میرے شیخ کا بچپن: سید الطاف شاہ کا انٹرویو

ایگرز ڈیپارٹمنٹ

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا جتنا ظاہر پاک ہوتا ہے اتنا ہی پاکیزہ باطن بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ظاہر باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ شیشے کے برتن میں جو ڈالو گے وہی باہر سے نظر آئے گا۔ اسی طرح اللہ کے نیک بندوں کے بچپن کو دیکھا جائے تو وہ ہمیشہ عام بچوں کے بچپن سے منفرد ہوتا ہے کیونکہ ان کی تربیت اللہ کریم خود فرماتا ہے کہ ان پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے ان کے کردار کو مضبوط اور پاکیزگی کی ضرورت ہوتی ہے۔

بے شمار اولیاء اللہ اور علماء کے بچپن کے بارے میں جانیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عام بچوں سے کس قدر مختلف بچپن رکھتے تھے۔ اسی طرح جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بچپن کے بارے میں پڑھتے یا سنتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بھی عام بچوں سے ہٹ کر ایک منفرد انداز کے حامل تھے۔ کسی کو جاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے گھر والوں یا اس کے دوست احباب سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جائے کیونکہ وہ اس کے دن رات کے یعنی ہر لمحے کے واقف کار ہوتے ہیں۔

شیخ الاسلام کے بچپن کے دوست ان کے پڑوسی سید الطاف شاہ صاحب سے جب شیخ الاسلام کے بچپن کے بارے میں پوچھا گیا جو واقعات بتائے اور معلومات فراہم کیں وہ بہت دلچسپ اور غیر معمولی ہیں۔ اس تحریر کے اندر ان معلومات کو مختصراً بیان کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو کتابیں بھر جائیں گی۔

سید الطاف شاہ صاحب سے Eagers کی ٹیم کی جانب سے شیخ الاسلام کے بچپن سے متعلق بہت سارے سوالات کیے گئے۔ جن میں سے چند کے دلچسپ جوابات کا خلاصہ اس تحریر کے ذریعے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

شیخ الاسلام سے آپ کی شناسائی اور دوستی کب اور کیسے ہوئی؟:

اس سوال کے جواب میں الطاف صاحب بتاتے ہیں۔ عمر میں طاہرالقادری صاحب سے ساڑھے چار سال بڑا ہوں ان کی ولادت کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں جب کسی کے ہاں بچے کی ولادت ہوتی اور بالخصوص لڑکے کی ولادت ہوتی تو ڈھول والے آتے تھے۔ اور ڈھول بجا کر سب کو آگاہ کیا جاتا اور پیدائش کی خوشی میں اہلِ خانہ سے پیسے لینے کا رواج تھا۔ تو اس دن بھی ہمارے محلے میں ڈھول والے آئے میں نے اپنی والدہ سے ڈھول بجنے کی وجہ دریافت کی جو کہ بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب (شیخ الاسلام کے والد گرامیؒ) کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔ اس لیے ڈھول والے پیسے لینے آئے ہیں خوشی کے۔ میری رہائش شیخ الاسلام کے محلے میں ہی تھی یہ خبر سن کر میں ان کے گھر گیا، شیخ الاسلام کو دیکھا تب سے اب تک کبھی ان سےکبھی جدا نہ ہوا۔

’’مسجد‘‘ میرے شیخ کا مسکن:

الطاف صاحب سے جب پوچھا گیا کہ شیخ الاسلام کا بچپن میں زیادہ وقت کہاں گزرتا تھا تو کہنے لگے کہ مسجد میں ہم لوگ سکول سے آکر اپنے بیگ لے کر مسجد میں چلے جاتے وہی ایک طرف شیخ الاسلام بیٹھ جاتے اور دوسری طرف میں وہی اپنا ہوم ورک کرتے اور وہیں اپنا باقی وقت گزارتے یعنی مسجد شیخ الاسلام کا دوسرا گھر ہوتا تھا۔ جب وہ گھر میں نہ ملتے تو مسجد میں ڈھونڈا جاتا، مسجد کی صفائی کرتے، نماز کے لیے صفیں بچھاتے، اذان دیتے، مسجد کے حوض میں خود اپنے ہاتھوں سے نلکا چلاکر پانی بھرتے تاکہ نمازی حضرات وضو کرسکیں۔ بچپن سے ہی ’’جماعت‘‘ کے ساتھ ہمیشہ نماز ادا فرماتے ہر نماز کے بعد بہت محویت کے ساتھ ذکر اللہ کرتے تو آپ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ لوگ بڑے غور سے آپ کو دیکھتے لیکن آپ ایک وجدانی و روحانی کیفیت کے ساتھ مصروفِ ذکر رہتے۔ یعنی بچپن سے ہی روحانیت کی طرف مائل تھے۔

