کامل و اکمل ذاتِ مصطفی ﷺ

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

وہ کمال حسنِ حضور ہے، کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

جانِ کائنات، رحمت دوجہاں، راحتِ جسم و جان، جانِ ایمان، ذات ِحبیب ،حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ جل مجدہ نے اس جہان فانی میں نسخہ جامعہ،حقیقہ الحقائق، مرکز ِدائرہ ،مرآۃ الحق والحقیقہ ،کل شئی ، قطب ولی،روح عالم ،اصل عالم،عقل اول، اورانسان کامل بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔کسی نے کیا خوب فرمایا:

رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ، کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ کسی کی بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں

یعنی ذاتِ بابرکات ﷺ کو جملہ جہات و اعتبارات سے ایسا حسین جامہ معطرۃ زیب تن فرمایا گیا ہے کہ کائنات ہست و بود میں تمام موجودات و مخلوقات آپ کی ذات کے اردگرد مثلِ پروانہ محوِرقصاں ہیں۔ کیونکہ آپ کی ذات کے بے شمار و بے حساب گوشے ہیں ان گوشوں میں سے ایک گوشہ اسوت و قدوت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ذات مصطفی ﷺ کو اسوہ نافعہ و کاملہ اور قدوۃ حسنہ قرار دیا ہے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

(الاحزاب: 21)

تحقیق تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔

بلاشک بنی نوع انسان کے لیے اسوہ کاملہ و نافعہ وہی ہستی بن سکتی ہے جو خود کاملیت و اکملیت کی صفات سے متصف ہو۔ یا وہ ذات جو اسی ذات کی ان صفات سے فیض یافتہ ہو۔

اللہ رب العزت نے آپ کو تمام انسانیت کے لیے آئیڈیل (ideal) اور رول ماڈل (role model) کا درجہ قرار دیا ہے اور خیرات و برکات، حصول نعم و برکات کا مصدر اول بنایا ہے۔ کیونکہ آپ وحی الٰہی سے گفتار کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.

(النجم: 3-4)

اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

اور آپ کے اوامر و نواہی منشاء خداوندی کے تابع ہیں اسی وجہ سے یہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔

وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانتَهُوْا.

(الحشر: 7)

ور جو کچھ رسول ( ﷺ ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)۔

اور فرمایا:

یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰیهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓیثَ.

(الاعراف: 157)

جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔

جملہ مخلوقات میں سے انسان کامل ہی خلافت الٰہیہ کا حق دار ٹھہرتا ہے کیوں کہ وہ علوم خداوندی کا امین ہوتا ہے مسجود ملائکہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓیکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ. قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.

(البقرة، 30)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

خلافت الٰہیہ وہ عظیم المرتبت درجہ و رتبہ تھا جس کا حصول بذریعہ قبول امانت اور اطاعت و تسلیم ہی ممکن تھا جملہ موجودات ومخلوقات میں سے اس امانت کو حضرت انسان نے قبول کیا حالانکہ یہ مشکل اور کٹھن امر تھا نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اس کو خلافت کا مقام عطا فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ کَانَ ظَلُومًا جَهُولًا.

(الأحزاب: 72)

بیشک ہم نے (اِطاعت کی) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ (اپنی جان پر) بڑی زیادتی کرنے والا (ادائیگی امانت میں کوتاہی کے انجام سے) بڑا بے خبر و نادان ہے۔

کسی بھی شخصیت کے لیے اسوہ حسنہ اور نمونہ کاملہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام انسانوں کو ہدایت و راہنمائی دینے والی تعلیمات و اخلاق کی مالک ہو تاکہ خاندان و قبیلہ رنگ و نسل،ملک و وطن ،خطہ و علاقہ سے ماوراء ہو تاکہ تمام انسان اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

اسوہ حسنہ سیرت و اخلاق ہی ہوتا ہے۔ لامحالہ سیرت و اخلاق بھی تب ہی کاملہ و نافعہ ہوسکتے ہیں جب انسان بذات خود کامل و تام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایمان کی کاملیت کا معیار حسن اخلاق کو قرار دیا اور ارشاد فرمایا:

اکمل المومنین ایمانا احسنهم خلقا. (رواه الترمذی)

مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔

لیکن اگر اخلاق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی اللہ رب العزت نے آپ کو کاملیت کا شرف بخشا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

