نسل نو کی تربیت میں اساتذہ کا کردا ر

سمیہ اسلام

استاد قوم کا محسن بھی ہوتا ہے اور معمار بھی۔ استاد وہ عظیم ہستی ہے جس کا مقام بہت بلند ہے استاد نونہالان وطن کی تعلیم کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ استاد کی وجہ سے ایک باشعور اور تعلیم یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ استاد بچوں کو جہالت کے گڑھے سے نکال کر علم کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ استاد ہی نوجوانوں کو علوم و فنون سے روشناس کرواتا ہے۔ درس و تدریس انبیاء کی وراثت ہے۔

اگر ہم قرآن پر نظر ڈالیں تو انبیاء کا کام بتایا گیا ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کا سنوارنے، انہیں حق و باطل کی تمیز سکھا نے ،ان کو مقصد زندگی سے روشناش کرانے اور انھیں کائنات کے خالق ومالک اور حاکم کی معرفت دلانے کے لیے تشریف لائے تھے۔ خود نبی ﷺ نے اپنا تعارف بحیثیت معلم کرایا اور فرمایا انما بعثت معلما ـ(میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں)۔ اگر ہم سیرت نبوی پر اس نقطہ نظر سے نظر ڈالیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے جس انداز میں اپنے اصحاب کی تربیت فرمائی انہیں ایک بڑے مقصد کے لیے تیار کیا وہ خالص معلمانہ انداز ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہے اور میں اس کا غلام ہوں چاہے تو مجھ کو آزاد کر دے یا رکھ لیں۔ الغرض استاد کے مقام و مرتبہ کو لے کر تو کوئی دوسری رائے ہی نہیں ہے اور اس کے مرتبہ کو جتنا بیان کیا جائے کم ہے۔

جسمانی اور مادی ترقی اور نشو و نما کی ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے جسے وہ بخوبی انجام دیتے ہیں ، لیکن روحانی اور فکری ارتقا کی ذمہ داری، جو کہ شخصیت کا اہم جز ہے، استاد کی ہے۔ استاد جن خوبیوں اور صلاحتوں کا حامل ہو گا اسی قدر اس کے طلبہ اور شاگردوں کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شخصیت کے بنانے اور سنوارنے میں اساتذہ کی ضرورت ہے؟ کیا استاد کے بغیر تربیت نہیں ہو سکتی ؟اس کا بڑا آسان سا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک باغ میں کچھ پودے اور پیڑ خود ر و ہوتے ہیں اور کچھ کوباقاعدہ لگایاجاتا ہے اور مالی ان کی نشوو نما پر خاص نظر بھی رکھتا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود رو پیڑ پودوں کی باغ میں کو ئی اہمیت اور وقعت نہیں ہوتی، لیکن جو پیڑ پودوں پر مالی کی خاص نظر ہوتی ہے ان کی بڑی اہمیت ہو تی ہے اور پھر وہی پیڑ پودے پھلتے پھولتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ بلاشبہ وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کام یاب شخص تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہوتاہے۔ ہم اگر امت مسلمہ کے ماضی میں دیکھیں تو ایسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں روشن مثالیں ملیں گی جن میں اساتذہ نے محنت و مشقت اور خلوص و ہمدردی کے ساتھ اپنے طلبہ کی تربیت کی، بعد میں انہی طلبہ نے بڑے علمی و فکری اور عملی کار ہائے نمایاں انجام دیے۔

حقیقی معلم اپنے شاگردوں سے شفقت و محبت اور نرمی سے پیش آتا ہے۔ وہ ان کوڈرانے و دھمکانے کے بجائے اپنی ذات سے مانوس کرتا ہے۔ جو سوال وہ کریں اس کا جواب شفقت سے دیتا ہے۔ کلاس روم میں وقت پر پہنچتا ہے اوروقت پورا ہونے پر ہی کلاس چھوڑتا ہے اور خواہش مند بچوں کو کلاس کے علاوہ بھی وقت دیتا ہے۔ان کی تعمیر سیرت کی بہت فکر کرتا ہے۔ ان کے دلوں میں ایمان، خوف خدا اور اتباع شریعت، آخرت کی جو اب دہی کا احساس اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے ذہنوں سے تمام آلودگیوں کو دور کرنے اور دین کے بارے میں اغیار کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے، ان میں حمیت اور ایثار و قربانی کے جذبات بیدار کرتا ہے۔ اپنے طلبہ کی سیرت سازی کی خاطر خود بھی دین و شریعت کی پابندی کرتا ہے۔ پھر ایک اچھا استاد اپنے طالب علموں کے دلوں میں مقصد اور نصب العین کی لگن پیدا کرتا ہے، ان کو بیکار مشاغل سے اجتناب کرنے اور اسلام کو سر بلند کرنے کی لگن سے سر شار کرتا ہے۔ وہ ان کو دنیا سے بے نیازی اور مادیت پرستی سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے، کیونکہ جو علم صرف تلاشِ معاش اور تن آسانی کا ذریعہ بن جائے، وہ آستین کا سانپ ہے او رجو علم دل و نگاہ کو پاک صاف کرے وہی اصلی علم ہے۔ ایک اچھے معلم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے شاگردوں کو محنت کا عادی بنائے۔ قانون قدرت کے تحت جھولی اسی کسان کی بھرتی ہے جو اپنا خون پسینہ ایک کردے۔ آج کاہلی، سستی، ضیاع وقت اور کام کو ٹالنے کی عادت ہماری امتیازی خصوصیت بن چکی ہے۔ نتیجہ کے طور پرتعلیم و تعلم کا معیاربہت گر چکا ہے، چنانچہ شاگردوں کے دلوں میں محنت کی عظمت راسخ کرنا اور انھیں جانفشانی سے کام کرنے کاعادی بنانا استاد کے لیے بہت ضروری ہے۔

