فکر شیخ الاسلام: عظمتِ صحابیت رضی اللہ عنہم

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا ؗ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ.

(الفتح، 48: 29)

’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔‘‘

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے باری تعالیٰ یہ جو تو نے خوبیاں گنوائیں کہ ان کے اندر دین کی غیرت ہے اور دین کے دشمنوں پر سخت ہیں۔ کون؟ باری تعالی یہ کن کی بات فرما رہے ہیں؟ اللہ پاک نے فرمایا وہ آپس میں بڑے نرم ہیں۔ پھر سوال ہوا باری تعالی بتا یہ ساری خوبیاں کن کی ہیں۔ اب کون کا جواب اللہ دیتا ہے۔ نام نہیں لیتا۔ کوئی عنوان نہیں دیتا۔ جواب دیتا ہے۔

وَ الَّذِینَ مَعَهُ.

وہ جو میرے یار کے ارد گرد رہتے ہیں۔ کوئی نام نہیں ہے۔ کون؟ وہی جو میرے یار کے ارد گرد رہتے ہیں۔ وہ میرے محبوب کی سنگت میں رہتے ہیں۔ بس باری تعالٰی ان کا اور کوئی نام نہیں؟ فرمایا نہیں باقی سب نام مٹا دیئے۔ ان کا ان کی اور کوئی پہچان نہیں؟ فرمایا ان کی ساری پہنچائیں ہی مٹا دیں۔ بس اُن کو ایک ہی پہچان دی ہے۔ وہ کونسی ہے۔ والدین معہم۔ وہ محمد والے ہیں ہم ان کو صحابہ کرام کہتے ہیں۔ اللہ نے تو معیت محمدی کی بات کر کے سارے عنوان مٹا دیئے۔ فرمایا جب یہ جو کہہ دیا وَالَّذِینَ مَعَهُ وہ جو میرے محمد کے پاس رہتے ہیں۔ بس جب معیت محمدی کی بات ہوگئی۔ اس کے بعدنہ کسی نام کی حاجت رہی نہ کسی پہچان کی ضرورت رہی تو صحابہ کرام کی پہچان حضور بن گئے۔ گویا ان کی اپنی ساری پہنچانیں ختم ہو گئیں۔ اُن کی پہچان بھی محمد بن گئے صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان کا عنوان محمد بن گئے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

صحابہ کرام میں کئی عالم بھی تھے۔ مگر کسی کے علم نے ان کو صحابی نہیں بنایا۔ متقی بھی تھے۔ کسی کے تقویٰ نے انہیں صحابی نہیں بنایا۔ وہ مجاہد بھی تھے مگر کسی کے جہاد نے انہیں صحابی نہیں بنایا۔ وہ مجتہد بھی تھے۔ کسی کے اجتہاد نے صحابی نہیں بنایا۔ وہ عادل بھی تھے مگر کسی کے عدل نے صحابی نہیں بنایا۔ وہ قیام الیل تھے۔ مگر کسی کے قیام الیل نے انہیں صحابی نہیں بنایا۔ وہ صاحبانِ تزکیہ و مجاہدہ تھے مگر کسی کے تزکیہ اور مجاہدہ نے انہیں صحابی نہیں بنایا۔ وہ نیک تھے صالح تھے، پرہیز گار تھے کسی نے انہیں صالح نہیں بنایا۔ الغرض ان میں ہزار ہا خوبیاں تھیں۔ ہزاروں نیکیاں تھیں۔ مگر کسی کی کسی نیکی نے اور کسی کی کسی صالحیت نے اور کسی کی کسی خوبی نے کسی ایک کو صحابی نہیں بنایا۔

صحابی نہ کوئی علم سے بنا۔ نہ عمل سے بنا۔ نہ طہارت سے بنا۔ نہ تقوی سے بنا۔ نہ تزکیہ سے بنا۔ نہ مجاہدہ سے بنا۔ نہ معرفت سے بنا۔ نہ اپنے جمال و کمال سے بنا۔ الغرض اُن کی جب تک یہ خوبیاں تھیں۔ وہ صحابی نہ تھے۔ جب ساری خوبیاں مٹ گئیں اور وہ محمد میں فنا ہو گئے تو صحابی بن گئے۔ ان کا نام رکھا صحابی۔

صحابی کیا ہے؟

صحابی کے لفظ میں علم نہیں ہے۔ صحابی کے معنیٰ میں مجاہدہ نہیں۔ صحابی کے معنیٰ میں راتوں کا جاگنا نہیں۔ صحابی کے معنیٰ میں زہد اور ورع نہیں۔ صحابی کا معنی صرف ایک ہے صحبت والا۔

حضور علیہ الصلواۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھا۔ آقا کی صحبت و سنگت میں بیٹھا ہو۔ دس سال (نہیں) ایک سال (نہیں) ایک مہینہ شرط نہیں۔ ایک ہفتہ وہ بھی شرط نہیں پورا دن یہ بھی شرط نہیں۔ ایک گھنٹہ یہ بھی شرط نہیں ایک منٹ؟ ایک منٹ کے بھی 60 سیکنڈز ہوتے ہیں اسکی بھی شرط نہیں ہیں۔ ایمان کی حالت میں اگر ایک بھی سیکنڈ مل گیا یار کا مکھڑا، یار کا دیدار کرنے کا وہ بھی صحابی ہے۔

