہنچی تھی لہذا اس بارے میں اب بھی بہت کم تحقیق موجود ہے کہ کون سی بیماریاں مردوں اور عورتوں کو کیسے متاثر کرتی ہیں۔ وہ کون سی بیماریاں ہیں جو خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہیں، اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے تاکہ اس کو سامنے رکھتے ہوئے بیماریوں سے لڑا جاسکے اور اس بیماری کو قریب آنے سے پہلے ہی روکا جاسکے۔ پڑھی لکھی باشعور خواتین کے مقابلے میں کم علم اور ناواقف خواتین زیادہ بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جس کی وجہ ان میں بیماری کے حوالے سے آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ اسی طرح خواتین کی کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو ان سے خاص طور پر منسوب ہیں اور وہ اس کا شکار ہونے کے بعد یا تو تندرست و توانا ہوجاتی ہیں یا پھر اس بیماری کا شکار ہو کر بہت انہیں بہت برے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو مردوں اور عورتوں میں الگ الگ ہیں لیکن کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو مردوں اور عورتوں میں مشترکہ ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات مردوں اور عورتوں میں الگ الگ ہوتے ہیں۔ جن میں سے کچھ بیماریاں اور ان کے اثرات درج ذیل ہیں۔

دل کا دورہ (Heart Attack):

دل کا دورہ Heart Attack ایک ایسی بیماری ہے جو تحقیق کے مطابق عموماً مردوں سے زیادہ عورتوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ اموات اس بیماری سے ہوتی ہیں۔ دل کا دورہ پڑنے پر مردوں کو سینے میں درد، دباؤ اور جکڑن محسوس ہوتی ہے اس کے برعکس عورتوں کو کمر کے اوپری حصے میں دباؤ، جبڑے میں درد اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے، یا پھر متلی یا چکر آسکتے ہیں۔

اسٹروک (Stroke):

تحقیق کے مطابق سالانہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعدادکو فالج کا سامنا کرنا پڑتا ہے عام علامات کے علاوہ اچانک کمزوری، بولنے اور توازن کا کھو جانا اور الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین میں اس کے علاوہ کچھ اور مختلف علامات ہوسکتی ہیں جیسے بیہوشی، اشتعال، فریب، قے، درد، ہچکی اور دورے۔

بال گرنا (Hair Fall):

مختلف بیماریاں خواتین اور مردوں پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہوتی ہیں اور ان کے اثرات بھی مختلف ہوتے ہیں جیسے خواتین کے مقابلے میں مردوں کی عمر کے ساتھ بال گرنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ خواتین میں عمر کے ساتھ بالوں کے پتلے ہونے کی شرح 40 فیصد جبکہ مردوں میں یہ شرح بڑھتی عمر کے ساتھ 50 فیصد ہے ان کے بالوں کی لکیر دور سے پیچھے جاتی ہے ان کے سر کے تاج پر گنجا دھبہ ہو سکتا ہے۔ خواتین میں یا تو بالوں کا پتلا ہونا ہو سکتا ہے یا بے ترتیب گنجا پن۔

مہاسے (Acne):

ہارمونل Hormonal بیماریاں خواتین کو مردوں کے مقابلے زیادہ اثر انداز کرتی ہیں چونکہ ہارمونز اکثر مہاسوں کی وجہ بنتے ہیں اور خواتین وہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ مہاسوں کا شکار ہوتی ہیں اس کا علاج جنس کی بنیاد پر مختلف ہوسکتا ہے جو ہارمونز کو کنٹرول کرتی ہیں جیسے برتھ کنٹرول ادویات۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں کے لئے کریمیں زیادہ آزمودہ ہیں۔

تناؤ (Stress):

خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ تناؤ کا شکار ہوتی ہیں جبکہ دونوں ہی ایک ہی تناسب سے تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ خواتین تناؤ میں اکثر مختلف علامات جیسے سر درد، پیٹ درد، پیٹ کی خرابی یا رونے کی ضرورت کی شکایات کرتی ہیں۔ خواتین کے مقابلے میں مردوں کو تناؤ میں جسمانی علامات کم ہوتی ہیں۔

درد (Pain):

مردوں کے مقابلے میں خواتین دائمی درد کا زیادہ شکار رہتی ہیں (وہ درد جو 6 ماہ سے زیادہ رہے اور علاج سے بھی اس میں افاقہ نہ ہو)، یہ درد زیادہ عرصے تک رہتا ہے اور اس کی شدت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اب تک اس کی حتمی وجہ نہیں جان سکے ہیں البتہ یہ ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں جنسوں کے درمیان ہارمونز کے فرق کی جہ سے ہو سکتا ہے۔

