انبیاء کی ولادت کا تذکرہ سنت الہٰیہ ہے

تحریر: تحریم رفعت

عربی لغات کے اعتبار سے لفظ میلاد کا مادہ وَلَدَ(و۔ل۔د) ہے۔ جس کے معنی پیدائش یا ولادت کے ہیں۔ جبکہ اس کے اصطلاحی معنی نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت ہے اور عصر حاضر میں بھی یہ لفظ آپ ﷺ کی ولادت پاک کے اعتبار سے مستعمل ہے۔

اہل عرب میلاد کے بیان کو عرف عام میں مولدیا مولود کہتے ہیں اور ایسی کتب جن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد مبارک کے واقعات، فضائل و کمالات، برکات و معجزات اور سیرت طیبہ کا ذکرہ ہو، انہیں مولود کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے میلاد نامہ کہا جاتا ہے اور اس سے محافل میلاد مراد لیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت و توقیر اور رفعت شان کا تذکرہ ہو یا سیرت مطہرہ کے چرچے وہ آیات بھی میلاد کے زمرے میں آئیں گی۔

انبیاء کرام علیہم السلام کا میلاد قرآن مجید سے ثابت ہے، لہٰذا انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت باسعادت کا تذکرہ کرنا اللہ رب العزت کی سنت قرار پایا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم میں حضرت سیدنا عیسیٰ ابن مریم اور سورۃ قصص میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہم السلام کی ولادت کا ذکر جمیل ملتا ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء عظام کی ولادت کے تذکروں کے ساتھ ان کی عظمتوں، رفعتوں، شانوں، معجزات و کمالات اور سیرت پاک کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ یعنی قرآن مجید میں نہ صرف میلاد کا جواز ملتا ہے بلکہ میلاد کا تذکرہ کرنا اور صاحب ولادت ہستی کے فضائل و کمالات اور شان امتیازی کے تذکرہ کا جواز اور ثبوت ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذکر میلاد سنت رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، اولیاء و صالحین کی بھی سنت قرار پایا۔

قرآن مجید کی بے شمار شانوں اور لازوال عظمتوں میں سے ایک خاص شان اور عظمت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کا میلاد نامہ بھی ہے اور میلاد نامہ پڑھنے والی ذات خود ذات باری تعالیٰ ہے۔ لہٰذا اس اعتبارسے حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد پڑھنا سنت الٰہیہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے محبوب و مقربین انبیاء، اولیاء اور صالحین بندوں کی ولادت اور سیرت دونوں کو بیان فرمایا ہے۔ گویا ان کا ذکر کرنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ سنت اللہ بھی ہے اور ان کا تذکرہ کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا گیا ہے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں پر انبیاء کرام علیہم اجمعین کے تذکروں کے ساتھ سب کے روحانی مشاغل و معمولات کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر ان کی دعاؤں اور مناجات کے کلمات بیان کیے ہیں۔

بلاشبہ ولادت ہر طبقہ اور معاشرے میں بسنے والی بنی نوع انسان کے لئے خوشی و مسرت کا باعث ہوتی ہے اور اسی وجہ سے معاشرے میں یوم ولادت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مگر جب ان دنوں کی نسبت انبیاء کرام کے یوم ولادت سے ہوتی ہے تو اور بھی قدر و منزلت کی حامل بن جاتی ہے۔دراصل انبیاء کرام علیہم السلام کی ولادت جمیع انسانیت کے لئے اللہ رب العزت کی نعمت عظمیٰ ہے۔اسی اعتبار سے تاجدار انبیاء نبی آخر الزماں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت تمام کائنات کی خوشیوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ رب العزت کی ایسی نعمت ہے کہ جس پر تمام نعمتیں کمتر اور حقیر نظر آتی ہیں۔ جس زمانے میں آپ پیدا ہوئے وہ زمانہ سب زمانوں سے معزز، جس معاشرے میں آپ پیدا ہوئے وہ معاشرہ سب سے اعلیٰ، جس خاندان میں آپ نے جنم لیا وہ گھرانہ افضل و اعلیٰ، جس مہینے اور جس دن آپ کی ولادت باسعادت ہوئی وہ دن اور مہینے سب دنوں اور مہینوں سے افضل قرار پایا۔ الغرض آپ ﷺ کی ولادت باسعادت سے جڑی تمام تر اشیاء و واقعات ہر لحاظ سے بے مثل و بے مثال اور سب سے بڑھ کر شان و منزلت کے حامل ہیں۔ حضورنبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوش ہونا اور جشن منانا ایمان کی علامت اور اپنے آقا و مولیٰ کے ساتھ قلبی تعلق کا آئینہ دار ہے۔