میدان جنگ ہے ایک کا فر گھوڑے پر چڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ قبلہ وسلم اور صحابہ کرام اور اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ میدان جنگ۔ اُس کا سویا ہوا مقدر جاگ اُٹھا۔ گھوڑا چلاتے چلاتے آقا کریم کے سامنے آگیا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ اقدس پر اُس کی نگاہ پڑ گئیں۔ آمنا سامنا ہو گیا، چہرہ انور کو دیکھا۔ اندر کی کائنات بدل گئی۔ گھوڑے پر ہی بیٹھے بیٹھے ہی کہنے لگا۔ اے محمد! اُس نے یارسول اللہ نہیں کہا۔ کیونکہ ابھی وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ ابھی اُس نے کلمہ نہیں پڑھا تھا۔ مسلمان ہوتا تو یارسول اللہ کہتا۔ ابھی تو ایمان نہیں لایا تھا۔ تو اسے یارسول اللہ کہنے کی توفیق کیسے ملتی۔ یہ توفیق یارسول اللہ کہنے کی تو ایمان سے نصیب ہوتی ہے۔ جو ابھی مسلمان نہیں ہوا وہ یا رسول کیسے کہے گا۔ اُس نے کہا اے محمد! آقا نے جواب دیا کیا بات ہے؟

اُس نے کہا۔ اگر میں آپ کا کلمہ پڑھ لوں۔ آپ پر ایمان لے آؤں۔ مطلب یہ کہ یا رسول اللہ کہنے والا بن جاؤں۔ آپ مجھے کیا دیں گے؟ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا تو میرا کلمہ پڑھ میں تجھے جنت دوں گا جنت ملے گی۔ اُس شخص نے وہیں سواری پر بیٹھے کلمہ پڑھ لیا۔ کلمہ پڑھ لیا۔ کلمہ پڑھ کے اسے خیال آیا کہ اب جس ہستی کا کلمہ پڑھ لیا ہے۔ جس پر ایمان لے آیا ہوں، اب اُتر کر اُن کے قدم بھی چوم لوں۔ سواری سے اُترنے لگا۔ ر کاب پر جب پاؤں رکھا۔ پاؤں پھسلا تووہیں زمین پر گردن کے بل گرا اور شہید ہوگیا۔ غسل وہ نہیں کر سکا۔ نماز پڑھنی تو دور کی بات ہے ابھی تو اس نے سیکھی بھی نہیں تھی۔ روزے کتنے رکھ لیے تھے؟ ابھی تو روزے کا مطلب بھی اُسے معلوم نہیں۔ جس پر ایمان لے آیا ہوں، اب اُتر کر اُن کے قدم بھی چوم لوں۔ سواری سے اُترنے لگا۔ رکاب پر جب پاؤں رکھا۔ پاؤں پھسلا تو وہیں گرا زمین پر گردن کے بل اور شہید ہوگیا۔

اور پھر اُس کا درجہ کتنا اونچا ہوا۔ ولیوں کے برابر یا ولیوں سے اُونچا؟ قطبوں کے برابر یا اُن سے اُونچا؟ غوثوں کے برابر یا اُن سے اُونچا؟ سرکار غوث الاعظم شہنشاہ بغداد سے بھی اُونچا۔ حضرت خواجہ اجمیرسے بھی اُونچا۔ حضرت شاہ نقشبند سے بھی اونچا۔ حضرت شیخ سہروردی سے بھی اونچا ساری آقا کی امت کے سارے اولیاء سے بھی اونچا اس کا۔ پڑھی ایک نماز ہی نہیں۔ درجہ سب ولیوں سے اونچا۔ ایک روزہ بھی نہیں رکھا درجہ سب ولیوں سے اونچا حج تک نہیں کیا۔ ایک عمل بھی نہیں کیا۔ ابھی عمل سیکھا بھی نہیں۔ وقت ہی نہیں ملا۔ سب ولیوں سے درجہ اونچا۔ اب یہاں میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں تا کہ مسئلہ ذہنوں میں جاگزیں ہو جائے۔ یہ درجہ کسی شے نے بلند کر دیا؟

اُس کے پاس کتنی چیزیں تھیں، صرف دو چیزیں تھیں عمل تو تھا نہیں کوئی عمل تو ابھی کیا نہیں تھ صرف دو چیزیں۔ ایک ایمان تھا اور دوسرا دیدار مصطفی ﷺ۔

اس لیے اللہ پاک نے فرمایا وَالَّذِینَ مَعَهُ اُن کی پہچان جس نے انکو درجہ دیا ہے۔ اُسی کا نام اُن کی پہچان ہے۔ صحابہ کون ہیں وہ جو ان کے اُس پاس رہتے ہیں جو اُن کا دیدار کرتے ہیں۔ جو ان کی مجلس اور صحبت میں رہتے ہیں۔ جو ان کے ارد گردگھومتے ہیں۔

وسدے ہاسے وِسدے ناسے
تیڈی جھوک دے آسے پاسے

یہ وَالَّذِینَ مَعَهُ کا یہ ترجمہ ہے۔ جو میرے یار کے آسے پاسے رہتے ہیں۔ آس پاس رہتے ہیں۔ میرے یار کی گلیوں میں گھومتے ہیں۔ جو یار کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں جو ہمہ وقت یار کا دیدار کرتے ہیں۔ جو یار کی مجلس کی خوشبو سونگھتے ہیں۔ جویار کی سنگت میں رہتے تھے۔ جو ہردم یار کا مکھڑا تکتے تھے وہ صحابہ تھے۔ آقا علیہ السلام کی حدیثیں ہیں وہ تو ہم بھی پڑھتے ہیں اور ہم بھی سنتے ہیں اور سناتے بھی ہیں۔ مگر آقا کی حدیثیں باتیں ہی ہیں نا اُن کی۔ مگر ہم تو سن کر پڑھ کروہ درجے نہیں پاتے۔ اُن میں اور ہم میں فرق کیا تھا۔ حدیثوں کے وہی الفاظ ہم نے بھی سُنے پڑھے۔ انہوں نے بھی سنے پڑھے مگر ہم نے کتابوں سے پڑھے۔ اُنھوں نے یار کی زباں سے سنے۔ سبحان اللہ! یار کی۔ حضور کی زبان سے سنے۔

