طب میں خواتین کا تاریخی کردار

سعدیہ نورین

زمانہ قدیم ہی سے سائنس میں خواتین کا نمایاں کردار اور اس میدان میں ان کی نہایت وسیع خدمات رہی ہیں۔ چنانچہ صنف اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والے مؤرخین نے خواتین کی ناقابل فراموش سائنسی کاوشوں اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ گو کہ 18 ویں صدی میں عموماً شعبہ ہائے زندگی کے صنفی کردار متعیّن تھے، لیکن اس کے باوجود خواتین نے سائنس کے میدان میں بہت زیادہ پیش رفت کی۔ 19ویں صدی میں بھی خواتین رسمی سائنسی تعلیم سے دور تھیں، لیکن اس عرصے میں وہ تعلیم یافتہ سوسائیٹیوں کا حصہ بننے لگیں۔ 19ویں صدی کے اواخر میں خواتین کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا اور یوں خواتین سائنس دانوں کو ملازمتیں اور تدریس کے مواقع میسر آئے۔ طبیعیات میں نوبل انعام (1903ء) حاصل کرنے والی پہلی خاتون ماری کیوری نے دوسری مرتبہ تابکاری کے موضوع پر کیمیا میں نوبل انعام (1911ء) حاصل کیا۔ 1901ء سے 2010ء کے عرصہ میں چالیس خواتین کو نوبل انعام سے نوازا گیا جن میں سے 17 خواتین کو طبیعیات، کیمیا، فعلیات (فزیالوجی) اور طب کے شعبوں میں نوبل انعام ملا ہے۔

خواتین کی خدمات ازروئے قرآنِ کریم:

خواتین نو ع انسانی کا نصف حصہ ہیں وہ انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ اسلام نے خواتین کے لیے اجروثواب اور خدمات وطاعت کے وہ مواقع رکھے ہیں ؛جو مردوں کے لیے ہیں۔ قرآن کریم کا اعلان ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ.

جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔

جس نے نیک کام کیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی کے ساتھ ضرور زندہ رکھیں گے، اور ہم ان کو ان کے نیک کاموں کی ضرور جزا دیں گے۔ اسی طرح خواتین کا دکھی انسانیت کی خدمت کرنا نیک کاموں میں سے ہے۔

دنیا کی پہلی طبیب عورت ہی ہے:

دنیا کی پہلی طبیب عورت ہی ہیں، حضرت آدمؑ اور حضرت اماں حواؑ کو جب اس دنیا میں بھیجا گیا تو انہیں بھی بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہوتی تھیں تو اس وقت حضرت اماں حواؑ مختلف جڑی بوٹیوں کو استعمال میں لا کر علاج کو ممکن بنایا کرتی تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کی سب سے پہلے طبیب ایک عورت ہی تھی۔

خواتین بطور خدمت مجاہدین:

جہاد ایک اعلی عبادت ہے۔ جو خاص حالات میں مردوں پر فرض ہے۔ صحابہ کرام مرد ہونے کی وجہ سے بنفس نفیس جہاد میں شریک ہوتے تھے۔ صحابیات عورت ہونے کی وجہ سے اگر چہ بنفس نفیس معرکہ کارزار میں شریک نہیں ہوسکتی تھی لیکن جہاں تک جذبہ جہاد کی بات ہے تو صحابیات بھی اس معاملہ میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں۔ البتہ ان کے لیے سب سے موزوں کام زخمیوں کی مرہم پٹی اور مجاہدین کے آرام وآشائش کا سامان بہم پہنچانا تھا۔ اس حوالہ سے سیدہ ام عطیہؓ، سیدہ عائشہؓ، سیدہ ام سلیمؓ، سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہن کا نام نمایاں ہے۔

سیدہ ربیع بنت معوذؓ کہتی ہیں کہ ہم سب غزوات میں شریک ہوئے تھے۔ پانی پلاتے تھے مجاہدین کی خدمت کرتے تھے اور مدینہ تک زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر لاتے تھے۔

سیدہ رفیدہ ؓ نے مسجد نبوی میں خیمہ کھڑا کررکھا تھا، جو لوگ زخمی ہوکر آتے تھے وہ ان کا اسی خیمہ میں علاج کرتی تھیں ؛چنانچہ سیدنا سعد بن معاذ ؓ غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تو ان کا علاج اسی خیمہ میں کیا گیا۔

عہدِ رسالت ﷺ میں طبیب خواتین:

عہدرسالت میں طب نے سرزمین عرب میں فنّی صورت نہیں اختیار کی تھی۔ عربوں کا دیگر قوموں سے رابطہ کم سے کم تھا، اس لیے ان کے درمیان فروغ پانے والے علوم اور فنّی تجربات سے اہل عرب عموماً محروم تھے۔ اس عہد میں طب کے میدان میں دومراکز کو کافی شہرت حاصل تھی۔ ایک ایران کے شہر جندی شاپور میں قائم تھا اور دوسرا مصر کے شہر اسکندریہ میں۔ دونوں مقامات پر قائم تعلیم گاہوں میں طب کی نظری اور عملی دونوں پہلوئوں سے باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ فاضل اساتذہ کی ایک ٹیم تھی، جن سے بڑی تعداد میں طلبہ فیض اٹھاتے تھے اور ان کی رہ نمائی میں مریضوں کا علاج معالجہ اور نت نئے طبی تجربات بھی کرتے تھے۔ عہد نبوی میں حارث بن کلدہ نامی ایک طبیب کا تذکرہ ملتاہے، جو جندی شاپور کے مدرسہ طبیہ کا فیض یافتہ تھا۔ وہ طائف میں رہتاتھا اور اس کا تعلق قبیلۂ ثقیف سے تھا۔ موجودہ دور کی اصطلاح میں وہ ایک ’سند یافتہ‘ طبیب تھا۔ اس بنا پر اس کی دور دور تک شہرت تھی۔

