فکر شیخ الاسلام: قرب الہی کے دو تقاضے

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ.

(سورة البقرة، 2: 186)

اے محبوب! جب تم سے میرے بندے پوچھیں میری نسبت کہ میں کہاں ہوں تو انہیں فرما دیا کر کہ میں تو بہت قریب ہوں۔ لہذا ضابطہ قرب الہی دو شرطوں پر مشتمل ہے۔

پہلی شرط (میرا قرب چاہتے ہو تو میرے محبوب سے پوچھو):

میرا قرب چاہتے ہو تو میرے محبوب سے پوچھو یہ پہلی شرط بیان فرمائی۔ محبوب تم سے پوچھیں ان بندوں کو یہ راز بتا دیں کہ میرا پوچھنا ہو تو کہاں جائیں میرے محبوب تیری بارگاہ میں آئیں اور تم سے پوچھیں۔ در بدر کی ٹھوکریں نہ کھائیں اور یہ بھی نہ سمجھیں کہ براہ راست اللہ سے اللہ کو جان لیں گے۔ نہ ایسی غلطی نہ کرنا۔

میرے محبوب تیری بارگاہ میں سائل بن کے آئیں إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی کون؟ میرے محبوب تم سے پوچھیں اس شرط کو مقدم بیان کیا عِبَادِی یہ میرے بندے ہیں یہ بعد میں فرمایا تاکہ بندوں کو تیری پہچان ہو جائے کہ میں اپنا بندہ انہیں کو بناتا ہوں جو تیرا سائل بنتا ہے۔محبوب! اپنے بندوں کے زمرے میں انہیں کو شریک کرتا ہوں جو تجھ سے سوال کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ بھی تو فرما سکتا تھا کہ میرے بندے جب تم سے سوال کریں۔

إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی فرما سکتا تھا فان عبادی اذا سالک بے شک میرے بندے جب تم سے سوال کریں میں کہاں ہوں؟ تو بتا دو انی قریب میں قریب ہوں۔ مگر نہیں فرمایا یہ میری پہچان کیسے ہوگی؟ بندے میرے بندے بنیں گے کیسے؟ کچھ اس کا بھی تو سلیقہ ہونا، فرمایا کہ جو میرے بندے بننا چاہتے ہیں محبوب وہ تیری بارگاہ میں سائل بنے۔ جو میرے بندے بننا چاہتے ہیں وہ تیری بارگاہ کے سائل بنیں۔ سالک پہلے تجھ سے سوال کریں تو میرے بندے بن جائیں گے۔ محبوب جو تیری بارگاہ میں سوالی بنیں وہی میرے بندے کہلائیں گے۔

دوسرا تقا ضہ؍ دوسری شرط (ایک ہی سوال کریں کہ اللہ کہاں ہے؟) :

اور دوسری شرط کیا؟ َإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی اور انہیں پھر کسی چیز کی تلاش نہ ہو۔ تلاش ہو تو فقط میری، رزق کی تلاش میں مارے مارے نہ پھریں۔ مال و دولت کی تلاش میں نہ آئیںصحت و تندرستی، سلامتیوں کی تلاش میں مارے مارے نہ پھریں۔ عزت کہاں سے ملے گی یہ سوال نہ کریں۔ مال کہاں سے ملے گا یہ سوال نہ کریں۔ بیمار ہوں تندرستی کہاں سے ملے گی یہ سوال نہ کریں۔ شہرت کہاں سے ملے گی یہ سوال نہ کریں۔ پیسہ کہاں ہیں یہ سوال نہ کریں۔ یہ سارے سوال بھول جائیں۔ اگر میرا بندہ بننے کا شوق ہے تو ایک ہی سوال کریں کہ اللہ کہاں ہے؟

ڈھونڈاں جنگل بیلا روہی
صد صد تینوں کملی ہوئی

جنگل میں جائیں تو میرا پوچھیں مولا کہاں ہے؟` پہاڑوں میں جا ئیں تو میرا پوچھیں۔ صحراؤں میں جا ئیں تو میرا پوچھیں۔ آبادیوں میں ہوں تو مجھے تلاش کریں۔ بیانوں میں ہوں تو مجھے تلاش کریں۔ دن ہو تو پھر بھی میرے متلاشی ہوں۔ رات کے سائے چھا جائیں پھر بھی میری تلاش کریں۔ جا گیں تو پھر بھی میری تلاش میں، سوئیں تو پھر بھی میری تلاش میں۔

الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ.

