پانی زندگی ہے اس کی قدر کیجئے

سمیہ اسلام

پانی قدرت کاایک عظیم عطیہ ہے اور تمام مخلوقات کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ زندگی کا دارومدار پانی پر ہے، ماہرین کا کہنا یہ بھی ہے کہ دنیا میں برپا ہونے والی تیسری بڑی عالمی جنگ پانی پر ہوگی۔ اگر ہم اس عالمی مسئلے پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمارے دوسرے مسائل کی طرح اس کا حل بھی ہمیں حضور اکرم ﷺ کی مبارک تعلیمات میں تلاش کرنا ہوگا۔

پانی کےا سراف کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ وضو کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اسراف کیوں ہے؟ تو حضرت سعدؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ، کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہی (وضو کیوں نہ کر رہے) ہو۔

حدیث پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگر اسراف سے بچیں تو ہم اپنے اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں۔ کیونکہ اسراف ہی ایک ایسی بیماری ہے جو بڑی سے بڑی نعمت کو وقت سے پہلے ختم کر دیتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جا بجا اسراف سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔

پانی سے وابستہ چار نظام

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَلَكَهٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرىٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُهٗ حُطَامًاط اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ۠.

(الزمر: 21)

(اے انسان!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر زمین میں اس کے چشمے رواں کیے، پھر اس کے ذریعے کھیتی پیدا کرتا ہے جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، پھر وہ (تیار ہوکر) خشک ہو جاتی ہے، پھر (پکنے کے بعد) تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ اسے چورا چورا کر دیتا ہے، بے شک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی سے وابستہ ان چار نظاموں کا ذکر فرمایا جن کے ہونے سے زندگی موجود ہے اور نہ ہونے سے زندگی مفقود۔ یہ نظام درج ذیل ہیں:

1. بارش کا پانی

2. زیر زمین پانی کے ذخائر کا نظام

3. زراعت کا نظام

4. زراعت کے نتیجے میں انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا نظام

عمومی تصور ہے کہ پانی قدرت کا عظیم تحفہ ہے، پانی جونہ صرف انسانی زندگی کی بقا کیلئے ضروری ہے بلکہ جانوروں، چرند پرند، درختوں، پودوں اور پھولوں کے پھلنے پھولنے کے لئے بھی اہم ترین جزو ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں 60 فیصد حصہ پانی کا ہے۔

آسمان سے بارش کے ذریعے پانی برستا ہے جو زیرزمین ذخائر میں تبدیل ہو جاتا ہے،وہاں سے زراعت کے کام آتا ہے۔ کھیتیاں جب پک کر سوکھتی ہیں تو انسانوں کو دانہ ملتا ہے اور زرد بنتی ہیں تو بھس بنتی ہیں جس سے جانوروں کو خوراک میسر ہوتی ہے۔ اس لیے پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔

پانی انسانی جسم کے لیے بھی زندگی ہے

ہمارا دوتہائی جسم پانی ہی پر مشتمل ہے۔ پانی جسم انسانی کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اندر افعال انجام دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی غیر موجودگی یا کمی کی صورت میں انسانی جسم مختلف خرابیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پانی کے ذریعے انسانی جسم میں درج ذیل افعال بخوبی انجام پاتے ہیں۔ یہ خون کو مائع حالت میں رکھنے میں مددگار بنتا ہے۔ غذا کو بڑی آنت کے ذریعے جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ پانی کی مناسب مقدار کے باعث جسم کا درجۂ حرارت ہر موسم میں معمول پر رہتا ہے۔ یہ جسم سے فاضل مادوں کو خارج کرتا ہے۔

پانی انسانی جسم اور جلد کے لیے بھی زندگی ہے

جلد جسم کا ایک اہم حصہ ہے جو کہ زیادہ تر پانی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ جلد کے خلیات بنیادی طور پر پانی سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ اگر ان خلیوں کو کافی مقدار میں پانی نہیں ملتا ہے تو، جلد خشک ہو جائے گی اور جھریاں پڑنے کا زیادہ امکان ہوگا۔ پانی کے بغیر جلد بہترین طریقے سے کام نہیں کر سکتی۔ اگر جلد کو وافر مقدار میں پانی نہیں ملتا ہے، تو نہ صرف یہ خشک اور تنگ ہو جاتی ہے، بلکہ یہ عمر بڑھنے کے اثرات بھی وقت سے پہلے نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارا جسم ہر روز بڑی مقدار میں پانی کھو دیتا ہے، اس لیے اگر زیادہ پانی نہیں پیئیں گے جلد کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ اگر ایک دن میں کم از کم آٹھ مکمل گلاس پانی ہمارے معمول میں شامل نہیں ہے، تو یہ جلد کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ جلد کی صحت کے لیےاس کا مناسب طریقے سے ہائیڈریٹ رہنا بہت ضروری ہے۔ پانی نہ صرف آپ کے ہاضمے اور خون کی گردش میں اہم کردار ادا کرتا ہے بلکہ یہ آپ کی جلد کی صحت اور خوبصورتی کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ یہ خوبصورتی کے سب سے آسان اور بہترین علاج میں سے ایک ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔

موجود ہ دور میں جن چیزوں میں بھی قحط اور قلت کا اندیشہ ہے، ان میں اعتدال تدارک کا بڑا اور اہم ذریعہ ہے، اگر احتیاط اور اعتدال کا سہارا لیا جائے تو بڑی حد تک پانی کی کمی کے اندیشے دور ہوسکتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں یہ بھی احساس ہونا چا ہیے کہ ہمارا رب ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔ پانی بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے اور اس کا بے دریغ استعمال اور اس میں عدم اعتدال اسراف بے جا ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس بارے میں نہ صرف حساب لے گا، بلکہ اس کے اسراف پر سزا بھی دے گا۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے پانی کے بے دریغ اور ناجائز استعمال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ پانی کا استعمال جہاں دیگر مقامات پر غیر محتاط انداز میں نظر آتا ہے، وہیں بدقسمتی سے مساجد میں وضو خانوں پر بعض افراد نل کھول کر بھول جاتے ہیں کہ پانی مستقل بہہ رہا ہے۔ یہ بھی اسراف اور پانی کا غیر ضروری استعمال ہے۔

22 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ عوام الناس میں پانی کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکے۔ اس دن کا آغاز 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیریو میں اقوامِ متحدہ کی ‘‘ماحول اور ترقی’’ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا۔ پانی ہمارے گھروں، خوراک، ثقافت، صحت، تعلیم، معاشیات اور ہمارے قدرتی ماحول کی سالمیت کے لیے بہت بڑی اورپیچیدہ قیمت رکھتا ہے۔

عمومی تصور ہے کہ پانی قدرت کا عظیم تحفہ ہے، پانی جونہ صرف انسانی زندگی کی بقا کیلئے ضروری ہے بلکہ جانوروں، چرند پرند، درختوں، پودوں اور پھولوں کے پھلنے پھولنے کے لئے بھی اہم ترین جزو ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں 60 فیصد حصہ پانی کا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے کہ 71 فیصد کرہ ارض بھی پانی پرہی مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں 2.1 ارب انسان پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ ہر 4 میں سے 1 سکول میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ روزانہ 700 بچےپانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی ڈائریا کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کے80 فیصد افراد جو دیہاتوں میں آباد ہیں غیر صحتمندانہ ذرائع سے پانی حاصل کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ 159 ملین لوگ تالابوں اور ندی نالوں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں 700 ملین افراد کو شدید پانی کی کمی سے 2030 تک بے گھر ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔ دیکھا جائے تو ایک طرف جہاں پانی زندگی کی بنیادی اکائی ہے وہاں دوسری طرف پانی کی کمیابی اور آلودگی، صحت مند زندگی کے لئےشدید خطرہ ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ، پانی کی آلودگی اور کمی جیسے مساٗئل نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان مسائل نے انسان کی اقتصادی اور معاشرتی زندگی ہی نہیں بلکہ اس کی صحت کو بھی بری طرح متا ثر کر رکھا ہے۔ آلودہ پانی نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں اور پودوں کے لئے بھی بہت خطرناک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ گھروں کے نل میں آنے والا پانی ہو یا ٹیوب ویلز، فلٹریشن پلانٹس ہوں یا پھر بوتلوں کا پانی(منرل واٹر)صحت کے لئے مضر ہوتے جا رہے ہیں۔ زیر زمین سیوریج لائنز اور صاف پانی کی پائپ لائنز مل جانے کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہو رہا ہے۔

موجود ہ دور میں جن چیزوں میں بھی قحط اور قلت کا اندیشہ ہے، ان میں اعتدال تدارک کا بڑا اور اہم ذریعہ ہے، اگر احتیاط اور اعتدال کا سہارا لیا جائے تو بڑی حد تک پانی کی کمی کے اندیشے دور ہوسکتے ہیں۔