ایک اچھے معلم کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ کو صوبائی ولسانی تعّصبات سے نکال کر ان کے ذہنوں کو اسلامی اخوت سے آشنا کرے۔ اچھا استاد وہ ہے جو خود تخلیقی صلاحیت رکھتا ہو اور آگے یہی صلاحیت وہ اپنے شگردوں کو بھی منتقل کرے۔ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا استاد مسلسل محنت سے اپنے کام میں لگا رہتا ہے وہ اپنے شاگردوں میں بھی یہ عادت راسخ کر دیتا ہے۔

موجودہ دور میں معلم کو طلبہ کے سامنے خود کو منوانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ اگر معاشرے کو درست کرنا ہے تو ہمیں بنیاد پریعنی استاد کے رول پر توجہ دینی ہو گی۔ ہمارے اساتذہ کو ٹیم پلیئر اور ٹیم لیڈر کا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہونا ہو گا۔ استاد کو اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ روحانی والدین کا لفظ کتابوں میں تو اچھا لگتا ہے مگر وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اب استاد کو اپنا بنیادی کردار نبھانا ہو گا۔ اگر استاد آج خود کو رول ماڈل کے کردار میں ڈھال لیں تو طلبہ خود بہ خود فالوور کے رول میں ڈھل جائیں گے۔ کوئی قوم تب طاقت ور ہوتی ہے جب وہ وقت ضرورت منتشر ہجوم نہیں بلکہ مربوط قوت کے طور پر سامنے آئے۔ ایک قوم نا قابل شکست قوت تب بنتی ہے جب اسے اپنے کردار کا ادراک ہو۔ ہر میدان میںکام یابی کی ضمانت کے لیے ہمارے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہو گا۔

مسلمان معلم پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں: ایک تو وہ جو محض معلم ہونے کے ناطے ان کے لیے ضروری ہے۔دوم وہ جو مسلما ن معلم ہونے کی بنا پر ہیں۔ بنیا دی طور پر ہر معلم معمارِقوم ہوتا ہے۔وہی ہر وقت نسلِ نو کی تربیت کرتا رہتا ہے اور ان کو مختلف علم وفنون پڑھا تاہے،ذاتی نمونہ و کردار سے ان کی تربیت کرتا رہتا ہے۔حتیٰ کہ تمدن کے تمام شعبوں کوسنبھالنے والے مردان ِ کار استا د ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔چاہے وہ مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہوں یا عدلیہ کو چلانے والے،وہ وکیل ہوں یا انجینئر، ڈاکٹرہوں یا پروفیسر،وہ فوج میں ہوںیا پولیس میں۔بہر حال ہر کوئی زندگی کے جس شعبہ میں کام کررہا ہے وہ اپنے استاد کی تربیت کا عکس ہوتا ہے۔ انسان سازی میں اگرچہ نصابِ تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر اس کا اہم ستون استاد ہی ہوتا ہے۔ وہ پورے نظام ِتعلیم کا مرکزو محور ہے۔نصاب تعلیم اسی کوپڑھانا ہے۔اگر استاد اپنی اہمیت و ذمہ داری محسوس کرلے، اس کو اپنے مقام سے آگہی ہو اور اگر اس کو احساس ہو کہ وہ اول و آخر مسلمان ہے اور اس کواسلامی انقلاب کے لیے نسل نو کو تیار کرنا ہے،تو ہر قسم کے حالات میں بھی وہ آنے والی نسل نو کی بے پناہ قوتوں کو اسلام کے لئے مسخر کر سکتا ہے۔

جو استاد صرف وقت گزارنے کیلئے کلاس میں اونگھتا رہے اور رسماً لیکچر دے کر چلا جائے،یا پھر اپنی انرجی کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے بچا کر رکھے اور پیسے کمانے کی مشین بن جائے، وہ صحیح معنوں میں استاد کہلانے کا حق دارنہیں۔ بنیادی طور پر استاد اور تعلیم کا شعبہ ایثار کاپیشہ ہے، اس کے ساتھ ایک تقدس منسلک ہے۔ اس لئے اس شعبے میں صرف ان لوگوں کو آنا چاہئے جن میں بے لوث خدمت کا جذبہ اور ایثار و قربانی کی صلاحیت موجود ہو۔ جس استادنے اپنے شاگرد پر انمٹ نقوش چھوڑے،نئی منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارا، اس میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کیا اوراسے نئی منزلوں سے آشناکردیا۔اپنی پاکیزہ فکر،صالح کردار اور گہرے مطالعے سے شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کیے، اس کی ذہنی و فکری تشکیل میں کردار سرانجام دیا او ر اسے معرکے سرکرنے کے قابل بنایا اصلاً وہی استاد کہلانے کا حق دار ہے۔

قابل،لائق اورذہین وفطین شاگردوںکی سوچ و فکراورشخصیت پراپنے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ وہ غور وفکر کے چراغ جلاکر اپنی شخصیت کا ایکسرے کریں اور اپنے باطن میں گھس جائیں تو ان کی شخصیت کے سنوارنے میں کئی ایسے استادوں کے چھپے ہوئے ہاتھ ملیں گے۔ اچھے طالب علموںکی بہت سی عادات زندگی کے رویے، بول چال اور روز مرہ کی زبان کے الفاظ و محاورے ان اساتذہ سے ملتے ہیں جنہوں نے انھیں پڑھایا،ان پر توجہ دی اور ان کی کردار سازی کی۔اسی لیے کہاجاتاہے کہ استاد معمارقوم ہوتا ہے اور قوموں کی تعمیر میں اس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