کرپشن کا خاتمہ کیونکر ممکن ؟

سمیہ اسلام

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 9 دسمبر کو انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد معاشرے پر کرپشن کے برے اثرات اور ان کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اس ضمن میں پہلا ورلڈ اینٹی کرپشن ڈے 9 دسمبر 2004ء کو میکسیکو میں منایا گیا جو کہ اب ہرسال کرپشن کے خلاف جنگ کے عزم کی ازسرنو تجدید کے ساتھ دنیا بھر میں منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کے عزم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی اُٹھانا ہے، جس سے کرپشن کی مکمل روک تھام ہو سکے۔

بدعنوانی معاشرتی برائی ہے جو قومی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ موجودہ حالات کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ بلاتفریق احتساب کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ بدعنوانی ایک سماجی ظلم اوربہت بڑی معاشرتی برائی ہے،کرپشن کرناعوام کے حقوق پرڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

مالی بدعنوانیوں کا اِنسداد ، سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز کھڑے ہوئے تاکہ ہمیں کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپ نے غنیمت کے مال میں چوری کرنے کو بڑا گناہ قراردیا۔ آپ نے فرمایا:"میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پرایک اونٹ بلبلا رہا ہو اورکہتا ہو کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری مدد فرمائیں اورمیں اسے کہوں کہ مجھے کچھ اختیار نہیں ہے۔ (پھر فرمایا) کہ میں تم میں سے نہ پاؤں قیامت کے دن کہ وہ میرے پاس آئے، اپنی گردن پر ایک گھوڑا لادے ہوئے ہو جو ہنہنا رہا ہو اور کہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد کیجئے! میں کہوں کہ مجھے کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں توتجھے بتاچکا تھا کہ چوری کی بہت بڑی سزا ہے۔ پھر تو نے کاہے کو چوری کی۔ (پھر آپ نے فرمایا کہ) میں نہ پاؤں تم میں سے کسی کو کہ قیامت کے روز میرے پاس آئے اور اپنی گردن پر ایک بکری اٹھائے ہوئے ہو جو ممیارہی ہو اور کہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد کیجئے اور میں کہوں کہ مجھے کوئی اختیار نہیں (کہ تجھے اس جرم کی سزا سے بچا سکوں) میں نے تو تجھے چوری کی سزا کے بارے میں اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن کسی کو نہ پاؤں کہ وہ کسی جان کو اُٹھائے ہوئے ہو جو چلا رہی ہو (کہ اس نے اس جان کو تلف کیا تھا) پھر کہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری مدد کیجئے۔ میں کہوں کہ مجھے تجھے چھڑانے کا اختیار نہیں ہے میں تو تجھے اللہ کا حکم پہنچا چکا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں قیامت کے روز کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اپنی گردن پر کپڑوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو جو اس نے اوڑھے ہوں (اور جنہیں اس نے چرایا تھا) یا کاغذ کے چند ٹکڑے اٹھائے ہوئے آئے جن پر وہ حقوق لکھے ہوں جو اس کے ذمہ تھے یا اور چیزیں جوہل رہی ہوں جنہیں اس نے دنیا میں چرایا تھا۔ پھر مجھے کہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری مدد کیجئے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تو ا س سلسلے میں تمہیں اللہ کا حکم پہنچا چکا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن اس حالت میں میرے پاس آئے کہ اپنی گردن پر سونا چاندی وغیرہ کا بوجھ اٹھائے ہو اور کہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد کیجئے اورمیں کہہ دوں کہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، میں تو تمہیں اللہ کا حکم پہنچا چکا تھا۔

سنن ابو داود میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ہم خیبر کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ غنیمت میں سونا اور چاندی حاصل نہیں ہوا بلکہ کپڑے اور مال واسباب ملا۔ آپ جب وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کو ایک حبشی غلام 'مدعم' نامی ہدیہ میں دیا گیا۔ مدینہ واپس پہنچ کر یہ شخص آپ کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا کہ اچانک اسے ایک تیر لگا اور وہ مرگیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کے لئے جنت مبارک ہو۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، وہ کمبل جس کو اس نے خیبر کی لڑائی کے مالِ غنیمت میں چرایا تھا، آگ بن کر اس پر لپٹ کر جل رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص ایک یا دو تسمے آپ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک یا دو تسمے آگ کے تھے۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد فرامین اس سلسلے میں بھی منقول ہیں کہ آپ نے ایسے شخص کے لئے جنت کی بشارت سنائی ہے جو کسی منصب پر فائز کیا گیا اور اس نے کسی مالی بددیانتی کا ارتکاب نہیں کیا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آپ نے فرمایا: "جو شخص فوت ہوا اور وہ تین باتوں سے پاک ہے تو وہ شخص جنت میں داخل ہوا۔ یہ تین باتیں تکبر، مالی بددیانتی (غلول) اور قرض ہیں۔ان تین باتوں میں آخری دو کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے اور حقوق العباد میں مداخلت کرنے والے کے لئے ویسے بھی حکم یہ ہے کہ صرف متاثرہ شخص کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوتے ہیں اور جب تک وہ معاف نہ کرے، کوئی شخص خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ گویا مال غنیمت میں بددیانتی کرنے والے کے لئے دونوں طرح سے وعید سنائی گئی ہے کہ وہ جہنم کا مستحق بھی ٹھہرایا گیا او رجنت سے بھی محروم قرا ردیا گیا۔

