غربت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

سماوہ سلطان

17 اکتوبر غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ غربت سے مراد انسانوں کا بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہونا ہے۔ یعنی دو وقت کا کھانا، پینے کا صاف پانی اور سر پر مضبوط چھت اور آمدنی کا نہ ہونا غربت ہے۔ ورلڈ بنک کے مطابق دنیا میں 681 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ اور ہمارے لئے قابلِ فکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں کُل آبادی کا 37 فیصد حصہ غربت میں ہے۔

یہ اعداد و شمار بتانا یا سن لینا بہت آسان لگتا ہے لیکن ہم ان لوگوں کی تکالیف اور مشکلات کا اندازہ اگر لگانے بیٹھیں تو حیران رہ جائیں۔ اس غربت کی وجہ سے ہمارے ہاں بے شمار مسائل ہیں، لیکن اس کے خاتمے کی طرف خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ بے حسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ امیر طبقہ امیر ترین ہوتا جا رہا ہے اور غریب آدمی غریب ترین ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات سے تو تقریباً سب آگاہ ہیں لیکن کیا اس کے خاتمے کا کوئی حل بھی ہے؟ کیا یقیناً غربت کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے ہمیں کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے'اصل' یعنی اسلام کی طرف دیکھنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو عوام کو روزگار فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے۔ جب ہر شخص کو کام ملے گا تو یقیناً غربت ختم ہو سکتی ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ لوگوں کو کام کرنے کی ترغیب دلائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت داؤد علیہ السلام کو بطور نمونہ پیش کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھائے اللہ کے نبی داود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کرکے روزی کمایاکرتے تھے۔

ہمارے ہاں چونکہ بیروزگاری بہت ہے، اور روزگار انصاف کے تقاضوں پر نہیں ملتا بلکہ رشوت اور سفارش کا رواج عام ہے تو غریب شخص اپنی ڈگریاں لے کر بے روزگار پھرتا ہے۔ ہمیں عہد نبوی سے یہ ایک سبق لینا ہوگا کہ روزگار کو عام کیا جائے تاکہ لوگ خود کما سکیں اور غربت سے چھٹکارا حاصل کریں۔

ایک اور بہترین حل جو ہمیں اسلام نے دیا ہے وہ زکوٰۃ ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاستِ مدینہ میں زکوٰۃ کا ایک منظم انتظام کئے رکھا تھا۔ زکوۃ اور صدقات وصول کرنے والے افسران ،کاتبین صدقات، باغات میں پھلوں کا تخمینہ لگانے والے ، مویشیوں کی چراگاہ سے محصول وصول کرنے والے ، اس قدر اہتمام سے اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے دربارِ نبی ﷺ سیہوا کرتاتھا۔ حضرت عمر بن خطاب کو مدینہ کے اطراف، اور اسی طرح دیگر قابل صحابہ اکرام کو مختلف علاقوں کی ذمہ داری دی۔ ان کو سختی کے ساتھ ہدایات دی جاتی تھیں کہ زکوۃ کے لئے عمدہ مال چھانٹ چھانٹ کر نہ لیں۔ زکوۃ دینے والے مقام پر جا کر وصول کریں۔ اور ان کے لئے دعائے خیر کریں۔ پھر زکوۃ دینے والے کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ زکوۃ وصول کرنے کیلئے عاملین ان کے پاس آئیں تو خوشی سے واپس جائیں۔ آپ ﷺ زکوۃ وصول کرنے والوں کے لئے تنخواہ مقرر فرماتے تھے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک عمدہ اقتصادی نظام چل رہا تھا۔ حضرت زبیر ریاست کے محاسب مقرر تھے۔ سن 9ھجری میں رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن روانہ کیا اور ہدایت دی کہ تمہارا واسطہ یمن میں اہل کتاب سے ہوگا۔ اہل ِ یمن کو پہلے توحید کی دعوت دینا، اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ ان پر پانچ نمازیں فرض ہیں۔ جب وہ نماز پڑھ لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر زکوۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔

بعد میں خلفائے راشدین نے بھی غربت کے نہ ہونے کیلئے زکوٰۃ اور اقتصادیات کا بہترین نظام چلایا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں مدینہ کے آس پاس کے قبائل نے زکوۃ بیت المال میں ادا کرنے سے انکار کیاتو ان کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق ایک بہت نرم دل انسان تھے، لیکن انہوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف اتنا سخت فیصلہ لیا، اس سے بھی ہم زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ حضرت عمر نے ان کے اس فیصلے کی پہلے حمایت نہ کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ یہ لوگ ایمان لانے والے ہیں اور توحید پر یقین رکھتے ہیں ان سے جنگ کرنا یا ان کا خون بہانا ٹھیک نہیں۔ لیکن جناب صدیق اکبر نے دلائل دئے کہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں کسی قسم کی نرمی برتنے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ اونٹی کی رسی بھی جو رسول اللّٰہ ﷺ کو دی جاتی تھی اسے بھی میں لے کر رہونگا۔ جو شخص نماز اور زکوۃ میں فرق کرے گا میں ا س سے ضرور لڑونگا۔ چونکہ زکوۃ مال کا حق ہے۔ صحابہ کے گروہ میں سے بہت سارے اصحاب نے اس موقف کی تائید نہیں کی تھی۔ مگر حضرت عمرؓ نے بعد میں کہاکہ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق ؓ کا سینہ قتال کے لئے کھول دیا ہے۔ میری سمجھ میں آگیا کہ یہی حق ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا یہ واضح موقف اور صحابہ ؓ کی اکثریت کی تائید سے زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنی چاہیے۔ یوں حضرت ابو بکر صدیق نے غریبوں اور مسکینوں کے لئے جنگ کی اور لوگوں کو غربت سے بچا لیا۔

حضرت عمر نے بازار میں ایک بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیا آپ کو بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اس نے کہا کہ کہ مجھے وظیفہ ملتا ہے لیکن میں یہودی ہوں، حکومت مجھ سے سالانہ جذیا لیتی ہے، میں کمزور ہوں مزدوری نہیں کر سکتا تو اس کی ادائیگی کیلئے سال میں ایک دو بار لوگوں سے مانگ لیتا ہوں اور پھر حکومت کو جمع کروا دیتا ہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا، اب بھیک نہ مانگو کسی سے اور کل میرے پاس آنا۔

کل جب وہ دربار میں پیش ہوا تو مجلس شوریٰ نے قانون بنا دیا کہ بوڑھے لوگوں کیلئے جزیہ معاف ہوگا۔

پھر خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں زکوۃ کی تقسیم کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے یمن سے جب زکوۃ کا ایک تہائی حصہ مدینہ روانہ کیا تو خلیفہ وقت نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے ٹیکس یا جزیہ وصول کرنے کے لئے آ پ کو نہیں بھیجا تھا، بلکہ اس لئے بھیجا تھا کہ ان کے اعتبار سے زکوۃ وصول کرکے انہی کے فقراء میں تقسیم کردو۔ حضرت معاذؓ نے جواب میں لکھا کہ میں نے زکوۃ لینے والے کسی شخص کو محروم رکھ کر نہیں بھیجا ہے۔ دوسرے سال معاذؓ نے نصف مال ارسال کردیا۔ دونوں میں پھر یہی باتیں ہوئیں۔ تیسرے سال پوری زکوۃ کی وصول شدہ رقم ارسال کی۔ پھر وہی سوال جواب ہوئے۔ اور حضرت معاذؓ نے کہاکہ یہاں زکوۃ لینے والا کوئی نہیں ہے۔ یعنی ایسا اعلیٰ نظام قائم ہو چکا تھا کہ کوئی غریب اور مستحق نہیں رہا تھا کہ جسے زکوٰۃ دی جاتی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ غربت کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا۔

پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں مصر کے گورنر خلیفہ وقت کو لکھا کہ صدقہ اور زکوۃ کی رقم لینے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ اب اس رقم کا وہ کیا کریں۔ عمر بن عبدالعزیزؒنے لکھ بھیجا کہ غلاموں کو خرید کر آزاد کرو۔ شاہراہوں پر مسافروں کے لئے آرام گاہیں تعمیر کرو، ان نوجوان مردوں اور عورتوں کی مالی امداد کرو، جن کا نکاح نہیں ہواہے۔ ابن ِ کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ خلیفہ خصوصی طورپر اس کام کے لئے ایک شخص کو مقرر کیا تھا جو شہر کی گلیوں میں اعلان کرتاتھا کہاں ہیں مقروض لوگ، جو اپنا قرض ادا نہیں کرسکتے، کہاں ہیں وہ لوگ ، جونکا ح کرنا چاہتے ہیں۔ کہاں ہیں محتاج اور حاجت مند ، کہاں ہیں یتیم اور بے سہارا لوگ کوئی جواب موصول نہیں ہوتاتھا۔یعنی تب بھی معاشرے سے غربت و افلاس کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا۔

اب ہم آتے ہیں غیر مسلموں کی غربت خاتمے کی پالیسیوں کی طرف۔ ہمارے سامنے چین کی مثال ہے۔ چائنہ ہزاروں سال سے غربت میں پس رہا تھا۔ لیکن چائنہ نے گذشتہ آٹھ سالوں میں 10کروڑ لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے، گذشتہ 40سال میں یہ تعداد 80کروڑ افراد کی بنتی ہے۔ اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے جو اہداف 2030 ء کے لیے مقرر کیے، عوامی جمہوریہ چین نے وہ اہداف دس سال قبل یعنی 2020 میں حاصل کر لیے ہیں۔ چائنہ نے absolute poverty یعنی مطلق غربت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا ہے۔ اس میں بلاشبہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چائنہ کے پاس قابل اور ایماندار لیڈر موجود تھا جس نے عوامی مفاد کو اپنی ترجیح بنا رکھا تھا۔ جب شی جن پنگ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے یہ کارنامہ کیسے کر دکھایا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چالیس سال تک کاونٹی میونسپلٹی صوبائی اور مرکزی حیثیت میں کام کرتا، اس دوران میرا یہ زندگی کا خواب تھا کہ میں چین کے عوام کی غربت کو دور کر سکوں۔ میں نے اپنے اس مشن کو اپنی پالیسیوں کا مرکز اور محور بنا دیا۔ میں دن اور رات غربت کے خاتمے کے بارے میں ہی سوچتا رہتا تھا۔ اسی طرح عوام نے بھی اپنے لیڈر پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور ہر پالیسی و منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔ ان کی پالیسی کے مطابق زراعت، صنعت ، شہری سہولتوں، انفراسٹرکچر ہنرمندی اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ ترقی یافتہ علاقوں کو کہا گیا کہ وہ پسماندہ علاقوں کی معاونت کریں۔ پھر ان کے ترقی یافتہ صوبوں نے پسماندگان کیلئے ایک سو ملین کا فنڈ دیا۔ چین نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بنایا اور مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کئے۔ چین نے فیصلہ کر لیا کہ وہ عالمی تنازعات میں ملوث نہیں گا اور عالمی امن کیلئے کام کریگا. بیلٹ اینڈ روڈ کے نام سے چین نے ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا جس کے نتیجے میں آٹھ ملین افراد غربت کی لکیر سے نکل آئے۔ کرپشن کرنے والوں کی سزا موت رکھ دی گئی اور سینکڑوں لوگوں کو جن میں اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل تھے، سرِعام کرپشن کرنے پر سزائے موت دی گئی۔ اس سے یہ ہوا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گیا۔ میرٹکوکریسی کو فروغ ملا۔ یوں چائنہ نے نہ صرف غربت کا خاتمہ کیا بلکہ ایک فلاحی ریاست بن گئی۔

پاکستان آج ہر قسم کے برے حالات میں دھنسا ہوا ہے، غربت، بے روزگاری، کرپشن، سفارش، اور تنذلی۔ ہمیں چاہئے کہ ایسی پالیسی بنائیں جو عوام کے مفاد میں ہوں۔ ہم اپنے اسلامی طریقہ کار سے بھی غربت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ یا پھر ہم اپنے ہمسایہ ملک چین کی زبردست پالیسی سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حکمران اور عوام ایک ہوں۔ کیونکہ جب تک مفاد پرست حکمران ہم پر مسلط رہیں گے وہ اپنی ذاتی ترقی اور اپنے بینک بیلنس کو بہتر کرنے کا ہی سوچیں گے۔