یہ بات ذہن نشین کر لو صرف یہ ایک امتیاز تھا جس نے اس ایک جماعت کو صحابہ بنا دیا اس لیے اللہ پاک نے اُن کے سارے نشان، اُن کی ساری پہنچائیں۔ اُن کی ساری شناختیں، اُن کے سارے نام اُن کے سارے عنوان ہٹا دیئے۔ فرمایا: ان کو کوئی جماعت زاہدین نہ کہے جماعت علماء نہ کہے۔ جماعت عاملین نہ کہے، جماعت مجاہدین نہ کہے۔ جماعت متقین نہ کہے۔ یہ سارے امت میں ہوتے رہیں گے۔ انہیں نام دیا جائے فقط ’’جماعت صحابہ‘‘ مصطفی ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے والے۔ کہ جو نعمت انھیں ملی کائنات میں کسی اور کو ملی اور نہ مل سکتی ہے۔ سبحان اللہ ان کا عنوان محمد رسول اللہ رکھا۔ صحابہ کا عنوان محمد ہے۔ ہمارا ایمان محمد ہیں حقیقت اسلام محمد ﷺ ہیں۔ معرفت قرآن محمد ﷺ ہیں اور حبیب رحمان محمد ہیں۔ سب کچھ محمد رسول اللہ کے عنوان میں ہے اور ہمارا سفر محمد الرسول اللہ تک ہے اور پھر حضور کا سفر لا الا اللہ تک ہے۔

وہ کیا آپ کلمہ شہادت میں آپ پڑھتے ہیں۔ اشھدان لا اللہ الا اللہ وحدہ لا شریک پھر کہتے ہیں اشھدان محمد عبدہ ورسولہ۔ بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔ جن کے حجابات اٹھ جائیں اور جن پر حقیقت محمدی" منکشف ہو جائے۔ جنھیں انوارِ محمدیت میں سے کچھ نورمل جائے۔ جنہیں تجلیات مصطفوی میں سے کوئی تجلی مل جائے جنہیں نسبت محمدی میں فنائیت مل جائے اور اسے معرفت کا کچھ حصہ نصیب ہو۔ اُسے یہ بات آسانی سے سمجھ آئے گی کہ خدا کا عبد محمد ہیں۔ ہم تو عبد کے عبد ہیں۔ حضور کے عبد ہیں۔ حضور اللہ کا عبد ہیں۔ کیونکہ ہماری معراج محمد مصطفی کی دہلیز تک پہنچنا ہے اور محمد مصطفی کی معراج کعبہ کوسین اوادنی تک پہنچنا ہے۔

سیدنا فاروق اعظمؓ بطور خلیفہ:

سیدنا فاروق اعظم!مستدرک میں اما م حاکم روایت کرتے ہیں۔ سیدنا فاروق اعظم جب تخت خلافت پر بیٹھے تو آپ نے خطبہ دیا اور خطبے میں اپنا تعارف کروایا۔ سیدنا فاروق اعظم نے اپنی زبان مبارک سے اپنا تعارف کروایا۔ اپنی شناخت کروائی کہ لوگو! جان لو کہ میں کون ہوں؟ فرمانے لگے۔ انی کنت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و کنت عبدہ وخادمہ سیدنا فاروق اعظم نے خطبے میں فرمایا: لوگو، تم میں سے کوئی مجھے امیر المومنین کہے گا کوئی خلیفہ المسلمین کہے گا۔ جو چاہو کہتے پھرنا۔ مگر میں تمہیں بتادوں کہ حقیقت میں عمرخود کیا ہے۔ انی کنت مع رسول اللہ میں تو فقط حضور کے آس پاس رہتا تھا۔ کچھ نہ تھا۔ میں تو از خود کچھ نہ تھا۔ آقا کی حضور کی معیت میں تھا۔ حضور کی سنگت میں تھا۔ حضور کی صحبت میں تھا حضور کی بارگاہ میں رہتا تھا اور چلتا تھا اور کہتے رہتا تھا- کنت عبدہ وخادمہ میں تو مصطفی کا عبد تھا اور مصطفی کا خادم تھا۔ یہ ہے عمر کی حقیقت حضور کی سنگت میں رہتا تھا اور حضور کا خادم بن کے رہتا تھا۔ اگر سید نا عمر فاروق" حضو کر کے عبد بنتے ہیں ان کی توحید نہیں محو ہوتی تو ہم عبد مصطفی کے غلام بنیں تو ہماری توحید کو نقصان کیوں پہنچے گا۔ یہ سیدنا فاروق اعظمؓ کا کلام تھا۔

حضرت علیؓ کا تعارف:

حضرت علی شیر خدا بولے۔ فرمانے لگے۔ انا عبدی من عبدمحمد کہ میرا پوچھتے ہو کہ میں کون ہوں میں حضور کے عبدوں میں سے ایک عبد ہوں۔ حضور کے غلاموں کا ایک غلام ہوں۔ کسی اور فضیلت نے انھیں مرتبہ صحا بیت پر نہیں پہنچایا۔ صحبت نے، دیدار نے اور غلامی نے یہ مرتبہ عظیم عطا کیا۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بطور مفسر:

