جدید ٹیکنالوجی، گلوبل ویلج اور ہماری ذمہ داریاں

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

قارئین کرام! میرا موضوع نہ تو کسی جلسے میں لٹکایا جانے والا کوئی سیاسی بینر ہے اور نہ ہی کسی مشتعل مجمع کا کوئی نعرہ بلکہ دورِ حاضر کی ایک ایسی حقیقت ہے جسے فراموش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ یہ حقیقت اپنے کئی روپ رکھتی ہے۔ کہیں تلخ تو کہیں شہد سے بھی شیریں۔ جی ہاں! قارئین دورِ جدید اپنی جدت کے باعث اولاد آدم کو ایسی سائنسی ترقی سے روشناس کراچکا ہے کہ جو حضرتِ انسان سے سنبھالنی مشکل ہو رہی ہے۔ شاید آپ ان سطور کو پڑھتے ہوئے زیرِ لب مسکرانے لگیں۔ لیکن آیئے اور میرے ساتھ دیکھئے وہ مناظر جو ایک ادیب کی چشم بینا دیکھتی ہے۔ یہ وہ منظر ہیں جن کے دیکھنے کے لیے حساس دل ہونا بھی ضروری ہے۔

بلاشبہ دورِ جدید میں جو ڈیجیٹل عروج عطا ہوا ہے اس کے ہمارے رہن سہن پر بہت سے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں بہت سارے امور پر انسانوں کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے۔ اس امر کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ مہینوں کا کام دنوں میں اور گھنٹوں کا کام لمحوں میں سمٹ آیا ہے وہیں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشرے میں بے روزگار افراد کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ دور جدید کا انداز بدلہ تو اب بیمار کی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھنے کوئی نہیں آتا۔ محض فون پر حال پوچھ لیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرفے کے بچے، جوان اور بزرگ اتنے ڈیجیٹل ہوگئے ہیں کہ سب اکٹھے بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کی محفل سے مستفید نہیں ہوتے اور اپنے اپنے فون پر ٹک ٹاک دیکھنے اور کھیل کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں۔

بچوں کی تربیت کی وہ غیررسمی درسگاہیں:

یعنی ماں کی گود اور شام کے وقت گھر کے بزرگوں کے پاس بیٹھ کر علم و ادب کی باتیں سننا اب تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔ دور حاضر کی تیز رفتاری نے جہاں والدین کو کسبِ روزگار میں شدید مصروف کرکے بچوں سے دور کردیا ہے وہاں نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ایسے ڈیجیٹل کھلونے دے دیئے ہیں کہ جو ماں کے پیار اور والد کی شفقت کو بھلا دینے کے لیے بہت کافی ہیں۔ یہ وہ جدید آلات ہیں جو معصوم بچوں کی ذہنی تربیت کرنے سے تو قاصر ہیں ہی البتہ بہت سی غیر ضروری معلومات فراہم کرکے نسل نو کو تعلیم کی بجائے گمراہی سے جاملاتے ہیں۔ آج کے دور کے بچوں کو دادا، دادی یا نانا، نانی اور پھوپھی، چچا، خالہ ماموں جیسے انمول اور سنہری رشتوں کی پاسداری کا کوئی سبق یاد نہیں۔

بلکہ معاملہ اس قدر سنگین ہوچلا ہے کہ نسل نو کے چہروں کی چمک اور اذہان کی معصومیت غائب ہوتی جارہی ہے اور ایمان و اعتقاد کی باتیں ان کو قصہ پارینہ لگنے لگیں ہیں۔ اپنی گفتگو کے اس موڑ پر مجھے حضرتِ اقبال کے اشعار یاد آگئے جو انھوں نے بظاہر جاوید اقبال لیکن درحقیقت تمام نسلِ نو کو مخاطب کرکے کہے تھے:

غارت گردیں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کافرانہ
دربار شہنشاہی سے خوشتر مردانِ خدا کا آستانہ
سرچشمہ زندگی ہوا خشک باقی ہے کہاں مئے شبانہ
خالی اُن سے ہوا دبستان تھی جن کی نگاہ تازیانہ
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ

مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبال ان اشعار میں کس خوبی کے ساتھ یہ سمجھا گئے ہیں کہ دورِ حاضر کی تمام تر بے راہ روی کے باوجود ہمارے صراطِ مستقیم پر چلتے رہنے کے لیے یہ شعور ہونا ہی کافی ہے کہ ہم امت محمدی ﷺ کے فرد ہیں۔ اگر یہ احساس دور حاضر کے افراد کو ہوجائے تو ڈیجیٹل میڈیا پر موجود تمام تر غیر شائستہ مواد کو فوقیت دینے کے بجائے ہماری نوجوان نسل فہم دین اور مثبت کاروباری سرگرمیوں کے لیے جدید آلات و میڈیا کا استعمال کرے گی۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور اس دور میں حقیقی معنوں میں ہم گلوبل ویلج بن چکے ہیں۔ کس قدر دلچسپ صورتحال ہے کہ ہماری آج کی نسل ہمارے پاس بیٹھ کر جدید آلات پر اس طرح کھیل میں مصروف ہوتی ہے کہ ایک بچہ سات سمندر پار سے تو دوسرا کسی اور شہر سے کھیل کا حصہ ہوتا ہے۔ زمین کے فاصلوں نے سمٹتے سمٹتے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ ڈیجیٹل آلات کے ذریعے ہم کو دنیا کے ہر ملک اور ثقافت سے آگاہی رہنے لگی ہے۔ اچھی خبر ہویا اندوہناک واقعات کی تفصیل سب جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ جس سے دور حاضر کا انسان کسی قدر بے حس ہوتا جارہا ہے۔وہ جو گزشتہ زمانوں میں خوشیوں کا مزا تھا اور غم بانٹنے کے لیے سب دوست احباب چلے آتے تھی جدید دور کی تیز رفتاری نے سب دھندلا کردیا ہے۔ بقول اصغر گونڈوی

لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے

بے شک جدید سائنسی ترقی سے دور رہنے والے افراد دور حاضر کے تقاضوں پر پورے نہیں اتر سکتے۔ حالیہ بحرانوں میں کورونا وائرس کی وجہ سے جب بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں زمین بوس ہوگئی تھیں اسی وقت میں کچھ لوگ عام سے خاص بننے کا سفر طے کررہے تھے۔ یہ وہ مثالی پروفیشنلز تھے جنھوں نے برسوں سے وژن کا راستہ اپناکر خود کو زمینی شاہراہوں سے بالا بالا انٹرنیٹ ٹریفکنگ کی کہکشائیں آباد کرلی تھیں۔ وقت کی رفتار سے آگے بڑھنے والے لیڈر کہلاتے ہیں۔ نئی سوچ، شعوری ارتقاء اور انسانیت کے لیے جدت نے انہیں دنیا کا طاقتور ترین انسان بنادیا۔ قدرت وسائل کی بارش برساتی ہے ہر اُس فرد پر جو اپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال مخلوق خدا کی آسانی کے لیے کرتا ہے۔

مفکرِ پاکستان اس مثالی زاویہ نظر کو افکار تازہ کا نام دیتے ہیں۔ ڈیجیٹل سسٹم پر شفٹ ہوئے بغیر قوموں کی بقا دائو پر لگ چکی ہے۔ دفاع کا تصور یکسر بدل چکا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، آرٹیفیشل انیٹجنس، ڈیجیٹیل مارکیٹنگ اور فری لانسنگ نے معیشت سے لے کر سیاست تک میں انقلابی تبدیلیاں برپا کردی ہیں۔ دور حاضر کا جدید تربیت یافتہ نوجوان ان فورمز کا استعمال کرکے جہاں اپنی آواز پوری طاقت سے دنیا میں پہنچارہا ہے وہیں اس جدت کو اختیار کرتے ہوئے سوچ سے بڑھ کر روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔

اگر ہم اپنے نوجوانوں کو عالمی طرز پر پروفیشنل بنالیں تو صدیوں کا سفر ان شاء اللہ محض مہینوں میں طے کرلیں گے۔ دور حاضر میں ورچوئل اسٹنٹس، گرافک ڈیزائننگ، بلاکنگ اور فری لائنسنگ کی طرز پر سینکڑوں کورسز میسر ہیں۔ جن سے فیضیاب ہوکر نوجوان ڈیجیٹل عہد کے تقاضوں کے مطابق قومی ترقی میں حصہ لے سکتے ہیں اور ڈیجیٹل پاکستان کا مثالی وژن عملی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

اگر ہمارے نصاب میں پرسنل ڈویلپمنٹ، کردار سازی اور انٹر پرنیور شپ کو شامل کیا جائے اور جدید ڈیجیٹل ذرائع کو استعمال کیا جائے تو ہمارانوجوان نوکریاں لینے کی بجائے دینے والا بن جائے گا۔