اسٹیوپوروسس (Osteoporosis):

خواتین کو اسٹیوپوروسس (جوڑوں؍ ہڈیوں کا درد) ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے اسے اکثر مردوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لیکن جن مردوں میں ہڈیوں کی کثافت کی یہ کمی پائی جاتی ہے اور وہ کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کا شکار ہو جاتے ہیں تو اس وجہ سے خواتین کے مقابلے مردوں میں اموات ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ایک سے زیادہ کاٹھنی (Multiple sclerosis):

یہ ایک سوزش والی خود کار قوت بیماری ہے۔ یہ جسم کے اپنے اعصابی ٹشووں کا رد عمل ہے ، جو عام طور پر ایک مخصوص قسم کے سوزش خلیات میں ثالثی ہوتا ہے وہ بیماریاں جو مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہیں مردوں میں زیادہ شدید ہوتی ہیں مثال کے طور پر مردوں کے مقابلے خواتین کو زیادہ متاثر کرتا ہے لیکن جب یہ مرض اپنی ایڈوانس قسم میں ہوتو پھر اس کی شدت مردوں میں بھی خواتین جیسی ہی ہوتی ہے اور اس کا علاج بھی سخت اور مشکل ہوتا ہے۔

وہ کون سی بیماریاں ہیں جو خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہیں، اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے تاکہ اس کو سامنے رکھتے ہوئے بیماریوں سے لڑا جاسکے اور اس بیماری کو قریب آنے سے پہلے ہی روکا جاسکے۔پڑھی لکھی باشعور خواتین کے مقابلے میں کم علم اور ناواقف خواتین زیادہ بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں جس کی وجہ ان میں بیماری کے حوالے سے آگاہی کا نہ ہونا ہے۔

پی سی او ایس(Polycystic ovary syndrome (PCOS):

پولی سسٹک اووری سنڈروم یہ دراصل خواتین میں موجود ایک کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کو باقاعدہ کسی بیماری کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کیفیت بڑی عمر کی خواتین کے مقابلے میں کم عمر لڑکیوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ خواتین میں ہارمونز کی بے ترتیبی ہے۔ یہ کیفیت بیماری کی شکل میں ڈپریشن، بے چینی، بانچھ پن، چہرے کے غیر ضروری بالوں اور موٹاپے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے خواتین میں نفسیاتی مسائل پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس بیماری کا بہترین علاج ورزش ہے جب کہ فاسٹ فوڈز اور کولڈرنکس اس میں سخت نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر ز کے مطابق 16 سے 18 سال کی عمر کے دوران بچیوں کا اووری کا ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

وٹامن ڈی کی کمی (Vitamin D deficiency):

وٹامن ڈی انسانی جسم کے لیے اہم ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ اس سے ہڈیوں، دانتوں اور پٹھوں کو مضبوطی ملتی ہے۔ یہ جسم میں ایک ہارمون کا کردار ادا کرتا ہے۔ جسم اس وٹامن کو بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بلکہ اس کو مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے جس میں دھوپ سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ دہی، اورنج جوس اور ایک خاص قسم کی مچھلی سے بھی وٹامن ڈی کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ڈپریشن (Depression):

ڈپریشن ایسی بیماری ہے جو مضبوط سے مضبوط اعصاب کے شخص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین ڈپریشن کا شکار زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں خواتین زیادہ اداس رہتی ہیں، اپنے کاموں سے ان کا دل اچاٹ رہنے لگتا ہے، جسمانی کمزوری، تھکاوٹ اور بے رغبتی، بھوک اور نیند کا متاثر ہونا، صدمہ، تکلیف اور ماہانہ نظام کی خرابی اس کی اہم علامات ہیں۔ مرد ہوں یا خواتین ڈپریشن کا بہت زیادہ ہونا ان کے ذہن میں خود کشی جیسی سوچ کو بھی جنم دیتاہے یہاں تک کہ کچھ لوگ اس سوچ میں مبتلا ہوکر اس منفی سوچ کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

صحت مند اور خوشحال زندگی کے لیے بہت ضروری ہے کہ جیسے ہی بیماری کی کوئی بھی علامت ظاہر ہو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ کوئی بھی بیماری ایسی نہیں ہے جس کا علاج ناممکن ہو آقا دوجہاں ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ما أنزل الله مِن دآء إلا أنزل له شفآءٌ (البخاری) اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔ یہ حدیثِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پراسس کو جاری رکھنے اور علاج کے لئے ماہرین سے رجوع پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا ہے۔