حقوق و فرائض کے باب میں مرد و خواتین برابر ہیں

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

زوج کا معنی و مفہوم:

وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.

(النساء، 4: 1)

اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔

قرآن مجید نے جب لفظ جُوڑ استعمال کر لیاتو جُوڑ برابری کو کہتے ہیں۔ زوج کا لفظ میاں بیوی کے لیے خاص نہیں ہے۔ اِس کا معنی صرف جوڑ ہے، ایک جیسے، یکساں، خواہ سو فیصد similar ہوں۔ جیسے دو بچے جُڑواں پیدا ہوتے ہیں وہ زوج ہیں۔ خواہ وہ دونوں بیٹے ہوں، خواہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ اگر برابری نہ ہو تو زوج استعمال نہیں ہوتا۔ اس طرح پودے بھی زوج ہیں۔ جانور بھی زوج ہیں، انسان بھی زوج ہیں۔ ایک مرد ہے اور ایک عورت تو زوج ہے۔ دونوں مرد ہوں تب بھی زوج ہیں۔ ایک بکرا، ایک بکری یہ بھی زوج ہوجائیں گے۔ دو مرد ہیں وہ بھی زوجین یعنی جوڑا ہیں۔ دو عورتیں ہیں تب بھی جوڑا ہیں تو کسی قسم کا جُوڑا جس کو قرین (ساتھی) کہتے ہیں۔ اُس کو زوج کہتے ہیں۔

اب قرآن مجید نے بیوی کے لیے لفظ زوج کا استعمال کیا ہے، یہ اُس خیال کو تقویت دے دیتا ہے کہ یہاں یکسانیت اور برابری ہے۔ تفریق نہیں ہے، تخلیقی حیثیت میں برابری ہے، صلاحتیں جداجدا ہیں مگر برابری ہے یہ زوج کا لفظ ہے۔

لفظ زوجہ کا تحقیقی جائزہ:

لفظ زوج سے عموماً بیوی کے لیے زوجہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر مرد ہے تو زوج ہو گیا اور عورت زوجہ ہو گئی۔

عربی لغت کا ایک قاعدہ ہے جس چیز کو تأنیث کے طور پہ لیں۔ اُس میں ایک ہلکا سا اشارہ کم تری کا ملتا ہے۔ اعلیٰ عربی لغت میں زوج کی مونث زوجہ نہیں دیتے۔ چونکہ اُس میں ایک ہلکا سا اشارہ سننے والے کے ذہن میں جاتاہے جیسے تھوڑی سی کوئی چیز کم ہے اور مذکر کے طرف جاتاہے تو وہ تھوڑا زیاد ہ اونچاہے۔ اُس میں فوقیت بنتی تھی۔

اگرچہ زوجہ کی جمع زوجات بنتی ہے اور زوج کی جمع عربی میں ازواج ہے۔ جیسے کہ آقا علیہ السلام کی اُمہات کے لیے عام طور پر ازواج مطہرات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر زوجات مطہرات کا لفظ متداول نہیں۔ حالانکہ لغت کے اعتبار سے زوجات جائز لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زوجہ کا لفظ پورے قرآن مجید میں استعمال ہی نہیں کیا۔ جہاں بھی جس خیال میں بھی آیا ہے زوج کہا یا ازواج، چونکہ اِس کا اطلاق مذکر مؤنث دونوں پر ہوتا ہے۔ ہر چیز جس کو ڈبل کر دیں تو اُس میں زوج کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ اس سے عورت کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں عورت کے لیے لفظ زوج کا استعمال:

قرآن مجید نے انسانی تاریخ میں جب پہلی مرتبہ زوج کا لفظ استعمال کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَقُلْنَا یَٰٓـَادَمُ سْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ لْجَنَّةَ.

(البقرة، 2: 35)

اے آدم !تم اور تمہاری بیوی اِس جنت میں رہائش رکھو۔

جب انسانیت کے اندر پہلی جُوڑی بنی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُسکو بھی زوج کہہ کر خطاب کیا کہ آپ اور آپ کی زوج جنت میں سکونت اختیار کریں۔

پھر قرآن مجید میں فرمایا۔

وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ.

(الذاریات، 51: 49)

ہم نے ہر چیز کے جُوڑے بنائیں۔ یعنی ہر چیز برابر برابر کرکے دو دو بنائی ہے۔

نباتات کے اندر بھی مذکر مؤنث ہوتے ہیں۔ اُن کے بھی جُوڑے بنائیں۔ فرمایا۔

أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّی.

(طٰہٰ، 20: 51)

جتنی مختلف سبزیاں، پھل اور نباتات ہیں ایک دوسرے سے ملتے جلتے وہ بھی جُوڑے جُوڑے بنائے ہیں۔ جانوروں کا بھی ذکر کیا تو فرمایا۔

ثَمَانِیَةَ أَزْوَاجٍ.

(الأنعام، 6/143)43)

جانوروں کے آٹھ قسموں کے جُوڑے بنائے ہیں۔

جنت کے طبقات کا ذکر کیا فرمایا۔

وَکُنْتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً.

(الواقعة، 56/7)

تین ملتے جلتے طبقات ہوں گے۔

اللہ پاک نے قرآن مجید چونکہ جو لفظ استعمال کیا وہ زوج کا ہے۔

وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.

(النساء، 4: 1)

اُس میں سے اُس کا زوج بنایا تو زوج خود بخود تخلیقی فطرت یا فطری تخلیق دونوں اعتبار سے برابر اور ایک جیسا بنایا ہے ساری خوبیاں اللہ پاک نے پیدائشی طور پر اس میں ڈال دی ہیں۔ چونکہ یہ جُوڑا ہے۔ اب اِس کا تعلق sex کے ساتھ ضروری نہیں کہ میل ہے یا فی میل ہے۔ نہیں۔ اِس کے بعد پھر فرمایا۔

وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا کَثِیرا وَنِسَآء.