سنن ابی داؤد کی ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی ایک مرتبہ طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا:

اِئتِ الحَارِثَ بِنِ کِلْدَةَ اَخَاثَقِیْفِ فَاِنَّه‘ رَجُلٌ یَتَطَبَّبُ.

’’قبیلۂ ثقیف کے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ۔ وہ علاج معالجہ کرتا ہے۔ ‘‘

علوم شرعیہ میں اشتغال کے ساتھ ساتھ دیگر علوم وفنون میں خواتین کاعہد نبوی میں خاصا حصہ ہے، چنانچہ فن طب وغیرہ میں متعدد خواتین کے نام ملتے ہیں، ایک صحابیہ حضرت رفیدہ اسلمیہ فن طب وجراحی میں ماہر تھیں، غزوات وغیرہ میں وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے شریک ہوتی تھیں، انہوں نے متعدد خواتین کو یہ فن سکھایا تھا، ان کا دواخانہ مشہور تھا، جب حضرت سعد بن معاذؓغزوۂ خندق میں زخمی ہوگئے تھے آپ ﷺ کے حکم سے وہ ان کا خصوصی طور پرعلاج کرتی تھیں، اور ان کے لئے طبی سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے حضرت رفیدہ اسلمیہ کا دواخانہ مسجد نبوی میں قائم کیا گیا تھا۔

عہدرسالت میں سرزمین عرب کی طب کو ہم قبائلی طب سے موسوم کرسکتے ہیں۔ پیہم تجربات اور دوسرے قبائل سے ربط باہمی کی بناپرانھیں بعض امراض کے علاج معالجے کے طریقے اور کچھ ادویہ کے خواص معلوم ہوگئے تھے۔ بہ ہرحال اس عہد میں طب کی جو بھی شکل رہی ہو اور اس کی ہم جو بھی قدر و حیثیت متعین کریں، اس میں خواتین کا قابل قدر حصہ نظرآتا ہے۔ بل کہ بعض پہلوؤں سے ان کا حصہ مردوں سے کچھ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

عہدرسالت میں خواتین کی طبّی خدمات کاجائزہ ہم تین پہلوؤں سے لے سکتے ہیں:

(1) میدانِ جنگ میں زخمیوں کے لیے فوری طبی امداد (First Aid):

عہدِ جاہلیت میں، جب جنگ عموماً تلواروں اور نیزوں کے ذریعے لڑی جاتی تھی۔ عورتوں کو دورانِ جنگ فوجیوں کو معرکہ آرائی اور شجاعت وجواں مردی کے جوہر دکھانے پر ابھارنے کے لیے استعمال کیاجاتاتھا۔ وہ گاتی بجاتی رزمیہ و عشقیہ اشعار پڑھتی ہوئی فوجیوں کے پیچھے پیچھے چلتی تھیں۔ مسلم فوج میں انھیں اس کام کے لیے تو نہیں استعمال کیاگیا۔ البتہ ان سے پیاسے فوجیوں کو پانی پلانے، زخمیوں کو اٹھاکرمحفوظ مقامات پر لے جانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے جیسے کام لیے گئے۔ کتب سیرت و تذکرہ میں ایسی متعدد خواتین کے نام محفوظ ہیں، جنھیں زخمیوں کی فوری طبّی امداد (First Aid) کے کام میں خصوصی مہارت حاصل تھی اور انھوں نے غزوات و سرایا میں اس خدمت کو بہ حسن و خوبی انجام دیا۔

حضرت رُبیع بنت مُعَوذؓ فرماتی ہیں:

کُنّا نَغْزُو مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَسْقِی القَدْمَ وَ نَخْدِمُهُمْ وَ نَرُدُّ القَتْلیٰ و الجَرْحیٰ اِلیٰ البَدِیْنَةِ.

’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں جاتے تھے، فوجیوں کو پانی پلاتے تھے، ان کی خدمت کرتے تھے اور مقتولین اورزخمیوں کو مدینہ واپس لاتے تھے۔ ‘‘

دوسری روایتوں میں علاج معالجہ کی صراحت ملتی ہے:

کَانَتْ رَبُّمَا غَزَتْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَتُدَاوِی الجَرإحیٰ وَتَرَدُّ القَنْلٰی اِلیٰ المَدِیْنَةِ.