’’کتاب‘‘ میرے شیخ کی ساتھی:

آج شیخ الاسلام کی کتاب دوستی سے دنیا واقف ہے، تجسس اس بات کا ہے کہ کیا بچپن میں بھی کتابوں سے اس قدر لگاؤ تھا؟ اس سوال کے جواب میں الطاف صاحب نے کہا کہ کتاب سے تعلق ان کو ورثے میں ملا تھا۔ کتاب ان کی وراثت تھی کیونکہ شیخ الاسلام کے والد گرامی ڈاکٹر فریدالدینؒ بہت بڑے عالم دین تھے اور کتب بینی فرماتے تھے۔ اس لیے سیدی شیخ الاسلام نے جب آنکھ کھولی تو اپنے اردگرد کتب کو ہی پایا۔ آپ کے بابا جان جب سفر سے واپس گھر تشریف لاتے تو ان کے ساتھ کئی سوٹ کیس ہوتے۔ لوگ سمجھتے کہ شاید اس میں تحائف و خزانے ہیں لیکن جب کھولے جاتے تو ان میں نایاب ترین کتب ہوتیں۔ شیخ الاسلام اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ان کتب کو الماریوں میں درست ترتیب سے رکھتے اس لیے کتابوں سے دوستی ان کی اوائل عمری سے ہی ہوگئی تھی۔ ہمیں اتنا معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ کیا کتاب ہے لیکن شیخ الاسلام تب بھی سمجھ جاتے تھے کہ یہ کون سی کتاب ہے اور کس موضوع پر لکھی گئی ہے۔ وہ اپنی کم عمری سے بھی کتاب کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور اپنے بابا جان سے سوال کرتے کہ یہ کیا ہے کیوں ہے۔ ان کے سوال اکثر سب کو حیران کردیتے۔ سارے Subjects بہت خوشی سے پڑھتے تھے ہمیشہ کلاس میں اول آتے۔ پہلی لائن میں بیٹھتے اپنے سارے اساتذہ کے پسندیدہ سٹوڈنٹ تھے۔ جیسے کاریگر کا بیٹا اپنے والد سے کاریگری سیکھتا ہے اور ایک بہترین ہنر مند بن جاتا ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام نے اپنے بابا جان سے کتب بینی سیکھی۔

میرے شیخ کے شوق:

شیخ الاسلام کے والد گرامی فارسی کے بہت بڑے متبحر عالم دین اور شعلہ بیان خطیب تھے۔ ان کے دادا جان بھی ایک عالم دین اور اللہ کے ولی تھے۔ دین اسلام ان کے گھر میں نسل در نسل موجود تھا۔ اس لیے شیخ الاسلام کو روحانیت اور دین اسلام کے بارے میں جانکاری اور اس پر عملداری گھٹی میں پلائی گئی تھی۔ مطالعہ کا انہیں ابتدائی بچپن سے ہی شوق تھا۔ اسی طرح عبادات کا بھی اوائل عمری سے جنوں تھا آپ فرض نمازوں کے علاوہ نفلی نمازیں چاشت، اشراق، تہجد اور اوابین وغیرہ بھی پابندی سے پڑھتے تھے۔ قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھتے تھے۔ ان کے والدِ گرامی بہت سفر کیا کرتے تھے۔ جن کا مقصد اولیاء و علماء کے مزارات کی حاضری کے ساتھ ان کے فیض سے بہرہ مند ہونا بھی تھا۔ حج و عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ عراق، ایران، شام وغیرہ کے اسفار بھی کیے۔ کتب سے پڑھ پڑھ کر اولیاء و علماء کے مزارات کا پتہ تلاش کرکے وہاں زیارت کے لیے جاتے۔ اسی طرح شیخ الاسلام بھی ان کے ہمراہ اولیاء کے مزارات پر حاضری دیتے۔ بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ مزارات پر حاضری کی غرض سے جاتے تو شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ وہ وہاں کے آداب جانتے تھے کہ کیسے سلام کرنا ہے، کہاں کھڑے ہونا ہے کیسے فاتحہ پڑھنی ہے۔ یہ مناظر ان کے دوستوں کو حیران کرنے والے ہوتے تھے۔ وہ بچوں میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے اکثر ایسی جگہوں پر بڑوں والا رویہ اپناتے تھے یعنی وہاں بچپن نظر نہ آتا بلکہ بڑے بن جاتے تھے۔ انہیں فطرت سے بہت لگاؤ تھا فجر کی نماز کے بعد سیر کرنے نکل جاتے۔ سبزہ دیکھتے دریا کی سیر کرتے، قدرتی مناظر کو دیکھتے، کھیت، کھلیان، باغات، پگڈنڈیاں، پھول دیکھتے، دریائے چناب جو کہ جھنگ میں ان کے گھر سے دو میل کے فاصلے پر ہے وہاں چلے جاتے پیدل فجر کے بعد وہاں پر مچھلیوں کو دیکھتے دور بین کے ذریعے اور محظوظ ہوتے تھے۔