قرآن مجید نے بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے ایام ولادت کا تذکرہ فرما کر اس دن کی اہمیت و فضیلت اور برکت کو واضح کیا ہے:

1۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَسَلاَمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّاO

(مریم، 19: 15)

’اور یحییٰ پر سلام ہو، ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔‘

2۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کلام کی نسبت کرکے قرآن مجید فرماتا ہے:

وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدتُّ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّاO

(مریم، 19: 33)

اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔

3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی ولادت کا ذکر مبارک قسم کے ساتھ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا:

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO

(البلد، 90: 1۔3)

میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔

اگر ولادت کا دن قرآن و سنت اور شریعت کے نقطہ نظر سے خاص اہمیت کا حامل نہ ہوتا تو اس دن پر بطور خاص سلام بھیجنا اور قسم کھانے کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟

قرآن مجید میں ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے میلاد کا تذکرہ متعدد مقامات پر ملتا ہے جہاں آپ کے زمین پر تشریف لانے سے پہلے کے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں اور دنیا میں تشریف آوری کے بعد کے بھی۔ جنت میں رہن سہن، فرشتوں اور ابلیس کے مکالمے کا تذکرہ بھی ہے اور زمین پر بھیجے جانے کے بعد کے واقعات پر بھی سیرحاصل کلام فرمایا گیا ہے، یہی آپ کا میلاد نامہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً.

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ اور جوانی کے واقعات کو بھی تفصیل سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔سورۃ القصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کی سرکشی اور اس کے خلاف اعلان جہاد بلند کرنے کے قصوں سے لے کر قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات تک کے تمام واقعات بھی کم و بیش50 آیات مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ نیز حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کا واقعہ بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ یہی میلاد نامہ موسیٰ علیہ السلام ہے۔

انبیاء کرام علیہ السلام کے علاوہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنی برگزیدہ اور پاکباز ولیہ کاملہ سیدہ مریم ابن عمران سلام اللہ علیہا کی ولادت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے زیرظل عاطفت پرورش پانے کا بیان، اللہ رب العزت کی بے پایاں نوازشات، انعامات و اکرام کا تذکرہ، بے موسم پھل عطا کیے جانے کا تذکرہ، حضرت زکریا علیہ السلام کاآپ کی قیام گاہ کو وسیلہ بنا کر اولاد نرینہ کی دعا کا تذکرہ اور سن رسیدہ ہونے کے باوجود اللہ رب العزت کی طرف سے حضرت یحیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت ملنے کا تذکرہ بھی میلاد سیدہ مریم علیہ السلام کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔

حضرت زکریا علیہ السلام کے صاحبزادے سیدنا یحیٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت کے ساتھ ہی آپ کے فضائل بھی اللہ رب العزت نے بیان فرما دئیے تھے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو عطا کیا جانے والا بیٹا کلمۃ اللہ کی تصدیق کرنے والا ہوگا، بیشک وہ سردار ہوگا اور عورتوں کی رغبت سے محفوظ ہوگا اور اللہ کے خاص مقربین میں سے ہوگا۔سورۃ مریم میں سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے میلاد، روحانی مقامات، سیرت کے درخشندہ پہلوؤں کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے۔ بات آپ کے یوم میلاد پر سلام سے لیکر، یوم وصال اور یوم قیامت اٹھائے جانے پر بھی سلام کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔ جس کا مقصد اللہ کے برگزیدہ بندے اور نبی کی ولادت کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ذہنوں میں پختہ کرنا تھا۔ یہی میلاد سیدنا یحیٰ علیہ السلام تھا۔