(النساء 4: 1)

پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق)کو پھیلا دیا۔

پھر کثرت کے ساتھ مرد اور عورتیں بنائی ہیں۔ چار مرحلوں پر برابری اور یکسانیت کی بات چلی آرہی ہے پانچویں جگہ پر جاکر مرد اور عورت کا نام لیا ہے۔ اِس سے اُس کی تخلیق کا اندازہ ہوتا ہے۔

مردو زن کی برتری کا معیار جنس کی بجائے سیرت و کردار ہے:

قرآن میں ہے کہ

یَٰٓأَیُّهَا لنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَٰکُم مِّن ذَکَرٖ وَأُنثَیٰ وَجَعَلْنَٰکُمْ شُعُوبا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَیٰکُمْ.

(الحجرات، 49: 13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔

ہم نے تم میں سے مرد بھی بنائے ہیں اور عورتیں بھی بنائی ہیں۔ اِس میں تخلیق کا ذکر کیا ہے۔

درج بالا آیت میں تین اہم نکات بیان ہوئے ہیں پہلے تو تخلیق کا ہے مرد اور عورت کو تخلیق کیا۔

اب مرداور عورت کی تخلیق کے ذکرکے ساتھ قبائل اور خاندان کو بنانے کا ذکرکیا۔ اب اِن دونوں میں ایک معنوی ربط ہے۔ قرآن مجید اگر ایک آیت، مضمون یا ایک جملہ بیان کرے اور اُس کے کئی جُز ہوں ہوتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتاکہ اُن اجزاء کے درمیان معنوی ربط اور مناسبت نہ ہو بلکہ ہمیشہ آیت کریمہ کے اندر جو چند اجزاء ہوتے ہیں۔ اُن کے درمیان بھی ایک معنوی ربط ہوتا ہے۔ ربط بین الآیات بھی ہوتا ہے، آیت کا آیت کے ساتھ معنیٰ میں ربط ہوتا ہے اور ایک آیت کے اندر اگر کئی معانی ہوں تو اُن کے درمیان بھی ایک ربط ہوتا ہے، کوئی بات، کوئی جُز دوسرے سے بے جُوڑ نہیں ہوتا۔ اب فرمایا کہ ساتھ ہی ہم نے شعوب اورقبائل بنائے۔

تاکہ تم ایک ددسرے کی پہچان کر سکو۔ اِس آیت کریمہ کا جو جُز ثانی ہے کہ قبائل کو پیدا کیا تاکہ پہچان کر سکو۔ برتری کے لیے نہیں۔

علت بیان کر دی۔ یہ الگ الگ قبیلے تمہارے بنائے ہیں۔ جیسے کوئی چوہدری ہیں، کوئی آرائیں ہیں، کوئی اعوان ہیں، کوئی ملک ہیں، کوئی گُجر ہیں، کوئی جٹ ہیں، کوئی سیال ہیں جتنے قبائل اور شعوب تمہارے اندربنائے ہیں۔ وہ اِس لیے نہیں کہ تم ایک دوسرے پر برتری کا دعویٰ کرو۔ اِس لیے بنائے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔

اب اس جز میں برتری کا انکار کردیا ہے۔ ظاہری طور پر تو قبائل کے ذکر میں بات آئی ہے مگر اشارۃً مرد اور عورت کی تخلیق میں بھی اِسی طرف اشارہ جا رہا ہے کہ وہ برتری کا دعویٰ کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اُن کے کام الگ الگ ہیں اور عورت کے یہ کام ہیں ذمہ داریاں ہیں۔ اس لیے مقصد یہ ہے کہ ذمہ داریاں مشترکہ بھی ہیں اور متفرق بھی ہیں۔

اب یہاں نہ تو کوئی بڑا ہے اور نہ چھوٹا بلکہ مرد کی حیثیت provider کی ہے اور عورت Manager ہے۔ ایک کا گزارا ایک دوسرے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اِس کو زوج کہتے ہیں۔ اب provide صرف مہیا کرنے والا ہو مگر اُس کا اچھا Manager نہ ہو تو اُس کا کچھ سارا برباد ہوجائے گا، اگر Manager ہوتو اُس کو provide کرنے والا نہ ہو تو کسی چیز کو Manageکرے گی تو دونوں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔

ان کے اندر چونکہ سیرت و تقویٰ اور کردار کی وجہ سے برتری ہے اس کے لیے مردوں کی برتری مردوں میں دیکھنی چاہیے۔ مزید فرمایا: برتری جنسی بنیاد اور قبائل نہیں۔ برتری اخلاق، سیرت وکردار کی بنیاد پر ہے۔ یہ قرآن مجید نے ایک بڑا واضح پیغام دے دیا کہ انسانیت اور صلاحیتوں میں وحدت ہے مگر اللہ رب العزت نے جنسی برتری کے تصور کو اِس آیت کریمہ میں متعارف نہیں کرایا۔ عام طور پہ جب مرد سوچتا ہے تو مرد بن کر سوچتا ہے تو پھر ایک سوچ یا ایک کلچر، ایک روایت جو منتقل ہوئی ہے اُس سے ایک تصور بن گیا ہے۔ جبککہ قرآن مجید نے اور آقا علیہ السلام نے اس فکر کو متعارف نہیں کروایا۔

مرد و عورت کے اندر سیرت وتقویٰ اور کردار کی وجہ سے برتری ہے تو مردوں کے اندر بھی برتری ہے۔ فرمایا: مردوں کی برتری مردوں میں دیکھو۔ عورتوں کی برتری عورتوں کے اندر دیکھو اور مردوں اور عورتوں میں بھی برتری دیکھنی ہے تو سیرت وکردار، تقویٰ پرہیزگاری میں دیکھو۔ جنس کی بنیاد پر نہیں۔ یہ معاشرتی مقام ہے کہ معاشرے میں مقام برابری کا ہے۔ گھر میں مقام برابری کا ہے۔ عزت اور تکریم میں کسی کا فرق نہیں۔

اللہ پاک نے ایسے ہی نظام بنایا ہے۔ جیسے فرمایا۔

اَلرِّجَالُ قَوَّٰمُونَ عَلَی لنِّسَآءِ.