حضرت عبداللہ ابن عباس سے پوچھا: آپ مفسر قرآن بنے بڑا اونچا مقام پایا۔ کس طرح آپ کو یہ اُونچا مقام ملا صحابہ کرام میں؟ ترجمان القرآن بنے۔ فرمانے لگے، آپ نے کون سی تفسیریں پڑھیں؟ ابن عباس کس مدرسہ میں پڑھے؟ فرمایا مدرسے اس وقت ہوتے ہی نہیں تھے۔ تفسیریں لکھی نہیں گئی تھیں۔ اس فن پر کوئی کتاب نہیں تھی اور فن کا بھی کوئی وجود نہ تھا۔ آپ جو آقا کی امت کے سب سے بڑے مفسر بن گئے۔ اور نو عمرمیں مفسر بن گئے اور عمربھی اتنی تھوڑی تھی۔ فرماتے ہیں۔ کہ ہم بچے تھے مدینے کی گلیوں میں کھیلاکرتے تھے اور آقا جب نماز پڑھ کر سلام پھیرتے۔ اور صحابہ کرام سلام پھیرتے تو ذکر تحلیل ہوئی تو اُس ذکر کی آواز سن کر ہمیں پتہ چل جاتا کہ سلام پھر گیا ہے۔ اس حدیث سے اُن کی عمر کا اندازہ ہوتا ہے۔ عمر کیا تھی۔ نو جوانی میں مفسر بن گئے صحابہ کرام کے شیوخ کے امام بنے۔ اے ابن عباس آپ کو کس شے نے اتنا بڑا مفسر بنا دیا ہے؟ فرماتے ہیں بھائی کس شے نے بناتا تھا۔ ہر وقت آقا کی غلامی میں رہتے تھے۔ حضور کی نوکری کرتے تھے۔ حضور کے در کی چاکری کرتے تھے۔ اور آقا کے لوٹے بھرتے تھے۔ آقا کے جوڑے اٹھاتے تھے۔ ایک روز کیا ہوا؟ کہ حضورحاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ واپس آکر آقا نے وضو فرمانا تھا تو میں نے لوٹا بھر کے وضو کا پانی رکھ دیا۔ خدمت تو ہر وقت کرتے تھے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ پوچھا یہ لوٹا کس نے بھررکھا ہے کسی نے بتایا حضور یہ ابن عباس نے رکھا ہے۔ اُس دن دریائے رحمت دریائے جو دو سخا جوش میں آگیادعا کر دی۔ اور فرمایا اللھم یفقہ فی الدین فرمایا مولا یہ ابن عباس خدمت کرتا ہے، نوکری کرتا ہے۔ میرے وضو اور طہارت کے لوٹے بھرتا ہے۔ اس کو علم میں تفکر عطا فرمادے۔ فرمایا بس لوٹا بھرا تھا حضور کا تو مفسربن گیا۔

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بطور محدث:

حضرت عبد اللہ بن مسعودآپ صحابہ کرام میں عظیم محدث تھے۔ آپ نے حدیث میں اتنا بلند پایا کیسے پایا۔ فرمایا ہم نے کوئی فن سیکھا نہ کسی مدرسہ میں گئے نہ کسی معلم کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے۔ نہ کوئی اور کتابیں پڑھیں قرآن کے سوا۔ ہم توسادہ زندگی گزرتے تھے۔ بس رب کے یار کی نوکری کرتے تھے چاکری کرتے تھے- محدث کیسے بنے؟ فرمایا: میرا طریقہ تھا حضور جہاں جاتے ساتھ ساتھ رہتا۔ مسجد میں بیٹھنے کے لیے آقا جوڑ ے اتارتے۔ میں آقا کے جوڑ ے اٹھا کربغل میں دے لیتا۔ بس ہمیشہ عمر بھر آقا کے جوڑے اٹھاتا رہا۔ بس حضور کے جوڑوں کو اٹھا اٹھا کر انہیں جوڑوں کے صدقے محدث بن گیا۔

حضرت خالد بن ولیدؓ بطور مجاہدِ اعظم:

اے حضرت خالد بن ولید آپ تاریخ اسلام کے مجاہد اعظم ہیں جہاد میں اتنا بڑا رتبہ کیسے ملا؟آپ نے یہ فن کہاں سے سیکھا؟ کوئی بڑے سے بڑا کما نڈر بھی آپ کا مقابلہ نہیں کرتا۔ یہ فن سپاہ گری کہاں سے سیکھنا تھا۔ فرماتے ہیں ایک روز ہمارے آقا نے حجامت کروائی تھی۔ صحابہ کرام نے جھڑمٹ کر لیا تھا یار کے ارد گرد۔ جو جو گیسوئے پاک گرتا ہرکوئی اٹھا لیتا۔ ابو طلحہ نے پہلا بال سنبھال لیا۔ ایک گیسو یار کا میرے حصے میں بھی آیا۔ یہ ٹوپی میں جب سے یہ بال سی رکھا ہے تب سے دنیا کا سب سے بڑا سپہ سالار بن گیا ہوں۔ جنگ ہوئی۔ ٹوپی گر گئی۔ تلواریں چل رہی ہیں۔ گردنیں کٹ رہی ہیں۔ خون بہہ رہا ہے۔ حضرت خالد بن ولید نیچے اتر کر ٹوپی تلاش کر رہے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں بھئی خالد بن ولید یہ کوئی ٹوپی تلاش کرنے کا وقت ہے۔ جنگ کا پانسا پلٹ جائے گا۔ تلواریں چل رہی ہیں گھمسان کی جنگ ہے ہزاروں ٹوپیاں ہیں بعد میں ٹوپی لے لینا۔ یہ تلاش کرنے کا وقت ہے۔ فرماتے ہیں تمہیں کیا خبر یہ ٹوپیوں جیسی ٹوپی نہیں۔ اس میں یار کا بال ہے۔ حضور کا گیسوئے پاک ہے۔ اس بال کے گیسوئے پاک کے صدقے تو جنگ جیتنی ہے۔

