ڈاکٹر انیلہ مبشر

آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت اہل عرب میں مرکزیت کا تصور ناپید تھا۔ پوری قوم جنگجو اور باہم نبرد آزما قبائل کا مجموعہ تھی۔ جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگی اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہوتی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعورِ قومیت اور اطاعت و فرمانبرداری جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں اُن کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ یہ وہ دور تھا کہ دنیا کے تمام سیاسی نظام بادشاہت، آمریت اور شخصی مطلق العنانیت پر مبنی تھے اور انسانیت ظلم و استبداد کی شکار تھی۔ مگر آپ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد مساوات، اتحاد، انصاف اور اخوت کے زریں اصولوں پر مبنی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ دنیاوی بادشاہت کے برعکس حاکمیت کا ایک نیا تصور پیش کیا جس کی اساس اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت پر تھی۔ اس تصور حاکمیت میں شخصیت پرستی، خاندان پرستی یا آمریت کی کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ معاشرے سے وابستہ تمام افراد و طبقات کو شریعتِ الہٰی اور مکمل دستورِ حیات کے ذریعے ایسا معاشرتی انصاف فراہم کیا گیا جو انسانی فلاح و بہبود اور ترقی و کمال کا ضامن تھا۔ سیاست کی اصطلاح میں مدینہ منورہ میں آپ کی قائم کردہ شہری مملکت یا ریاست ایک مکمل دستوری حکومت تھی جسے میثاقِ مدینہ کی صورت میں دستورِ مملکت دیا گیا۔ یہاں انتظامیہ قانونِ الہٰی کی پابند، عسکری، عدالتی، مالیاتی، معاشی و معاشرتی تمام امور و عوامل آپ کے قائم کردہ متوازن نظمِ حکومت پر استوار تھے۔ عہد نبوی میں ریاستِ مدینہ کی تعمیر و تشکیل آنحضرت ﷺ کے دس سالہ عہد رسالت کا وہ عظیم کارنامہ جو اُن کی آئینی و دستوری حکمت عملی، سیاسی تدبر، بصیرت و دانشمندی سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ نے قرآن کریم سے اخذ کردہ اصول و ضوابط کو ریاستِ مدینہ کے تمام شعبہ جات کی اساس قرار دیا اور اپنی حیاتِ طیبہ میں ان پر اس طرح عمل پیرا ہوئے کہ ریاستِ مدینہ کامیاب فلاحی مملکت میں تبدیل ہوگئی۔

مدینہ منورہ میں آپ کی آمد کے وقت یہاں قبائلی دور دورہ تھا۔ عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہودی بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے دس قبائل میں منقسم تھے ان میں برسوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے۔ یہاں کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا۔ مدینہ کی آبادی اس وقت اندازاً چار یا پانچ ہزار تھی جس میں آدھے کے قریب یہودی تھے۔ مسلمانوں کی تعداد 300 کے قریب تھی اور مہاجرین 60 سے زیادہ نہ تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ مدینہ کو اندرونی طور پر مضبوط و محفوظ کیا جائے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اہل مکہ تجارتی اور اقتصادی نقطہ نظر سے یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک کامیاب اسلامی ریاست اُن کی تجارتی شاہراہ پر قائم ہوجائے۔ چنانچہ اس نوزائیدہ ریاست کی تعمیر و تشکیل جہاں ایک بنیادی ضرورت تھی وہاں اس کارِ خیر میں بے شمار چیلنجز درپیش تھے۔مثلاً:

1۔ آنحضرت ﷺ اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین

2۔ مہاجرینِ مکہ کے رہن سہن کا انتظام

3۔ ریاستِ مدینہ کی سیاسی تنظیم

4۔ ریاست کے دفاع کا انتظام

5۔ قریشِ مکہ سے مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی

6۔ ریاست کے غیر مسلم باشندوں خاص طور پر یہودِ مدینہ کو اپنا حامی بنانا

آنحضرت ﷺ نے نئے معاشرے کی بنیادیں استوار کرتے ہوئے تاریخِ انسانی کا ایک تابناک کارنامہ سرانجام دیا اورمہاجرین و انصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا عہد و پیمان کروایا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین و انصارکے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ اسلام کو رشتہ و قرابتداری کی اخوت کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار و غمگساری اور موانست کے جذبات بھی مخلوط تھے۔ جس نے نئے اسلامی معاشرے کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ اس مواخات کا مقصد امام غزالیؒ نے تحریر کیا ہے۔

اس کا مقصد تھا کہ جاہلی عصبتیں تحلیل ہوجائیں۔ حمیت و غیرت جو کچھ ہو وہ اسلام کے لیے ہو۔ نسل، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں۔ بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقویٰ کے علاوہ کچھ نہ ہو۔