(آل عمران، 3: 119)

یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر)کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

کھڑے ہوں تب بھی میری بات کریں۔ بیٹھے ہوں تب بھی میری یاد کریں۔ لیٹے ہو تب بھی میری تلاش کریں۔ بس ایک ہی تلاش ان کے دامن گیر ہو جائے۔

یہ دو شرطیں ہیں۔ فانی قر یب بس ایسے بن جاؤ تو مجھے قریب پالو گے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کا شعر ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

پھر مجھے باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ میں

نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِید.

(ق: 16)

ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

دو شرطیں پوری کرلے۔ میرے محبوب کا سوالی بن جائے۔نسبت حضور سے قائم کرے۔ مقصود قرب الہی ہے۔ اس قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنے کے دو راستے بتائے اور دونوں راستوں میں ان کی دو شرطیں بتائیں۔ ایک صلہ پہلی شرط کے ساتھ کردیا اور دوسرا صلہ دوسری شرط کے ساتھ کر دیا۔ فرمایا اذا سالک محبوب جب تم سے پوچھیں سوالی بن کے تیری بارگاہ میں آئیں اتنا مرحلہ طے کر لو تو تمہیں اپنا بندہ بنا لوں گا۔ اتنا کچھ تم کر لو تو عبادی بن جاؤ گے۔

فَادْخُلِی فِی عِبَادِی. وَادْخُلِی جَنَّتِی.

(الفجر: 30)

پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔

بندے تو سارے ہوتے ہیں پر اس کا بندہ کوئی کوئی ہوتا ہے۔

یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ. ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً. فَادْخُلِی فِی عِبَادِی.

(الفجر: 27 تا 29)

اے اطمینان پا جانے والے نفس! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔

جب سارے مرحلے طے ہو جائیں پھر حکم ہوتا ہے میرے بندوں میں داخل ہو جا۔ بندہ نفس امارہ میں سے بھی گزر گیا، نفس لوامہ سے بھی گزر گیا ، نفس ملحمہ سے بھی گزر گیا ، نفس مطمئنہ سے بھی گزر گیا، یہ سارے مرحلے گزارکر پھر نفس راضیہ سے بھی گزر گیا۔ نفس مرضیہ سے بھی گزر گیا۔ جب راضیہ اور مرضیہ کے مقام پر پہنچا تو اس وقت اسے ندا ملی۔ اب آواز آئی فَادْخُلِی فِی عِبَادِی اب میرے بندوں میں شامل ہو جا۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے جب اس کا نفس امارا تھا۔ اسے برائی کی طرف لے جانے والا تھا تو کیا وہ تب اللہ کا بندہ نہیں تھا؟کسی اور کا بندہ تھا۔ بندہ تو اس وقت بھی اللہ کا ہی تھا۔

إِن کُلُّ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلاَّ آتِی الرَّحْمَنِ عَبْدًا.

(المریم: 93)

آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی (آباد) ہیں (خواہ فرشتے ہیں یا جن و انس) وہ اللہ کے حضور محض بندہ کے طور پر حاضر ہونے والے ہیں۔

جو کچھ زمین و آسمان میں ہے وہ اللہ کا بندہ ہے۔ اللہ قسم کھا تا ہے صاحب نفس لوامہ کی تو اللہ کا بندہ ہی ہے، درجہ اونچا ہو گیا۔ تو نفس ملحمہ کے درجے پر پہنچا۔ اس سے اونچا ہوگیا۔ نفس مطمئنہ کے درجے پر پہنچا۔ اللہ پاک نے اسے مخاطب کیا۔ فرمایا:

یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ.

یہ کم شرف ہے کہ خدا خود خطاب کرے ، خدا اپنے بندے کو خطاب کے لائق بنا دے اور خود پکار کے کہے اے میرے نفس مطمئنہ! والے بندے۔

ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ.

