انعام یافتہ بندوں کی صحبت فلاح کا راستہ

مسز مصباح عثمان

اکیسویں صدی جس برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اسی تیز رفتار کے ساتھ بنی نوع انسان کے لیے ابتلاء و آزمائش میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کے آئینے میں عصرِ حاضر کو فتنوں اور آزمائشوں کا دور کہا جائے تو یہ سو فی صد درست معلوم ہوتا ہے۔ جسے احادیث نبویہ ﷺ کی اصطلاح میں قربِ ِقیامت کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ لہذا جس سرعتِ رفتار کے ساتھ انسان خلاوں کو مسخر کر رہا ہے، چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے، نت نئی ایجادات منظرِ عام پر لا رہا ہے اِتنا ہی اس کے لیے یہ بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے من کی دنیا کا جائزہ بھی لے، جسے روح کی دنیا کہا جاتا ہے۔ وہ روح جسے خالقِ کائنات نے جسدِ انسانی میں رکھا اور فرمایا:

الروح امرِ ربی

اس روح کی مدت متعین فرمائی کہ ایک مخصوص عرصے تک انسانی جسم میں رہنے کے بعد واپس تجھے اپنے مالک کے حضور حاضر ہونا پڑے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیاوی لوازمات اور تقاضوں کے ساتھ ساتھ انسان اس روح کی غذا کا اہتمام کرے اور مسلمان ہونے کے ناطے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھائے کہ وہ اسلامی تعلیمات کے سانچے میں اپنے ظاہر و باطن کو سنوارنے کی سعی کرے۔ ہماری اس بنیادی احتیاج کی تکمیل کے لیے خالقِ کائنات نے سلسلہ انبیاء جاری فرمایا اور نبی آخر الزماںﷺ کی آمد کے بعد نبوت کے اختتام پر اسے اُمت کے اولیاء و صلحاء کے سپرد کر دیا۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض کم فہم لوگوں کی خام خیالی ہے کہ اب ویسے صلحاء اور اہل اللہ کہاں ہیں۔ چاہنے کے باوجود بھی اللہ والوں کی صحبت میسر آنا محض خواب و خیال ہے۔ یہ سوچ سراسرمبنی بر فتنہ اور شیطانی دھوکہ ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اولیاء اللہ کا وجود ہر زمانے میں برحق ہے اور تاقیامت یہ سلسلہ وعدہ خداوندی کے مطابق چلتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان ذاکرین و شاکرین بندوں کی صحبت اور معیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جو صبح و شام اس کی یاد میں مست ومگن رہتے ہیں اور اس کے مکھڑے کے طلبگار رہتے ہیں۔یہ لوگ خدا شناس ہیں، اس لیے جو ان سے دور ہوا وہ اللہ سے دور ہو گیا اور جو ان کے قریب ہوا وہ اللہ کے قریب ہو گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَ لاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا.

(الکهف، 18:  28)

(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ اس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں(اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں،کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دینوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے۔

سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ہدایت فرمائی کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور صادقین کی صحبت اختیار کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللهَ وَكُونُواْ مَعَ ٱلصَّٰدِقِينَ.

(التوبة، 9: 119)

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔

اگر سچے لوگ، اللہ والے ہر دور میں پیدا نہ کیے جائیں تو ایسا حکم قادرِ مطلق ہر گز اپنے بندوں کو صادر نہ فرماتا۔ لہذا معلوم ہوا کہ نیک صالحین، صادقین، متقین، اولیاء اللہ کا وجود ہر زمانے میں برحق ہے ان کو تلاش کرنا، ڈھونڈنا، ان کا دامن تھامنا، ان کے در تک رسائی حاصل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں اولیاء و صلحاء کے ہم نشین افراد کو ملنے والے فیض کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے:

هم الجلساء لایشقی جلیسهم.

