ذاتِ مصطفی ﷺ : مظہرِ خُلقِ عظیم

سعدیہ کریم

رسول اللہ ﷺ کی جلالت شان اور کمالات نبوت خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ کو تمام انبیاء اور رسل میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آپ ﷺ سیدالانبیاء کے مرتبے پر فائز ہوئے ہیں اور آپ ﷺ کی ذات اقدس کو دنیا کے لیے مثالی نمونہ بنایا گیا ہے۔

ولادت مصطفی ﷺ جو میلاد النبی ﷺ کے نام سے منائی جاتی ہے اس کی شان کو بھی قرآن کریم میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ.

(آل عمران، 3: 164)

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا۔‘‘

اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ:

پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

(الاعراف: 157)

سورہ نساء میں حکم ہوا ہے کہ:

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلّت انگیز عذاب ہے۔‘‘

(النساء: 14)

ان تمام آیات قرآنی سے پتہ چلتا ہے اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو حصول شرف انسانیت و تکمیل عبدیت کے لیے اور اپنے تمام احسانات و انعامات سے مشرف ہونے کے لیے اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے اور ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔

سیرت طیبہ محفوظ ہے:

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور سرور کائنات ﷺ کے پاکیزہ شمائل و خصائل، عادات و عبادات کا پورا ذخیرہ محفوظ و ماون ہے اور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ یہ انسانیت کی فلاح و سعادت کا کامل نصاب اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔

آپ ﷺ کی پاکیزہ الہامی زندگی کا گوشہ گوشہ اپنے اندر نور اورہدایت کو سمیٹے ہوئے ہے کسی بھی انسان کا سوانحی خاکہ تیار کرنا ہو تو اس کا آغاز اس کی ولادت سے کیا جاتا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی زندگی، آپ ﷺ کی سیرت اور حیات طیبہ کا معاملہ سب سے جدا اور نرالا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کو بلند فرمایا اور اس کا اعلان قرآن مجید میں فرمادیا ارشاد ہوا:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

(الانشراح، 94: 4)

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

آپ ﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی خوشخبری اور اپنی والدہ کا وہ حسین خواب تھے جو انھیں اللہ کی طرف سے خوشخبری اور تسکین کے لیے دکھایا گیا تھا۔ آپ ﷺ عرب و عجم میں بے مثل اور اصل و نسل، حسب و نسب اور اصالت میں تمام انسانوں سے زیادہ پاکیزہ تھے۔ عقل و فراست و دانائی اور بردباری میں سب سے فزوں تر علم و بصیرت میں، یقین محکم اور عزم راسخ میں قوی تر، رحم و کرم میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ایسی حکمت اور دانائی سے نوازاکہ آپ ﷺ نے دنیا کے تمام اندھیروں کو نور سے بدل دیا۔

قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے کہ وہی انسان آپ ﷺ پر ایمان لاتا ہے اور آپ ﷺ کی عزت و نصرت کرتا ہے جس کے نصیب میں اللہ تعالیٰ نے نیک بختی رکھی ہے اور وہی تکذیب کرتا ہے جس پر اللہ نے بدبختی لازم کردی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی عملی حیات طیبہ پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے پیغام ربانی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنی پوری زندگی قرآن کی تفسیر میں بسرکی۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر عمل قرآنی آیات کی تفسیر و توضیح ہے۔ تمام عالم آپ کی زندگی کی تفصیلی معلومات کا محتاج ہے۔ آپ ﷺ کی مقدس سوانح عمری کی ضرورت صرف اسلامی یا مذہبی ضرورت نہیں بلکہ ایک عملی ضرورت ہے،ایک اخلاقی ضرورت ہے، ایک تمدنی ضرورت ہے، ایک ادبی ضرورت ہے۔

سیرت طیبہ کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس کی ضرورت ہر دور اور ہر زمانے میں رہی ہے۔ آپ ﷺ کی مقدس اور تابناک سیرت سے آج بھی عالم کا ہر گوشہ منور ہے۔ ذیل میں سیرت طیبہ کے چند واقعات نقل کیے جارہے ہیں جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آج کے پُرفتن دور میں سیرت طیبہ پر عمل کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ساری کائنات کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ آپ ﷺ کی رحمت صرف مسلمانوں یا انسانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لیے ہے۔ اس رحمت سے ہر خاص و عام اس سے مستفید ہوسکتا ہے۔

عبادات کے علاوہ آپ ﷺ نے معاشرتی عدم توازن کو روکنے کے لیے معاملات کی بہتری پر زور دیا اور معاملات کو عبادات کی روح سے تعبیر فرمایا۔

’’حضرت عبداللہ بن معاویہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تین کام ایسے ہیں کہ جو شخص ان کو کرے گا وہ ایمان کا ذائقہ چکھے گا۔ صرف اللہ کی عبادت کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ سوائے اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اپنے مال کی زکوٰۃ ہر سال اس طرح دے کہ اس کا نفس اس پر خوش ہو اور اس پر آمادہ کرتا ہو۔‘‘

اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے زکوٰۃ کا ذکر توحید کے ساتھ فرمایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے ایمان کا مزہ اور حلاوت مزید بڑھ جاتی ہے۔

حضرت اسماء بنت ابی بکرj سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور اس فکر میں مت پڑو کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں سے کتنا راہ خدا میں خرچ کروں۔ اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کرکے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور اگر بے حساب دو گی تو وہ بھی اپنی نعمتیں تم پر بے حساب انڈیلے گا۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ اضافہ ہوتا ہے اور قصور معاف کردینے سے آدمی نیچا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو سربلند کردیتا ہے اور اس کی عزت میں اضافہ ہوجاتاہے۔

