قائداعظمؒ کا اخلاق و کردار

سعدیہ کریم

قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شخصیت خداداد صلاحیتوں کا ایک حسین مرقع تھی۔ قول و فعل میں یگانگت، خلوص، خدا خوفی، خیر خواہی اور حب رسول ﷺ سے بھرپور شخصیت جس کا مقصد راستی اور راست بازی تھی جو اپنوں اور بیگانوں کے دلوں میں اثر کرتی تھی۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قائداعظمؒ نے اصولوں کی جنگ اصولوں کے ساتھ لڑی اور ہر مکرو فریب کا مقابلہ سچ اور بے باکی سے کیا۔

قائداعظمؒ فی الواقعہ تاریخ ساز انسان تھے۔ ان کی باتیں دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھیں اور اثر رکھتی تھیں۔ ان کی باتوں سے مردہ دلوں میں جان پیدا ہوجاتی تھی جو بھی اُن سے ملتا اُن کا دیوانہ ہوجایا کرتا تھا۔ پہلے آپ مسٹر جناح تھے پھر محمد علی جناح اور بعد میں قائداعظم بنے۔ آپ نے ایک معاملہ فہم سیاست دان اور قائد کی حیثیت سے مسلمانان برصغیر کی جو رہنمائی فرمائی اسی کے اعتراف میں قوم نے آپ کو قائداعظم کے خطاب سے نوازا۔ آپ کی قابلیت، دیانت اور امانت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا کہ

’’جناح کے سوا کوئی شخص مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو بے شمار اوصاف سے نوازا تھا۔ ان کی قابلیت، ایمان داری اور گفتار و کردار اپنی مثال آپ تھا۔ بحیثیت مجموعی وہ ایک سنجیدہ دل و دماغ کے آدمی تھے مگر وہ موقع محل کی مناسبت سے مزاح بھی کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی کھانے کی میز پر ہلکی پھلکی گفتگو اور دلچسپ واقعات سناتے جس سے حاضرین بے حد محظوط ہوتے تھے۔ اپنی ذہانت اور بصیرت کی وجہ سے معاملہ کی تہہ تک فوراً پہنچ جایا کرتے تھے۔ یہی وہ صفت تھی جس نے انھیں ایک عظیم قانون دان اور ایک باوقار لیڈر بنادیا۔

وہ ایک عظیم المرتبت انسان تھے۔ انھوں نے ہمیشہ انسانیت کی قدر کی وہ ہر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ عزت سے پیش آتے ان کے مسائل سنتے اور اس کا حل بتاتے وہ کسی بھی شخص سے ملاقات کرنے سے انکار نہیں کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ:

’’آنے والے کی بات کو لازماً سننا چاہیے ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جائے ہوسکتا ہے کہ دوران ملاقات وہ شخص کوئی ایسی بات بیان کردے جو ہمارے لے فائدہ مند ہو۔ قائداعظم کا بے داغ کردار سب کے سامنے کھلی کتاب کی مانند تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی عظمت کا نہ صرف دوست بلکہ مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے۔‘‘

بقول وجے لکشمی پنڈت: ’’اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سوگاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف محمد علی جناح ہوتے توہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔‘‘

لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا کہ:

’’جناح اگر کسی فریق سے کوئی سمجھوتہ نہ کرتے تھے تو وہ جھک کر یا بزدلانہ انداز سے نہیں بلکہ مردانہ وار کرتے اور حق بحق دار سید اُن کا مقولہ تھا۔‘‘

امریکی مصنف سٹینلے والپرٹ لکھتا ہے کہ:

’’دنیا میں چند افراد ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کو نمایاں طور پر موڑتے ہیں جبکہ ایسے افراد اور بھی تھوڑے ہوتے ہیں جو دنیا کے نقشے میں قابل ذکر انداز میں تبدیلی لاتے ہیں اور ایسا فرد تو کوئی کوئی ہی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت کی تشکیل کرتا ہے۔ البتہ جناح کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے یہ تینوں کارنامے سرانجام دیئے۔‘‘