(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الدعوات، 2: 948)

وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے بدبخت نہیں رہتے۔

اس حدیث پاک میں صالحین کی صحبت کے فیوضات کو بیان کیا گیا ہے کہ ان کے پاس بیٹھنے والے بدبخت نہیں رہتے اور ان کے وہ اعمال جو قبولیت کے اہل نہ تھے، قبول کرلیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ صحبت و سنگت انسانی طبائع پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ فطرت نے انسان کی سرشت میں یہ رکھا ہے کہ وہ دوسروں کے اثرات جلد قبول کرتا ہے۔ اگر صحبت نیک و صالح ہو تو انسان اچھے اخلاق و کردار کا مالک، نیک سیرت اور متقی بنتا ہے اور اگر کسی کو بد صحبت سے واسطہ پڑ جائے تو پھر اس کے لیے اچھی اخلاقیات ، نیکی اور تقویٰ کی آرزو عبث ہو کر رہ جاتی ہے۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں اچھی مجلس اور بُری مجلس کی مثال خوشبو بیچنے والے اور بھٹی سلگانے والے سے دی گئی ہے کہ اگر عطار تمہیں خوشبو نہ بھی دے تب بھی اس کی خوشبو تمہیں پہنچ کر رہے گی، اور لوہار کی بھٹی کی چنگاری تمہارے کپڑے نہ بھی جلائے تو اس کا دھواں کپڑوں کو گرد اور غبار آلود ضرور کردے گا۔ یہاں انتہائی خوبصورت پیرائے میں اچھے اور برے ہم نشین کی مثال بیان کی گئی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اپنے ہم نشین اورہم جلیس نیک لوگ رکھے جائیں۔

صحبتِ صلحاء سے فیض یاب ہونے کی صورتیں:

صحبتِ صلحاء سے فیض یاب ہونے کی درج ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں۔

1۔ براہِ راست اولیاء و صلحاء کی صحبت و سنگت میں بیٹھنا

2۔ اولیاء و صلحاء کے متوسلین سے قربت و تعلق کے ذریعے فیض پانا

3۔ اولیاء و صلحاء کے مواعظِ حسنہ اور بیانات کو پڑھنا یا سننا

4۔ اولیاء اللہ کی تحریر کردہ تصانیف و تالیفات کا مطالعہ کرنا

مذکورہ صورتوں کو اگر دیکھا جائے تو پہلی صورت اولیاء و صالحین اور اللہ والوں کی صحبت کا براہِ راست میسر آنا ہے کہ اگر انسان کو ان کا زمانہ میسر آ جائے اور ملاقات کا شرف ملے تو اس صورت میں روحانی فیوضات و برکات حاصل کی جائیں لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ زمانہ تو میسر ہو لیکن ملاقات نصیب نہ ہوسکے تو اس صورت میں صحبتِ صلحاء سے فیض پانے کے لیے بقییہ تین صورتیں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔جن کی بدولت اُن باصفا و نیک ہستیوں سے فیض حاصل کیا جا سکتا ہے مثلاََ اُن کے قرب اور تعلق میں رہنے والوں سے متمسک ہو کر ان کی تعلیمات سے مستفیض ہوا جائے ، اور اگر ان کے مواعظِ حسنہ خطابات، تقاریر، اور بیانات کی صورت میں میسر ہیں تو انھیں سنا جائے اور اگر ان کی تصانیف و تالیفات تک رسائی ہے تو ان کتب کو صحبت کا ذریعہ بنایا جائے۔ یہ تمام اُمور صحبت صلحاء سے فیض یاب ہونے کی مختلف صورتیں ہیں۔

اس تناظر میں اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی شخصیت کو دیکھا جائے تو وہ ایک ہمہ جہت ہستی، علوم و معارف، رموز و اسرار، حکمت و دانائی کا ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر دینِ اسلام کا عظیم استعارہ ہیں۔ ایسی عظیم نابغہ روزگار اور درخشاں ہستی کے بارے میں قلم اٹھانا بلاشبہ سعادت کی بات ہے ۔ آپ کی صحبت و سنگت اس دورِ ابتلاء و آزمائش میں امتِ محمدی ﷺکے لیے جائے امن و اماں اور پناہ ہے۔

سیدی شیخ الاسلام اس دور میں صوفی منش درویش ہیں جنہوں نے اسلاف کے تصوف کی روح کو تر و تازہ کر دیا۔ آپ نے تصوف کی عملی شکل کو پھر سے زندہ کیا۔ آپ کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا جہاں رات کے پچھلے پہر والدین کریمین بارگاہِ الہٰ میں سجدہ ریز ہو کر آنسو سے تر چہروں کے ساتھ مناجات میں مصروف دکھائی دیتے، آپ کی گھٹی میں عشقِ مصطفیٰ ﷺکی چاشنی رکھ دی گئی تھی، والدِ ماجد کی صحبت میں مثنوی از مولانا روم کی سماعت ایک طرف کانوں میں رس گھولتی تو دوسری طرف تن من میں عشق و مستی کے سمندر موجزن کر دیتی تھی۔ بچپن کا وہ عرصہ جس میں عام بچوں کو کھیل کود اور شغل سے فرصت نہیں ہوتی اس عمر میں آپ نے اپنے والدِ محترم اور معروف اساتذہ و شیوخ سے اکتسابِ فیض کیا۔ آپ کی اپنی نمازِ تہجد کے معمول کا عالم یہ ہےکہ بچپن سے کبھی آپ کی تہجد کی نماز قضاء نہیں ہوئی۔ محبت و عشقِ خدا و مصطفیٰ ﷺ کے روح پرور ماحول میں پرورش پانے والی اس عظیم ہستی نے جب 1۹۸0 میں تحریکِ منہاج القرآن کے قیام کے ساتھ صدائے عشق بلند کی تو یوں لگا گویا یاس و قنوط کے گرداب میں پھنسی امتِ مصطفوی ﷺکو مسیحا مل گیا۔