آجا میری طرف کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو نفس مطمئنہ پا لیتے ہیں۔ حضرت شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا شرف ہے؟ کہا اور تو کچھ نہیں بس تیس سال سے اس کا اتنا کرم ہے کہ رات کو اٹھتا ہوں تو وہ بات کرتا ہے۔

جو نفس مطمئنہ پا لیتے ہیں۔ ان کو اللہ پاک دو شرفوں سے نوازتا ہے۔ ایک اللہ ان کو اپنا مخاطب بنا لیتا ہے۔ ان سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اور دوسرا شرف خالی ہم کلام ہی نہیں ہوتا بلکہ خود انہیں اپنی طرف بلاتا ہے۔ اور کہتا ہے الی ربک اپنے رب کی طرف یعنی اس نسبت کے ساتھ بلاتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں۔ آجا اپنے رب کی طرف۔ ایک ہے کہ بندہ آرزو کر ے کہ مولا میں تیری طرف آنا چاہتا ہوں۔

لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

(العنکبوت: 69)

ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔

فرمایاہم راستے کھول دیتے ہیں آ جا۔

وَیَهْدِی إِلَیْهِ مَن یُنِیبُ.

(الشوری: 13)

اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔

تو کوشش کرتا ہے تو یہ راستہ ہے بے شک آجا۔ کچھ تو وہ خوش نصیب ہیں جنہیں وہ خود کہتا ہے:

ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ.

یہ نہیں فرمایا کہ آجا بلکہ فرمایا تو لوٹ آ۔ تو تھا ہی ادھر ہی کا۔ تو ادھر پلٹ آ۔ اپنے اصل وطن میں آ جا تو بچھڑا ہوا ہے۔ اس میں ہجر کی کیفیت کا بھی بیان ہے۔ اس میں ہجر اور وصال کی بات ہے۔ ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِتیرا رب تیرا منتظر ہے۔ اگر تو ہجر اور فراق میں تڑپ رہا ہے تو ہم بھی انتظار میں ہیں۔

ارْجِعِی لوٹ آ۔ تیرا وطن یہی ہے ادھر ہی لوٹ آ۔ کچھ عرصے کے لیے بھیجا تھا اور تم نے اپنا وطن سمجھ لیا ہے۔ لوگ مغالطے میں پڑگئے تو اس مغالطے سے نکل آیا ہے۔ امارا سے نکل آیا، لوامہ ، ملحمہ سے اٹھ کر اب تو اس مغالطے سے نکلا ہے تو تمہیں اطمینان ملا ہے۔ جب تک تو نے اس دنیا کو گھر سمجھ رکھا تھا اطمینان نہیں مل سکتا تھا۔ اطمینان قلب کو اور نفس کو اسی وقت ملتا ہے جب بندہ اپنا وطن اس دنیا کو نہ سمجھے جب رجوع ادھر کر لے پھر اسے اطمینان ملتا ہے اور جب تک رجوع اس وطن کی طرف طبیعت کا نہیں ہوتا وہ کچھ کرتا رہے، وہ پریشان رہتا ہے۔ صبح شام لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ بس بہت کچھ کرتے ہیں مگر اطمینان نہیں ملتا۔

اطمینان کا راز:

پیسے کی بھی کمی نہیں مگر اطمینان نہیں۔ عزت بھی اللہ نے بڑی دے رکھی ہے۔ مگر کوئی سکون اور اطمینان نہیں ہے۔ اولاد بھی نیک ہے، نافرمان بھی نہیں پر اطمینان نہیں۔ اللہ نے گھر بھی دے رکھا ہے۔ گاڑی، کاروبار، بزنس، رزق ہے، اللہ نے کسی چیز کی کمی نہیں دی مگر اطمینان نہیں ہے۔ پریشانی کھائے جا رہی ہے ہر شے پا کر بھی اطمینان نہیں پا رہا۔ نادان انسان کو اطمینان کیسے ملے۔ روح کا تو یہ وطن ہی نہیں، تو جب تک روح قید میں ہے تو اسے اطمینان کیسے ملے؟