اب ذرا اقتدار کے ایوانوں کی ڈیجیٹل سسٹم پر حکمرانی کی بات ہوجائے۔ جدید ٹیکنالوجی نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کررکھا ہے۔ ہر جمہوری حکومت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کرے جس میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لیے استعمال کرکے خوشحال زندگی گزار سکیں۔ آج حکومتیں اپنا انفراسٹرکچر اور پاور میکنزم ڈیجیٹلائز کررہی ہیں تاکہ پبلک پرائیویٹ سیکٹر میں عوام کو ڈیجیٹل اپلیکیشنز کے ذریعے اداروں تک رسائی فراہم کی جاسکے اور عوام کو سہولت کا احساس ہو۔

غور کیجئے کہ یہ ڈیجیٹل ترقی ہی کا اعجاز ہے کہ اب ہم بینک کے باہر لگی طویل قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے کی اذیت سے بچ کر اپنے گھر یا دفتر کے پُرسکون ماحول میں محض چند بٹن دباکر بجلی، گیس، پانی کے بل ادا کردیتے ہیں۔ آن لائن بینکنگ نے عالمی سطح پر کاروبار کو چار چاند لگانے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی کو بھی سہولت عطا کی ہے۔ ٹیکس کی ادائیگی ہو یا بچوں کی سکول کالج کی فیس، والدین کو پردیس سے پیسے بھجوانے ہوں یا راہِ خدا میں زکوٰۃ و خیرات کا معاملہ ہو۔ آن لائن بینکنگ کی سہولت نے سب کام آسان کردیئے ہیں۔ ڈیجیٹل طرز زندگی کے مثبت اثرات تو یہاں تک ہیں کہ گھر بیٹھے آن لائن شاپنگ ہوجاتی، نہ پٹرول جلانا پڑتا دور دراز جانے کے لیے نہ وقت ہی ضائع ہوتا۔ گھریلو زندگی سے متعلق اشیاء ضروری ہوں یا شادی بیاہ تک کا سامان کی فراہمی الغرض ہر سہولت جدید ٹیکنالوجی نے دور حاضر کے انسان کے قدموں میں لاکر رکھ دی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں یہ خوشگواریت تقریباً ہر شعبہ زندگی میں ہے مثلاً اگر ایک شخص نے فرد ملکیت نکلوانی ہے تو وہ پٹوار خانے جانے کی بجائے لیپ ٹاپ اور موبائل کے ذریعے گھر میں موجود پرنٹر پر کمانڈ دے کر پرنٹ لے سکتا ہے۔ عدالتی پیشی، پولیس رپورٹ الغرض بے شمار ایشوز دفتروں میں جائے بغیر جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ذرائع کو استعمال کرکے محض Click سے حل ہوسکتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا اعجاز یہ بھی ہے کہ محض دو دہائیوں پہلے تک دیگر ممالک کے حالات لمحوں میں جاننا محض خواب تھا، الحمدللہ آج پاکستان میں موجود شہری کو بیجنگ سے لے کر ماسکو تک، ٹوکیو سے لے کر استنبول تک میں ہونے والی سیاسی، معاشی اور سماجی سرگرمیوں کی پوری خبرہے۔

جدید سوشل میڈیا کی طاقت نے بے انصاف حکومتی ایوانوں کے ہوش اڑادیئے ہیں کیونکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس دور میں سوشل میڈیا نے عوام کو باشعور کردیا ہے۔ اب فرد ہو یا خاندان، ادارہ ہو یا ملک بقا اسی صورت ممکن ہے کہ خود کو آفاقی اصولوں اور جدید ٹیکنالوجی سے بہرہ ور کیا جائے۔ بل گیٹس نے کیا خوب کہا: اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو آپ ذمہ دار نہیں لیکن اگر آپ غریب مرگئے ہیں تو اس کی پوری ذمہ داری آپ کی بنتی ہے۔ حکیم الامت نے کیا خوب فکر عطا کی ہے:

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوہ بے پردہ کو پردہ میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ

ہیں تیرے تصرف ہیں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

پہلی وحی کا آغاز اقرا سے ہوا۔ قرآن مجید میں سات سو سے زائد مقامات پر تحقیق کا حکم آیا ہے۔ ہمارا دین اسلام سکالر کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون سے زیادہ مقدس قرار دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے دین کے اس پیغام کو سمجھ کر علمی و تحقیقی عروج سے فائدہ اٹھانے لگ جائیں تو ہی ہم اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کرپائیں گے۔