قائداعظم کے اخلاق و کردار کے چند واقعات:

قائداعظم پکے سچے مسلمان تھے۔ ایک روز بمبئی مسلم لیگ کے جلسے میں اردو تقریر کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ:

’’میں مغرور ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘

یہاں پر مغرور کا لفظ انھوں نے پرائوڈ (Proud) کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے بولا تھا جس کا مقصد یہ واضح کرتا تھا کہ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔

قائداعظم بلوچستان اور وہاں کے لوگوں سے بہت محبت کرتے تھے ایک دفعہ بلوچستان میں بحالی صحت اور آرام کی غرض سے گئے۔ وہاں پر خان آف قلات کی دعوت پر ایک سکول کا دورہ کیا۔ بچوں سے مل کر بہت خوش ہوئے ایک بچے سے پوچھا کہ آپ کون ہو تو بچے نے کہا میں بلوچ ہوں۔ قائداعظم نے خان آف قلات سے کہا کہ بچوں کو پہلا سبق یہ پڑھایا جائے کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر بچوں سے مخاطب ہوئے اور انھیں سمجھاتے ہوئے بولے کہ بچو! تم پہلے مسلمان ہو، پھر بلوچ یا کچھ اور۔

قائداعظم غریبوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ خطبہ الہ آباد میں فرمایا:

’’میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل دراصل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جوں جوں ہم ساتھ ساتھ قدم بڑھائیں گے ہمارے غریب عوام محسوس کریں گے کہ میں ان کا خادم ہوں۔ اگر میں کامیاب ہوگیا تو میرے لیے خوشی کا مقام ہوگا کہ میں نے غریب عوام کی خدمت کی اور ان کا معیار بلند کیا۔‘‘

قائداعظم تفرقہ بازی کے سخت خلاف تھے اور اس کی مذمت کیا کرتے تھے۔ 1944ء میں پنجاب کے جاٹوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا تھا کہ ہندو جاٹ اور مسلم جاٹ ایک ہیں۔ ذات پات کے تعصب کو ابھار کر مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی یہ ایک خطرناک سازش تھی۔ قائداعظم نے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’ہماری بنیاد کی چٹان اور ہماری کشتی کا لنگر اسلام ہے اور صرف اسلام ہے۔ ذات پات کیا، شیعہ سنی کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں بحیثیت ایک متحد قوم ہی کے آگے بڑھنا ہے۔ صرف ایک رہ کر ہی ہم پاکستان کو قائم رکھ سکیں گے۔ ہمارے لیے صرف اسلام ہی کافی و شافی ہے۔ یہی ہماری زندگی کا مکمل آئین ہے ہمیں کسی ازم کی ضرورت نہیں۔‘‘

کان پور میں مسلم لیگ کے جلسے میں ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟

قائداعظم نے فرمایا کہ پہلے میں تم سے پوچھتا ہوں کہ پیغمبر اسلام کیا تھے؟ اس شخص نے کہا کہ وہ تو مسلمان تھے۔ قائداعظم نے فرمایا تو پھر میں بھی مسلمان ہوں۔ انھوں نے مردم شماری کے موقع پر قوم سے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی ذات اور عقیدہ صرف مسلمان ہی لکھوائیں۔

قرآن حکیم کے ساتھ قائداعظم کا تعلق بہت مضبوط تھا۔ شریف الدین پیرزادہ اپنے مشاہدے کی بناء پر لکھتے ہیں کہ