یہ آقا کے پسینے کی ساری خوشبوئیں ہیں۔ پسینے کی ساری شفائیں ہیں۔ الغرض صحابہ کرام کو جو کمال ملا۔ آقا کے جوڑوں کے صدقے سے ملا۔ آقا کی غلامی کے تصدق سے ملا۔ آقا کی صحبت و سنگت کے صدقے سے ملا۔ اِس لیے رب کائنات نے اُن کی ساری شناختیں مٹا دیں اور ایک والذین معہ کی شناخت قائم کردی۔ وہ جو حضور کے آس پاس رہتے ہیں وہ حضور کی سنگت میں رہتے ہیں۔ محمد رسول اللہ وہ عنوان حیات اور عنوان ایمان عطا فرمایا:

اور پھر یہاں یہ جو ترتیب تھی لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ"کی۔ آپس میں مگر محمد رسول اللہ کی ایک اپنی ترتیب ہے۔ آپ اور ہم کیسے لکھتے ہیں؟ ترتیب ہے۔ ہم تو ایسے سیدھا لکھتے ہیں۔ دائیں سے بائیں۔ انگریز لوگ اپنی زبان کو بائیں سے دائیں لکھتے ہیں۔ مگر پوری دنیا میں جاپانی زبان لیں، چینی لیں۔ زبانیں بدلتیں ہیں مگر نہج اور اسلوب نہیں بدلتا دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں اس کو Horizontal Writing کہتے ہیں۔ اس طریقے لکھا جاتا ہے۔ حضور ہے بات بڑی اہم ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ اقدس میں بھی لکھائی کا طریقہ یہی تھا دائیں سے بائیں لکھتے تھے۔ آقا کے خط موجود ہیں۔ چھہ سات خط مل گئے۔ چھپے ہوئے ہیں۔ اُن کو پڑھیں۔ لکھائی اسی طرح دائیں سے بائیں ہے۔ رسم الخط مختلف تھا۔ مگر لکھائی کا اسلوب اور اصول وہی تھا۔ دائیں سے بائیں لکھنا۔ اب آقا کے زمانے کا رسم الخط آپ نے جان لیا ہے کہ اسی طرح دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا مگر جب خط لکھتے حضور آخر میں اپنی مہر لگاتے اور جو آقا کی مہر پاک تھی اس مہر پاک پر یہی عنوان لکھا تھا "محمد رسول اللہ" - اب رسم الخط اور اصول تحریر کے مطابق محمد رسول اللہ کیسے لکھنا چائیے تھا۔ اس ترتیب سے محمد رسول اللہ محمد رسول اللہ اِس ترتیب سے لکھنا چاہیے تھا اُس مہر کے فوٹو اور نقشے بھی موجود ہیں۔ اب وہ اِس ترتیب سے نہیں لکھا تھا۔ آقا جو مہر لگاتے ایمان کی مہر لگاتے ہمارے لیے اس کی ترتیب تھی محمد رسول اللہ Horizontal نہیں vertical تھی۔ لفظ محمد سب سے نیچے، رسول اُس سے اوپر، اللہ اُس سے اوپر - اس ترتیب سے لکھا تھا۔

الله رسول محمد.

یہ ترتیب تھی محمد رسول اللہ کی۔

اب نقشے رسول کو حضور کے نقشے پاک کو دیکھ لیں جو آپ کی انگوٹھی مبارک کا نقش تھا۔ جو اُس زمانے اُصول تحریر سے ہٹ کر لکھا تھا۔ اُس زمانے کے رسم الخط سے ہٹ کر وہ نقش تھا کیوں تھا؟ اِس لیے کہ رسم الخط سے تو آقا کو غرض نہ تھی۔ وہ تو امت کو اپنے ہر ہر عمل کے ذریعے تعلیم دیتے تھے۔ محمد رسول اللہ کو اِس ترتیب سے لکھنا اس لیے تھا کہ لوگو تمہیں ایمانی ترتیب معلوم ہو جائے کہ تم اگر اللہ کی بارگاہ تک جانا چاہتے ہیں اللہ کی بندگی اور اللہ کی معرفت پانا چاہتے ہو تو میں نے تمہیں ایمان کی ترقی اور معرفت کی ترقی کے لیے ایک ترتیب دے دی ہے. محمد رسول اللہ. جو اللہ کی بارگاہ تک جانا چاہے سب سے پہلے اس کے لیے محمد کی ذات ہے۔ اللہ کی بارگاہ تک جانے والو اور ایمان اور معرفت کی راہ میں ترقی کی خواہش کرنے والو جس کو اوپر جانا ہو ایمان کے مرتبوں میں وہ سب سے پہلے ذات پاک محمد مصطفی کی بارگاہ میں آئے۔ یہ مرکز محبت ہے۔ رسول مرکز اطاعت ہے۔ فرمایا لوگو: ایمان کی تکمیل اس راستے کے بغیر نہ ہوگی۔ ایمان فقط اس کا سلامت ہوگا جو پہلے محمد سے عشق کرے اور رسول کی اطاعت کرے اور اللہ کی عبادت کرے۔ محمد کی ذات سے محبت کرے۔

اس نے محمد یہ ذات بنائی اور ایسی بنائی کہ پھر اسے رسول کیا۔ اس وجو د کو بنایا۔ اسے حسین و جمیل بنایا۔ اسے کامل واکمل بنایا۔ اسے عظیم نعمتیں، رفعتیں، اوصاف" کمالات، خوبیاں عطا کیں اور پوری دنیا کی کائنات ارض و سما کے سارے حُسن اِس پیکر میں جمع کیے۔ اس کو پیکر حسیں بنایا، اسے محمد بنایا۔ کیسے؟ سارے نقص دور کر دیے۔ جب مصطفی ﷺ کی غلامی کا پٹہ تم نے گلے میں ڈال لیا۔ مصطفی ﷺ کی عبدیت اور غلامی میں آگئے۔ مصطفی ﷺ کے وسیلے، توسل اور واسطے میں آگئے میرے مصطفی ﷺ کے قدموں میں آگئے میرے مصطفی ﷺ کی دہلیز پر تو نے اپنا سر غلامی گرا دیاتو تمہیں آسمان سے مزدہ جاں فضا سنایا جائے گا۔

لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ.