بسااوقات وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، زخمیوں کاعلاج کرتی تھیں اور مقتولین کو واپس مدینہ لاتی تھیں۔ ‘‘

حضرت ام عطیہ الانصاریۃ کے بارے میں مورخین نے لکھاہے کہ ان کا شمار عہدجاہلیت اور عہداسلامی دونوں عہدوں میں طب اور جراحت کے مشہور ماہرین میں ہوتا تھا۔

وہ خود فرماتی ہیں:

غَزَوْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم سَبْعَ غَزَوَاتٍ فُکُنْتُ اضْنَعُ لَهُمْ طَعَامَهُمْ وَاَخْلُفْهُمْ فِی رِجَالِهِمْ وَاُدَاوِی الجَرْحیٰ وَاَقُوْمُ عَلَی المَرْضیٰ.

’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی ہوں۔ میں فوجیوں کے لیے کھانا پکاتی تھی۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کے کیمپ کی حفاظت کرتی تھی، زخمیوں کا علاج کرتی تھی اور بیماروں کی تیمارداری کرتی تھی۔ ‘‘

مختلف غزوات کے حوالے سے بھی بعض خواتین کے ناموں کی صراحت ملتی ہے کہ انھوں نے ان میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور علاج کی خدمت انجام دی تھی۔

حضرت نسیبہ بنت کعب المازنیۃ جو اپنی کنیت ام عمارہسے مشہورہیں، نے غزوۂ بدر میں زخمی ہونے والے مسلمانوں کو طبی امداد بہم پہنچائی تھی۔

غزوۂ احد میں ان کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ حضرت ام ایمن اور حضرت انس بن مالکؓ کی والدہ حضرت ام سلیمؓ نے بھی شرکت کی تھی اور انھوں نے اس موقع پر بڑی تعداد میں زخمی ہونے والے مسلمانوں کو طبی میدان میں اپنی خصوصی مہارت سے فائدہ پہنچایا تھا۔ کتب حدیث میں اس غزوہ کے دوران حضرت ام عمارہؓ کی شجاعت اور جاں نثاری کا تذکرہ بڑے شان دار الفاظ میں ملتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے نرغے میں گھِرا دیکھ کر وہ آپؐ کے لیے سپر بن گئی تھیں۔ چنانچہ آپؐ نے انھیں ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیاتھا:

مَاالْتَفَتَ یَوْمَ اُحَدٍ یَمیْنَ اوَّ لَاشِمَالًا اِلاَّ وَاَنَا اَرَاھَا تُقَاتِلُ دُوْنِی.

’’غزوہ احد کے موقع پر میں دائیں بائیں جدھر دیکھتا انھیں جنگ کرتے ہوئے پاتا۔ یہ کام وہ میری حفاظت کے لیے کررہی تھیں ‘‘۔

غزوہ خیبر کے موقع پر کافی تعداد میں طبی امداد فراہم کرنے والی خواتین نے شرکت کی تھی۔ حضرت کعبیۃ بنت سعد الاسلمیۃ کی اس موقع پر غیرمعمولی خدمات کو دیکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں ایک مرد کے برابر ان کا حصہ لگایا تھا۔

غزوۂ خیبر میں شرکت کرنے اور اس میں فوجیوں کو طبی امداد پہنچانے کے لیے حضرت ام سنان لاسلمیۃؓ نے خدمت نبوی میں حاضر ہوکر خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے فرمایا:

’’تمہارے قبیلے کے کچھ اور عورتوں نے اس سلسلے میں مجھ سے گفتگو کی تھی۔ میں نے انھیں اجازت دے دی ہے۔ تم بھی چلو۔ چاہو تو ان کے ساتھ اور چاہو تو میری زوجہ ام سلمہؓ کے ساتھ رہو‘‘ انھوں نے حضرت ام سلمہؓ کے ساتھ رہنے کی خواہش کی، چنانچہ وہ دورانِ غزوہ انھی کے ساتھ رہیں۔

حضرت اُمیمہ (بعض روایتوں کے مطابق اُمیّہ یا اَمینہ) بنت قیس الغفاریۃ جن کی عمر غزوۂ خیبرکے موقع پر بہت کم تھی (ابھی بالغ بھی نہیں ہوئی تھیں ) اپنے قبیلے کی چند عورتوں کے ساتھ حاضر ہوئیں اور زخمیوں کے علاج معالجہ کی غرض سے اس غزوہ میں شرکت کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے انھیں اجازت مرحمت فرمائی۔

(2) پیشۂ طب:

بعض خواتین کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ غزوات کے علاوہ بھی وہ مریضوں کے علاج معالجہ کی خدمت انجام دیتی تھیں اور ان سے لوگ استفادہ کرتے تھے۔ اس سلسلے میں سب سے مشہور نام قبیلۂ اسلم کی خاتون حضرت رُیدہ کاآتاہے۔ ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر حضرت سعد بن معاذؓ کے ہاتھ میں ایک تیرآلگا اور ان کی ’اکحل‘ نامی رگ زخمی ہوگئی، جس سے خون کسی طرح نہیں رک رہاتھا۔ آپؐ نے صحابہ سے فرمایا:

’’اِجْعَلُوْهُ فِی خِیْمَةِ رُفَیْدَۃَ حَتّٰی اَعُوُدُه‘ مِنْ قَرِیْبٍ.‘‘

’’انھیں رفیدہ کے خیمے میں کردو تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کرسکوں ‘‘

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زخمیوں کے علاج معالجہ کے لیے مسجد نبوی میں باقاعدہ ایک خیمہ لگایا گیا تھا اور حضرت رفیدہ اسکا ذمہ دار بنایا گیا تھا۔ مذکورہ خاتون کے بارے میں اصحاب سیر نے صراحت کی ہے کہ انھیں زخمیوں کے علاج معالجہ میں مہارت تھی اور وہ یہ کام بغیر کسی اجرت کے انجام دیتی تھیں۔

کَانَتْ اِمْراَۃٌ تُدَاوِی الجَرْحٰی وَتَحْتَسِبُ بِنَفْسِهَا عَلَی خِدْمَةِ مَنْ کَانَتْ بِهٖ ضَیْعَةٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ.