زیرِ نظر تحریر میں موضوع کی مناسبت سے ایک پہلو صحبت و سنگت کو ہی ملحوظ رکھا جائے گا وگرنہ شیخ الاسلام کی شخصیت اور آپ کی قائم کردہ تحریکِ منہاج القرآن کے مقاصد و اہداف اور سرگرمیوں کے لیے الگ دفتر درکار ہے۔ جس کے تحت آپ نے کارکنان کو ایک واضح نصب العین کا شعور دیا ، ان کو وقت، جان اور مال کی قربانی دینے کا درس دیا، ان کو سیاسی و عمرانی مسائل کا گہرا شعور دیا، ان کو مفاد کی کشمکش سے بے نیاز رہ کر زندگیوں کو خدمتِ خلق اور ملکی و دینی خدمات کے لیے وقف رہنے کا جذبہ دیا۔ مصطفوی انقلاب کا نعرہ مستانہ بلند کیا، قوم کوسیکڑوں سکول، کالجز، تعلیمی ادارے اور مراکزِ علم کی بدولت علم و شعور کی شمعیں فروزاں کیں۔

قیامِ تحریک کے وقت اخلاقی و روحانی اقدار کا نقشہ اور امتِ مصطفوی ﷺپر شیخ الاسلام کے احسانات:

قیامِ تحریک کے وقت کو دیکھا جائے تو یہ وہ دور تھا جب افرادِ معاشرہ محفلِ ذکر، شب بیداری، اِجتماعی مُسنون اِعتکاف، نفلی اعتکاف، تربیتی کیمپ اور روحانی اجتماعات جیسے عنوانات سے بھی نا آشنا تھے یہ تمام عنوانات گویا ماضی میں کئی گم ہو چکے تھے۔ اخلاقی اور روحانی تربیت کے مراکز مادیت پرستی کے اڈے بن چکے تھے۔ علمِ تصوف صرف کرامات کے بیان کرنے تک محدود ہوگیا تھا جبکہ عملی تصوف تقویٰ، رضاء الہٰی کا حصول، اخلاق اور پابندیٔ شریعت کے نور سے عاری ہو چکا تھا۔

1۔ آپ نے اس متاعِ گم شدہ کے حصول کے لیے دروس تصوف اور ماہانہ شب بیداریوں اور تربیتی کیمپوں کا آغاز کیا اور بیرونی دنیا میں بسنے والے لاکھوں نوجوانانِ امت کی اصلاحِ احوال کے لیے الھدایہ کیمپس کے ذریعے تربیتی و اخلاقی پروگراموں کا اہتمام کیا ۔ جس کے نتیجے میں وہ نوجوان جو دنیاوی عشق ومستی اور رقص وسرور کے عادی ہو چکے تھے وہ عشقِ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے نشے میں سر مست و مدہوش اور دیوانہ بن گئے ، ان کی آنکھیں یاد مصطفیﷺ میں برسنے والی ہو گئیں، ان کے دل غمِ مصطفیﷺ میں تڑپنے والے بن گئے، وہ زلفِ مصطفیﷺ کے اسیر بن گئے۔ شیخ الاسلام کی سنگت و صحبت نے انہیں شب زندہ دار اور کردار کا غازی بنا دیا۔

2۔ حرمین شریفین کے بعد پاکستان میں شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے سالانہ مسنون اعتکاف کا کلچر’’ توبہ و آنسوؤں کی بستی‘‘ کے ٹائٹل سے قائم کیا جس میں ہزار ہا افراد چوبیس گھنٹے عبادت و بندگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ تین دہائیوں سے 27 رمضان المبارک کے موقع پر سالانہ روحانی اجتماع لاکھوں لوگوں کی توبہ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ تصوف اور اخلاقِ حسنہ کے عنوان پر ہزاروں لیکچرز آج بھی اصلاحِ احوال کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔اِس پُرفتن معاشرے میں رہتے ہوئے لاکھوں کارکنان کے کردار و عمل میں اِس قدر تبدیلی پیدا کرنا بلاشبہ صحبت و سنگتِ ولی کی ہی بدولت ہے۔