اگر یہاں رہ کے دل کا تعلق اس اللہ سے جوڑ لے۔ تو گلیوں میں چلے آنکھیں آبادیوں میں بھی اسے تلاش کریں۔ ویرانوں میں بھی اسے تلاش کریں۔تیری آنکھوں میں اسی کی تلاش ہو۔ روح کا رجحان ادھر ہو۔ نفس ادھر مائل ہو، طبیعت ادھر جھکی رہے۔ ہر وقت طبیعت کا ر جوع اس طرف رہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو اس وطن کی کھینچ پیدا ہوجائے۔ شخص کو اطمینان مل جاتا ہے تو وہ طرح طرح سے نوازا جاتا ہے۔ بندہ آرام سے لیٹا ہوتا ہے اور اللہ اس سے خطاب فرماتا ہے کہ اے میرے بندے ذرا بات تو کر۔

یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ.

پہلے بندہ کہتا تھا یا اللہ یا اللہ یا اللہ۔ اب وہ کہہ رہا ہے اے عبدی، عبدی، عبدی۔ میرے بندے اٹھ تو۔ پہلے بندہ جاگتا رہتا تھا اور فکر میں تھا کہ چلو دھیان ہوجائے اب وہ سو رہا ہے اور وہ جاگنے والا کہہ رہا ہے۔ عبدی، عبدی۔ بندے اٹھ ذرا ، تنہائی کا وقت ہے تو دو باتیں کر لیں۔ ذرا تنہائی کا وقت ہے اٹھ ذرا ہائے ہائے دو باتیں کر لیں۔ لوگ آرام کر رہے ہیں۔ میری دہلیز پر جبین جھکالے میرے لئے دو آنسو بہا لے۔

ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ.

اے اطمینان پانے والے آ جا۔ پلٹ آ اپنے رب کی طرف۔ دو باتیں ہیں پلٹ آ وطن یہی تھا۔ تو نے اب پہچان لیا۔ اب پلٹ آ۔ إِلَی رَبِّکِ اپنے رب کی طرف۔ ادھر سے بچھڑ کے گیا تھا تو جیسے بچھڑ کے گیا تھا اپنے رب کی طرف سے بچھڑے ہوئے پھر مل جا۔ پھر کس حال میں آ میں تمہیں جیسا بھی رکھو ں تو راضی ہوگیا۔ نفس مطمئنہ کی پہچان یہ ہے کہ جب اس کی یہ حالت ہوجائے اس کو "راضیۃ"کہتے ہیں۔

جس حال میں اللہ رکھے بس وہ راضی رہے۔ اللہ بلاتا ان ہی کو ہے جو اس حال میں ہو جاتے ہیں۔ شرط ہے میرے حضور آنے کی۔ یہ نقطہ ایک اور قابل توجہ ہے۔ میرے حضور پہنچنے کی میرے پاس پلٹ آنے کی شرط ہے کہ راضیۃ ہوکے آ۔ سراپا تسلیم و رضا بن کے آ۔

ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً.

اپنے رب کی طرف پلٹ آ۔ شرط یہ ہے کہ سراپا رضا بن کے آ۔

شکووں کی دنیا میں چھوڑ کے آ۔ یہاں شکوے نہیں ہیں۔ تو پھر نتیجہ یہ ہو گا کہ میں ہمہ وقت تیری رضا کا طالب بن جاؤ ں گا۔

میری تقدیر کا قلم تیری زبان ہوجائے، میری تقدیر کا قلم تیری چاہت ہوجائے گی۔ میری تقدیر کا قلم تیرے ہاتھ بن جائیں گے۔ تیری آنکھ بن جائے گی۔مرضیۃ تو سرا پا رضا بن کے میری طرف آ۔ پھر میری رضا تیری منتظر ہو جائے گی۔ میری قضا تیری منتظر ہوجائے گی۔

جب انسان اللہ کے ساتھ ایسے تعلق میں جڑ جائے، اس کو پھر خطاب ہوتا ہے۔ فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ایسے لوگ میرے بندے ہوتے ہیں۔ ان کو فرمایا "فَادْخُلِی فِی عِبَادِی "میرے بندوں میں داخل ہو جا۔

