بعد از کربلا سفرِ شام: صبر، شجاعت و عظمتِ اہلِ بیت

سماوہ سلطان

حدیثِ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین رقم کرد و دیگر زینب

روزِ عاشور جب حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو ان کی ہمشیرہ سیدہ زینب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، "اے میرے اللہ! یہ قربانی ہم سے قبول فرما"۔ پھر امام حسین کی لاش پر کہنے لگیں:

’’اے محمد ﷺ یہ آپ کی بیٹیاں ہیں جو اسیر ہوکر جارہی ہیں۔ یہ آپ کے فرزند ہیں جو خون میں ڈوبے زمین پر گرے ہوئے ہیں، اور صبح کی ہوائیں ان کے جسموں پر خاک اڑا رہی ہیں! یہ حسین ہے جس کا سر پشت سے قلم کیا گیا اور ان کی دستار اور ردا کو لوٹ لیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کے خیموں کی رسیاں کاٹ دی گئیں! میرا باپ فدا ہو اس پر جو نہ سفر پر گیا ہے جہاں سے پلٹ کر آنے کی امید ہو اور نہ ہی زخمی ہے جس کا علاج کیا جاسکے! میرا باپ فدا ہو اس پر جس پر میری جان فدا ہے؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کو غم و اندوہ سے بھرے دل اور پیاس کی حالت میں قتل کیا گیا؛ میرا باپ فدا ہو اس پر جس کی داڑھی سے خون ٹپک رہا تھا! میرا باپ فدا ہو جس کا نانا رسول خدا ﷺ ہے اور وہ پیامبر ہدایت ﷺ ، اور خدیجۃالکبریؑ اور علی مرتضیؑ، فاطمۃالزہراؑ، سیدۃ نساء العالمین کا فرزند ہے، میرا باپ فدا ہو اس پر وہی جس کے لئے سورج لوٹ کے آیا حتیٰ کہ اس نے نماز ادا کی۔‘‘ (بحار الانوار)

جب تمام لشکرِ حُسین شہید ہو گیا تو مردوں میں صرف امام زین العابدین بچ گئے چونکہ وہ شدید بیمار تھے اس لیئے جنگ کا حصہ نہیں بنے۔ ان کے ساتھ صرف مستورات رہ گئی تھیں۔ شامِ غریباں سے سیدہ زینب بنت علی کا امتحان شروع ہوا۔ اپنے بھائیوں، بیٹوں اور بھتیجوں کی پرُدرد شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے بہادری اور صبر کی جو مثال قائم کی اس کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔

یزیدی لشکر نے عمر ابنِ سعد کے حکم پر سادات کے خیموں کو آگ لگا دی، اس وقت بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے سب کو خیموں سے باہر نکالا، امام زین العابدین نقاہت کی وجہ سے نیم غنودگی میں تھے وہ خود باہر نہیں جا سکتے تھے تو تب بھی بی بی زینب نے ان کو جلتے خیموں سے بچا کر باہر نکالا۔ اب آلِ نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کّھلے آسمان تلے آگئے۔

رات ہوئی تو ثانیِ زہرا خود پہرے پر آ گئیں۔ وہ کتنی باہمت اور شجاعت والی تھیں، کہ اتنا سب دیکھنے کے بعد بھی وہ پورے وقار اور حوصلے کے ساتھ سب کی محافظ بن کر، عَلم تھامے علمدار بن کر کھڑی تھیں۔ یوں تمام رات انہوں نے پہرہ دیا، اس ایک رات میں زینب سلام اللہ علیہاعلی بھی تھیں، حُسین بھی اور عباس بھی۔اسی لئے ان کو 'جبلِ صبر' یعنی صبر کا پہاڑ کہا جاتا ہے۔

اگلی صبح تمام سادات کو اسیر کیا گیا کیونکہ یزید کا حکم تھا کہ ان کو قیدی بنا کر شام میں لایا جائے۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ راستے میں جگہ جگہ رکتے ہوئے آئیں، ہر جگہ یزید کی جیت کا جشن ہوگا۔ اب پابند رسن ہو کر سب اونٹ پر سوار ہوئے اور سامنے نیزوں پر مبارک سروں کو چڑھایا گیا۔