قائداعظم کے پاس قرآن حکیم کے چند عمدہ نسخے تھے ان میں سے کچھ قلمی بھی تھے۔ ایک بہترین نسخہ جزدان میں لپٹا ان کے سونے کے کمرے میں سب سے اونچی جگہ رکھا رہتا تھا۔ ان کے اپنے مطالعے میں عموماً پکتھال کا ترجمہ شدہ قرآن مجید رہتا تھا۔ رسول پاک ﷺ کی سیرت پاک کے علاوہ چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی زندگیوں پر بھی انگریزی میں ان کے پاس کئی کتابیں تھیں قائداعظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایڈمنسٹریشن کے بہت قائل تھے اور اپنے لیڈروں سے اس تاثر کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

قائداعظم ہر قسم کی فرقہ پرستی سے بلند تھے۔ بمبئی کے ایک مسلمان بینکار نے اپنے وسائل اور رسوخ سے سولہ لاکھ روپے جمع کرکے ایک معیاری یتیم خانہ بنوایا اور افتتاح کے لیے قائداعظم کو دعوت دی۔ قائداعظم نے کہا کہ پہلے یہ بتایئے کہ یہ یتیم خانہ ہر فرقے کے مسلمان بچوں کے لیے کھلا ہوگا یا کسی فرقے کے لیے مخصوص ہوگا؟ اس شخص نے کہا کہ یہ ہماری برادری کے وسائل سے قائم ہوا ہے اس لیے اس کے آئین میں بھی یہ شرط رکھی گئی ہے۔ قائداعظم نے یہ سن کر افتتاح سے انکار کردیا۔ اس شخص نے اصرار کیا اور کہا کہ اس کا افتتاح صرف آپ ہی کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے آئین کو بدلیں اور اسے مسلم یتیم خانہ بنائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جب ادارہ کے دستور میں ترمیم ہوگئی تو قائداعظم نے بڑے شوق سے اس کا افتتاح کیا اور اس کے بانی کی بہت تعریف کی۔

اقلیتوں کی ہر قیمت پر حفاظت:

قیام پاکستان کے موقع پر جب برصغیر کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے شعلے اٹھ رہے تھے تو کراچی میں امن کے لیے قائداعظم نے وزیر دفاع کو طلب کیا اور فرمایا کہ

’’میں چاہتا ہوں کہ یہ فساد فوراً اور ہر قیمت پر روکا جائے۔ آپ ضروری کاروائی کریں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘

تشدد سے تشدد ہی پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد دہلی، یوپی اور مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر جو ہولناک مظالم ہندوئوں نے کیے ان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جب ان مظالم کی خبر کراچی پہنچی تو کراچی کے مسلمانوں کا خون کھول اٹھا اور وہ کراچی میں موجود ہندوئوں اور سکھوں سے اپنے مظلوم بھائیوں کا انتقام لینے لگے اور یہ فساد پورے کراچی میں پھیل گیا۔ قائداعظم کو خبر ملی تو انھوں نے کراچی نیشنل گارڈز کے عہدیداران کو بلا کر فرمایا:

’’مجھے بہت دکھ ہوا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ہندوئوں پر ہاتھ اٹھایا جارہا ہے اور نیشنل گارڈز منہ تک رہے ہیں جبکہ اقلیتوں کی حفاظت کرنا آپ کے فرائض میں شامل ہے۔‘‘

کمانڈر نے قائداعظم کو بتایا کہ دلی میں اتنے مظالم کیے جارہے ہیں اور اتنے مسلمان مارے گئے ہیں وہ بھی تو ہندوستان کا دارالحکومت ہے۔ قائداعظم نے فرمایا کہ اگر بھارت کی حکومت مسلمانوں کی حفاظت نہیں کرسکی اور اپنی زبان پر قائم نہیں رہی تو بھی میں پسند نہیں کروں گا کہ کل کوئی طعنہ دے کر میں اور حکومتِ پاکستان اقلیتوں کی حفاظت نہیں کرسکے۔ ہندو اگر اپنے وعدے بھلادیتے ہیں تو یہ ان کا عمل ہے لیکن ہمیں اپنے وعدے پر قائم رہنا چاہیے۔

کم ظرفی کا جواب کم ظرفی نہیں:

