انسانی حقوق کا عالمی دن

سماوہ سلطان

انساں کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے

ہم انسانی حقوق کا لفظ ہمیشہ ہی سنتے ہیں اور یقیناً اس سے واقف بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رو سے اس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جو ہر انسان کو یکساں میسر ہونے چاہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے محروم نہ ہو۔ جیسے کہ زندگی کا حق، دو وقت کی روٹی اور پینے کا صاف پانی، سر پہ چھت، اچھی صحت اور تعلیم کا حق۔ ہر آئین اور ہر قانون انسانی حقوق کی پاسداری پر مبنی ہے۔ انسانی حقوق کا سب سے بہترین چارٹر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں دیا۔ یہ انسانی حقوق کا سب سے پہلا اور اعلیٰ منشور مانا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔

خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔"

یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز کو رد کردیا۔ وہ رواج جو آریاؤں کا دیا ہوا تھا، زمانہ جہالت میں جب لوگوں کو رنگ، نسل اور قوم کی بنیاد پر دیکھا جاتا تھا۔ آج بھی یہی سب ہور رہا ہے۔ ہم اگر اپنے ملک میں دیکھیں تو امیر غریب کی تفریق ہر سو نظر آتی ہے۔ افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں کسی بھی انسان کو عزت بھی اس کے مال و دولت کو دیکھ کراس حساب سے دی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے سے لے کر یعنی کی سیاستدانوں جاگیرداروں کا طور طریقہ بھی یہی ہے اور اگر ہم عام لوگوں کی زندگی کو دیکھیں تو اس میں بھی یہی طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اسلام میں تو انسان کو امتیاز صرف اس کے تقوی کی بنیاد پر حاصل ہے لیکن ہم اس سے بہت دور نکل چکے ہیں۔

نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی نسلی امتیاز کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاہ فاموں کے ساتھ آج بھی ظلم و زیادتی کی جاتی ہے۔ مغرب نے خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لی ہو لیکن ان کے ہاں بھی ریس ازم پایا جاتا ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق بھی ہر انسان کو برابری کا حق حاصل ہے ہے خواہ وہ کسی بھی رنگ نسل اور مذہب کا کیوں نہ ہو۔ اسلام میں برابری اور مساوات کو بہت اہمیت حاصل ہے ہے اسی لیے تمام تر عبادات میں ہم واضح طور پر یہ چیز دیکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ حج کے دوران تمام حجاج ایک جیسا لباس پہن کر ایک ساتھ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ اسی طرح مرنے کے بعد بھی ہر کسی کو ایک جیسا لباس یعنی کہ کفن اور ایک جیسے طریقے سے مدفن کیا جاتا ہے۔

حجۃ الوداع میں مزید آپ ﷺ نے فرمایا:

"لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔"

یہاں بھی آپ ﷺ نے انسانی حقوق کی ادائیگی کی تاکید کی ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑے کو ناپسند کیا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے۔ لیکن ھم ایک اسلامی ریاست ہونے کے باوجود بھی ان تعلیمات سے دور ہیں۔ آئے دن دنگا فساد اور لڑائی جھگڑا ہمارے ہاں معمول بن چکا ہے ہے ہم میں صبر و برداشت کی بہت کمی ہے۔ ہم ہر بات کو حق اور باطل کا معاملہ بنا لیتے ہیں اور فرقہ واریت کی بنیاد پر تو کبھی معمولی سے جھگڑے کی بنیاد پر کسی بھی انسان کی جان لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

ایک اچھا مسلمان سب سے پہلے ایک اچھا انسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے اور اللہ کے رسول ﷺ نے انسانیت کا درس دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ اس طرح سے نہیں ہے کہ ایک مسلمان کی جان لینا سب مسلمانوں کی جان لینے کے برابر ہے بلکہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ ایک انسان کو مار دینا پوری انسانیت کو مار دینے کے برابر ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔

مزید فرمایا:"اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا۔"

امانت دار ہونا بھی ہر انسان کی ذمہ داری ہے اور امانت کو پوری دیانت داری کے ساتھ واپس کردینا انسانی حقوق میں شامل ہے ہے پھر چاہے وہ امانت حکمرانوں کے پاس موجود عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہو یا ہماری عام زندگی کے معاملات میں موجود کسی کی بھی امانت۔ یاد رہے کہ امانت سے مراد صرف کسی کا کوئی سامان یا پیسہ نہیں ہے بلکہ امانت سے مراد لوگوں کا اعتبار بھی ہے اور امانت سے مراد وہ لوگوں کی وہ باتیں بھی ہیں جو صرف ہم جانتے ہیں۔

آپ ﷺ نے خطبہ میں آگے فرمایا:

"لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ، اچھی طرح پہناؤ".