(الزمر، 53)

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔

خدا کی رحمت سے مایوسی ان لوگوں سے اُٹھالی جائے گی۔ جو پہلے میرے مصطفی کی عبدیت اور غلامی کا پٹہ گلے میں ڈال لیں گے۔ تو ترتیب یہ بتائی کہ خدا کی رحمت کا خزانہ اور خدا کی رحمت کی خیرات بعد میں ملتی ہے۔ پہلے مصطفی ﷺ کی عبدیت اور غلامی کا مرتبہ لینا ہے۔ اللہ پاک نے اپنی رحمت کو بھی حضور کی غلامی اور عبدیت پر منحصر قرار دے دیا۔ اور فرمایا میرے پیارے بندے تو میرے ہیں۔ پر تو انھیں اپنا بندہ کہہ کے پکا راس لیے کہ میں تو مالک ہی کہوں گا۔ کہ وہ مالک کے حبیب یعنی محبوب و محب میں نہیں تیرا میرا .میرے پیارے میرا بندہ ہوا یا تیر غلام ہوا اس میں فرق کیا ہے؟ اس وقت تک وہ میرا بندہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ تیرا غلام نہ بنے۔ اُس وقت تک میری رحمت کا مستحق نہیں بن سکتا۔ جہا ں تک تیری غلامی کا پٹا گلے میں نہ ڈال لے۔ اس وقت تک وہ میری عبادت کا اہل نہیں بن سکتا جب تک اپنی دہلیز تیری غلامی کی دہلیز پہ نہ ڈال دے۔ تو یا عبدی کہہ کر لا تقنطوا کا مثردہ جاں سنایا۔

یہی بات جو محمد رسول اللہ کے بغیر لا الہ الا اللہ نہیں ملتا۔ اور بارگاہ محمد کے بغیر اللہ نہیں ملتا۔ اور بارگا ورسالت کے بغیر معرفت خدا نہیں ملتی۔ یہی قانون اللہ پاک نے جا بجا قرآن میں سمجھا دیا۔ کہیں فرمایا۔

من یطیع الرسول فقد اطاع الله.

(النسا: 50)

مولا عرض کیا، ہم اے اللہ تیری اطاعت کرنا چاہتے ہیں۔ کیسے کریں؟ اللہ نے جواب دیا خبر دار براہ است میری اطاعت کرنے کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ تم براہ راست میری اطاعت نہیں کر سکتے۔ ہاں! جنہیں میری اطاعت کرنے کا شوق ہے۔ جنہیں میرا مطیع بندہ بننے کا شوق ہے۔ وہ میرے مصطفی ﷺ کی اطاعت کریں۔ جو مصطفی ﷺ کی اطاعت کرتا ہے وہ خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ چونکہ اطاعت مصطفی ہی حقیقت میں اطاعت خداہے۔ رسول کی اطاعت کے بغیر خدا کی اطاعت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسی طرح یہی محمد رسول اللہ پہلے اِس در کی غلامی ہوگی۔ تو پھر لا الہ الا اللہ کی معرفت نصیب ہوگی۔ اس واسطے کو قرآن یوں بھی بیان کرتا ہے محبوب فرما دیں۔

قل ان کنتم تحبون الله.

(آل عمران: 31)

اگر اللہ سے دوستی اورمحبت چاہتے ہو۔ ۔ اور اللہ والے بننا چاہتے ہو۔ فاتبعونی محمد والا بن جاؤ، جو اللہ والا بننا چاہے وہ محمد والا بنے۔ شرط لگا دی۔ حضور نے کہاتم میری اتباع کرو اللہ تمہیں اپنا محبوب کریگا۔ گویا خدا کی محبت حضور کی غلامی کے بغیر نہیں ملتی۔ اور خدا کی بارگاہ کی محبوبیت بھی حضور کی غلامی کے بغیر نہیں ملتی۔

اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا :

وَ لَو اَنَّهُم اِذ ظَّلَمُوٓا اَن فُسَهُم جَآئُوْکَ.

(النساء: 64)

اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔

تو فر ما یااے میری بخش کے طلب گارو میری بارگاہ سے مغفرت اور رحمت کے طلبگا رو۔ تمہیں میری بخشش و مغفرت چاہیے۔

معافی اللہ کی بخشش اللہ کی مغفرت طلب کرنا میں بھی در مصطفی پہلے ہے۔ اور اللہ سے تعلق معا فی مانگنے نے کا بعد میں ہے۔

اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے

فرمایا جب میں اپنی معافی عطا کرتا ہوں۔ مصطفی کی شفاعت پہلے ہوتی ہے۔ میری بخشش اور میری عطا بعد میں ہوتی ہے۔ باری تعالی یہاں آکر معافی پھر تجھ ہی سے مانگنی تھی تو کیوں بلایا؟، فرمایا یہی جو فرق تم نے ڈال رکھا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے۔ تم نے سمجھا کہ خدا سے معافی مانگنی ہے مصطفی ﷺ کے در پے جانے کی کیا ضرورت ہے۔؟ بلایا اس لیے کہ تمہیں پتا چل جائے کہ مصطفی ﷺ کا در ہی خدا کا در ہے۔ مصطفی ﷺ کا در ہی خدا کا در ہے۔ میں نے الگ سے کوئی در نہیں بنا رکھا۔ الگ سے کوئی اور گھر نہیں بنا رکھ۔ میں بے گھر ہوں بے مکاں ہوں۔ مکان سب مصطفی کے ہیں۔ جس کو میرے گھرآنا ہو۔ وہ مصطفی ﷺ کے گھر آئے۔