’’وہ ایسی خاتون تھیں جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔ مسلمانوں کی خدمت اور ان کی تکالیف کے ازالہ کا کام وہ بغیر کسی معاوضے کے محض اللہ سے اجر ملنے کی امید میں کرتی تھیں ‘‘۔

دوسری خاتون حضرت کعیبہ بن سعد الاسلمیۃؓ کے بارے میں بھی مورخین نے لکھا ہے کہ وہ غزوات کے موقع پر ہی نہیں، بل کہ عام حالات میں بھی علاج و معالجہ کی خدمت انجام دیتی تھیں۔

غزوہ احزاب کے بعد ان کے لیے بھی مسجد نبوی میں ایک خیمہ نصب کیاگیاتھا اور انھیں زخمیوں کے علاج کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ حضرت سعد بن معاذؓ کے علاج میں انھوں نے بھی حصہ لیاتھا۔

(3) طبی معلومات:

اُس دور میں خواتین کو بہت سی طبی معلومات حاصل تھیں اور ان کے ذریعے وہ چھوٹے موٹے امراض کا علاج کرلیاکرتی تھیں۔ اگرچہ یہ معلومات ایسی تھیں جیسی آج کل دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں بھی بڑی بوڑھی عورتوں کو حاصل ہوتی ہیں، لیکن اُس زمانے میں، جب کہ طب بہ حیثیت فن ابتدائی مرحلے میں تھی، اُن کی بہت اہمیت تھی۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ کو جن مختلف علوم وفنون میں دست گاہ حاصل تھی، ان میں علم طب بھی تھا۔ ان کے بھانجے عروہ فرماتے ہیں:

’’میں نے قرآن، میراث حلال و حرام (فقہ) شاعری، تاریخ عرب، انساب اور طب میں حضرت عائشہؓ سے زیادہ واقف کار کسی کو نہیں پایا‘‘۔

ایک مرتبہ انھوں نے ام المومنین سے عرض کیا: ’’اماں جان! مجھے آپ کے ذکاوتِ فہم پر تعجب نہیں، میں سوچ لیتاہوں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور ابوبکرؓ کی صاحب زادی ہیں۔ مجھے آپ کی اشعار اور ایّام العرب سے واقفیت پر بھی تعجب نہیں۔ میں سوچ لیتاہوں کہ آپ ابوبکرؓ کی بیٹی ہیں جنھیں ان چیزوں کا سب سے زیادہ علم تھا۔ لیکن مجھے طب سے آپ کی واقفیت پر ضرور تعجب ہے۔ آپ کو طب سے کیسے واقفیت حاصل ہوگئی؟ یہ علم آپ نے کہاں سے سیکھ لیا؟ ام المومنین نے ان کے کندھے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مختلف وفود آتے رہتے تھے۔ وہ جو کچھ علاج معالجہ سےمتعلق باتیں بتاتے تھے انھیں میں یادکرلیاکرتی تھی‘‘۔

ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی طبی واقفیت ویسی ہو گی جیسے پہلے خاندان کی بڑی بوڑھیاں بچوں کا علاج کرتی تھی اور کچھ بیماریوں کے مجرب نسخے یاد رکھتی تھیں، مسلمان عورتیں عموماً لڑائیوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔

خود حضرت عائشہ بھی جنگ احمد میں مصروف خدمت تھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد مبارک میں خاتونانِ اسلام کو حسب ضرورت فن سے واقفیت تھی۔

ام المومنین حضرت ام سلمہؓ حبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ وہاں انھیں بہت سی طبی معلومات حاصل ہوگئی تھیں، جن کاوہ استعمال کرتی تھیں اور مختلف امراض میں لوگوں کو ان کا علاج بتایاکرتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات میں انھوں نے بعض دوائوں کے ذریعے آپؐ کا علاج کرنے کی کوشش کی تھی۔

حضرت شفاء بنت عبداللہ بھی لوگوں کو مختلف علاجی تدابیر بتایاکرتی تھیں۔ وہ نملہ (ایک جلدی مرض) کاعلاج جھاڑپھونک سے کیاکرتی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ ام المومنین حضرت حفصہؓ سے ملنے گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھ لیا تو فرمایا:

اَلَاتُعَلِّمیْنَ هٰذِهٖ رُقْیَةَ النَمْلَةِ کَمَّا عَلَّمْتِهَا الْکِتَابَةَ.