بندہ ہونا اور شے ہے اور اس کا بندہ ہونا اور شے ہے۔ جو اس کا بندہ ہو جاتا ہے اس کا انتظار ہمہ وقت ادھر رہتا ہے۔ وہ بلاتا رہتا ہے میرے بندے آ۔ میرے بندے اب راضی ہے؟ تو فرمایا جب راضیہ مرضیہ کے مرحلہ طے کرلے تو اب فرمایا "فَادْخُلِی فِی عِبَادِی میرے بندوں کے زمرے میں داخل ہو جا۔ میرے بندے ایسے بندے ہیں ایسے لوگ ہوتے ہیں۔ "فادْخُلِی جَنَّتِی"پھر جب میرے بندے بن جاتے ہیں تو پھر ساری جنتیں ان کے لئے کھول دی جاتی ہے۔ وادْخُلِی جَنَّتِی میری جنت میں داخل ہو جا۔

کوئی میرا بندہ بننا چاہے تو محبوب ﷺ تیرا سوالی بن جائے بس جدھر جدھر تو لیے پھرے بس ادھر ادھر جاتا جائے۔ اپنی رضا تیری رضا پہ مٹا دے۔ اپنی خواہش محبوب تیری خواہش پہ قربان کر دے۔ اپنی چاہت تجھے بنا لے۔ اپنی چاہت ، اپنا قبلہ محبت تمہیں کر لے تیرا سوالی بن جائے۔ محبوب تیرا ہوجائے تو بس وہ میرے بندوں میں آجائے گا۔ بس یہ درمیان کے سارے رستے اسی طرح طے ہو جائیں گے۔ وہ تجھ سے پوچھتا جائے اور وہ سفر طے کرتا جائے۔ حتی کہ عبادی میرے بندوں تک آ پہنچے۔

اور دوسری علامت یہ ہے کہ محبوب تیرا سوالی ہو اور پہچان یہ ہے کہ تلاش صرف میری رہے۔ ہمارے اندر دونوں چیزوں کا فقدان ہے۔ ہمارے اندر دونوں چیزوں کا فقدان ہے یا تو ہم حضور کے سوالی ہی نہیں رہے۔ نام کے سوالی ہیں۔ یوں تو ہم سارے لاکھوں کی تعداد میں ساری دنیا حضور کی بارگاہ میں جاتی ہے۔ روضہ اطہر پہ حاضر ہوتی ہے اور ہر کوئی روضہ مبارک کے سامنے کھڑے ہوکر حضورہم آپ کے سوالی ہیں۔

ہر کوئی جب مسجد میں آتا ہے اللہ کے حضور ہاتھ اٹھا کے کہتا ہے ہم تیرے سوا لی ہے۔ مگر کہنا اور چیز ہے اور سوالی بن جانا اور چیز ہے۔ سوالی تو پھر پورے تقوی اور بھروسہ اور توکل کے ساتھ ہوتا ہے نا۔ تو جو ادھر ادھر بھی نگاہ اٹھائے کہ شاید ادھر سے مل جائے شاید ادھر سے مل جائے۔ اسے سوالی نہیں کہتے۔ یہ پروفیشنل ہوتے ہیں۔ یہ تاجر ہوتے ہیں۔ یہ سوداگر ہوتے ہیں۔ سوالی نہیں ہوتے سوداگر ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:

لا یومن احدکم حتی یکون هواه طبعا لما جئت به.

جو کچھ میں لایا ہوں اس کی ساری خواہشیں اس کے تابع ہو جائیں یہ ہے سوالی بننا۔ جب حضور ﷺ کے در کا سچا سوالی بن جائے۔ ایک اور دوسری تلاش اور طلب ہر شے کی ختم ہو جائے ایک ہی تلاش رہ جائے۔ بس اللہ کا خیال رہ جائے۔ دے دے تیری مرضی نہ دے تیری مرضی اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

جب کوئی بندہ ایسا بن جائے تو محبوب ان کو خوشخبری سنادیں۔ فَإِنِّی قَرِیبٌ ہر قدم پر مجھے قریب پاؤ گے۔

فَأَیْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ.