اسی طرح انہیں کھیل کھیلنا بھی پسند تھا وہ بچپن سے ہی بہت چست اور چاک و چوبند تھے۔ انہیں نیزہ پھینکنا، کُشتی لڑنا، والی بال کھیلنا بھی پسند تھا۔ وہ یہ ساری گیمز نہ صرف کھیلتے تھے بلکہ بہت اچھا کھیلتے تھے اور جیتتے بھی تھے۔ تقریر کا انہیں بچپن سے شوق تھا بچپن میں بچوں کو اکٹھا کرکے ان کے سامنے تقریر کرتے تھے اور بہت پراعتماد انداز میں تقریر کرتے تھے۔ سکول میں بھی تقریری مقابلہ جات میں حصہ لیتے اور اول آتے تھے۔

مثالی دوست، فرمانبردار بیٹے:

بحیثیت دوست شیخ الاسلام کا طرز عمل کیسا تھا؟ اس سوال کے جواب میں الطاف شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ شیخ الاسلام ہمیشہ دوسروں کے کام آتے کسی کو پریشانی میں دیکھتے تو فوراً اس کی مدد کرتے۔ اپنے بہن بھائیوں سے کبھی لڑائی جھگڑا نہ کرتے ہمیشہ ان کا احساس کرتے، ان کا مکمل خیال رکھتے تھے۔ آج کے دن تک اپنے دوستوں کو یاد رکھا ہے انھوں نے۔ ہر کوئی ان سے اپنے راز کی بات کرلیا کرتا۔ کم عمری سے ہی دوستی نبھانا خوب جانتے تھے۔ علاوہ ازیں جو دوست بھی کسی مشورے کی غرض سے آپ کے پاس آتا مطمئن لوٹتا۔

امتِ مسلمہ کی فکر:

دین اسلام کی خدمت میں ہمیشہ سرگرم رہتے، دین اسلام کو ہر چیز پہ مقدم رکھا ملکی سیاست کو اسلامی ریاست کی طرز پر ڈھالنے کے لیے جتنی جدوجہد اب کرتے ہیں اسی طرح بچپن میں بھی اس چیز کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور دوسروں سے بھی مصطفوی انقلاب پر باتیں کرتے تھے۔ انہیں بچپن سے ہی امت مسلمہ کی فکر تھی۔ بچپن سے ہی انقلاب امت، خدمت دین جیسے موضوعات پر ایسے ایسے سوال اٹھاتے کہ اساتذہ اور گھر کے بڑے حیران رہ جاتے۔ مسلمہ کا غم دل میں رکھتے ہیں ان کو امت کو بکھرا شیرازہ سمیٹنے کی فکر رہتی۔

پیارے شیخ:

بچپن سے ہی صاف ستھرا رہنے اور صاف ستھرا لباس پہننے کی عادت تھی۔ اردگرد ماحول کو بھی صاف اور نظم میں رکھتے تھے۔ اپنے لباس کو صاف ستھرا رکھنے کے علاوہ لباس کی نفاست سے متعلق بھی انہیں ہم فکر مند دیکھتے۔ بحیثیت دوست اور پڑوسی جتنا وقت میں نے شیخ الاسلام کے ساتھ گزارا میں نے کبھی انہیں کسی سے بداخلاقی سے پیش آتے نہیں دیکھا۔ اپنے اخلاق میں بچپن سے ہی بہت اعلیٰ تھے۔

ان کا انداز گفتگو نرم اور محبت بھرا ہوتا ہے۔ دوسروں کے دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ان کا رہن سہن سادہ مگر دلنشین ہے جو دیکھتا اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔

ان کی اتنی اچھی عادات ہیں جو دوسروں کے دل موہ لیتی ہیں ان کی بصیرت کو دیکھ کر اپنے تو اپنے غیر بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نعلین مصطفیﷺ کے تصدق سے صحت و سلامتی والی عمر خضر عطا فرماے۔ ہمیں ان کے راستے کا پکا اور سچا مسافر بنائے۔ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی اسی در سے جوڑے رکھے۔ ان کے سارے گھرانے کو سیدہ پاک سلام اللہ علیھا کے گھرانے کے صدقے سلامت و آباد رکھے۔ آمین