یہ تکلیف دہ سفر چلتا رہا اور جہاں جہاں قافلہ رکتا وہاں جشن کا سما ہوتا، کچھ لوگ جانتے تھے کہ یہ کون ہیں اور کئی بے خبر بھی تھے جنہیں بس یہی بتایا گیا تھا کہ یہ کچھ باغی ہیں اور ان کے خاندان والے۔

سارا ماحول بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ عظمت و ہمتِ اہل بیت کا اندازہ کر سکیں کہ کن مشکل ترین حالات میں کیسے وہ صبر، شکر اور شجاعت کا پیکر بنے رہے۔ یہ وہ ہیں جو دونوں جہاں کے مالک و مختار ہیں اس کے باوجود تکالیف سے کس شان سے گزرے۔

پہلے یہ قافلہ کوفہ میں عبید اللّہ ابن زیاد کے دربار میں پہنچا۔ یہاں سب اسیر ابن زیاد کے سامنے پیش ہوئے اور نیزوں سمیت سر بھی وہاں رکھے گئے۔ یاد رہے کہ دربار پہنچنے سے قبل تمام کوفہ شہر میں ان سروں اور اسیروں کو پھرایا گیا۔ اب اتنی اذیت کے بعد جب ابنِ زیاد کے سامنے یہ سب کھڑے کئے گئے تو اس نے حکم دیا کہ عوام بھی دربار میں داخل ہو سکتے ہیں، تو کئی لوگ جمع ہو گئے، دربار بھر گیا۔ اب یہاں اہل بیت، خاص طور پر سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی بہادری اور جرات ہم سب کے لیے ایک بہترین مثال ہے کہ عورت ہوتے ہوئے نہ وہ ڈری اور نہ ہی جھکی، انہوں نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو کس ہمت سے آگے پہنچاہا۔ اب حال یہ ہے کہ خود اسیری کی حالت میں ہیں، اپنا سارا کنبہ کھو چکی ہیں، اپنے پیاروں کے سروں کو نیزوں پہ دیکھ رہی ہیں، ظالم کے روبرو پیش ہیں، اور کوفی تماشائی بنے کھڑے ہیں، ایسے میں جنابِ سیدہ نے ابنِ زیاد کے ساتھ جو مناظرہ کیا وہ تاریخ کا سب سے مضبوط مناظرہ ثابت ہوا۔

ابن زیاد نے کہا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔‘‘

تو بی بی زینب نے بلند آواز میں فرمایا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازا اور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔‘‘

ابنِ زیاد بولا: دیکھ لیا کہ اللہ نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟

تو بنتِ علی نے فرمایا: اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کے مقدر میں اللہ تعالی نے قتل ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کریں گے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے۔

سیدہ کا خطبہ سن کر دربار میں موجود کوفی نادم و پشیمان ہونے لگے اور ابن زیاد پر لعنت کرنے لگے تو ابن زیاد غصے میں آکر بولا، "یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور سجع اور قافیے میں بات کرتا تھا".

بُشر بن خُزیم اسد جو اس دربار میں موجود تھا، جناب زینبؑ کے خطبے کے بارے میں روایت کرتا ہے کہ اس دن میں زینب بنت علیؑ کو سن رہا تھا، خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح فصیح و بلیغ نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک غضبناک لہجے میں فرمایا: "خاموش ہوجاؤ"! تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گردن میں باندھی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔

اب ابنِ زیاد نے اسی میں اپنی خیر جانی کہ اس قافلے کو جلد از جلد شام میں یزید کے پاس بھیجا جائے کیونکہ کوفہ کے لوگوں میں بغاوت پیدا ہو رہی تھی۔