جس نے میرے در پے آنا ہو وہ مصطفی کے درپہ آئے تاکہ اسے پتہ چلے۔ باری تعالی ہم نے تم سے معافی مانگ لی ہے۔ فاستغفر اللہ اے اللہ معاف کردے معافی مانگ لی۔ اب معاف کردے۔ ا للہ پاک فرماتے ہیں نہیں تمہارا کام ہو گیا آرام سے بیٹھو تم نے میرے محبوب کے در پے آکے مجھ سے معافی مانگ لی۔ اب تم اپنا کام کر چکے ہو۔ انتظار کرو۔ باری تعالی کس شے کا انتظار ہے؟، فرمایا واستغفر لھم الر سول میں ا پنے یار کے لب تودیکھ لوں۔ تمہاری شفاعت میں ہلتے ہیں یا نہیں ہلتے۔ انتظار اِس بات کا ہے کہ محبوب کا مکھڑہ تک رہا ہوں۔ میرا محبوب کیا کہتا ہے؟ واستغفر لھم الر سول اور رسول بھی شفاعت کر دے۔ تو رسول کے لب ہل گئے۔ میٹھے میٹھے بول بول پڑا پیارا محبوب عرض کیا مولا اب جانے دے چھوڑ دے اِس کوجانے دے۔ بس یہ دو بول بولنے کی دیر تھی۔ فرمایا لواجد اللہ" لا "تاکید کے لیے قسم کا فائدہ دیتا ہے۔ فرمایا لواجد اللہ توابا رحیمۃ مجھے اپنی عزت کی قسم ! محبوب کے دو میٹھے بول اگر تمہاری سفارش میں ہل گئے تو مجھے توبہ قبول کرنے والا بھی پاؤ گے۔ رحمت سے جھولیاں بھر دینے والا بھی پاؤ گے۔ قرآن مجید نے ضابطہ یہ دیا۔ ضابطہ یہ دیا کہ جس نے آنا ہو میرے رسول کے در سے آئے۔ رسول کے واسطے سے آئے۔ رسول کے ذریعے سے آئے۔ اصول یہ بتا دیا۔ اب یہ ترتیب جو محمد رسول اللہ کی۔ میں نے تین لفظ بیان کیے کہ لفظ محمد میں محبت ہے۔ رسول میں اطاعت ہے اور لفظ اللہ میں عبادت ہے۔ اور یہ صحابہ کا حال تھا۔ وہ پیکار محبت رسول تھے۔ پیکر محبت محمد تھے۔ وہ پیکر اطاعت رسول تھے۔ اور وہ پیکر عبادت الہی تھے۔ یہ تین رنگ تھے اُن کی زندگیوں کے۔ محبت کا ایک ایک منظر تینوں چیزوں کا عرض کر دیا۔ محبت کا عالم یہ تھا۔ حضور کی ذات سے محبت کیا تھی۔

علامہ آلوسی رحمہ فرماتے ہیں روح الایمانی میں تفسیر میں آپ کی وفات کے بعد حضرت میمونہ کے پاس ایک آئینہ محفوظ ہوگیا۔ انھوں نے غلاف میں کپڑوں میں لپیٹا کے رکھا تھا۔ صحابہ کرام آتے عرض کرتے امی جان ام المومنین دل بڑا اُداس ہے آقا کے دیدار کے لیے۔ حضور کا مکھڑا دیکھے ہوئے دن بیت گئے آنکھیں ترس گئیں۔ حضرت میمونہ وہ آئینہ گھرکے اندر سے اُٹھا کر لے آتیں غلاف اتار تیں۔ اب آپ آئینے کو چہرے کے سامنے رکھیں تو کون نظر آتا ہے؟ بولیے۔ اگر آئینہ سامنے رکھیں تو کون نظرآ تا ہے؟ اپنا چہرہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں۔ تو جب وہ غلاف اتارتیں صحابہ کرام کے ہاتھ میں آئینہ دیتیں۔ جو جو صحابی آئینہ اپنے چہرے کے سامنے لاتا آئینے کے سامنے صحابی کا چہرہ ہوتا مگر ہر شخص کو باری باری آئینے میں چہرہ مصطفی نظر آتا۔ کسی صحابی کو آئینے میں اپنا چہرہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ جو جو باری باری اپنے چہرے کے سامنے کرتا جاتا ہر ایک کو آئینے میں چہرہ مصطفی دکھائی دیتا۔ فوٹو تو نہیں تھا تصویر تو نہیں تھی۔ تھا تو آئینہ اور آئینے میں دیکھنے والا اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔ مگر آقا کا چہرہ انور نظر آتا۔

