اخلاص کی ضرورت و اہمیت

مریم اقبال

الاخلاص سرّ بین العبد و بین الله. (قرطبی)

اخلاص اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ایک راز ہے۔

اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے عمل سے محض اللہ کی قربت کا طالب ہو۔

اخلاص ایک ایسی کیفیت ہے جو عمل کو اہمیت بخشتی ہے اور عمل کی قبولیت کیلئے نہایت ضرورت کی حامل ہے۔ اخلاص کی سادہ تعریف یہ ہے کہ کسی بھی نیک عمل میں محض اللہ کی رضا کا ارادہ کرلینا اور اور اس کو اسی کی رضا کے ساتھ سر انجام دینا۔ اہل علم نے اخلاص کی بہت سی تعریفیں بیان کی ہیں ایک تعریف یہ ہے اللہ تعالیٰ کو اطاعت میں تنہا مقصود جاننا اخلاص ہے۔ ایک اور تعریف یہ کہ اخلاص یہ ہے کہ بندہ کے اعمال ظاہراً و باطناً ایک جیسے ہوں۔ اس کے علاوہ کسی عمل کو کسی بھی طرح کی آمیزش سے پاک صاف رکھنا اخلاص کہلاتا ہے۔ یعنی اخلاص ایک ایسی کیفیت اور ایسا عمل ہے جس سے ریا اور نمود کاری کا کوئی ساماں باقی نہ رہے۔ قرآن مجید میں اخلاص کا حکم دیتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِاللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ.

(الزمر، 39: 2)

بے شک ہم نے آپ کی طرف (یہ) کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تو آپ اللہ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کریں۔

اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے اپنی عبادات کو اخلاص سے مزین کرو۔

اخلاص کی ضد ریاء اور دکھلاوا ہے آقا علیہ السلام نے دکھلاوے اور ریا کاری سے متعلق فرمایا کہ جس نے دکھلاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا اور جس نے دکھلاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے صدقہ وخیرات دکھاوے کے لیے کیا اس نے شر ک کیا۔

اسی طرح متفقہ علیہ حدیث ہے کہ حضرت جندبؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص کوئی عمل سنانے اور شہرت کے لیے کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شہرت دے گا اور جو کوئی عمل دکھاوے کے لیے کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دکھا دے گا۔

ترمذی میں ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو جُبُّ الْحَزْنِ (غم کے کنویں) سے پناہ مانگو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ جُبُّ الْحَزْنَ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا جہنم میں ایک وادی ہے(اس کا حال اتنا برا ہے کہ) خود جہنم ہر دن میں چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ ﷺ اس میں کون لوگ جائیں گے؟ آپ نے فرمایاوہ بڑے عبادت گزار اور زیادہ قرآن پڑھنے والے جو دوسروں کو دکھانے کے لیے اچھے اعمال کرتے ہیں۔

اخلاص کو تمام عبادات اور نیک اعمال میں روح کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اخلاص کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اَلَا ِللهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ.

(لوگوں سے کہہ دیں:) سُن لو! طاعت و بندگی خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہے۔

حضرت سیدنا سہل تستری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص یہ کہ بندے کا ٹھہرنا اور حرکت کرنا بھی خالصتاً اللہ رب العزت کیلئے ہو جائے۔

حضرت سیدنا ابو عثمان نیشاپوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص یہ ہے کہ بندہ فقط خالق کی طرف ہمہ وقت متوجہ رہنے سے مخلوق کو دیکھنا بھولنا جائے۔

حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اِخلاص اللہ اوراس کے بندے کے درمیان ایک راز ہے، اسے فرشتہ نہ جانے کہ لکھ لے اور شیطان بھی نہ جانے کہ خرابی پیدا کرے اور خواہش نفس کو بھی اس کا علم نہ ہو کہ اسے اپنی طرف مائل کرے۔

اخلاص اگر اعلیٰ ہو اور عمل قلیل بھی ہو تو وہ کثیر بن جاتا ہے اور اس کے برعکس اگر صدق و اخلاص کمزور ہو تو عمل جس قدر بھی ہو وہ قلیل ہوجاتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

نِیَّهُ الْمُوْمِنِ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِهِ. (طبرانی)

مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا اور لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (راہ مسلم)

آقائے دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے صدق اور اخلاص کے ساتھ اللہ سے شہادت طلب کی اور اسے شہادت نہ بھی ملی (بخار کے ساتھ گھر میں بستر پہ لیٹے ہوئے وفات ہو گئی) اللہ تعالیٰ اسے بھی شہداء میں شامل کرے گا۔ (مسلم) اس حدیث مبارکہ سے صدق و اخلاص کا مقام واضح ہوتا ہے۔ مسلمان اگر اخلاص کے ساتھ کسی کام کی نیت کریں اور وہ اس کو انجام نہ بھی دے سکے تو تب بھی اس کے نامہ اعمال میں نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عمل کیے بغیر محض اخلاص کے ساتھ جو ارادہ کیا تھا اس پر بھی نیکی لکھ دی تو اگر وہ بندہ عمل کر لے تو پھر اس کے اجرو ثواب کا عالم کیا ہو گا؟ارشاد فرمایا:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا.

(الانعام، 6: 160)

جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں۔

کسی کو کہا کہ اس کے لیے 70 گنا اجر، کسی کے لیے کہا سو گنا اجر، کسی کے لیے کہا 700 گنا اجر اور کسی کے لیے بے حدو حساب اجر کا اعلان فرمایا۔

ایک ہی عمل کے اجر پر اتنے درجات کا فرق کہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اور اس سے بھی بے حد و حساب اجر کی نوید صدق و اخلاص اور نیت کی بناء پر ہے۔ جب بندہ اخلاص کی راہ کو اپنا لیتا ہے تو اس کے دو نفل نامہ اعمال میں ہزار نفل سے زیادہ بن جاتے ہیں۔روز قیامت جب لوگوں کا اعمال نامہ کھولا جائے گا تو وہ حیران ہو جائیں گے کہ ہم نے تو اتنی نیکیاں نہیں کیں، مگر اتنا اجر کیوں لکھا ہوا ہے؟ جواب آئے گا یہ اجر تیرے اخلاص کی وجہ سے ہے۔

دوسری طرف ایک شخص اگر گناہ کرنے کا ارادہ کرلے مگر اللہ کے خوف سے وہ گناہ نہ کرے تو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ پاک فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ اس کے لیے ایک نیکی لکھ لو۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بھی اس کا اخلاصِ نیت کام آیا۔ وہ اللہ کے عذاب و ناراضگی سے ڈر گیا اور اللہ کے ڈر کی وجہ سے اُس نے گناہ نہیں کیا۔ پس صدق و اخلاص کی قوت کی بناء پر نیکی کا اجر اسے اللہ سے ڈرنے کی بات پر مل جاتا ہے۔ مخلص کا ہر عمل جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو لکھا جاتا ہے، وہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو۔

اخلاص کے درجات:

اخلاص کے دو درجے ہیں:

  1. مخلِص
  2. مخلَص

جو کیفیتِ اخلاص کی ابتداء میں ہو اُس کو مخلِص کہتے ہیں۔ اور جس نے اخلاص کاراستہ سارا طے کر کے منزل حاصل کر لی، اُس کو مخلَص کہتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے عامۃ الناس مسلمانوں کو قرآن مجید میں حکم دیا کہ مخلِص ہو جاؤ۔

فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهٗ الدِّیْنَ.

(غافر، 40: 14)

پس تم اللہ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو۔

یہ قرآن مجید میں درجۂ مخلِصین ہے۔

اور جو مسلمان راہِ اخلاص کو طے کر لیتے ہیں اور کمال تک پہنچ جاتے ہیں ان کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مخلَصین کا لفظ استعمال کرکے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ جب شیطان نے کہا کہ میں تیرے سب بندوں کو گمراہ کروں گا تو اسے بھی امرِ الٰہی سے حفاظتِ الٰہی کے تحت استثنیٰ کرنا پڑا۔

قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَo اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَo

(ص، 38: 82-83)

اس نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گاo سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں۔