صدقہ کی بہت سی اقسام ہیں صدقہ کی حقیقت اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا سا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔ کوئی نیک بات کہہ دینا بھی صدقہ ہے، کسی کو بری بات سے روک دینا بھی صدقہ ہے۔ کسی بے نشان زمین کا کسی کو راستہ بتادینا بھی صدقہ ہے۔ جس شخص کی نظر کمزور ہو اس کی مدد کردینا بھی صدقہ ہے۔ راستہ سے پتھر، کانٹا اور ہڈی کا ہٹادینا بھی تمہارے لیے ایک صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی ایک صدقہ ہے۔

اسی طرح صدقہ دینے والے کی فضیلت بتاتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینا لینے سے بہتر ہے۔

پریشان حال کی مدد کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی پریشان حال کی مددکرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تہتر مغفرت لکھے گا جن میں سے ایک مغفرت تو اس کے تمام کاموں کی اصلاح کے لیے کافی ہے اور 72 مغفرت قیامت کے دن اس کے لیے درجات بن جائیں گی۔

آپ ﷺ کا طرزِ عمل:

سرور دو عالم ﷺ بہت بڑے سخی تھے، کسی سوال کرنے والے کو کبھی نہیں موڑتے تھے اگر کسی وقت کچھ دینے کے لیے موجود نہ ہوتا تو نرمی سے کہتے کہ دوسرے وقت میں آکر لے جانا۔ سب لوگوں کے حالات کو دریافت کرتے رہتے تھے۔ کوئی شخص آپ ﷺ کے پاس زکوٰۃ کا مال لاتا کہ مستحقین میں تقسیم فرمادیں تو آپ اس لانے والے کو دعا دیتے کہ اے اللہ اس پر رحم فرما۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے سوال کیا اور اس وقت آپ ﷺ کے پاس دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ بکریوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے وہ تمام بکریاں سوال کرنے والے کو عطا فرمادیں وہ آپ کی سخاوت سے اتنا متاثر ہوا کہ جب اپنے قبیلے میں واپس گیا تو ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کہنے لگا بھائیو! مسلمان ہوجاؤ کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ اتنی سخاوت کرتے ہیں کہ مال کے ختم ہونے کا انہیں کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔

آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں بے شمار ایسے مواقع آئے جب آپ ﷺ نے لوگوں کو سو سو اونٹ ایک ہی مرتبہ عطا فرمادیئے۔ آپ ﷺ نے صفوان بن سلیم کو تین مرتبہ سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ یہی حال اعلان نبوت سے پہلے بھی تھا اور آپ ﷺ کی سخاوت کے چرچے عام تھے۔ ورقہ بن نوفل کہا کرتے تھے کہ آپ ﷺ بھاری کنبے والوں اور مجبور لوگوں کی کفالت فرماتے ہیں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کبھی آنے والے کل کے لیے ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔

حیات طیبہؐ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:

آج ہم اگر پاکستان کے حالات پر غور کریں تو پورا ملک انتہائی سخت حالات سے دوچار ہے۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور انفرادی حالات زبوں حالی کا شکار ہیں اور رہی سہی کسرموجودہ سیلاب نے پوری کردی ہے۔ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب چکا ہے۔ تمام فصلیں اور مویشی تباہ ہوگئے ہیں۔نظام زندگی درہم برہم ہوچکا ہے۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے حیرت و پریشانی میں مبتلا ہیں بھوک و افلاس کے خوفناک سائے انسان کو کھائے جارہے ہیں۔ اس ڈپریشن نے کتنی ہی زندگیوں کے چراغ گل کردیئے ہیں۔ آج کے دور میں حیات طیبہؐ سے سبق لینے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ چکی ہے۔

آپ ﷺ نے تو یتیموں، محتاجوں اور مسکینوں کی کفالت کرنے والوں کے لیے جنت میں اپنے ساتھ رہنے کی بشارت اور نوید سنائی ہے۔ آپ ﷺ کی مبارک زندگی کا پل پل معاشرے کے مجبور اور پسے ہوئے لوگوں کی کفالت اُن کے ساتھ حسن سلوک میں بسر ہوتا تھا۔ آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ ہر وقت ایسے لوگوں کی مدد و اعانت کرکے اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے کیونکہ حضور ﷺ کی صحبت میں انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو سمجھا تھا کہ عبادات اس وقت تک قبول نہیں ہوتیں جب تک معاملات بہتر نہ ہوں۔ اگر حقوق العباد پورے نہ کریں تو حقوق اللہ کماحقہ ادا نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ تمام معاملات عبادات کی روح ہیں اس حقیقت کو قرآن مجید میں جابجا بیان کیا گیا ہے اور آپ ﷺ کی حیات مبارکہ اس کی عملی تفسیر ہے۔

موجودہ دور میں حضور ﷺ کی سیرت سے دوری بڑھتی جارہی ہے اورمسلمان اپنے طریقے چھوڑ کر غیروں کے طور طریقے اختیار کررہے ہیں جبکہ قرآن مجید ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ جو انسان نبی کریم ﷺ کے جتنا قریب ہوگا ان کی جتنی اطاعت کرے گا اتنا ہی رب کے قریب ہوگا اور اس کا محبوب بندہ بن جائے گا۔ گویا نبی کریم ﷺ کی سنت کی پیروی کرنا اور آپ کا اتباع ہی عبادت کی روح ہے اور حاصل زندگی ہے اور انسان کا جو فعل بھی سنتِ مصطفی ﷺ کے خلاف ہو وہ فی نفسہ عبادت نہیں ہے۔