(النساء، 4: 34)

مرد عورتوں کے محافظ اور کفیل ہیں۔

عورت اور مرد کی تخلیق میں یکسانیت (قرآن و حدیث کی روشنی میں):

یَٰٓأَیُّهَا لنَّاسُ تَّقُواْ رَبَّکُمُ لَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٖ وَٰحِدَةٖ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا کَثِیرا وَنِسَآء.

(النساء، 4: 1)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق)کو پھیلا دیا۔

دوسرا مقام پر فرمایا۔

یَٰٓأَیُّهَا لنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَٰکُم مِّن ذَکَرٖ وَأُنثَیٰ وَجَعَلْنَٰکُمْ شُعُوبا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَیٰکُمْ.

(الحجرات، 49: 13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی یہ جس نے مرد اور عورت دونوں کو پیدا کیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے ایک ہی طریق کار سے سب کو پیدا کیا یعنی ایک ہی جان سے انسان کو تخلیق کیا۔ تیسرا یہ کہ تخلیق کا مصدر اور جگہ بھی ایک ہے تو معاشرتی مقام بھی ایک ہے۔ گویا اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ سے عورت کی تخلیق سے متعلق اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ انسان کے اندر کچھ صلاحیتیں فطری طور پر رکھ دی جاتی ہیں۔ اب چونکہ مرد اور عورت کی تخلیق کا طریقہ کار مصدر ایک ہے تو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں کی صلاحیتوں میں جبلی طور پر یکسانیت پائی جاتی ہوگی۔

لہذا عورت کا معاشرتی مقام اس کی فطری تخلیق سے اِس طرح جُڑا ہوا ہوتا ہے کہ اللہ پاک اُس کی فطرت میں صلاحتیں، خصلتیں، خوبیاں، قابلیت تخلیقی اعتبار سے رکھ دیتا ہے، اگر اُن کو اگر موقع ملتاہے تو وہ پروان چڑھتی ہیں اور معاشرے میں اُس کے مقام کو متعین کرتی ہیں۔ مگر کبھی معاشرہ یا رسم ورواج، روایات اور سوسائٹی اُس کی اُن تخلیقی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے نشوونما پانے کا موقع نہیں دیتا۔ جس کی وجہ سے ان کی صلاحتیں دب جاتی ہیں۔ پھر وہ اپنا وہ کردار جو اُسے پلے کرنا چاہیے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُسے تخلیق کیا ہے ادا نہیں کرسکتی۔ جب یہ صورت پیدا ہوجائے تو پھر تحریکیں، جیسے تحریک منہاج القرآن اور اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اُن کی دبی ہوئی صلاحتیوں کو بروئے کار لائے اور اُن کو بحال کرنے کے لیے محنت کوشش اور تگ ودو کریں۔ تاکہ عورت کی فطری تخلیق میں جو صلاحتیں تھیں وہ بحال ہوں اور اُنہیں نکھرنے کا موقع ملے اوروہ اپنے اُس کردار کو انجام دینے کے قابل بن سکیں جو اللہ رب العزت نے متعین فرمایا ہے۔

مرد عورتوں کے محافظ اور کفیل:

اُس سے مراد جنسی برتری نہیں ہے۔ قوام تو قائم کرنے والا۔ اُس کا نظام فراہم کرنے والا۔ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری عورت کی ہے۔ یہ ایک ربط اور جُوڑ ہے۔ اب اگر برتری ہے تو وہ ہر ایک کی سیرت وکردار سے ہے۔ اب اُس کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا:

یَٰمَرْیَمُ إِنَّ اللهَ صْطَفَیٰکِ وَطَهَرَکِ وَصْطَفَیٰکِ عَلَیٰ نِسَآءِ لْعَٰلَمِینَ.

(آل عمران، 3: 42)

اے مریم!بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کرلیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہاں کی عورتوں پر برگزیدہ کردیا ہے۔

اللہ پاک نے آپ کو چن لیا اور آپ کو کمال درجے طہارت، پاکیزگی عطا کردی۔ تو اِس آیت میں دو خوبیاں پہلے بیان کر دیں۔ اِس کی وجہ سے آپ پوری دنیا روئے زمین کی عورتوں پر فضیلت پا گئیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اُن کی فضیلت اور برتری کو عورتوں کے اندر ہی بیان کیا۔ مردوں کی فضیلت و برتری عورتوں کے اوپر بیان نہیں کی۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر:

وَأَوْحَیْنَآ إِلَیٰٓ أُمِّ مُوسَیٰٓ.

(القصص، 28: 7)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف لفظ وحی کا استعمال کیا۔ وہ پیغمبر نہیں تھیں۔ جس میں احکام شریعت کی وحی آتی ہے جس سے نبوت ثابت ہوتی ہے اور جس پروحی ہو وہ نبی ہو جاتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نبی نہیں تھی مگر فرمایا۔ یعنی ہم نے الہام کیا تو گویا وحی اور الہام کا ایک فیض ہے۔ وہ بھی عورت کوعطا کیا ہے۔ اب اِس سے اونچا درجہ کائنات میں اور کیا ہوسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ جس پر الہام فرمائے اور خود اپنا الہام لفظ وحی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ذکر کرے، براہ راست اللہ پا ک بات کرے۔ اللہ کی براہ راست بات سے بڑی فضیلت اور عظمت کا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔

حضرت آسیہ کا ذکرکیا۔ فرعون کی اہلیہ کافرمایا۔

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلا لِّلَّذِینَ ءَامَنُواْ مْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ بْنِ لِی عِندَکَ بَیْتا فِی لْجَنَّةِ وَنَجِّنِی مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِی مِنَ لْقَوْمِ لظَّٰلِمِینَ.