مالی بدعنوانی جرم ہے اور چوری بھی:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر واضح فرما دیا کہ غنیمت کے مال میں بددیانتی بہت بڑا جرم ہے۔ یہ مالی بدعنوانی بھی ہے، چوری بھی۔ یہ اخلاقی جرم بھی ہے اور قومی جرم بھی۔ یہ دھوکہ دہی بھی ہے اور حقوق العباد اور حقوق اللہ میں مداخلت بھی۔ اخلاقی اعتبار سے بھی اس جرم کے بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: "جو قوم غنیمت کے مال میں بددیانتی کرتی ہے، ان کے دلوں میں بزدلی پیدا ہوجاتی ہے"۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی بدعنوانیوں کے تمام راستے مسدود کردیئے۔ آپ نے حکمران کو منع فرما دیا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ تجارت نہ کرے۔ فرمایا :

من أخون الخیانة تجارة الوالی فی رعیته.

"بدترین خیانت یہ ہے کہ والی اپنی رعایت کے ساتھ تجارت کرے۔"

اس کا سبب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے والی اپنے منصب کے بل بوتے پر لوگوں کو متاثر کرے اور ناجائز مراعات حاصل کرے۔

مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا:

حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جب تم دیکھو کہ کسی نے مالِ غنیمت کے مال میں سے چوری کی ہے تو اس کا سامان جلا ڈالو اور اسے مارو" راوی نے بتایا کہ اس شخص کے سامان میں ایک مصحف (قرآن مجید کا نسخہ) بھی تھا... یہ مصحف بیچ ڈالا گیا او راس کا ہدیہ اللہ کی راہ میں کسی کو دے دیا گیا۔

زکوٰۃ جمع کرنے والے کا ظالمانہ رویہ:

مالیاتی شعبے میں ایک اورشعبہ جس میں عام طور پر خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور جو حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھا دیتی ہیں وہ مال جمع کرنے والوں کا عوام کے ساتھ ظالمانہ رویہ ہے۔ یہ لوگوں سے محصول اور زکوٰۃ کے نام پر مقررہ شرح سے زائد وصول کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے شخص کو صاحب ِمکس کہا گیا ہے ۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو متعینہ شرح سے زیادہ ازراہِ زیادتی وصول کرتا ہے۔ ان لوگوں کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ ٹیکس وصول کرتے وقت اپنی ذاتی جیب کے لئے لوگوں سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جو ٹیکس دہندہ ان کا مطالبہ پورا کردیتا ہے، اسے کسی نہ کسی طرح چھوٹ اور رعایت مل جاتی ہے اور جو ایسا نہیں کرپاتے، ان کے لئے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ آج کے دور میں ان لوگوں کے طرزِعمل کو سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو سخت ترین الفاظ میں متنبہ فرمایا کیونکہ یہ اپنے منصب سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اورملکی خزانے کی آمدنی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لایدخل الجنة صاحب مکس.

صاحبِ مکس جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

آپ نے فرمایا:

إن صاحب المکس فی النار.

صاحبِ مکس آگ میں ڈالا جائے گا

اس موضوع کی دیگر بھی کئی روایات موجود ہیں کہ نبی کریمa نے فرمایا: آدھی رات کو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اورایک پکارنے والا (فرشتہ) پکارتا ہے کہ ہے کوئی سائل کہ اس کی دعا کے مطابق اسے عطا کیا جائے۔ ہے کوئی تکلیف میں مبتلا کہ اس کو تکلیف سے نجات دی جائے۔ اس طرح کوئی ایسا مسلمان نہیں بچتا کہ اس کی دعا کو قبولیت حاصل نہ ہو۔ سوائے زانیہ عورت یا زیادتی سے محاصل وصول کرنے والے شخص کے کہ ان کی دعا قبول نہیں کی جاتی۔