عہد نبوی میں فن طب اورخواتین کی خدمات:

غزوہ خیبر کے موقع پرقبیلہ غفار کی خواتین حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمیں بھی جنگ میں جانے کی اجازت مرحمت فرمادیں، تاکہ ہم مریضوں اور زخمیوں کا علاج کرسکیں، اور حتی المقدور خدمات انجام دے سکیں، آپ ﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی، ابن ماجہ میں یہ حدیث وارد ہوئی ہے:

عن آمنة بنت أبی الصلت الغفاریة قالت أتیت النبی ﷺ فی نسوة من بنی غفار، فقلنا: یا رسول اللہ، قد أردنا أن نخرج معک الی وجهک هٰذا، و هو یسیر الی خیبر، فنتداوی الجرحی، و نعین المسلمین ما استطعنا، فقال علی برکة اللہ، فخرجنا معه.‘‘

حضرت آمنہ بنت ابی صلت غفاریہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میں بنی غفار کی کچھ خواتین کے ساتھ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور ہم نے عرض کیا، کہ اے اللہ کے رسول! آپ کے ساتھ اس غزوہ میں شرکت کی ہم خواتین اجازت چاہتی ہیں، اور آپ ﷺ خیبر کی جانب روانہ ہورہے تھے، تاکہ ہم زخمیوں اور بیماروں کا علاج کرسکیں، اور بقدر استطاعت مسلمانوں کی مدد کرسکیں، آپ ﷺ اجازت مرحمت فرمادی، اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ اس سفر میں نکلے‘‘

جہاد وغزوات میں خواتین پردہ وحجاب کے مکمل آداب ورعایت کے ساتھ شریک ہوتی تھیں، آزادانہ اختلاط کا تصور نہ تھا، چنانچہ خواتین علاج ومعالجہ اور میدان جنگ میں تعاون کے لئے باقاعدہ اہتمام سے شریک ہوتی تھیں، ابن سعد کی ایک روایت سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔

ابن سعدؒ نے طبقات میں ام سنان اسلمیہ کے واقعہ میں لکھا ہے، کہ انہوں نے حضور ﷺ سے خیبر کے موقع پر اجازت طلب کی، تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا:

’’أخرجی علی برکة اللہ، فان لک صواحب قد کلمننی، وأذنت لهن من قومک، ومن غیرهم، فان شئت فمع قومک، ان شئت فمعنا، قلت معک، قال: فکونی مع أم سلمة زوجتی، قالت: فکنت معها.‘‘

اللہ کا نام لیکر چلو، تمہاری دیگر ساتھی تمہارے ہی قبیلہ کی خواتین بھی ہیں، انہوں نے بھی اجازت لی تھی، میں نے ان کو اجازت دی ہے، اگر چاہو تو اپنی قوم کی عورتوں کے ساتھ رہو، اور چاہو تو ہمارے ساتھ رہو، فرماتی ہیں: میں عرض کیا کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ رہیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم میری اہلیہ ام المؤمنین ام سلمہ کے ساتھ رہو، پس میں سفر میں ان کے ہمراہ تھی۔

عہدِ نبوی میں طبی خدمات انجام دینے والی صحابیات:

عہد نبوی میں جو خواتین طبی خدمات انجام دیتی تھیں، ان میں لیلی غفاریہؓ، ام ایمنؓ، ام زیادہ اشجعیہؓ، ام سنان اسلمیہؓ، ام کبشہ قضاعیہؓ، ام ورقہ انصاریہؓ، وغیرہ مشہور ہیں، ظاہر ہے کہ ان خواتین نے یہ فن یقینا سیکھا ہوگا، اور اس کے سکھانے کا کوئی نظام ہوگا، کتانیؒ نے علامہ قرطبیؒ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے:

’’معناه أنهن یهیئن الأدویة للجراح، ویصلحنها، و لایلمسن من الرجال ما لایحل.‘‘

علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خواتین زخموں کے علاج وغیرہ کے لئے دوا سازی کرتی تھیں، اور دوائیں تیار رکھتی تھیں، مردوں کا علاج کرنے میں شرعی حدود کا خیال رکھتی تھیں‘‘

طبابت اور خواتین:

عہد رسالت میں بہت سی صحابیات طبابت کے پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔ صحابیات جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تشریف لیجاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فیضہ سر انجام دیا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک بنو اسلم کی حضرت رفیدہ انصاریہ تھیں۔ ابن اسحاق سے مروی ہے کہ:

و كان رسول الله ﷺ حين أصاب سعدا السهم بالخندق، قال لقومه: اجعلوه في خيمة رفيدة حتى أعوده من قريب، و كان رسول الله ﷺ يمر به فيقول: كيف أمسيت و كيف أصبحت فيخبره.

غزوہ خندق میں جب حضرت سعدتیر سے زخمی ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں رفیدہؓ کے خیمے میں منتقل کردیا جائے تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کر سکوں۔ ۔ ۔ نبی کریم ﷺ ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے تو سعد کا حال دریافت فرماتے کہ صبح طبیعت کیسی تھی اور شام کیسی گزری تو سعدآپ ﷺ کو اپنا حال بتاتے۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ غزوات میں ام سلیم اور انصار کی عورتیں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہوتی تھیں جو جنگ کے دوران پانی بھر کر لاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔

ام عطیہ فرماتی ہیں کہ میں سات غزوات میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ رہی۔ میں مجاہدین کے لئے کھانا بناتی، زخموں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دوا کرتی تھی۔