’’آپ کی کرامات سے پتھروں سے چشمے نہیں نکلے لیکن خشک آنکھوں سے اللہ کی خشیت کے آنسو ضرور نکلے ہیں۔ آپ کی کرامتوں سے مردے تو زندہ نہیں ہوئے لیکن دنیا بھر میں لاکھوں مردہ دل حیات آشنا ہوچکے ہیں۔ سالانہ روحانی اجتماع کے موقع پر آپ کی رقت آمیز دعاؤں سے لاکھوں لوگ گندگی اور گناہ کی دلدل سے نکل کر ایمان کی راہ پر آ چکے ہیں۔ شیخ بیعت نہیں فرماتے مگر 20، 25 ہزار افراد کو اپنے ہمراہ اعتکاف میں جملہ تربیتی عمل سے گزارتے ہیں۔‘‘

ماخوذ از تحریر غلام مرتضیٰ علوی، موضوع’’شیخ الاسلام اور احیائے تصوف‘‘، ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2020

بقول مولانا روم

یک زمانہ صحبت بااولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اولیاء اللہ کی صحبت میں گزارئے ہوئے لمحات سو سالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہیں۔

3۔ دنیا کی چکا چوند اور مادی آلودگی سے بچنا اور نفس و روح میں للہیت و اخلاص پیدا کرنا تعلیماتِ تصوف کا مقصود ہے۔صالحین اور اولیاء کے کردار کے اثرات میں سے ایک اہم اثر یہ ہے کہ ان کی تعلیمات سے متاثر ہوکر لاتعداد لوگوں کے اعمال و کردار کی اصلاح ہوتی ہے اور دین اسلام کو مدد و نصرت ملتی ہے۔ صوفیاء کی تبلیغ میں تاثیر کی بنیادی وجہ تبلیغِ دین کے اصولوں پر عملدرآمد ہے۔ اگر اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صوفیاء و اولیاء کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہی بزرگانِ دین ہی کی بدولت اسلام شرق تا غرب پھیلا۔ ان کے قول و فعل میں یکسانیت و ہم آہنگی، حسنِ اخلاق، اندازِ تربیت، نرم گفتاری، رواداری، بصیرت و فراست اور حکمت و دانائی کے باعث لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

اس تناظر میں شیخ الاسلام کی شخصیت کو دیکھا جائے تو آپ نے پاکستان میں اور بیرونِ ملک خصوصاً امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، سکینڈی نیویا، یورپ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا خصوصاً مشرقِ وُسطی اور مشرقِ بعید میں اِسلام کے مذہبی و سیاسی، روحانی و اَخلاقی، قانونی و تاریخی، معاشی و اِقتصادی، معاشرتی و سماجی اور تقابلی پہلووں پر مشتمل مختلف النوع موضوعات پر 7000 سے زائد لیکچرز دیے۔ یہ لیکچرز جہاں عوام الناس کو ہر سطح سے متعلق رہنمائی فراہم کرتے ہیں وہی ان کی بدولت ہزارہا غیر مسلم افراد کے قبولِ اسلام کا سبب بھی بنے ہیں۔ آپ کی کتب میں نمایاں کتب سلوک و تصوف کا عملی دستور، حقیقتِ تصوف، روضۃ السالکین، زندگی نیکی اور بدی کی جنگ ہے، ہر شخص اپنے نشہ عمل میں گرفتار ہے وغیرہ شامل ہیں۔

4۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کی دولت اولیاء و صوفیاء کی صحبت و معیت سے ملتی ہے، خشیت و محبت الٰہی کا سودا صوفیاء کے بازار میں ہی ملتا ہے۔ یہ سوغاتِ محبت، صحبت صلحاء اختیار کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔عصرِ حاضر میں یہ قرب الٰہی کی دولت شیخ الاسلام کی تالیف و تصانیف اور خطابات کی صورت میں امتِ مسلمہ کو میسر ہے۔