قائداعظمؒ بڑے بااصول اور عالی ظرف انسان تھے اور سیاست میں بھی اصول اور اعلیٰ ظرف کی پابندی ضروری سمجھتے تھے تحریک پاکستان کے زمانے کے ہندوئوں کا تعصب انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی اس تعصب کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ ہندوئوں نے الہ آباد یونیورسٹی کے ہال پر کانگریس کا جھنڈا لہرا رکھا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی یونین کے صدر نے قائداعظم سے عرض کی کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے پنجاب یونیورسٹی پر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کی رسم ادا فرمائیں۔

قائداعظم نے جواب دیا کہ میں اس طرح کی جوابی کاروائی کو پسند نہیں کرتا جس کام کے لیے ہم دوسروں کو مطعون کرتے ہیں وہ خود کیوں کریں۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ طاقت حاصل کرکے اپنی قوت کی اس طرح نمائش نہیں کرنی چاہیے کہ دوسروں کی دل آزاری ہو۔

تجاوز اور زیادتی سے اظہار ناپسندیدگی:

ایک دفعہ پنجاب کے مشہور مسلم لیگی کارکن کی دعوت پر قائداعظم لاہور تشریف لائے۔ اس دعوت میں قائداعظم کے سامنے ایک کیک کاٹنے کے لیے لایا گیا۔ اس کیک پر پورے ہندوستان کا نقشہ بنایا گیا تھا جس میں پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں کا رنگ سبز تھا۔ جب قائداعظم نے کیک کاٹا تو بڑی احتیاط سے سبز حصے کو الگ کردیا۔ یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ جناب والا ذرا سا حصہ اور کاٹ دیجئے۔ تو قائداعظم نے فرمایا میں تجاوز کسی صورت میں پسند نہیں کرتا۔

قائداعظم کے اے ڈی سی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر کسی سے کوئی اتفاقیہ غلطی ہوجاتی تو قائداعظم معاف کردیتے لیکن جب کوئی جان بوجھ کر غلطی کرتا تو وہ کبھی معاف نہ کرتے۔ وہ خود اتنے کھرے اور بے لاگ تھے کہ ان کا ماتحت عملہ کبھی کوئی غلط قدم اٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‘‘

وہ رشوت دینے اور دینے کے سخت خلاف تھے:

قائداعظم نے اپنے ایک سیاسی دوست کو سیاست کے اصول سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ ’’سیاست میں اخلاقی استواری نجی زندگی کی نسبت زیادہ اہم ہے۔ اگر تم سیاسی معاملات میں کسی غلطی کے مرتکب ہوگئے تو تم بہت سے ایسے لوگوں کو نقصان پہنچائو گے جو تم پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘

بددیانتی کرنے سے ہار جانا بہتر ہے:

جنگ، محبت اور سیاست میں لوگ سب کچھ جائز سمجھتے ہیں لیکن قائداعظم کا کردار مختلف تھا۔ وہ سیاست میں بھی دیانتداری کو مقدم رکھتے تھے اور اس اصول پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ 1946ء کے انتخابات پاکستان کے لیے ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے تھے۔ سندھ اسمبلی سے مسلمانوں کو 35نشستیں جیتنا لازم تھا لیکن وہاں پر بہت سی مشکلات تھیں۔ قائداعظم نے اپنے ساتھی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ:

’’یاد رکھیے! اگرچہ یہ انتخابات ہمارے لیے بہت اہم ہیں تاہم اس میں جیتنے کے لیے نامناسب طریقے اختیار نہ کیے جائیں اپنے نمائندوں کو کامیاب کرانے کے لیے کسی قسم کی رشوت نہیں دی جائے گی۔ میں ہرگز پسند نہیں کروں گا کہ ووٹ خریدنے کے لیے ووٹر کو ایک روپیہ بھی دیا جائے۔ یہ بددیانتی اور بے ایمانی ہوگی اور میں اس بے ایمانی کے مقابلہ میں ہار جانے کو ترجیح دوں گا۔‘‘