خارجہ بن زید روایت کرتے ہیں کہ ام علاءنے انہیں بتایا کہ عثمان بن مظعون کو، ان رہائش گاہوں میں جو انصار نے مہاجرین کے لئے وقف کر دی تھیں، بخار ہوا اور وہ ہمارے ہاں مریض ٹھہرے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔

حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انصار کی عوتوں کو بخار اور کانوں کے امراض کے علاج کی اجازت دی تھی۔

درج بالا واقعات یہ شہادت پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ عورت معالج بن سکتی ہے بلکہ وہ مردوں کا علاج بھی کر سکتی ہے بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہو۔

مفتی امانت علی قاسمی ”علم طب میں مسلمانوں کی خدمات“ مقالہ میں لکھتے ہیں۔

”اسلام میں طب کی اہمیت کا ا ندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے ابتدائی عہد میں، جب کہ اسلامی حکومت کا کوئی محکمہ اور دفتر نہیں تھا، مسجد نبوی کے صحن میں ایک شفا خانہ موجود تھا اور ایک انصاری خاتون حضرت رفیدہ اس شفاخانہ کی نگراں تھیں، جو بلا عوض خدمت کیا کرتی تھیں، غزوۂ خندق کے موقعہ پر حضرت سعد بن معاذؓزخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا، اس کو رفیدہ کے خیمہ میں پہنچا دو۔ حضرت رفیدہؓ کے تذکرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں بھی فن طب میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔

تاریخ الاسلام للذھبی میں حضرت عروہ بن زبیرؓ کا قول ہے کہ ”میں نے حضرت عائشہ ؓسے بڑا طب میں کوئی عالم نہیں دیکھا“

مختلف کتب حدیث میں ہے کہ حضرات صحابیات جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔

مولانا عبدالسلام ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ:

"علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھاگیا، اے ام المؤمنین قرآن کی تفسیر اور حلال وحرام کی تعلیم آپ نے نبی اکرم ﷺ سے حاصل کی اور شاعری، علم انساب اور سابقہ اقوام کے حالات آپ نے اپنے والد اور دیگر لوگوں سے جانا، لیکن فما بال الطب؟آپ کو طب سے کیسے واقفیت ہوئی؟ام المؤمنین نے فرمایاکہ: نبی ﷺ کے پاس جو وفود آیا کرتے تھے وہ اپنی بیماری کی شکایت آپ سے کرتے، آپ ﷺ جو بھی نسخہ بیان فرماتے، میں اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلیتی تھی۔ ایک دوسری روایت میں انہوں نے فرمایا کہ: آنحضرت ﷺ آخر عمر میں بیمار رہاکرتے تھے، اطباء عرب آیا کرتے تھے، جو وہ بتاتے تھے میں یاد کرلیتی تھی۔

شروع میں مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی روایت نقل کی گئی ہے کہ: نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابیہ حضرت شفاؓ بنت عبداللہ عدویہ کو جولکھنا پڑھنا جانتی تھیں، انہیں اس بات پر مامورفرمایا تھاکہ وہ حضرت حفصہؓ کو لکھناپڑھناسکھائیں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا دم بھی بتائیں، چناچنہ حضرت حفصہؓ نے بہت جلد پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھ لیا۔ “

خواتین اور سائنس:

اگر سائنس کی تاریخ کے دریچے کھولے جائیں تو ہمیں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جو نامور مرد سائنسدانوں کی کامیاب داستانوں سے بھر ی پڑی ہیں۔ لیکن اِس کے متعلق جائزہ لیتے ہوئے صنفِ نازک کی شمولیت اور اُن کی کار کردگی کا ذکر نہ کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ یوں تواسلامی اعتبار سے عورت کو بلند درجات سے نوازاگیا ہے لیکن اِ س کے ساتھ ہی اسلام اور قانون کی رُو سے ہمارے سماج میں مرد کو عورت پر ہر معاملے میں بر تری حاصل ہے، اِس لیے ہر دور میں عورت کی پہچان کو دبایا گیا ہے۔ جس کے باعث سائنسی تاریخ کو بھی مرد سائنسدانوں کا دور سمجھا جاتا ہے، جب کہ تاریخ میں کامیاب سائنسدان خواتین کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جو تعریف کے قابل ہے لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں مرد کی بالادستی کے باعث خواتین کو اُن کی قابلیت پر کبھی وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جس کی وہ حقدار رہی ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد کچھ ایسی شخصیات کے بار ے میں جاننے کا علم ہوا جو قابلِ ذکر ہیں۔

دنیا کی پہلی کیمیادان:

3 ہزارسال قبل (Tapputi Belatekalli) دنیا کی سب سے پہلی کیمیادان تھی، جس نے عطر کے علاوہ ایسی کئی ایجادات کیں جو آج بھی دنیامیں زیر استعمال ہیں۔

قدیم مصر کی طبیبہ:

تاریخ میں طب کی پہلی ماہر بھی قدیم مصر کی ایک عورت تھی جو نہ صرف (2600 ق۔ م) میں خود طبیب بنی بلکہ اُس نے 100 سے زائد ادویات بھی بنائیں۔

غرض یہ کہ سائنس کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس سے یہ واضع ہوتا ہے کہ خواتین کی تمام صلاحیتوں اور قابلیت کو سراہنے کی محض عام سی کاوش کی گئی ہے جو گنتی کے کچھ کتابوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔

سائنس کی تاریخ میں ایسی کئی خواتین کا تذکرہ موجود ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ سائنس کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنا آپ منوایا ہے لیکن ہماری دنیا کے کچھ بے جا اُصول جن میں مرد کا بر تر ہونا اور انتظامیہ کی مخصوص لوگوں کے لیے جانبداری کے باعث بے شمار خواتین اصل انعام کی حقدار ہونے کے باوجود اپنی محنت کا صلہ حاصل کر نے سے محروم رہی ہیں اور زمانہ ء قدیم سے لے کر آج تک یہ سلسہ یونہی قائم ہے، خواہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہو یا عام سطح پر، صورتِ حال مشترکہ ہے۔

خواتین کی طبی خدمات کی قدیم تاریخ:

طب کے شعبے سے خواتین کی وابستگی کا تذکرہ متعدد ابتدائی تہذیبوں میں ملتا ہے۔ ایک قدیم مصری، میرٹ پتاہ (2700 قبل مسیح) کو ایک تحریر میں "مرکزی معالج" کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو سائنس کی تاریخ میں اوّلین پہچانی جانے والی خاتون سائنس داں ہیں۔ ہومر نے جنگِ ٹروجن سے قبل (1194 تا 1184 قبل مسیح) اگامیڈے کو قدیم یونان میں ایک معالج کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ایگنو ڈائیکے پہلی خاتون معالج تھیں، جنہوں نے چوتھی صدی قبل مسیح میں ایتھنز میں قانونی طور پر طبّی خدمات فراہم کرنے کا آغاز کیا۔

1200 قبل مسیح کے آس پاس بابلی تہذیب کے دور کے دوران دو خواتین عطر ساز جن کے نام تپّوتی بیلا ٹیکالم اور نینو (نام کا ابتدائی نصف کھو چکا ہے) ہیں، پودوں سے عرق نکالنے اور کشید کرنے کے عمل کے قابل تھیں۔ اگر ہمیں کیمیا یا کیمیائی آلات کے استعمال اور عمل کے حوالے سے دلیل دینی ہے، تو ہم ان دو خواتین کو پہلی دو کیمیادانوں کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مصری شاہی دور کے دوران، خواتین اطلاقی کیمیا سے وابستہ تھیں – جیسے بیئر سازی اور ادویاتی مرکبات کی تیاری۔

ایسی خواتین کی اچھی خاصی تعداد کا تذکرہ ہے، جنہوں نے کیمیا کے شعبے میں نمایاں شراکت کاری کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اسکندریہ میں پہلی اور دوسری صدی سنہ مشترکہ کے دوران قیام پزیر تھیں، جہاں غناسطی روایت نے خواتین کی شراکت کاریوں کو اہمیت بخشی تھی۔ خواتین کیمیا دانوں میں سے زیادہ مشہور میری یہودن کے سر اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے متعدد کیمیائی آلات ایجاد کیے، جن میں دہرا بوائلر (بین-ماری) شامل ہے؛ اس دور کے لحاظ سے عرق کشی کی تخلیق یا بہتری ایسے عرق کشی کے آلات کو کیروٹاکیس (سادہ آلہ) اور ٹرائیبائیکوس (ایک پیچیدہ عرق کشی کا آلہ) کہا جاتا تھا۔

قرونِ وسطیٰ کا یورپ:

یورپی قرونِ وسطیٰ کے ابتدائی ادوار کو تاریک ادوار بھی کہا جاتا ہے، جن کے دوران روم کی سلطنت کا زوال ہوا۔ لاطینی مغرب شدید مشکلات سے دوچار تھا، اس صورتِ حال نے یورپ کی فکری نشو و نما کو ڈرامائی طور پر نقصان پہنچایا۔ گو کہ فطرت کو اس وقت بھی ایسے نظام کے طور پر دیکھا جاتا تھا، جس کو دلیل کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے، لیکن تخلیقی اور ترقّی پسند سائنسی کھوج کا فقدان تھا۔ عرب دنیا کے سر اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے سائنسی ترقّی کے سرمایوں کو محفوظ کیا۔ عرب علما ءنے اصلی تحقیقی کام پیش کیا اور کلاسیکی ادوار کے قلمی نسخوں کی نقول شائع کیں۔ اس دوران مسیحیت دوبارہ احیاء کے دور سے گزر رہی تھی اور مغربی تہذیب کو اس کے نتیجے میں نئی زندگی ملی۔ کسی حد تک اس احیاء کی وجہ یہ تھی کہ مردوں اور خواتین کے لیے خانقاہوں نے پڑھنے اور لکھنے کی مہارتوں کی نشو و نما کی، اور راہبوں اور راہباؤں نے ماضی کے علما کی اہم تحریروں کو اکٹّھا کیا اور انہیں نقل کیا۔

اٹلی میں طب کے شعبے میں خواتین کو تعلیم دینے کا رویّہ دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ آزادانہ نظر آتا ہے۔ 11ویں صدی میں خاتون طبّی ماہرہ تروتولا ڈی روگیئرو کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ انہوں نے میڈیکل اسکول آف سالیرنو میں نشست (چیئر) سنبھالی تھی، جہاں انہوں نے اعلیٰ طبقے سے تعلّق رکھنے والی بہت ساری خواتین کو تعلیم دی، ان خواتین کے گروہ کو بعض اوقات "لیڈیز آف سالیرنو" بھی کہا جاتا ہے۔ خواتین سے متعلّق طب کے متعدّد شعبوں کی تحریروں، جیسے دایہ گیری اور امراض نسواں سے متعلق تحریروں کو اکثر و بیشتر تروتولا سے منسوب کیا جاتا ہے۔

