فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ تَسَآئَلُوْنَ بِـهٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا. وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰـٓی اَمْوَالَهُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَهُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ ط اِنَّهٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا. وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْا. وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَکُلُوْهُ هَنِیْئًا مَّرِیْئًا.

(النساء، 4: 1 تا 4)

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بُری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔ اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھائو ‘‘۔

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ سَفِینَۃَ رضی الله عنه قَالَ: رَکِبْتُ الْبَحْرَ فِي سَفِیْنَةٍ فَانْکَسَرَتْ فَرَکِبْتُ لَوْحًا مِنْهَا فَطَرَحَنِي فِي أَجَمَةٍ فِیْهَا أَسَدٌ فَلَمْ یَرْعَنِي إِلاَّ بِهِ فَقُلْتُ: یَا أَبَا الْحَارِثِ أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَطَأْطَأَ رَأَسَهُ وَغَمَزَ بِمَنْکَبِہِ شِقِّي فَمَا زَالَ یَغْمِزُنِي وَیَهْدِیْنِي إِلَی الطَّرِیْقِ حَتَّی وَضَعَنِي عَلَی الطَّرِیْقِ فَلَمَّا وَضَعَنِي هَمْهَمَ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ یَوَدِّعُنِي.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِی الْکَبِیْرِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سمندر میں ایک کشتی پر سوار ہوا۔ وہ کشتی ٹوٹ گئی تو میں اس کے ایک تختے پر سوار ہوگیا اس نے مجھے ایک ایسی جگہ پھینک دیا جو شیر کی کچھار تھی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ (اچانک) وہ شیر سامنے تھا۔ میں نے کہا: اے ابو الحارث (شیر)! میں رسول اللہ ﷺ کا غلام ہوں تو اس نے فوراً اپنا سر خم کردیا اور اپنے کندھے سے مجھے اشارہ کیا اور وہ اس وقت تک مجھے اشارہ اور رہنمائی کرتا رہا جب تک کہ اس نے مجھے صحیح راہ پرنہ ڈال دیا پھر جب اس نے مجھے صحیح راہ پر ڈال دیا تو وہ دھیمی آواز میں غر غرایا۔ سو میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔‘‘

(المنهاج السوّی ، ص: 707)