مواخاتِ مدینہ اسلامی اخوت پر مبنی ایک ایسی معاشی و سماجی حکمتِ عملی تھی جس میں مسلمانوں کو درپیش بہت سے مسائل کا حل موجود تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر نے ریاستِ مدینہ میں اسلام کو مرکزیت عطا کی۔ یہ مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ ایک یونیورسٹی تھی جسے صفہ کا نام دیا جاتا۔ اسی اقامتی درسگاہ سے فارغ التحصیل اصحاب کو دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور تبلیغِ دین کے لیے بھیجا جاتا۔ اسلامی تعلیمات و ہدایات کے مرکز کے علاوہ یہ ایک محفل تھی جہاں جاہلی نفرت سے دوچار رہنے والے قبائل باہم شیرو شکر ہورہے تھے۔ نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس چھوٹی سی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا۔ مختلف قسم کی مہمات بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلس شوریٰ اور مجلس انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔

ریاستِ مدینہ میں آپ کو ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل تھی مگر اس کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تکمیل کی کہ ’’مسلمانوں کا کام آپس کے مشورے سے چلتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ)

آپ مجلس شوریٰ کو مسجد نبوی میں منعقد فرماتے جس میں عوام کو بھی مشورے میں شامل کیا جاتا مثلاً غزوہ احد اور غزوہ خندق کے موقعوں پر آپ نے تمام صحابہ سے مشورہ طلب کیا اور ان کی رائے کو قبول کیا۔ مجلس شوریٰ اور باہمی مشاورت آپ کے نظامِ حکومت کا ایک اہم ستون تھا۔

ریاستِ مدینہ میں قائم نظامِ عدل میں آپ کی حیثیت مفسر قانون اور منصفِ اعلیٰ دونوں کی تھی۔ آپ ﷺ نے یمن میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو قاضی بناکر بھیجا تو اس موقع پر طے کردیا کہ قانونِ اسلامی کے ماخذ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ قرآن کریم

2۔ سنتِ رسول ﷺ

3۔ اجتہاد

4۔ اجماع

(اجماع خود آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ممکن نہ تھا بلکہ اس کا تعلق بعدکے زمانوں سے تھا)

عوام کو فوری اور سستا انصاف مہیا کرنے کے لیے نظام عدلیہ میں دو بڑے عہدے تھے۔

1۔ افتاء۔ اس شعبہ کے تحت عام کو مفت قانونی مشورے دیئے جاتے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے مطابق یہ نیا ادارہ عہد نبوی میں قائم ہوا اس ادارے کا سربراہ مفتی ہوتا جس کا مطلب قانون بتانے والا اور فتویٰ دینے والا تھا۔

2۔ قضاء۔ مفتی کے علاوہ دوسرا ادارہ قاضی کا تھا جس کا مقصد مقدمات سننا اور فیصلے صادر کرنا تھا۔ مدینہ اور اس کے گردو نواح کے مقدمات آپ ﷺ خود سنتے تھے اور دور دراز علاقوں کے لیے قاضی مقرر فرماتے تھے۔ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو آپ نے یمن کا قاضی بناکر بھیجا۔

انصاف کا حصول سادہ اور آسان تھا جس میں وکیل اور اس کی فیس کا کوئی تصور نہ تھا۔ جرائم کے سدباب کے لیے سعد بن قیس رضی اللہ عنہ کو پولیس کے فرائض تفویض کیے گئے تھے۔ عوام الناس کے اخلاق و اطوار کو درست کرنے کے لیے آپ نے احتساب کا دستور اپنایا۔ آپ بہ نفس نفیس خود بازار میں جاکر خراب اجناس اور عوام کے اعمال کا احتساب فرماتے۔

بہت سے صحابہ کو مالیات کا ریکارڈ رکھنے اور مال غنیمت کے حساب کتاب پر مامور فرمادیا گیا تھا۔ مثلاً حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، حسن بن نمیر رضی اللہ عنہ مضقب بن ابی فاطمہ رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ زکوٰۃ و صدقات، پیداواری مالیہ اور مال غنیمت کا حساب کتاب رکھتے۔ مال غنیمت اور مالیہ کی مد میں حاصل ہونے والی ایک ایک پائی کو حق کے مطابق وصول و خرچ کیا جاتا۔ خانوادہ رسول کی کسمپرسی اور سادہ طرزِ حیات کا یہ عالم تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہj فرماتی ہیں کہ گھر میں کئی کئی دن تک چولہا نہ جلتا۔ اگر ایک وقت کا کھانا دستیاب ہوتا تو دوسرے وقت کی خبرنہ ہوتی کہ میسر ہوگا کہ نہیں۔ اس طرح اسلامی معاشرے میں معاشی اور معاشرتی انصاف مہیا کرنے کی مثال قائم کی گئی۔