ڈوروتیا بوچا ایک اور ممتاز اطالوی ماہرِ طب تھیں۔ انہوں نے 1390 سے چالیس سال تک یونیورسٹی آف بولوں گا کی "نشست برائے فلسفہ اور طب" سنبھالے رکھی۔ دیگر اطالوی خواتین جن کا طب کے شعبے میں شراکت کاریوں کے حوالے سے تذکرہ محفوظ ہے، ان میں ابیلا، جیکوبینا فیلیسی، الیساندرا گیلیانی، ریبیکا ڈی گوارنا، مارگاریٹا، مرکیوریاڈے (14ویں صدی)، کانستینس کیلنڈا، کلاریس ڈی دوری سیو (15ویں صدی)، کانستانزا، ماریا انکارناتا اور ٹامسیا ڈی میٹیئو شامل ہیں۔

بعض خواتین کی کامیابی کے باوجود، قرون وسطیٰ کے دور میں ثقافتی جانب داریوں نے خواتین کی تعلیم اور سائنس میں شراکت کاریوں کے اوپر سے منفی اثر ڈالا۔ مثال کے طور پر، خواتین کے حوالے سے مسیحی عالِم، سینٹ ٹامَس اکوائیناس تحریر کرتے ہیں۔

"عورت ذہنی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ قیادت کا عہدہ سنبھال سکے"۔

مجموعی طور پر سائنسی انقلاب نے خواتین کے بارے میں لوگوں کے تصوّرات تبدیل کرنے کے حوالے سے نہایت ہی قلیل کردار ادا کیا زیادہ وضاحت ہو تو یہ کہا جائے کہ یہ تصوّر تبدیل کرنے کے حوالے سے قلیل کردار ادا کیا کہ خواتین کی سائنس کے لیے خدمات پیش کرنے کی صلاحیت مردوں کے مساوی ہے۔ جیکسن اسپیل ووجیل کے مطابق:

"مرد سائنس داں جدید سائنس کو یہ نظریہ پھیلانے کے لیے استعمال کرتے تھے کہ خواتین، مردوں سے کم تر اور ان کے زیرِ نگیں ہیں اور خواتین، بچّوں کی پرورش کرنے والی ماؤں کے گھریلو کردار میں زیادہ مناسب ہیں۔ کتابوں کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ میں ان خیالات کا تسلسل ملتا ہے"۔

18ویں صدی:

گو کہ خواتین نے 18ویں صدی کے دوران بہت سارے سائنسی شعبوں میں ترقّی کی، لیکن پودوں کی تولید کے عمل کے بارے میں سیکھنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ کارل لینایوس کی پودوں کی زمرہ بندی کا نظام جنسی خصوصیات پر مبنی تھا، جس سے لوگوں کی توجّہ پودوں کے غیر اخلاقی جنسی رجحان کی جانب مبذول ہوئی؛ اور لوگوں کو خوف لاحق ہوا کہ خواتین فطرت کی مثال سے غیر اخلاقی اسباق سیکھ لیں گی۔ خواتین کو اکثر وبیشتر انتہائی جذباتی اور دلیل کی صلاحیت سے عاری تصوّر کیا جاتا تھا یا فطری مائیں تصوّر کیا جاتا تھا جو فطری اور اخلاقی معاشرے کو تشکیل دیتی ہیں۔ 18ویں صدی میں خواتین کے بارے میں تین مختلف نظریات قائم تھے کہ:

  • خواتین ذہنی اور سماجی طور پر مردوں سے کم تر ہیں۔
  • خواتین مردوں کے برابر ہیں، لیکن مختلف ہیں۔
  • صلاحیتوں کے اعتبار سے خواتین، مردوں کے مساوی ہیں۔

ذہنی صلاحیتو ں کے لحاظ سے بھی اور معاشرے میں شراکت کاری کے لحاظ سے بھی جبکہ شخصیات جیسے جین جیکس روسیو کا ماننا تھا کہ خواتین کے کردار ماں اور اپنے ازدواجی ساتھی کی خدمت تک محدود تھے، لیکن روشن خیالی کا بھی دور تھا جس کی وجہ سے سائنس میں خواتین کے کردار وں کو وسعت ملی۔ یورپ میں سیلون کی ثقافت کے عروج میں فلسفیانہ مذاکرے بے تکلّف مقامات تک پہنچ گئے، جہاں مرد اور خواتین ملاقات کے دوران جدید سیاسی، سماجی اور سائنسی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ جین جیکس روسیو نے خواتین کے ایسے زیر تسلّط سیلون پر حملہ کیا کہ "جہاں نسوانی مزاج رکھنے والے مرد تیّار ہوتے"، جس کی وجہ سے مذاکرے میں سنجیدہ بحث متاثر ہوتی لیکن اس زمانے میں سیلون مخلوط الجنس مجلسوں پر مشتمل ہوتے۔