بات یہ تھی کہ دو میں سے کوئی ایک سبب تھا۔ یا ان کی فنا تھی یا ان کی بقاتھی یا وہ عشق محمد میں اس قدر فنا ہوگئے اور آقاکی طلب میں اُن کی نگاہیں اس طرح مستغرق اور فنا ہوگئیں۔ اور آقا کے دیدار اور آقا کے چہر ہ پاک کی تلاش میں اِس طرح مستغرق اور فنا ہوگئیں تھیں کہ جب آقا کے مکھڑے والا چہرہ سامنے آتا انہیں ساری کائنات بھول جاتی اپنا وجود بھول جاتا۔ جب آقا کا چہرہ سامنے ہوتا تو اُن کے فنا عشق محمد ﷺ میں ان کا حال تھا کہ جب ان نگاہوں سے آئینہ دیکھتے تو ہر ایک کو مصطفیٰ کا دیدار ہوتا۔ چہرہ نظر آتا۔ یہ حضور کی بقا تھی۔ بقا کیا تھی؟ اس آئینے کو حضور علیہ اسلام دیکھا کرتے تھے اور آپ کے چہرہ انور کا عکس اس آئینے میں پڑا کرتا تھا۔ جب انسان آ ئینہ دیکھتا ہے تو چہرے کا عکس نظر آتا ہے۔ حضور علیہ السلام کے چہرہ اقدس کا عکس اس آئینے میں نظر آتا ہے۔ اب مقام بقا میں یہ تھا کہ جس آئینے میں آقا کے چہرہ پاک کا عکس بار بار پڑتا رہا۔ اس عکس کا فیض یہ تھا کہ ہر شے مٹ سکتی ہے۔ مگر عکس چہرہ مصطفی جو آئینے میں پڑگیا وہ کبھی نہ مٹا۔ جب جس نے آئینہ دیکھا حضور کا عکس زندہ و تابندہ رہا۔ ان کی بقا رہی۔ ارے آئینے میں حضور کے چہرے کا عکس پڑ جائے تو وہ زندہ و تابندہ رہے تو جس دل میں عکس مصطفی آجائے وہ کبھی دل مردہ کیسے ہو سکتا ہے۔

آئینہ دل میں ہے تصویر یار
جب زرا گردن جھکائی دیکھ لی

لوگو! اپنے دل کو حضرت میمونہ کا آئینہ بنا لو۔ اِس آئینے میں تا کہ عکس مصطفیٰ پڑے عکس جمال مصطفی پڑے۔ عکس چہرہ مصطفی پڑے۔ جس دل کے آئینے میں آقاکے جمال کا مکھڑے کا عکس آ گیا۔ دل زندہ و تابندہ اور باقی بن جائے گا، وجود بھی باقی بن جائے گا۔ جن اولیاء کے قلب کے آئینے میں حضور کے جمال کا عکس اتر آتا ہے۔ وہ دنیا سے رخصت ہو کر قبروں میں بھی زندہ و سلامت رہتے ہیں۔ اس کا عالم یہ تھا کہ سیدنا عثمان غنی ایک روز وضو کر کے اُٹھے اور وضو کی جگہ پر ہی کھڑے ہو کر کوئی شخص پاس نہ تھا نہ کوئی گفتگو ہو رہی تھی۔ اکیلے ہی کھڑے ہنسنے لگ گئے۔ کسی نے پوچھا حضرت عثمان غنی سے یہاں کوئی موقع ہنسنے کانہیں کوئی شخص موجود نہیں۔ کسی کی گفتگو آپ سے نہیں ہو رہی۔ آپ تنہا کیوں کھڑے ہنس رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے؟ فرمانے لگے وجہ تو مجھے معلوم نہیں۔ بس اتنی بات ہے کہ یاد آیا ایک روز میں نے آقا کو یہاں دیکھا تھا وضو کر کے اُٹھے مسکرا رہے تھے۔ میں تو یار کی اوا نبھا رہا ہوں حضرت عثمان غنی یہ اتباع ہے۔ یہ اتباع میں فنا ہے۔ نہیں دیکھا کہ عقل اس بات کو مانتی ہے یا نہیں مانتی مگر آقا کی اتباع میں فنا ہوگئے۔ عثمان غنی مسجد کے دروازے سے نکلتے ہیں مسجد نبوی سے۔ دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھ گئے گوشت منگوایا گھر سے اور چو کھٹ مسجد پر بیٹھ کر کھانے لگے کسی نے پوچھا عثمان غنی سے امیر المومنین یہ مسجد کا دروازہ ہے۔ سامنے گزرگاہ ہے۔ یہ جگہ کھانا کھانے کی تو نہیں آپ نہیں کھاتے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر کوئی نہیں کھاتا اور امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی کھا رہے ہیں۔ پوچھا حضرت یہ جگہ مناسب نہیں کھانے کی مگر سمجھ نہیں آئی اس کی حکمت کیا ہے؟ کیوں کھا رہے ہیں۔ فرمایا یہ سمجھ کی بات نہیں ہے۔ اس وقت یہ دروازہ نہ تھا اس مقام پر میں نے دیکھا ایک روز حضور روٹی تناول فرما رہے ہیں۔ یہ دروازے تو اب بنے ہیں۔ آقا کی بات اُس سے پہلے کی ہے۔ میں تو حضور کی اِس مقام پر گوشت تناول فرمانے کی ادا کو نبھا رہا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عمراونٹنی لے کر اُس کو صحرا میں چکر لگانے لگ گئے پوچھا اے ابن عمر بلا وجہ اونٹنی کو گھمائے جارہے ہیں آپ کیا وجہ ہے؟ فرمایا وجہ سے کوئی سرو کار نہیں وجہ سے کوئی سروکار نہیں ہیں۔ ایک روز میں نے دیکھا تھا حضور اپنی اونٹنی کو یہاں چکر دلا رہے تھے۔ وجہ تو وہ جانیں جو وجہ والے ہیں۔ وجہ والے ہیں ہم تو یار کی ادا نبھاتے ہیں۔

مجھے ہوش کب تھی سجود کی مجھے کیا خبر تھی رکوع کیکی
تیرے نقش پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں

میری زندگی بھی عجیب ہے میری بندگی بھی عجیب ہے
جہاں مل گیا تیرا نقش پا وہیں میں نے کعبہ بنا لیا