(التحریم، 66: 11)

اور اللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجۂ فرعون (آسیہ بنت مزاحم)کی مثال بیان فرمائی ہے، جب اس نے عرض کیا: اے میرے رب! تو میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دے اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عملِ (بد)سے نجات دے دے اور مجھے ظالم قوم سے (بھی) بچا لے۔

بڑی دلچسپ بات ہے۔ اللہ نے ایمان والوں کے لیے ایک حضرت آسیہ بنت مزاحم مثال دی ہے۔ تاکہ اُن کا ایمان مضبوط ہو، اُن کا اللہ پہ بھروسہ ہو، اُن کا کردار، سیرت، تقویٰ، اللہ کے ساتھ مضبوط ہو۔ ان ایمان والوں میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔

دین میں برتری جنس کی بنیاد پر نہیں ہے۔ برتری سیرت وکردار کی بنیاد پر ہے ورنہ سب برابر ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو خوبیاں دی ہیں اورجو رول دیا ہے۔ اُس رول کے لیے اِن کی حوصلہ افزائی زیادہ درکار ہے۔ چونکہ عورت میں اللہ تعالیٰ نے جو خوبیاں نمایاں رکھی ہیں۔ اُن میں محبت، شفقت، رحمت، پیار دینے کا عنصر زیادہ ہے۔ اِس میں اللہ تعالیٰ نے اِس کی فطری تخلیق میں اور تخلیق فطرت میں دونوں زاویوں میں اللہ تعالیٰ نے اِس کو فراوانی دی ہے۔ لہذا چونکہ اِس میں یہ خوبی بہت زیادہ ہے تو باپ کو چاہیے اور معاشرے کو چاہیے کہ اِسی کثرت کیساتھ محبت اور پیار کے ساتھ بیٹیوں کو ردعمل بھی دیں۔ یعنی جو چیز اللہ نے اُن میں زیادہ رکھی ہے اُسی کے مقابلے میں اُسی گوشے کے ساتھ اُن کو جواب دیں۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام واقعہ سورۃ کہف میں بیان ہوا ہے۔ پہلے کشتی توڑنے کا اور دوسرا اُس بچے کو مارنے کا اور اُس کی جگہ پاکیزہ بیٹی ملی جو اُس کے لیے زیادہ رحمت کا باعث ہے۔ جو اُس کے لیے زیادہ محب اور مشفق ہے۔ قرآن مجید نے بطور خاص عورت کی جنس میں اِس خوبی کو نمایاں کیا ہے۔ آپ ہر ایک باپ سے پوچھیں بیٹے بھی اولاد ہے اور بیٹیاں بھی اولاد ہیں اور پوتے بھی اولاد ہیں اور پوتیاں بھی اولاد ہیں، نواسے بھی اولاد ہیں، نواسیاں بھی اولاد ہیں مگر آپ دیکھتے ہیں کہ بیٹی زیادہ پیار اور محبت کے ساتھ پیش آتی ہے، زیادہ پیار دیتی ہے، زیادہ سکون مہیا کرتی ہے، پیار اور محبت کیا ہے؟یہ سکون دیتا ہے۔ یہ بندے کے غم کو دور کرتا ہے، راحت دیتا ہے۔

اطاعت بھی ردعمل ہے، ادب بھی ایک رد عمل ہے، تابعداری بھی ردعمل ہے، اتباع کرنا بھی ردعمل ہے، فرمانبرداری بھی ردعمل ہے، یہ سارے اچھے ردعمل ہیں مگر اِن ردعمل کے اندر محبت، شفقت، پیار، اور قربانی ہے، محبت قربانی دیتی ہے۔ یہ عنصر عورت کے اندر غالب ہے اور وہ بیٹی کو ملاہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب وہ بیٹی کسی کی بیوی بنتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اُس میں ارشاد فرمایا کہ اِس لیے دونوں کے درمیان مودت رکھی ہے تاکہ تمہیں اُن سے سکون ملے۔ اگر محبت کی فراوانی نہ ہو تو سکون نہیں ملتا۔ جب باغ میں جاتے ہیں، پھولوں میں جاتے ہیں تو اُس کی خوبصورتی ہے اس کے اندر ایک امن ہے، سکون ہے اور راحت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی محبت کی دراصل پودوں، باغات اور کلیوں کی شکل میں شان مظہریت ہے، رحمت اور محبت انسان کے اخلاق کی خوبصورت ترین شکل ہے اگر انسان کے اخلاق کے سارے پہلوؤں کو لے لیں اور دیکھیں سب سے زیادہ خوبصورت پہلو کونسا ہے وہ رحمت و شفقت اور محبت ہے۔ یہ اخلاق میں سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ سارے اخلاق پھر اِسی سے نکلتے ہیں۔ رحمت، شفقت اور محبت ہو گی تو آپ مسکرائیں گے۔ رحمت، شفقت اور محبت ہو گی تو آپ سخی بنیں گے کسی کو دیں گے۔ رحمت، شفقت، محبت ہو گی تو کسی پر احسان کریں گے، رحمت، شفقت، محبت ہوگی تو کسی کے دکھ بانٹیں گے اور جتنے اچھے اخلاق کی شاخیں ہیں وہ ساری رحمت اور محبت سے نکلتی ہیں تو اخلاق میں سے خوبصورت ترین خُلق رحمت اور محبت ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایاکہ اگر تمہاری اولاد ہے، بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی ہیں، پوتے بھی ہیں اور پوتیاں بھی ہیں تو اولادمیں برابری کیا کرو۔ تحفہ دیتے ہوئے، پیارے کرتے ہوئے، اُن کو وقت دیتے ہوئے، برابری کرو۔

(الطبرانی، المعجم الکبیر، 11: 354، الرقم: 11997)

بیٹیاں آتش جہنم سے بچانے کا وسیلہ:

فلو کنت مفضلا أحدا لفضلت النساء.