اس واقعہ کے راوی لکھتے ہیں کہ قائداعظمؒ کا خیال تھا کہ قیام قائداعظم ہمیشہ سیاسی سودے بازی سے گریز کرتے تھے اور سیاسی جوڑ توڑ کے بالکل بھی قائل نہ تھے اور مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے کرائے کے کارکن رکھنے کی بھی بالکل اجازت نہیں دیتے تھے جب ایک مسلم لیگی کارکن نے شملہ میں مسلم لیگ کی تحریک کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے کرائے پر کچھ لوگ رکھنے کی تجویز پیش کی تو قائداعظمؒ نے اس کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس تجویز کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ یہ کام مسلمانوں کا اپنا کام ہے اور اسے کرنے کے لیے کسی مسلمان کو رشوت دینا میرے لیے قطعاً ناجائز ہے۔ اگر ہم کسی کی شرط مان کر اسے رکھ لیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہم سے زیادہ مال دار قوم ہم سے زیادہ دام لے کر انھیں ہم سے دوبارہ چھین نہ لے گی۔‘‘

قائداعظمؒ متافقت کو پسند نہیں کرتے تھے قانون کے دائرے میں رہ کر ہر کام کرنے کے عادی تھے چاہے اس میں ان کا اپنا نقصان ہو یا کسی ادارے کا۔ بے ضابطگی کبھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ کبھی کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئی ان کے ہاتھ چومے یا اس طریقے سے تعظیم کرے جس سے اس کی عزتِ نفس مجروح ہو۔

اپنی تمام تر قائدانہ صلاحیتوں اور اعلیٰ تعلیم کے باوجود وہ انتہائی عاجز اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ 1946ء میں جب وہ پاکستان کی جنگ اصولی طور پر جیت چکے تھے تو ایک کشمیری رہنما نے ان سے کہا کہ ’’یہ سب کچھ آپ کی ذہانت اور فراست کا نتیجہ ہے۔‘‘ قائداعظم نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہ:

’’میرے دشمن میرے متعلق جو چاہیں کہیں انھیں اختیار ہے لیکن میرے دوستوں کو علم ہونا چاہیے کہ محمد علی جناحؒ نے کانگریس کو جس سیاست سے ہر قدم پر مات دی ہے اس کا نام راست بازی اور سچائی ہے۔‘‘

ان کی ساری سیاسی زندگی ان کے اس قول کی تائید اور تصدیق کرتی ہے کہ برصغیر کے وہ واحد سیاستدان ہیں جنھوںنے سیاست میں بھی اخلاقی اصولوں کو نہ صرف مقدم سمجھا بلکہ عملی طور پر ملحوظ بھی رکھا۔ اقبال نے ان کی شخصیت کو مرد مومن کے طور پر سمجھا اور فرمایا کہ

’’گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان‘‘

قائداعظم کی ذات مسلمانان برصغیر کے لیے ایک تحفہ خداوندی کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ایک سچے اور کھرے مسلمان تھے انھوں نے کبھی اپنے اصولوں پر سودا بازی نہیں کی اور ایک مردِ مومن کی حیثیت سے تحریک پاکستان میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مسلمانانِ برصغیر کے لیے ایک الگ وطن کے خواب کو حقیقت کی شکل دے دی اور پاکستان کے مسلمانوں کو ہمیشہ کامیاب رہنے کے لیے اللہ کے اس فرمان کہ

واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا.

’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو۔‘‘

کے تحت ایمان، اتحاد اور تنظیم کا درس دیا۔ ہمیں چاہیے کہ قائداعظم کے اخلاق و کردار کو اپنی زندگی میں اپنائیں اور اپنی ذات کی تمام تر خامیوں کو دورکرنے کی کوشش کرتے ہوئے مصطفوی مشن کے تحت اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہوں۔