اس وقت شام (دمشق) میں یزید کی حکومت کافی مضبوط تھی۔ اس نے جشن کا حکم دے رکھا تھا اور شامیوں نے اس روز نئے کپڑے پہنے، راستوں کو سجایا، ڈھول باجے بجائے، کسی میلے کا سا ماحول بنا دیا گیا تھا تاکہ اس خوشیاں مناتے ہوئے ہجوم میں سے آلِ نبی ﷺ کا قافلہ گزے اور ان کی اذیت میں اضافہ ہو۔ پھر بابِ سعد پر تیس گھنٹے ان کو کھڑا رکھا تاکہ دربار پہلے خوب سجایا جا سکے اور یزیدی فتح کا جشن پورا ہو جائے۔ جب اسیران دربار یزید میں داخل ہوئے تو وہ بھی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یزید ایک تخت پہ بیٹھا شراب نوشی کر رہا تھا، ایسے ماحول میں وہ پاک ہستیاں یہاں داخل ہوئیں۔ وہاں یزید کی مدح سرائی کی جا رہی تھی۔ اتنے میں امام سجاد (زین العابدین) ابنِ حسین نے تقریر کرنے کا مطالبہ کیا جسے فوراً یزید نے رد کر دیا۔ لیکن دربار میں موجود تمام لوگ سننا چاہتے تھے کہ امام نے کیا بات کرنی ہے انہوں نے یزید سے اصرار کیا کہ ان کو بولنے دیا جائے مجبوراً اس کو یہ بات ماننا پڑی۔

پابند سلاسل میں جو سجاد نہ ہوتا
یہ دین کبھی قید سے آزاد نہ ہوتا

اب ذہن میں رکھیں کہ امام سجاد کئی دن سے بیمار ہیں، پاؤں میں بیڑیاں ہیں، گلے میں طوق ہے، ہاتھوں میں زنجیر ہے، نحیف ہیں اور بہت غم اٹھا رہے ہیں، لیکن جب وہ بولے تو ایسے کہ گویا امام علی علیہ السلام بول رہے ہوں! ہمت، جلال، دلیری، شجاعت سے بھر پور خطبہ دیا۔

آپ علیہ السلام نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

"اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔ لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری سات فضیلتیں یہ ہیں، خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ﷺ ہم سے ہیں۔امیرالمؤمنین علیؑ ہم سے ہیں۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اورمہدی امت ہم سے ہیں۔

لوگو! (اس مختصر تعارف کے بعد) جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں"۔

یہ تو مختصر سا تعارف تھا، جس کے بعد امام نے اپنا تفصیلی تعارف دینا شروع کیا۔ آپ نے فرمایا:

"لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں"

اس بات کا کیا مطلب ہوا؟ پہلے یہ بات سمجھ لیتے ہیں پھر امام کے خطبے کا اگلا جملہ دیکھیں گے۔ یہاں مناسکِ حج کا بیٹا ہونے سے ایک تو یہ مراد ہے کہ وہ اس قدر عبادات کے عادی اور واقف ہیں کہ گویا وہ حج کے ہی بیٹے ہوں۔ بیٹا تو باپ سے قریب ہوتا ہے، انس و محبت رکھتا ہے، احترام کرتا ہے اور باپ بھی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے۔ یعنی عبادات خود امام علیہ السلام سے محبت رکھتی ہیں۔ حج سے وہ مانوس ہیں ایسے کہ وہ آپ کے وجود میں ہے۔ کیونکہ یزید تو امام حسین علیہ السلام پر بغاوت کا الزام لگائے ہوئے تھا اور کہتا تھا کہ یہ دین سے خارج ہیں تو اس بات کے جواب میں امام زین العابدین نے یہ جملہ کہا کہ ہم ہی تو ابنِ مکہ و منیٰ ہیں، ہم ہی تو اصل دین ہیں۔

اس جملے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مناسکِ حج حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسبت سے ہیں تو امام علیہ السّلام کا خاندان ابراہیم علیہ السلام کی ہی تو اولاد ہے۔ یعنی جن کی وجہ سے مناسک حج بنے وہ انہی کے تو اجداد ہیں۔

پھر امام نے اپنا خطبہ یوں جاری رکھا کہ:

"میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا، میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں، میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے، میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، میں ان کا بیٹا ہوں جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی، میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃالمنتہی تک لے گئے۔ میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر، میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛میں محمد مصطفی ﷺ اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں"

یہاں تک تو امام نے حضرت محمد ﷺ کے ساتھ اپنی قرابت ظاہر کی تو اب آگے امام علی کے ساتھ نسبت اور پھر شامیوں کو ان کا رتبہ بتانا بھی بہت ضروری تھا۔ تو امام نے بہترین انداز میں شانِ علی بیان کی۔ آپ نے فرمایا:

"میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول ﷺ کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ ( ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی"

پہلے اس جملے کا معنی واضح کر دوں، اس کے بعد امام سجاد کے خطبے کی طرف واپس آئیں گے۔ یہاں "دو تلواروں" سے ایک تو مراد یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت محمد ﷺ نے مولا علی کو منات (ایک بت) کو توڑنے کا حکم دیا۔ امام علی نے اسے توڑا اور پھر اس سے منسلک چیزیں لا کر حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیں۔ ان میں دو تلواریں بھی تھیں۔ حضور ﷺ نے وہ دونوں تلواریں امام علی کو دے دیں۔

دوسرا، دو تلواروں سے مراد یہ بھی ہے کہ امام کی تلوار "ذوالفقار" دو دھاری تھی۔ اس جملے کا تیسرا مطلب یہ بھی ہے کہ غزوہ احد میں امام علی کی ایک تلوار ٹوٹ گئی تو نبی کریم ﷺ نے دوسری تلوار دی جس سے انہوں نے جنگ کی۔

اب آگے اسی جملے میں "دو ہجرتوں" کا ذکر آیا ہے، اس سے مراد پہلی ہجرت تو مکہ سے مدینہ کی ہے لیکن دوسری ہجرت سے مراد شعبِ ابی طالب کی طرف ہجرت بھی ہو سکتی ہے، اور یا پھر مدینہ سے کوفہ کی طرف ہجرت مراد ہے۔

پھر امام سجاد نے "دو بیعت" لینے کا ذکر کیا، اس سے مراد پہلی بیعت، بیعت رضوان تھی جو صلح حدیبیہ کے موقع پر امام علی نے حضور ﷺ سے کی اور دوسری بیعت فتح مکہ کے بعد کی گئی۔

اب واپس امام سجاد کے خطبے کی طرف آتے ہیں، آپ نے مزید فرمایا:

بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زیادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، مسلمانوں کے امیر، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد ﷺ) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔ میرے دادا وہ ہیں جن کو جبرائیل ؑ کی تائید و حمایت اور میکائیل ؑ کی مدد و نصرت حاصل ہے، شیر دلاور، اوراس امت کے دو سبطین "حسن و حسین ؑ کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ میں فاطمہ زہراؑ کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں"۔

یہاں پر جبرائیل اور میکائیل کی حمایت میں جنگ بدر کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ حضرت امام حسنؑ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے جنگ بدر میں پرچم حضرت علیؑ کے دست مبارک میں دیا اور جبرئیل آپ کے دائیں طرف اور میکائل بائیں طرف سے آپ کی ہمراہی کر رہے تھے۔

روایت میں آتا ہے کہ جب امام زین العابدین نے اتنی بار "انا، انا، (میں) کہا اور اپنا اتنا تفصیلی تعارف کروایا تو دربارِ شام میں لوگ رونے لگ گئے اور یزید کو برا بھلا کہنے لگے۔ اس سب سے گھبرا کر یزید نے اذان دینے کا حکم دیا تاکہ امام اپنا خطبہ روک دیں۔

مؤذن نے کہا:

الله أکبر الله أکبر.

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا، "خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے".

مؤذن نے کہا:

أشهد أن لاإله إلا الله.

امام نے فرمایا: ’’میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘

مؤذن نے کہا:

أشهد أن محمدا رسول الله.

امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اے مؤذن! تمہیں اسی محمد ﷺ کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد ﷺ میرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ﷺ میرے نانا ہیں تو بتاو کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟

عابد کا وہ جلال تھا دربارِ شام میں
حاکم یہ پوچھتا تھا کہ بیمار کون ہے

بس اس کے بعد یزید آگے آ کھڑا ہوا اور نمازِ ظہر پڑھنے لگا۔ لیکن لوگ درہم برہم ہوگئے اور یزید کے خلاف بولنے لگے۔ ایک یہودی بھی وہاں موجود تھا، امام کا خطبہ سن کر یزید سے مخاطب ہوا کہ، خدا کی قسم اگر ہمارے نبی موسی کی کوئی اولاد ہمارے پاس ہوتی تو ہمارا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پرستش کی حد تک احترام کرتے۔ لیکن تم لوگ! تمہارا نبی کل اس دنیا سے چلا گیا ہے اور آج ان کی اولاد پر حملہ آور ہوئے ہو اور اسے تہ تیغ کر ڈالا ہے؟ افسوس ہو تم لوگوں پر!