(الطبرانی، المعجم الکبیر، 11: 354، الرقم: 11997)

اگر مجھے انتخاب کرنا ہوتا کہ میں اولاد میں برابری نہ کروں۔ کسی کو اوّل درجے میں ترجیح دینی ہو تو فرمایا کہ میں بیٹیوں کو فضیلت دیتا۔ آقا علیہ السلام نے اُمت کو اشارہ دیا اولاد میں برابری کرو اور ترجیح دینی ہو تو بیٹیوں کو ترجیح دو۔ چونکہ وہ محبت اور پیار کا چشمہ ہوتی ہیں۔ اُن کے دل آپ کے لیے دھڑکتے ہیں۔ وہ آپ کی خدمت کرتی ہیں۔

متفق علیہ حدیث ہے اِ س لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹیاں عطا کرے وہ تمہیں بیٹیاں دے کر آزمائے۔ آقا علیہ السلام نے یہاں اُن کوخطاب کیا۔ جنہیں اللہ صرف بیٹیاں دیتا ہے۔ ہمارے کلچر میں بیٹیوں کی نعمت کی قدر نہیں ہے، اِس کلچر کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کے ذریعے خطاب کیا۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا۔ تم میں سے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو صرف بیٹیاں دے تو سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں آزمایا ہے۔ اِس چیز سے آزمایا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بیٹیاں دے اور پھر وہ شخص اُن کے لیے پھر احسان کا رویہ رکھے۔ حق ادا کرے، اُس طرح جیسے بیٹوں کو پالنا تھا۔ اُس سے بڑھ کر بیٹیوں کو پالے، پرورش کرے، تعلیم و تربیت دے، نیک و صالح بنائے، اُن کا مستقبل بنائے، جس نے ایسا کیا۔ فرمایا:

کن له سترا من النار.

(صحیح البخاری، کتاب الزکاة، 2: 514، الرقم: 1352)

قیامت کے دن وہ بیٹیاں اس کو دوزخ میں گرنے سے بچانے کے لیے دیوار بن جائیں گی۔ بیٹیاں کتنی بڑی نعمت ہیں۔ یہ کلمہ بیٹوں کے لیے ارشاد نہیں فرمایا۔ دین پڑھنے پڑھانے والوں نے، سمجھنے والوں نے، دین کا پرچار اور تبلیغ کرنے والوں نے اس پہلو پر روشنی نہیں ڈالی۔ جس کے نتیجے میں رد عمل کے طور پہ آزادی نسواں کی بات کی گئی ہے۔

فرمایا کہ وہ آپ کے لیے دوز خ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔ اس لیے کہ اُن کے اندر غالب عنصر محبت، رحمت اور شفقت کا ہے۔ بیٹے بھی ہوں گے، بیٹیاں بھی ہوں گی مگر بیٹیاں گوارا نہیں کر سکے گی کہ ہمارے باپ یا دادا یا نانا ہیں وہ دوزخ میں جائیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے رحمت و محبت کا سرچشمہ بیٹیوں کو بنایا ہے۔

پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا۔ جس کو اللہ تعالیٰ دو بیٹیاں دے اور وہ دو بیٹیوں کو پالے، تربیت کرے، پرورش کرے تو قیامت کے دن

جاء یوم القیامة أنا وهو وضم أصابعه.

(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والأداب، 4: 2027، الرقم: 2631)

آقا علیہ السلام نے اپنی دو اُنگلیاں اوپر کھڑی کرکے فرمایا۔ جس کو اللہ بیٹیاں دے اور بیٹا نہ دے اور وہ پوری محبت کے ساتھ، شفقت کے ساتھ اُن بیٹیوں کی تربیت کرے تو قیامت کے دن میں اور وہ شخص اِس طرح آئیں گے کہ جیسے یہ دو اُنگلیاں جُڑی ہوئی ہیں۔ میں اُس کو اپنے ہاتھوں کے ساتھ جُوڑ کر اپنے جسم کے ساتھ لگا کے پھر اُنگلیوں کو جُوڑا۔ فرمایا اِس طرح اکٹھے آئیں گے میں اُس کو اپنے سے جدا نہیں کروں گا۔ جس نے بیٹیوں کی خوبصورت پرورش کی ہے اور اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔ یعنی افسوس نہیں کیاکہ مجھے بیٹا نہیں ہوا۔ اُن کو نعمت سمجھا ہے۔ اس کے لیے فرمایا:

وَمِنْ ءَایَٰتِهِٓ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَٰجا لِّتَسْکُنُوٓاْ إِلَیْهَا.

(الروم، 30: 21)

اور یہ(بھی)اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑ ے پیدا کیے تاکہ تم اُن کی طرف سکون پاؤ۔

اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اِس لفظ پر زور دیا ہے تاکہ تمہیں اُن سے سکون ملے۔ یہ تو ان کا مقام ہے۔ اگر وہ اِس مقام کو نہیں نبھاتیں، اس وجہ سے کہ ماں باپ، فیملی، سکول، معاشرے نے انہیں ان کے فرائض و ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ان کا مزاج بگاڑ دیا تھا۔ حقوق اور فرائض میں توازن کسی نے نہیں سکھایا تھا۔ اِس کی وجہ سے وہ شادی کے بعد شوہر کو سکون نہیں دے پا رہی۔ اب ذرا دوسرے زاویے کو بھی دیکھ لیں۔

اگر عورت سے سکون نہیں مل رہا تو اِس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو مقصد تھا، عورت کو جس نعمت سے مالا مال کیا تھا۔ اس نے وہ کو پورا نہیں کیا۔ فرمایا۔

بیٹی ہو تو اُس سے ماں باپ کو سکون ملے، بیوی ہو تو شوہر کو سکون ملے، ماں ہو تو اولاد کو سکون ملے، بہن ہو تو بھائیوں کو سکون ملے اور سوسائٹی میں کام کرے تواُس کی سوسائٹی میں اوراُس کے ساتھیوں کو سکون ملے اُس کے اداروں کو سکون ملے۔ یعنی عورت کو اللہ رب العزت نے محبت، الفت، امن، سکون اور دیکھ بھال کا ذریعہ بنایا ہے۔ وہ جس حیثیت سے جہاں بھی ہو، اُس سے سکون حاصل ہونا چاہیے، مگر ہمارے معاشرے کی خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اِس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ کئی سکون دیتی ہیں، کئی نہیں دیتی، جیسے کئی مرد حق ادا کرتے ہیں۔ کئی نہیں کرتے، یہ خرابی اور اچھائی دونوں طرف ہوتی ہے۔ اِس میں بیلنس پیدا کرنے کی ضرورت ہے، شوہر جب شام کو گھر آتا ہے اور اُس کو سکون نہ ملے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زوجیت کا مقصد فوت ہو گیا۔ اکٹھا ہونے کا مقصد فوت ہوگیا۔

وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّة وَرَحْمَةً.