ریاست مدینہ کی سیاسی تنظیم اور دفاعِ ریاست کا انتظام کرنے کے لیے آپ نے سن 2 ہجری میں مدینہ کے انصار مہاجرین، یہود اور مدینہ سے باہر آباد قبائل سے ایک معاہدہ کیا جس میں سب کے حقوق و فرائض کو متعین فرمادیا گیا۔ ڈاکٹر حمیداللہ میثاقِ مدینہ کو دنیا کا پہلا تحریری دستور قرار دیتے ہیں۔ میثاقِ مدینہ میں 53 جملے یا قانونی دفعات ہیں جو کہ دستور سازی کا بہترین نمونہ ہیں۔ اس میں ہر قبیلے کو ایک جماعت کی حیثیت سے معاہدے میں شامل کیا گیا۔ مثلاً آپ نے یہودیوں کے دس قبیلوں کا الگ الگ نام لے کر ان سے معاہدہ کیا۔ بعد ازاں جب یہ قبائل ایک ایک کرکے میثاقِ مدینہ سے الگ ہوئے تو ایک قبیلے کے معاہدے سے خارج ہوجانے کے باوجود باقی یہود قبائل سے معاہدہ قائم رہا۔ اس سیاسی بصیرت کی بدولت یہود جیسے زیرک دشمن پر کنٹرول پانا آسان ہوگیا۔

آپ نے مختلف نسلوں اور عقیدوں کے لوگوں کو منظم کرکے ایک لڑی میں پرویا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی کو 24محلوں پر مشتمل شہری مملکت کی سربراہی قبول کی۔ میثاقِ مدینہ آنحضرت ﷺ کی سیاسی بصیرت و صلاحیت کا شاہکار ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ساز دستاویز ہے کہ اس کے ذریعے مدینہ کے یہود، مشرکین اور عیسائی سب آپ کو اپنا سیاسی رہنما تسلیم کرنے لگے۔ میثاقِ مدینہ کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی تھی۔

’’یہ معاہدہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جانب سے اہل مدینہ کے ساتھ ہے۔‘‘

عہد حاضر کے نامورمحقق پروفسیر اسلم اپنے تاریخی مقالے میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’اس معاہدے میں یہودی قانونی طور پر آنحضرت ﷺ کو نبی تسلیم کریں گے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے سے یہودیوں نے آپ کو نبی تسلیم کرلیا۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور سیاسی فتح تھی جو میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ باہمی مشاورت سے حاصل کی گئی تھی۔‘‘

ریاستِ مدینہ کے سربراہ اعلیٰ کی حیثیت سے آپ نے مدینہ میں لاقانونیت کا خاتمہ کیا۔ تمام قبائل کو برابر کا درجہ دیتے ہوئے انھیں داخلی آزادی، مذہبی قوانین اور رسوم و رواج کی پوری آزادی دی گئی جس کی مثال موجودہ دور کے مہذب معاشروں میں بھی ملنی بہت مشکل ہے۔

آپ نے میثاقِ مدینہ کے ذریعے نوزائیدہ ریاستِ مدینہ کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کردیا۔ اس معاہدے میں اندرونِ مدینہ اور اس کے اردگرد بسنے والے قبائل کو شامل کیا گیا جس سے ایک طرف مدینہ محفوظ ہوگیا، دوسرے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ ہوگیا اور انھیں مکہ سے شام جانے والی شاہراہ پر بھی کنٹرول حاصل ہوگیا۔ یوں قریش مستقل طور پر مسلمانوں کے معاشی دبائو میں آگئے۔

الغرض میثاقِ مدینہ آنحضرت ﷺ کی ایک بہت بڑی سیاسی فتح تھی جو انھوں نے مدینہ آنے کے کچھ ہی عرصے بعد حاصل کرلی۔ اس سیاسی فتح کے بڑے دور رس نتائج اور اثرات مرتب ہوئے۔ بعد ازاں وقت اور حالات نے ثابت کردیا کہ آنحضرت ﷺ کی قائم کردہ ریاستِ مدینہ قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے بالاتر باہم متحد و مربوط، اپنے باطنی عقائد و نظریات میں مکمل و ہم آہنگ اور دنیاوی مفادات سے بالاتر ایک ایسی منظم ریاست تھی جس نے پوری انسانیت کو اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا۔ تعلیم و تربیت اور حکم و اطاعت کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت قوم شُتر بانی کے مقام سے جہانبانی کے مقام پر پہنچ گئی اور شہر مدینہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کے تین براعظموں میں پھیلی ایک وسیع اور زبردست سلطنت کا صدر مقام بن گیا۔ یہ سب آنحضرت ﷺ کی سیاسی بصیرت، دانشمندی اور حکیمانہ تدبر ہی سے ممکن ہوا۔