(البقرة، 2: 115)

پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)۔

اللہ رب العزت کا قرب اگر ہم چاہیں ہمیں چاہئے کہ ان دونوں شرطوں کو پورا کریں کہ پھر سچے دل سے حضور ﷺ کا سوالی بن جائیں اور ساری تلاش کے سفر ختم کر دیں۔ بس ایک ہی تلاش رہ جائے اور وہ اللہ والی تلاش ہے۔ یہ بڑے بڑے اولیاء کرام، حضرات، درویش جنہوں نے اللہ کو پایا وہ بس اللہ کی تلاش سے پایا۔

ولایت کے بلند درجے یہ بہت تسبیحات پڑھنے سے نہیں ملتے۔ بہت زیادہ نفل پڑھنے سے نہیں ملتے۔ ٹاٹ اوڑھ لینے سے بھی نہیں ملتے۔ جنگلوں اور غاروں میں جاکے لنگوٹے کس کے بیٹھ جانے سے بھی نہیں ملتے۔ ان اللہ کا قرب اور اس کی معرفت اور اس کی دوستی، اس کی ولایت، اس کا کرم اس کی تلاش سے نصیب ہوتا ہے۔ جو آدمی اللہ کا جتنا متلاشی ہے بس اتنا پالیتا ہے۔

ایک شخص کا بیٹا گم ہو جائے یا اس کی کوئی اور انتہائی محبوب ترین شے اور وہ اس کی تلاش میں نکلا ہوا ہو۔

راستے میں کوئی آئے اور کہے ذرا آئیں دعوت ہے کھانا کھائیں۔ اس کا کھانے کو دل چاہے گا؟ میرا تلاش میں برا حال ہے تمہیں اپنی دعوتوں اور کھانوں کی پڑی ہوئی ہے۔ وہ کہے گا جب تک جس کی تلاش ہے وہ نہ ملے میں دوسری بات کہاں سے سنو۔ جب مل جائے تو خوشی سے دیوانہ ہو جاتا ہے پھر بھی کوئی بات کان میں نہیں پڑتی اب محبوب مل گیا ہے۔ جس کی چاہت تھی، مل گئی ہے جس کی تلاش تھی وہ مل گیا ہے اب بھی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔

پہلے ہر شے سے مستغنیٰ تھا کیونکہ تلاش غالب تھی۔ اب جس کی تلاش تھی وہ مل گیا اب باقی کی کیا پرواہ ہے۔ تو یہ اول سے آخر تک ہر شے سے پانے سے پہلے بھی مستغنیٰ ہے۔اور پانے کے بعد بھی مستغنی ہے۔ اسے حاجت پہلے بھی اللہ کی تھی بعد میں بھی اللہ کی ہے۔

جب دنیا کی تلاش انسان کو اتنا دیوانہ کر دیتی ہے اور باقی ہر شے کو بھلا دیتی ہے تو سوچیں جس کو رب کی تلاش ہو جائے اس کا حال کیا ہوگا۔ ایک ایک لمحہ، ایک ایک پل کیسے گزرتا ہے اور ہمارا وقت تو آرام سے اس لیے گزر رہا ہے کہ ہمیں وہ تلاش کی آگ نہیں لگی۔ اس لئے آرام سے سوتے ہیں۔ آرام سے اٹھتے ہیں۔ آرام سے کھاتے پیتے ہیں اس طرح میاں محمد صاحب کا شعر ہے۔

عشق جناں دی ہڈی رچیا
ملدیوی روندے وچھڑے وی روندے
روندے ٹردے راہواں

تلاش کا سلیقہ سیکھنا ہے تو حضور ﷺ کے سوالی بن جاؤ۔ بس تلاش کا طریقہ بھی آ جائے گا۔ جس کی تلاش ہے وہ بھی مل جائے گا۔ اللہ کی تلاش کے طریقے حضور ﷺ کے صحابہ سے سیکھیں۔ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت بلال سے طریقے سیکھیں۔ ان سب نے حضور ﷺ سے سیکھے ہیں پھر دیکھو فانی قریب کیا رنگ بنتا ہے پھر دوریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ بندہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔ اللہ بندے کے قریب ہوتا ہے اور پھر اتنا قریب ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو پھر سمجھ ہی نہیں آتی۔ اللہ تبارک و تعالی ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے۔ ہمیں حضور ﷺ کا سچا سوالی بنا دے اور اپنی سچی صدق والی تلاش عطا کر دے۔ اپنی صدق والی تلاش عطا فرمائے۔