مخلَصین اللہ رب العزت کی پناہ میں آجاتے ہیں اور محفوظین ہو جاتے ہیں۔ شیطان کے حملے مخلِصین پر ہوتے رہتے ہیں شیطان ان کو بہلاتا پھسلاتا رہتا ہے۔ اور وہ لوگ جو مخلص نہیں ہوتے شیطان ان پر حملہ نہیں کرتا کیونکہ وہ پہلے ہی ریا کاری کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ شیطان ریاکاروں پر اپنی محنت نہیں لگاتا کیونکہ وہ پہلے ہی اس کی پیروی کررہے ہوتے ہیں اخلاص سے خالی ہوتے ہیں اور شیطان کے دوست ہوتے ہیں اور شیطان اپنے دوستوں پر حملہ نہیں کرتا۔ چونکہ شیطان کا مخلَصین پر بس نہیں چلتا کیونکہ وہ محفوظین ہوچکے ہوتے ہیں تو وہ اپنے تمام تر وار مخلِصین پر آزماتا ہے۔ مخلِصین میں علماء کرام، صالحین، علماء، قراء و نعت خواں اور دیگر عام مسلمان شامل ہیں۔ چونکہ یہ لوگ نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور شیطان نیکی کی راہ پہ چلنے والوں کا ہی دشمن ہوتا ہے۔ انہی پر حملے کرتا ہے اور انہیں بہلاتا پھسلاتا ہے۔

صدق و اخلاص کا حصول کیسے ممکن ہو؟

صدق و اخلاص کی اعلیٰ و عظیم منزل کس طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس کا طریقہ کار بھی ارشاد فرما دیاہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَo

(التوبة، 9: 119)

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔

صدق و اخلاص محنت و مشقت سے نہیں ملتا بلکہ صدق صادقین کی صحبت اور اخلاص مخلَصین کی سنگت سے ملتا ہے۔ مندرجہ بالا آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے بہت اہم بات ارشاد فرمائی ہے وہ یہ کہ اللہ سے ڈرو اور صدق والوں کی صحبت میں شامل رہو۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ صدق کرو بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اہل صدق کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ یعنی اگر اہل صدق و اہل اخلاص کے ساتھ وقت گزارو گے تو تمہیں بھی صدق و اخلاص کی دولت نصیب ہوگی۔

اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے، دیگر تہذیبوں کی بنیاد مفاد اور جذبات پر جبکہ اسلام کی بنیاد اخلاص اور حکمت پر قائم ہے۔ اسلام جذبات کی بجائے اخلاص کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ بارش نے ان کو آ لیا۔ تینوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی، اچانک اوپر سے ایک چٹان غار کے سامنے آ گری اور انہیں ( غار کے اندر ) بالکل بند کر دیا۔ اب ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ تم لوگ اب اپنے ایسے کاموں کو یاد کرو۔ جنہیں تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اسی کام کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو ٹال دے، چنانچہ ایک شخص نے دعا شروع کی۔ اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے۔ اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے (جانور) چرایا کرتا تھا۔ پھر جب واپس ہوتا تو دودھ دوہتا۔ سب سے پہلے، اپنی اولاد سے بھی پہلے، میں والدین ہی کو دودھ پلاتا تھا۔ ایک دن دیر ہو گئی اور رات گئے تک گھر واپس آیا، اس وقت میرے ماں باپ سو چکے تھے۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور ( اس کا پیالہ لے کر) میں ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں۔ لیکن اپنے بچوں کو بھی (والدین سے پہلے) پلانا مجھے پسند نہیں تھا۔ بچے صبح تک میرے قدموں پر پڑے تڑپتے رہے۔ پس اگر تیرے نزدیک بھی میرا یہ عمل صرف تیری رضا کے لیے تھا تو (غار سے اس چٹان کو ہٹا کر) ہمارے لیے اتنا راستہ بنا دے کہ آسمان نظر آ سکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنا دیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے نے کہا اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی۔ مرد عورتوں سے جس طرح کی انتہائی محبت کر سکتے ہیں، مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی۔ میں نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا۔ لیکن وہ سو دینار دینے کی صورت راضی ہوئی۔ میں نے کوشش کی اور وہ رقم جمع کی۔ پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا، تو اس نے مجھ سے کہا، اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور اس کی مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی دور ہو گیا، اگر میرا یہ عمل تیرے علم میں بھی تیری رضا ہی کے لیے تھا تو (اس غار سے) پتھر کو ہٹا دے۔ پس غار کا منہ کچھ اور کھلا۔ اب تیسرا بولا کہ اے اللہ ! میں نے ایک مزدور تین فرق چاول کی مزدوری پر مقرر کیا تھا۔ جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو مجھ سے کہا کہ اب میری مزدوری مجھے دے دے۔ میں نے پیش کر دی لیکن اس وقت وہ انکار کر بیٹھا۔ پھر میں برابر اس کی اجرت سے کاشت کرتا رہا۔ اور اس کے نتیجہ میں بڑھنے سے بیل اور چرواہے میرے پاس جمع ہو گئے۔ اب وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر ! میں نے کہا کہ بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جا اور اسے لے لے۔ اس نے کہا، اللہ سے ڈر ! اور مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ (یہ سب تیرا ہی ہے) اب تم اسے لے جاؤ۔ پس اس نے ان سب پر قبضہ کر لیا۔ الہٰی ! اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری خوشنودی ہی کے لیے کیا تھا تو تو اس غار کو کھول دے۔ اب وہ غار پورا کھل چکا تھا۔ یہ اخلاص کا ہی کرشمہ تھا کہ جب ان تینوں نے رضائے الٰہی کے جذبے سے کئے ہوئے عمل کا واسطہ دیا اور اس کے سہارے رب حقیقی کے در پر دست دراز ہوئے اللہ رب العزت نے ان کو بھیانک غار سے بچا لیا۔

