اداریہ: کوئی قانون آئین کی رو سے قرآنی تعلیمات کے برعکس نہیں بن سکتا

ایڈیٹر: دختران اسلام

پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ سے جب بھی پاکستان کے نظام اور طرز حکمرانی اور آئین سازی کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے ہمیشہ قرآن و سنت کے تناظر میں جواب دیا۔ پاکستان کاآئین بناتے وقت قرارداد مقاصد کو اس کا بطور خاص حصہ بنایا گیا کہ کوئی بھی قانون قرآن مجید کی تعلیمات کے برعکس وضع نہیں کیاجاسکے گا۔ اس بات کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ قراردادمقاصد کے درج ذیل نکات بطور خاص توجہ طلب ہیں جو آئین پاکستان کا حصہ ہیں۔ آئین کہتا ہے:

اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے، آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔

جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔

جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔

قراردادمقاصد کے علاوہ متعدد آرٹیکلز میں مذہبی رواداری کے فروغ کے حوالے سے بھی کچھ یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں آئین کا آرٹیکل 20کہتا ہے قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا۔ آرٹیکل 22کہتا ہے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

انٹرمیڈیٹ حصہ اول عمرانیات کی ٹیکسٹ بک کے حوالے سے گفتگو ہورہی ہے اس کتاب میں اسلامی ملک پاکستان کے اندر کچھ ایسی باتیں شامل کی گئی ہیں جونہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ اس کتاب میں سود، پردہ اور انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کے احکامات کی تضحیک کی گئی ہے اور حیرت ہے کہ یہ کتاب پچھلے 10 ماہ سے نافذ العمل تھی اور جب اس کی نشاندہی ہوئی تو فوراً اس کتاب کو واپس لینے کا حکومت پنجاب کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کیا کہ کوئی ایسی غلطی ہے کہ اس کتاب میں شامل اسلامی تعلیمات کے خلاف مواد کو ختم کرنے کے حکم دینے سے ازالہ ہو جائے گا۔

حکومت کو ایسے افراد کی نشاندہی کر کے انہیں عبرتناک سزادینی چاہیے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف نئی نسل کے ذہن زہر آلود کررہے ہیں اور ان کو دین کی بنیادوں سے ہٹارہے ہیں۔ اگرچہ قابل اعتراض مواد شامل کئے جانے کے حوالے سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس نوع کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں مگر سزا اور جزا کے کمزور نفاذ کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں ہو پاتی اور ایک مخصوص ذہن پلٹ پلٹ کر فکری اور نظریاتی سطح پر حملہ آور ہورہا ہے۔ حکومت پنجاب کو ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے کڑی سزا دینی چاہیے اور اس کے علاوہ نصاب ساز ادارے یا کمیٹی کی تشکیل نو ہونی چاہیے اور اس کمیٹی میں سینئر جج، وزیر تعلیم، ماہرین تعلیم، پاکستان علماء بورڈ کی نمائندہ ہونی چاہیے تاکہ نئی نسل کے دینی و اسلامی افکار و تعلیمات کی نصابی سطح پر حفاظت ہو سکے۔