اتنے میں یزید نے ایک چھڑی لانے کا حکم دیا اور پھر امام حسینؑ کا سر اپنے ساتھ رکھوایا اور ان کے ہونٹوں پر وہ چھڑی پھیرنے لگا، وہاں ایک صحابی رسول بھی تھے، یہ دیکھ کر رونے لگے اور یزید سے کہا، اے یزید! کیا تو اس چھڑی سے فرزند فاطمہ کے دندان مبارک پر مار رہا ہے؟ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم حسینؑ اور ان کے بھائی حسن کے لبوں اور دندان مبارک کو بوسہ دیتے اور فرماتے تھے کہ تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو جو تمہیں قتل کرے خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لیے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔

یزید نے ان کو دربار سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔ اتنے میں بی بی زینب سلام اللہ علیہا بلند آواز میں بولی۔

"سب تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم ﷺ پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت پر۔ اما بعد! بالآخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا۔

اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دیے ہیں اور رسول کی آل کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر در بدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے۔ اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بھلائی ہے، ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادتی کریں، اور ان کے لیے خوار کرنے والا عذاب ہے۔

اے طلقاء کے بیٹے!کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔

اے یزید! یاد رکھ کہ خدا، آل رسول پاک کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالا مال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردے نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے ہاں سے رزق دیے جاتے ہیں۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بد نام لوگوں نے رحمن کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ہے۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

تو (یزید) جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔ تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔ تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔ تیری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستم گر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے۔"

یہاں لفظ بہ لفظ خطبہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب اندازہ کر سکیں، کہ وہ کیا کردار ہے، کیا عزم تھا کہ اس حالت میں بھی یہ الفاظ ادا ہوئے۔ ان دونوں خطبات نے امام حسین علیہ السلام کے مقصد کو مکمل کر دیا۔ یہ جو آج تک ہم کربلا سے واقف ہیں یہ انہی خطبوں کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔

پھر زندانِ شام میں ان کو قید کر لیا گیا۔ اور بہت عرصہ وہاں قید رکھا گیا۔ لیکن اہلِ بیت نہ ڈرے اور نہ ہی جھکے، نہ ہی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے۔

یہاں تو صرف دو خطبات و مناظرات کو تفصیلاً بیان کیا ہے لیکن ہر ایک کا عمل، اپنی جگہ عظیم ترین تھا۔ جیسے امام حسین علیہ السلام کی چار سالہ بیٹی سے جب یزید نے پوچھا کہ بتاؤ یہ سب کیسا لگا تو انہوں نے فرمایا، قیامت کے دن ہم تم سے پوچھیں گے کہ بتاؤ کیسا لگ رہا ہے۔ یعنی کمسنی میں اتنے غم دیکھنے کے بعد بھی ان کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ حق کیا ہے۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا کردار ہم سب عورتوں کے لئے ایک مثال ہے۔ ہم نے ان سے قیادت سیکھنی ہے، مشکلات سے گزرنا سیکھنا ہے، حق کے لیے آواز بلند کرنا دیکھنا ہے۔ اور اگر ہم صحیح معنوں میں بی بی زینب کے پیروکار ہیں تو ہم کیوں "مضبوط عورت (strong/empowered women) کے کانسیپٹ کو تسلیم نہیں کرتے!

کربلا سے لے کر شام تک اور شام سے دوبارہ مدینہ تک، صرف درس ہی درس ہیں، مردوں کیلئے، عورتوں کیلے، بچوں کے لیے، صبر کا درس، بہادری کا، رضائے الٰہی کی طلب کا، اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بنانے کا۔۔

اہل بیت سے محبت تب پوری ہوگی جب ہم اپنی زندگیوں میں ان کو عملی طور پر شامل کرنا شروع کریں گے۔

الھم صلی علی محمد و آل محمد

لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت پر۔