اخلاص اس کیفیت کا نام ہے جس میں بندہ جو کرتا ہے اللہ کی محبت، رضا، قرب جوئی، دیدار اور حکم کی تعمیل کے لیے کرتا ہے، اس کے سوا کوئی شے اُس کی نیت و خیال میں داخل نہیں ہوتی۔ اِخلاص کے ساتھ عمل مومن کی نشانی ہے یہ اخلاص تھوڑے عمل میں بھی شامل ہو تو اُسے بہت بڑا اور طاقتور بنا دیتا ہے۔ عمل مقدار کا نام ہے اوراخلاص معیار کا نام ہے۔اخلاص صرف یہ نہیں کہ نماز اور روزہ اور دیگر عبادات میں ریا کاری نہ ہو بلکہ اخلاص یہ ہے کہ ہر اچھا کام خواہ وہ ملازمت ہی کیوں نہ ہو یا کسی کے ساتھ اچھا سلوک صرف اس لیے اور اس نیت سے کیاجائے کہ ہمارا خالق وپروردگار ہم سے راضی ہو، ہم پر رحمت فرمائے اور اس کی ناراضگی اور غضب سے ہم محفوظ رہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ تمام اچھے اعمال واخلاق کی روح یہی اخلاصِ نیت ہے اگر اچھے سے اچھے اعمال صدق اخلاص سے خالی ہوں اور ان کا مقصد رضاء الٰہی نہ ہو بلکہ نام ونمود ونمائش، ریا کاری اور دکھلاوا ہو یا ایسا ہی جذبہ ان کا محرک ہوتو اللہ رب العزت کے نزدیک ایسے اعمال کی کوئی قیمت نہیں۔ آج امت مسلمہ جس پرفتن دور سے گزر رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ صدق و اخلاص کی کمی ہے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ نے فرمایا:

ظاہرِش صلح و صفا، باطن ستیزز
اہلِ دل را شیشہِ دل ریز ریز

اس(دنیا)کا ظاہر تو امن و اخلاص ہے، لیکن باطن میں عداوت ہے۔ جس سے اہل دل کا شیشہِ دل چور چور ہے۔

صدق و آخلاص و صفا باقی نماند
آں قدح بشکست و آں ساقی نماند

مسلمان کی زندگی میں اخلاص یہ ہے کہ وہ اپنے قول و عمل اور جملہ تصرفات اور ساری تعلیمات و توجیہات سے صرف اللہ سبحان و تعالیٰ اور اس کے رسول کی ذات کا قصد کرے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے ہر عمل میں صدق و اخلاص نصیب فرمائے۔ آمین