سورۃ مریم کا آخری رکوع سیدنا عیسیٰ کلمۃ اللہ کا میلاد نامہ ہے۔ جس میں آپ کی والدہ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کو آپ کی ولادت کی بشارت دی گئی۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کا اللہ رب العزت کی جانب سے بیٹے کی خوشخبری کا دیا جانا، آپ کا امید سے ہونا، آپ پر خوان نعمت نازل کیا جانا، وضع حمل سے لیکر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ قوم کی طرف پلٹنا، لوگوں کا طعن و تشنیع کے نشتر لگانا، اللہ رب العزت کے حکم سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا پنگھوڑے میں کلام کرتے ہوئے اللہ کی وحدانیت اعلان، خود کو رب کا بندہ قرار دینا اور اعلان نبوت کرنا نیز اللہ رب العزت کی جانب سے کتاب مقدس کا عطا کیا جانا۔ اپنے یوم ولادت پر سلام، یوم وصال پر سلام اور یوم بعثت پر سلام بھیجنا، تمام واقعات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ بیان کر رہے ہیں۔

قرآن مجید میں نبی آخر الزماں تاجدار ختم نبوت امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت باسعادت کا تذکرہ آپ سے منسوب زمان و مکاں، آپ کے آباو اجداد، حسب نسب، فضیلت و عظمت اور بزرگی و برتری سمیت جملہ جزئیات کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے جس شہر میں آپ کی ولادت ہوئی اور آپ نے سکونت اختیار فرمائی اس شہر مکہ کی قسمیں کھائی۔ آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ کو جملہ انسانیت کے لئے پیکر شفقت و رحمت بنا یا گیا۔ظلمت و تاریکی میں ڈوبی انسانیت میں اللہ رب العزت نے اپنا محبوب و مقرب رسول بھیج کر جملہ انسانیت پر رحم فرمایا اور اپنی نعمت عظمیٰ انہیں عطا فرمائی۔ آپ کو انسانیت کا رہبر و رہنما بنایا آپ کو صحیفہ انقلاب قرآن مجید عطا فرمایا۔ آپ کو جمیع انسانیت کیلئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَO

اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

(الأنبیاء، 21: 107)

هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْهُمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍO

(الجمعة، 61: 2)

وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک (باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد آپ ﷺ کی ولادت باسعادت سے قبل اور وقت ولادت ظہور پذیر ہوئے۔ سنت الٰہیہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بطور خاص ماہ ربیع الاول میں عشاقان رسول ﷺ آپ کے ذکرجمیل کا تذکرہ کرنے کے لئے دنیا بھر میں محافل میلاد النبی ﷺ اور محافل مولود النبی ﷺ کا انعقاد کرتے ہیں۔ آپ کے فضائل و کمالات، شمائل و خصائل اور سیرت طیبہ کے حسین تذکروں سے اپنے قلوب و اذہان کو روشن و منور کرتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ میلاد یا مولود قرآن مجید سے نہ صرف ثابت ہے بلکہ میلاد کا تذکرہ کرنا، میلاد منانا، میلاد پڑھنا اور اس کا چرچہ کرنا اللہ رب العزت کی سنت مبارکہ ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے میلاد پاک کا تذکرہ آ جانے، اور حکم پروردگار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سنت الٰہیہ کو زندہ کرنا اور مخصوص ایام میں محافل میلاد پڑھنا اور میلاد کا تذکرہ کرنا بھی از روئے قرآن ہے۔