(الروم، 30: 21)

اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔

باہمی مودت و محبت باہمی رشتہ ہے۔ یہ ہونا چاہیے۔ اگر محبت اور رحمت ایک دوسرے کو نہیں مل سکتی اور اِس کو شیئر نہیں کرسکتے تو زوجیت کا مقصد بھی ادا نہیں ہوتا۔ فرمایا۔

هُنَّ لِبَاس لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاس لَّهُنَّ.

(البقرة، 2: 187)

وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔

دونوں ایک دوسرے کے لیے ساتر ہیں، ایک دوسرے کے مدرگار ہیں۔ ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔ ایک دوسرے کا پردہ ہیں اور ایک دوسرے کی زینت ہیں۔ لباس کے بہت سے معانی ہیں۔ گویا ساری فیملی مرد اور عورت دونوں کے صحیح رول سے خوبصورت بنتی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.

(النساء، 4: 19)

اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔

لہذا خواتین آقا علیہ السلام کے زمانہ اقدس میں اور آج بھی دور جدید میں معاشرے میں وہ کردار ادا کیاہے جس کی وجہ سے وہ معاشرے کی تأسیسی اور بنیادی اکائی بن گئی ہے۔

وجود انسانی کی معمار۔ عورت:

کرہ ارضی پر یہ جو انسانی کائنات آباد ہے یہ مرد کی وجہ سے نہیں بلکہ عورت کی مرہون منت آباد ہوئی ہے۔ اگر حضرت حوا علیھا السلام نہ ہوتیں تو آدم علیہ السلام کو کس نے جنت سے زمین پر بھیجنا تھا اور کیوں بھیجنا تھا؟ اور وہ زمین پر نہ آتے تو انسانی نسل کہاں سے چلنی تھی۔ زمین کا انسانی زندگی کے آباد ہونا کا وسیلہ بھی حضرت حوا بنیں۔ حضرت حوا نہ ہوتیں تو حضرت آدم علیہ السلام جنت میں رہنے کو ترجیح دیتے۔ دنیائے انسانیت کی آبادی بھی خاتون کی مرہون منت ہے۔

انبیاء و رسل کی دعوتی سرگرمیوں میں عورت کا کردار:

اب اگر ہم تاریخ انبیاء کو دیکھیں تو اللہ رب العزت نے وحی کے ذریعے ہمیں انبیاء کی تاریخ سے روشناس کرایا ہے ذیل میں اسی کے تناظر میں چند انبیاء کی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن کی نبوت کو پروان چڑھانے اور دعوتی سرگرمیوں میں خواتین کا کردار نمایاں رہا ہے مگر ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ قرآن کو اس زاویہ نگاہ سے پڑھا ہی نہیں جاتا چونکہ ہمارا معاشرہ مرد کی ہر حال میں برتری کا خواہاں ہے۔ جہاں عورت کا رول نمایاں ہو گا وہ چیزیں یا انہیں نظر نہیں آئیں گی اور اگر آجائیں گی تو بیان کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ذیل میں چند انبیاء کرام کی حیات مبارکہ سے مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن کی زندگیوں میں خواتین کا کردار نمایاں ہے۔

تاریخ انسانی کی پہلی ہجرت میں مساوات مردو زن:

حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ ہود میں آیا ہے جب ان کی قوم میں کفر، ظلم، طاغوت، انکار حق بہت بڑھ گیا تو اللہ رب العزت نے انھیں ایک کشتی تیار کرنے کا حکم دیا انھوں نے ایک کشتی تیار کی۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو سوال ہوا کہ اب اس میں کون سوار ہوں گے؟ اس سفر میں شریک کون ہوگا؟ یعنی ظلم کے خلاف ایک ہجرت کا سفر ہورہا ہے، نقل مکانی ہورہی ہے، کون کرے گا؟ اس پر رب العزت نے فرمایا:

قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ.

(ھود، 11: 40)

ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جنس میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو۔

یعنی فرمایا گیا کہ سارے جوڑے جوڑے برابری کے ساتھ نر اور مادہ اس میں سوار کرائیں اور لے کے چلیں۔ تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ جانور الگ تھے، اس پہلی ہجرت میں کل 80 افراد شامل ہوئے اور مساوات کا عالم یہ تھا کہ 40 مرد تھے اور 40 عورتیں تھیں۔ پہلے سفر میں عورتوں کی نمائندگی مردوں کے بالکل برابر ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں یہ کم کیوں ہوگئی ہے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ اب مذہبی طبقہ فکر سے دیکھنے والے عورت کی نمائندگی کو کم کیوں دیکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول کا پہلا سفر ہے اور اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ ہر جوڑے کو برابر تعداد میں لے کے چلو۔ یہی اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں کہ مرد و عورت کی مساوی نمائندگی ہونی چاہیے اس کے بغیر سوسائٹی کی بقاء ناممکن ہے۔

حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کا کردار:

ارکان حج میں صفا مروہ کی سعی ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا ان ارکانِ حج کی تشکیل و تکمیل بھی خاتون کے مرہون منت ہے۔ اگر خاتون کا کلیدی کردار نہ ہوتا ہو تو حج بھی نہیں ہو سکتا تھا اب یہ بات بظاہر حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ خواتین کی اتنی بڑی شان کیسے ہوگئی کہ خاتون کے بغیر حج کے ارکان ہی مکمل نہیں ہوتے اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اور وہ کون خاتون جن کی مرہون منت یہ سب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ خاتون حضرت سیدہ ہاجرہؓ ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ان کے معصوم بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کے بے آب و گیاہ ریگستان میں جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی درخت تھا، نہ سایہ تھا اور نہ کھانے پینے کا سامان تھا۔ قرآن مجید میں ہے:

رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ.