(القلم: 4)

اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔

اللہ رب العزت نے ذات مصطفی ﷺ کو اول الامر کاملیت و اکملیت کا درجہ عطا فرمایا اور آپ کے اخلاق و سیرت کو بھی جامعیت عطاء فرمائی۔یہاں تک کہ اگر ہم تاریخ ہست و بود میں نظر دوڑائیں تو آپ جیسی ذات صفات یا کمال نظر نہیں آتا۔کسی نے کیاخوب کہا ہے۔

تاریخ اگر ڈھونڈے کی ثانی محمدؐ
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گے

حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات حسن و جمال میں بھی کاملیت کے درجہ پر فائز تھی۔ آپ ﷺ کی حسن و کمال کی خیرات کائناتِ حُسن کے ہر ہر ذرّے کو ملی۔ عالم فوق و تحت کی تمام رعنائیاں آپ ﷺ ہی کے دم قدم سے روشن اور تاباں ہیں۔اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو ایسا جمالِ بے مثال عطا فرمایا کہ کوئی آنکھ جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتی تھی۔

اِمام زرقانی نے اپنی کتاب میں امام قرطبی رحمۃ الله علیہ کا یہ ایمان افروز قول نقل کیا ہے:

لم یظهر لنا تمام حسنه، لأنّه لو ظهر لنا تمام حسنه لما أطاقت أعیننا رؤیته.

(زرقانی، شرح المواهب اللدنیة، 5: 241)

حضور کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا اور اگر آقائے کائنات ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر کر دیا جاتا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کے جلوؤں کا نظارہ کرنے سے قاصر رہتیں۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے کمالِ حسن و جمال کو نہایت ہی خوبصورت اَنداز میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

رأیتُ رسول الله ﷺ فی لیلة إضحیان، فجعلت أنظر إلی رسول الله ﷺ و إلی القمر، و علیه حلة حمراء، فإذا هو عندی أحسن من القمر. (رواه الترمذی)

ایک رات چاند پورے جوبن پر تھا اور اِدھر حضور ﷺ بھی تشریف فرما تھے۔ اُس وقت آپ ﷺ سرخ دھاری دار چادر میں ملبوس تھے۔ اُس رات کبھی میں رسول اللہ کی حسنِ طلعت پر نظر ڈالتا تھا اور کبھی چمکتے ہوئے چاند پر، پس میرے نزدیک حضور ﷺ چاند سے کہیں زیادہ حسین لگ رہے تھے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ما رأیتُ من ذی لمة أحسن فی حلّة حمراء من رسول الله ﷺ. (رواه مسلم)

میں نے کوئی زلفوں والا شخص سرخ جوڑا پہنے ہوئے رسول الله ﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے کمالِ حسن کو بڑے ہی دِلپذیر انداز میں بیان کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

وَ أَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَ أَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ

آپ ﷺ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ ﷺ سے جمیل تر کو جنم ہی دیا ہے۔ آپ ﷺ کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دِکھائی دیتا ہے) جیسے آپ ﷺ کے ربّ نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ ﷺ کی صورت بنائی ہے۔

جس طرح اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی ذاتِ مقدسہ کی حقیقت کو اپنی مخلوقات سے مخفی رکھا اِسی طرح آپ کے اوصافِ ظاہری کو بھی وہی پروردگارِ عالم خوب جانتا ہے۔ علمائے حق کا یہ عقیدہ و اعتقاد ہے کہ حضور سرور کونین ﷺ کے اوصافِ ظاہری کی حقیقت بھی مکمل طور پر مخلوق کی دسترس سے باہر ہے اور باطنی احوال کا بھی احاطہ ناممکن ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی حقیقت کو اُن کے خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا، شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے کیا خوب لکھا:

یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہ المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

الغرض خدا کی ذات کے بعد آپ ﷺ ہی وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پوراسامان رکھتی ہے۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو ہر حوالے کاملیت و کمالیت سے شرفیاب فرمایا۔ اللہ رب العزت کی بارہ گاہ میں دعا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدحت ہمارے لئے توشۂ آخرت بن جائے اور ہماری یہ ادنیٰ سی کاوش بارگاہِ ایزدی میں شرف قبولیت پا کر ہمارے لئے حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت کا موجب بن جائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