حضرت ابوسعید خدری اور ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تمہارے اوپر ایسے حکمران اور عمال مقرر ہوں گے کہ ان کے اردگرد شریر لوگ جمع ہوجائیں گے۔ یہ لوگ نمازوں کو مؤخر کردیں گے۔ تم میں سے جوکوئی ان کے زمانے میں موجود ہو تو نہ ان کا عریف (لوگوں کے حالات حکومت تک پہنچانے والا) بنے، نہ ان کا صاحب الشرطہ (پولیس مین) بنے اور نہ ان کے محاصل وصول کرنے والے محصلین بنیں، نہ ان کے خازن"۔

ان احادیث میں جن لوگوں کو وعید سنائی گئی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو زکوٰۃ، عشر یا کوئی او رٹیکس وصول کرتے وقت لوگوں کو ناجائز طور پر چھوٹ دینے کے لئے ان سے رشوت وصول کرتے ہیں اور جو لوگ رشوت نہیں دیتے ،ان سے اصل سے زائد ٹیکس وصول کرتے ہیں یا کسی او رطریقے سے لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔نبی کریمa نے زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو بھی تلقین فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے ان کے بہترین مال وصول نہ کریں۔ لیکن یہ لوگ آپ کی اس تلقین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ازراہِ ظلم ان کے بہترین مال وصول کرنے لگیں۔

رشوت اور اس کے بارے میں وعید:

مالی بدعنوانیوں کی ایک شکل رشوت بھی ہے۔ رشوت کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جس کام کامعاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ وصول کیا جائے۔ مثلاًایک کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہو اور اسے اس کام کی انجام دہی پر سرکاری طور پر معاوضہ اور تنخواہ ملتی ہو، ایسا کام کرنے پر وہ صاحب ِضرورت شخص سے کوئی معاوضہ وصول کرے۔ قرآن مجید نے رشوت کے لئے سُحت کا لفظ استعمال کیا ہے۔لفظ سُحت کامعنی ہلاکت و بربادی ہے۔ رشوت نہ صرف لینے دینے والوں کو اخلاقی اور معاشی طور پر تباہ وبرباد کرتی ہے بلکہ ملک و ملت کی جڑ اور امن عامہ کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔ جس ملک میں رشوت کی لعنت چل پڑتی ہے وہاں قانون بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے، لوگ رشوت دے کر ہر کام کروا لیتے ہیں۔ حقدار کا حق مارا جاتا ہے اور غیر حقدار مالک بن بیٹھتے ہیں۔ قانون، جو کہ لوگوں کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ قانون کی حاکمیت جس معاشرے میں کمزور پڑ جائے وہ معاشرہ زیادہ دیر چل نہیں سکتا، نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے نہ مال و عزت، قرآن مجید نے اسے سُحت کہہ کر 'اشد حرام' قرار دے دیا ہے۔ رشوت کے دروازے بند کرنے کے لئے اسلام نے یہ اصول دیا ہے کہ اُمراء و حکام کو تحفے دینا حرام ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہے لیکن مالیاتی معاملات میں نظم اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب بدعنوانی کا سبب بننے والے ہر چھوٹے سے چھوٹے سوراخ کو بھی مکمل طور پربند کیا جائے۔ چھوٹے سے چھوٹے سوراخوں سے جب پانی کو رسنے دیا جائے تو یہی سوراخ بڑے ہو کر بند کو اپنے ساتھ بہا کرلے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں سے اگر درگزر کیا جائے تو یہی غلطیاں پورے معاشی ڈھانچے کو زمین بوس کردیتی ہیں۔ آج کا دور اس کی واضح مثال ہے۔بدعنوانی کی ایک شکل یہ ہے کہ حکمران لوگوں کو سرکاری خزانے سے رشوت کے طور پر مال دیں اور اس سے ان کامقصد یہ ہو کہ سیاسی یا معاشی مقاصد حاصل کریں۔

ملک میں مالی بے قاعدگی بیت المال کو غلط طور پر استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس غلط استعمال کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خزانہ غیر مستحق لوگوں کے لئے کھول دیا جائے، اس سے ملکی خزانہ کئی پہلوؤں سے منفی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ایک تو غیر مستحق لوگ ملکی خزانے پر ناروا بوجھ بن جاتے ہیں۔ خزانہ غلط طور پر استعمال ہونے لگتا ہے۔ حق دار محروم رہ جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو محنت کی بجائے مفت خوری کی عادت پڑ جاتی ہے او رجس ملک کے لوگ محنت سے گریز کرنے لگیں، اس کی معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے کر شخص بد عنوانی سے خود بھی دور رہے اور اپنے سے جڑے ہر شخص کو اس سے دور رکھنے کی تلقین کرے اور اس سلسلے میں حضور تاجدار کائنات جوکہ ہمارے لیے عملی نمونہ ہیں کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ رب العزت اس ملک پر اپنا خاص فضل فرمائے اور اسے ہر قسم کی چھوٹی بڑی کرپشن سے پاک فرمائے۔آمین ثم آمین