(ابراھیم، 14: 37)

اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل) علیہ السلام کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے۔

گھر اس وقت بنا نہیں ہوا تھا، جب طوفان نوح ختم ہوا۔ وہ ایک ٹیلہ سا تھا بعد ازاں جب کھودا گیا تو اس میں کعبۃ اللہ نکلا۔ یہاں حضرت ہاجرہؓ و حضرت اسماعیلؓ آ کے آباد ہوئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام تو معصوم بچے تھے۔ حضرت ہاجرہؓ نے شہر مکہ آباد کروایا۔ قبائل آتے آپ اُن کو آباد کرواتیں۔ یہ مکہ شہر جس میں کعبۃ اللہ بنا اس شہر کی آبادی کا سہرا ہی خاتون کو حاصل ہے، پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی تو آپ علیہ السلام نے ایڑیاں رگڑیں اور حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑیں تو صفا و مروہ دو پہاڑیاں تھیں سات چکر لگائے اُن کے سات چکر لگانے سے یہ کعبہ کا طواف کے بعد حج کا رکن بن گیا۔ حاجی جو سعی کرتے ہیں وہ حضرت حاجرہؓ کی دوڑنے کی سنت پوری کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اُس ایک خاتون مقدس کے اس ایک عمل کو اتنا محفوظ کیا۔ اُس کو حج کا حصہ بنا دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ عورت کے کردار کے بغیر کبھی حج کی تکمیل نہ ہوتی۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا: کہ یہ بھی ہماری ماں ہاجرہؓ کا ہمارے اوپر احسان ہے اگر وہ پانی کے چشمے کو زَم زَم نہ کہتیں تو پانی چلتا رہتا اور ساری زمین پانی سے بھر جاتی۔ گویا جزیرئہ عرب اور انسانوں کو اُس پانی میں ڈوبنے سے خاتون نے بچایا۔ یہ ایک historical contribution ہے، اسلام کے حوالے سے recognition ہے اور یہ پوری چیز صحیح بخاری میں درج ہے۔

حضرت سارہ علیھا اسلام:

قرآن مجید کی سورۃ ہود میں۔ ملائکہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیوں پر عذاب کے لیے آئے اور قرآن مجید میں آتا ہے:

وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً.

(هود، 11: 70)

اور (اپنے) دل میں ان سے کچھ خوف محسوس کرنے لگے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام ابتداً سمجھے کہ شاید میری قوم کے لیے آئے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو انسانی، بشری تقاضوں کے پیش نظر۔ تھوڑا سا خوف محسوس ہوا فرشتوں نے کہا گھبرائیں نہیں ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لیے آئے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے:

وَامْرَاَتُـه قَآئِمَةٌ فَضَحِکَتْ.

(هود، 11: 71)

اور ان کی اہلیہ (سارہ پاس ہی) کھڑی تھیں تو وہ ہنس پڑیں۔

اب اُس ایک event میں فرشتوں کا آنا، عذاب کی بات سننا یہ ساری چیزیں ایک خوف کی کیفیت پیدا کرتی ہیں مگر اُن کی جوانمردی، جرات مندی اور کردار کی مضبوطی دیکھئے کہ وہ اُس situation میں ہنس رہی ہیں۔ یہ اُن کی کے کردار کی جرات ہے کہ قرآن مجید نے اس کیفیت کو بھی بیان کیا کہ ایسی جوانمرد خواتین تھیں جن کی سنگت نے انبیاء کے مشن کو مکمل کروایا۔

حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کو بیٹے کی بشارت:

حضرت سارہ کے پاس اللہ رب العزت کی طرف سے فرشتہ آیا اور بشارت دی کہ آپ کا بیٹا اسحاق ہو گا اور پھر اُن کا بیٹا یعقوب ہوگا۔

قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ بشارت حضرت (باپ؍ شوہر) کو نہیں دی بلکہ بیوی کو دی ہے، یہ اس لیے کہ اللہ رب العزت کے کلام کے پیچھے ایک مقدس مقصد ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت خاتون کے وجود کو بلند کررہے ہیں۔ یہ کیوں کررہے ہیں؟ تاکہ جس قرآن میں ذکر ہورہا ہے اس امت میں خواتین کی اس حیثیت اور اس مقام کا اعتراف کیا جائے اور وہ سمجھیں کہ ہر نبی کی زندگی میں اُن کا مشن جو کامیاب ہوا ہے اس میں قرآن کے کہنے کے مطابق خاتون کا رول ہے اور یہ کردار آج بھی اسی طرح اگر ادا ہو تو یہ پیغمبرانہ سنت ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام:

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو چھوٹے بچے تھے، آپ کے والد کا نام موسیٰ بن عمران اور آپ کی والدہ کا نام یَخَابَضْ؍ یُخَابَضْ آیا ہے۔ جب بچپن میں موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو خطرہ ہوا کہ فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کروا دے گا تو یہاں اللہ رب العزت مخاطب باپ حضرت عمران کو نہیں کیا بلکہ حضرت یُخَابَضْ کو کیا (حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو۔ ) اللہ تعالیٰ نے پیغام القاء کیا ہے وہ والد کو بھی ہو سکتا ہے مگر والدہ کو کیا ہے۔ والدہ کے کردار کو اہمیت دی، اجاگر کیا اور نمایاں کیا جارہا ہے۔ فرمایا:

وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی.

(القصص، 28: 7)

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو پیغام بھیجا کہ گھبرائیں نہیں آپ دودھ پلاتی رہیں۔ اور جب آپ کو خطرہ محسوس ہو کہ فرعون کو پـتہ چل گیا ہے تو پھر آپ اس کو صندوق میں ڈال کے دریائے نیل میں ڈال دینا۔

فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ.