5۔ مسلمان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع حضور نبی اکرم ﷺ سےروحانی و قلبی تعلق ہے۔ یہ ہر مومن کے ایمان کی اساس ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسی اساس کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہوئے عشقِ مصطفیٰﷺ کو اپنی تحریک کی روح ِ رواں بنایا اور اس کے بنیادی اہداف میں تعلق بالرسالت کو مرکزی مقام فراہم کیا۔ اس ہدف کے حصول کے لیے آپ نے محافلِ میلاد مصطفیٰﷺ کے کلچر کو زندہ کیا۔ بڑے پیمانے پر عالمی میلادِ مصطفیٰ ﷺ کانفرنس کی صورت میں چار دہایئوں سے مینارِ پاکستان کے سائے میں محبت و عشقِ مصطفیٰﷺ کے ترانے الاپے جاتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر عشقِ مصطفیٰ ﷺکے فروغ کے لیے حلقاتِ درود، محافلِ مصطفیٰﷺ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام کی صحبت و سنگت کے فوائد:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خصائص و شمائل سے نوازا ہے۔ آپ کی زندگی اُن تمام تر اخلاقی و روحانی صفات سے متصف ہے جو ایک مربی و مرشد کے لیے ضروری ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ مخلوقِ خدا کو ان روحانی صفات سے فیض یاب بھی کرتے ہیں۔ آپ نے نہ صرف قرونِ اولیٰ کے صوفیائے کرام کی تعلیماتِ تصوف کو اجاگر کیا بلکہ خود اُن تعلیمات کی عملی تصویر بن کر اپنے آپ کو رول ماڈل کے طورپر پیش کیا۔ عصرِ حاضر میں آپ کی سنگت و صحبت بلاشبہ ہر اس شخص کے لیے جائے امن و اماں اور پناہ ہے جو خود کو ابتلاء و آزمائش اور فتنوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ آپ کے ساتھ جڑنے اور آپ کی سنگت و رفاقت کا حصول بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ مثلاً

1۔ آپ کی صحبت و سنگت کے ذریعے مادیت پرستی کے دور میں اسلاف کی یاد تازہ ہوتی ہے۔

2۔ یہ سنگت و رفاقت بھولی ہوئی شناخت کو زندہ کرواتی ہے۔ نوجوانوں کا معبودِ حقیقی کے ساتھ تعلق بندگی اور اس کے پیارے حبیبﷺ کے ساتھ تعلق محبت و ادب کو پھر سے بحال کرنے کا سامان بہم فراہم کرتی ہے۔

3۔ انسانی سیرت و کردار کو اعلیٰ اوصاف کے ساتھ مزین کر کے معاشرے میں مثالی اور نفع بخش بننے میں معاونت کرتی ہے۔

4۔ حقیقی تصوف کی مٹتی ہوئی اقدار کا از سرِنو احیاء کرتی ہے۔

5۔ نسلِ نو کے ایمان کی محافظت کا نسخہ کیمیا پیش کرتی ہے۔

6۔ صدقِ نیت اور خلوص ِ دل کے ساتھ مخلوقِ خدا کی بھلائی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

حاصلِ کلام:

مذکورہ بالا بحث سے اس بات کی ضرورت و اہمیت اجاگر ہوتی ہے کہ عصرِ حاضر میں جس تیزی کے ساتھ اخلاقی اقدار کی روح مردہ ہو رہی ہے، فحاشی و عریانی اور بے حیائی ہر سو عام ہے اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں وہ تمام روایات صادق ثابت ہو رہی ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ نے قربِِ قیامت کی نشانیوں کی صورت میں بیان فرمائی تھیں۔ لہذا اس فتنوں اور آزمائشوں کے دور میں تنہا فردِ واحد اپنے ایمان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وقت کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے خود کو کسی ایسی کامل اور باصفا ہستی کے ساتھ جوڑ لے جس کی شخصیت کا ہر پہلو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا امین ہو، جس کی زندگی کا ہر لمحہ دینِ اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے اور احیائے اسلام کی ترویج میں بسر ہورہا ہو، جس کا قول و فعل، اخلاق و کردار، تصنیف و تالیف ہر چیز اس کے مقصدِ حیات ’’میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی‘‘ کو واضح کر رہی ہو۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ان اوصاف سے متصف خالقِ کائنات کا تحفہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی شخصیت کی صورت میں ہمیں نصیب ہوا ہے۔ ہمیں اس تحفہ خداوندی کی قدر کرتے ہوئے خود کو ان کے ساتھ منسلک اور وابستہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کی صحبت و سنگت اور تعلیمات سے فیض یاب ہو کر اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا اہتمام کیا جاسکے۔