سیوریج سسٹم کے نقائص تو ایک طرف ہمارے ملک کے ندی، نالے، نہریں، دریا، جھیلیں اور سمندر بھی آلودہ ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف جدید صنعتوں نے بھی پانی کی آلودگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں صاف پانی کی کمی اور نکاسی آب کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہر سال آلودہ پانی پینے سے سینکڑوں افراد ٹائفائیڈ، ہیضہ، اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور ای جیسی موذی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملکی معیشت کا ڈیڑھ فیصد اسپتالوں میں پانی سےپیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پرخرچ ہو رہا ہے۔ پانی میں کیلشیم، نمکیات، منرلز، فلورائیڈ اور آئرن ایسے مفیدعناصر کے ساتھ ساتھ آرسینیک یعنی سنکھیاجیسے مضر صحت عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔ جدید دنیامیں مفید اور مضر صحت عناصر کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لئے پانی کو لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانا ضروری تصورکیا جاتاہے ہے۔

پاکستان میں پانی کی قلت ایک بڑا خطرہ

پاکستان میں پانی کی قلت ایک بڑا خطرہ ہے جس کے شواہد موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کتنا بڑا خطرہ ہے؟ یہ کتنی تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے؟ اور ہمیں اس سے نمٹنے یا اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات جتنی جلدی ہو سکے معلوم کر لیے جائیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق دنیا بھر کے ممالک جن کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی یو این ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی اور اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک ہو جائے گا۔ یہ اعداد و شمار اور تحقیق پہلی بار نہیں کی گئی بلکہ بارہا اس بات کو اجاگر کیا جا چکا ہے۔ 2016 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان 1990 میں واٹر سٹریس لائن تک پہنچ گیا تھا اور 2005 میں پانی کی قلت کی لائن عبور کرلی تھی۔

پاکستان میں پانی کی قلت کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ، پانی کو ذخیرہ کرنے کی کمی اور زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ان میں شامل ہیں۔ پاکستان میں تین بڑے ڈیموں میں اوسط نو فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ اوسط 40 فیصد ہے۔ اگر اب بھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت مستقبل قریب کا مسئلہ نہیں ہے تو ہمیں بطور قوم ایک بار پھر سوچنا پڑے گا۔ پانی کی قلت ایک ٹائم بم ہے اور خدا ناخواستہ جس دن یہ پھٹا تو 22 کروڑ عوام کو پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس پانی نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم پانی کے وسائل کو اہمیت نہیں دے رہے اور اس حوالے سے اقدامات نہیں اٹھا رہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی بڑی مقدار میں موجود ہے اور دنیا میں صرف 35 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس پاکستان سے زیادہ پانی کے وسائل ہیں، لیکن پانی کے وسائل کو مینیج نہیں کیا جا رہا اور بڑھتی آبادی موجودہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔ ایک طرف پانی کے وسائل کو ہم صحیح طور پر مینیج نہیں کر رہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی ناقابل تغیر بارشوں، قحط اور سیلاب کی صورت میں ہمارے موجودہ نظام پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے۔ پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمی تبدیلی سے شدید متاثر ہیں۔

جلد کے خلیات بنیادی طور پر پانی سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ اگر ان خلیوں کو کافی مقدار میں پانی نہیں ملتا ہے تو، جلد خشک ہو جائے گی اور جھریاں پڑنے کا زیادہ امکان ہوگا۔ پانی کے بغیر جلد بہترین طریقے سے کام نہیں کر سکتی۔ اگر جلد کو وافر مقدار میں پانی نہیں ملتا ہے، تو نہ صرف یہ خشک اور تنگ ہو جاتی ہے، بلکہ یہ عمر بڑھنے کے اثرات بھی وقت سے پہلے نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

پانی کی قلت اب بھی حکومت کے ریڈار پر نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی مربوط پالیسی یا بیانیہ سامنے نہیں آیا ہے۔ وقت نکلتا جا رہا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام 2025 تک شاید 25 کروڑ ہوچکی ہوگی۔ 2025 وہ سال ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مطلق پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ مطلق پانی کی قلت سے صرف پاکستان کے ریگستانی علاقوں میں رہنے والے ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ آبادی بھی متاثر ہوگی، جو ملک کے شمالی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پانچ ہزار سے زائد گلیشیئرز ہیں۔

پانی کے بے دریغ استعمال میں جہاں اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے وہیں انفرادی کردار بھی ناگزیر ہے۔ پانی کے عالمی دن کے موقع پر قارئین کی توجہ اس تحریر کے ذریعے اس اہم مسئلہ پر دلوارہے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو سکے ہمیں پانی کو ضائع کرنے خود بھی بچنا ہو گا اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بھی آگہی فراہم کر کے اس کے کی بچت کو یقینی بنانا ہوگا تا کہ اپنے پیارے وطن پاکستان کو پانی کی قلت سے محفوظ رکھا جاسکے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمل میں دوسروں کی جانب دیکھنے کے بجائے پہلا قدم خود ااٹھا نا ہو گا۔