(القصص، 28: 7)

انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتحال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا۔

یہاں اس ایک مقام پر تین خواتین کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے کسی مرد کا ذکر نہیں کیا۔

پہلا کردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا۔ دوسرا کردار فرعون کی زوجہ (حضرت آسیہ بنت مزاحم) کا۔

جب صندوق محل کے قریب پہنچا تو یہاں قرآن مجید فرعون کا ذکر نہیں کرتا کہ فرعون نے کیا کہا، کیسا صندوق ہمارے محل کے پاس آیا ہے، اس میں کیا ہو گا؟ اُس نے بھی تو کوئی بات کی ہو گی۔ قرآن مجید میں اس بات کو بیان نہیں کیا گیا اور جو خاتون (حضرت آسیہ) نے بات کی اس کو قرآن کی آیت بنایا۔

وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ.

(القصص، 28: 9)

اور فرعون کی بیوی نے (موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر)کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لیے ٹھنڈک ہے۔

اب بیٹا گود میں ہے اور خاتون کہہ رہی ہے کہ شاید ہمیں اس سے فائدہ پہنچے، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں۔ یہاں تک دو خواتین کا ذکر آیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور فرعون کی زوجہ کا۔

تیسرا کردار اسی مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہمشیرہ کا ہے۔

آپ کی ہمشیرہ کا نام بھی حضرت مریم تھا۔ مگر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہیں یہ اور ہیں۔

وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ ز فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا یَشْعُرُوْنَo

(القصص، 28: 11)

اور (موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لیے) ان کے پیچھے جاؤ سو وہ انہیں دور سے دیکھتی رہی اور وہ لوگ (بالکل)بے خبر تھے۔

اُن کی بہن کو کہا کہ تمہاری ڈیوٹی یہ ہے کہ پیچھے اطراف سے چھپ چھپ کے دیکھتے رہنا، یہ بچہ دودھ کسی اور کا نہیں پیئے گا، جب وہ پریشان ہو جائیں کہ کسی کا دودھ نہیں پیتا اور تڑپیں تم بتا دینا کہ میں ایک خاتون کا تمہیں پتہ بتاتی ہوں شاید اُس کا دودھ پی لے تو اس کی ماں اس بہانے پہنچا دی جائے گی۔ اس ایک مقام پر تین کردار بیان ہوئے ہیں اور تینوں کردار خواتین کے ہیں۔

  • جب موسیٰ علیہ السلام مصر سے گئے ہیں اور کچھ عرصہ پناہ لینے کے لیے، بالآخر چشمے پہ پہنچے ہیں جہاں ہجوم تھا جانوروں کو پانی پلایا جا رہا ہے اور لوگ پانی بھر بھر کے لے جا رہے ہیں۔ وہاں بھی دو خواتین کا ذکر آیا ہے پہلے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں پانی بھرنے کے لیے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیوں نہیں پانی بھرتیں؟ اب وہاں اُن کے وقار کا ذکر آیا ہے کہ وہ اتنی پروقار شخصیت کی مالک تھیں کہ فرماتی ہیں کہ مردوں کا ہجوم ہے۔ ہم اس ہجوم میں نہیں آتیں، جب وہ فارغ ہو جائیں گے تو ہم بعد میں پانی بھر لیں گی۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اُن کو پانی بھر کے دیا۔ پھر وہ گئی ہیں پھر قرآن نے ذکر کیا ہے۔

وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ. (القصص)

اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں۔

پھر اُن کا زیرک ہونا، ان کا احتیاط برتنا، اُن کی ذہانت، اُن کی common sense کا ذکر کرتی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے رویے سے وہ دیکھ کر کہتی ہیں کہ ہمیں بڑا پرہیزگار، نیک اور صالح انسان لگتا ہے۔ وہ پھر ان کو اپنے والد کے پاس لے گئیں۔

  • حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے والد نہیں تھے۔ لہٰذا پورا اکردار اُن کی والدہ حضرت مریم کا آتا ہے۔ یہاں خواتین کے کردار کے حوالے سے ایک اور بہت شاندار بات کہ قرآن مجید کی 114 سورتیں ہیں، اُن میں سے 2 سورتوں کے نام خاتون کے نام پر رکھے گئے ہیں ایک سورۃ النساء اور ایک سورۃ مریم۔ باقی رہ گئیں 112 ان میں سے ایک سورت بھی مرد کے نام پر نہیں رکھی گئی۔ چونکہ اُس معاشرے میں قرآن نازل ہو رہا ہے جہاں خواتین کے کردار کو متعارف ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ بچی پیدا ہو تی تو اُسی وقت دفن کر دیتے، عورت وراثت کا مال تھی۔ اُس کے حقوق نہیں تھے، اس کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ایسی سوسائٹی تھی وہاں ضرورت تھی کہ اللہ رب العزت حضور علیہ السلام پر جو وحی اتاریں تو وحی میں عورت کی عزت و احترام، اس کے کردار، عورت کے مقام کو اتنا اجاگر کریں کہ سوسائٹی کا mindset بدل جائے۔

کوئی سورت النساء کے ساتھ الرجال پہ نہیں ہے۔ مریم کے ساتھ کسی اور مرد کے نام پر یا الرجل کے نام پر نہیں۔ ہاں سورۃ الانسان ہے۔ انسان تو سب کے لیے برابر ہے۔ عمران وہ پیغمبر ہیں، پیغمبر کو exclude کر دیا ہے۔ سورۃ الانبیاء بھی ہے۔ جب نبی ہیں تو نبی کو exclude کر دیا، اُس کو مرد اور عورت کے موازنے میں نہیں لاتے۔ اللہ تعالیٰ نے جو ابنیاء بھیجے ہیں وہ اُن کا معاملہ ہے۔ آل عمران فیملی کو کہتے ہیں۔ جس میں بیٹے اور بیٹیاں ہوں۔ عمران کے نام پہ نہیں ہے آل عمران میں فیملی میں بیٹے بیٹیاں سارے شامل ہیں۔