یہاں حقوقِ نسواں کا بھی درس دے دیا۔ یہ جو آج ہم مختلف قسم کی تحریکیں دیکھتے ہیں جن میں یہ رنگ دیا جاتا ہے کہ خواتین کے پاس حقوق نہیں اور یہ نعرہ سیکولرز کا ہے تو یہ بات ہمیں یاد رہنی چاہیے کہ اسلام خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اسلام نے عورت کو خودمختاری اور وقار کا درس دیا ہے, اس کو ہر حق دیا ہے جو اس کی ضرورت ہے اور جس میں اس کیلئے بہتری ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں عورتوں کے ساتھ اسلام نے نام پر بھی بدسلوکی کی جاتی ہے۔ خود کو مسلمان کہنے والے بھی عورت کو جائیداد میں حصہ نہیں دے رہے ہوتے۔ مرد اس کو سمجھا جاتا ہے جو عورت کے سامنے چِلانا جانتا ہو۔ لیکن نہ یہ ہمارا دین سکھاتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق اس کی اجازت دیتے ہیں۔

آپ ﷺ نے غلاموں کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:"تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔"

کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو ان کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے سے روکتے ہیں؟ اور کیا ان کی تنخواہ ان کی ضروریات کو پورا کر پاتی ہے؟

کسی بھی انسان کو اس بنیاد پر بوجھ تلے دبانا کہ یہ میرا غلام ہے، اس سے چھوٹی اور کیا حرکت ہوگی۔ انسان ہونے کے ناطے ان کی بھی اتنی کی عزت نفس ہے جیسے ہماری۔

آخر میں آپ ﷺ نے مزید حقوق بتاتے ہوئے فرمایا؛

خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو، زناکار کے لیے پتھر اوران کے حساب خدا کے ذمہ ہے۔

عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ عاریت واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔

مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔

اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔

اسلام چونکہ ایک ایسا دین ہے جو فطرت پر بنا ہے۔ یہ انسان کو پہچان کر اس کے مطابق بہترین منصوبہ بندی کا منشور دیتا ہے۔

دنیا میں جتنے بھی مہذب معاشرے ہیں وہاں انسانی حقوق کی بنیادی تعریف ایک جیسی ہی ہے۔ مغرب آج اس لئے ہم سے آگے ہے کہ وہاں ان حقوق پر باقاعدہ عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ وہاں انسان کی عزت ہے، اس کا ایک وقار ہے جس کو کوئی دوسرا ٹھیس نہیں پہنچاتا۔

لیکن ہمیں اپنا احتساب انسانی حقوق کے اس عالمی دن پر ضرور کرنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم میں جب تک انسانیت ہے تب تک ہی ہم جانور نہیں۔ ورنہ انسان تو جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ حقوق اللہ کی معافی تو مل جائے گی لیکن حقوق العباد کی معافی نہیں ملے گی۔ آپ نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا اور آپ کا پڑوسی بھوکا ہے تو آپ جوابدہ ہیں۔ ہم تو وہ قوم بن چکے ہیں جو رمضان المبارک میں راشن مہنگا کر دیتے ہیں، کورونا آیا تو ماسک کی قیمت بڑھا دی اور اب حالیہ سیلاب میں خیموں کو مہنگا کر دیا۔ ہمارے معاشرے کے زوال کے پیچھے بھی ہماری بے حسی شامل ہے۔

یاد رہے، کہ آپ جتنا بھی پڑھ لکھ جائیں کسی کے چہرے پر لکھی اذیت نہیں پڑھ سکتے تو آپ جاہل ہیں، آپ حقوق کی ادائیگی نہیں کر پاتے تو بھی آپ جاہل ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ہر چیز سے بالاتر ہو کر خود کو انسان بنا کر دیکھیں۔

اس دنیا میں بہت دکھ ہیں، بہت تکلیفیں، جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن ہر انسان خود کو بہتر بنا کر اپنے حقوق کی ادائیگی کی کوشش ضرور کرے۔