شبِ برأت: دوزخ سے نجات کی رات

سعدیہ کریم

اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہر وقت بندے پر سایہ فگن رہتی ہیں اس کے دربار میں حاضری کے لیے ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت کو عام اور کھلی اجات ہے۔ اس کے دربار میں حاضری کی کوئی شرط بھی نہیں ہے۔ اس کے دربار کی حاضری کے لیے کوئی جگہ بھی مخصوص نہیں کی گئی۔ بس انسان اپنے بستر سے اٹھے اور اس سے رابطہ قائم کرلے۔ اس کے دربار میں حاضر ہوجائے البتہ وقت مخصوص ہے اور وہ وقت مقدار کے اعتبار سے اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کسی کو محرومی کی شکایت نہیں ہوسکتی کہ میں تو پورے وقت پر مولا کی بارگاہ میں پہنچا لیکن میری باری نہیں آئی۔ یہ تو وہ دربار ہے جہاں ہر ایک کو فوری توجہ ملتی ہے اور یکساں ملتی ہے۔ درجات تو ہر انسان کی ہمت، محنت اور ریاضت کے اعتبار سے حاصل ہوتے ہیں لیکن توجہ فوری اور پوری ملتی ہے اور کسی آنے والے کو کبھی بارگاہ مولا سے خالی نہیں موڑاجاتا۔

پورے سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں روزانہ کے دربار کا دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور بخششوں کے مزید اضافوں کے ساتھ اس دورانیے کو مسلسل پوری رات کے لیے قائم فرمادیتا ہے۔ یہ رات شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہوتی ہے اور عرف عام میں اسے ’’شبِ برأت‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے کہ:

فِیْهَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ.

(الدخان، 44: 4)

’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘

حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ: ’’اس رات میں لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال میں کتنا رزق دیا جائے گا، کتنے لوگ مریں گے، کتنے لوگ زندہ رہیں گے، کتنی بارشیں ہوں گی حتی کہ لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شخص حج کرے گا۔‘‘

حضرت عکرمہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک زندگی کی مدتیں منقطع ہوجاتی ہیں، حتی کہ ایک شخص نکاح کرتا ہے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا نام مردوں میں لکھا ہوتا ہے۔‘‘

ابوالضحیٰؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو معاملات کے فیصلے فرماتا ہے اور لیلۃ القدر میں ان فیصلوں کو ان کےا صحاب کے سپرد کردیتا ہے۔ اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔‘‘

ان تمام احادیث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نصف شعبان المعظم کی رات ہی شبِ برأت ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی رحمت اپنے عروج پر ہوتی ہے اور بنوکلب میں پائی جانے والی بکریوں کی کھالوں پر موجود بالوں کی تعداد کے برابر انسانوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

گناہوں سے مغفرت کی رات۔ آیاتِ قرآنی سے استدلال

نصف شعبان المعظم کی رات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچنے والوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اس بات کی تائید و توثیق مزید قرآنی آیات سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ سورہ الزمر میں ہے کہ:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ ط اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّهٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ.

(الزمر، 39: 53)

’’آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

سورہ آل عمران میں ہے کہ:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ لا اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ.

(آل عمران، 3: 133)

’’اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں سب آسمان اور زمین آجاتے ہیں، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘

اسی طرح سورہ الرعد میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِهِمْ ج وَاِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ.

(الرعد، 13: 6)

’’بے شک آپ کا رب لوگوں کے لیے ان کے ظلم کے باوجود بخشش والا ہے اور یقینا آپ کا رب سخت عذاب دینے والا (بھی) ہے۔‘‘

یہ تمام آیات شبِ برأت کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے کہ اگر بندے ہزاروں گناہ کرنے کے باوجود اپنے رب کے سامنے شرمندہ اور تائب ہوجائیں تووہ ان کے سارے گناہ معاف کرنے پر قادر ہے۔

کثرت مغفرت سے متعلق صحیح احادیث

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جائے گا اور ایسے لوگوں کو لائے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں گے تو اللہ عزوجل ان کو بخش دے گا۔‘‘

اس حدیث پاک کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے عفو اور اس کی مغفرت کا پہلو اجاگر کیا جائے کیونکہ مغفرت کی وجہ ہوگی تو مغفرت کی جائے گی۔ اس گناہ کا مقصد گناہ کی ترغیب دینا نہیں کیونکہ گناہ کرنے سے تو اللہ تعالیٰ بار بارمنع فرماتا ہے اور انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد بھی انسانوں کو گناہوں سے باز رکھنا تھا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان گناہوں سےبچتا رہے اور نیکیاں کرتا رہے، پھر بھی یہ سمجھتا رہے کہ اس نے عبادت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کا پورا شکر ادا نہیں کیا۔ اس پر اپنے آپ کو گناہگار سمجھتا رہے اور اللہ تعالیٰ سے کامل شکر ادا کرنے پر معافی مانگتا رہے۔ یہی اس حدیث کا مطلب ہے اور اگر انسان نیکیاں کرکے خود کو استغفار سے مستغنیٰ سمجھے گا تو ایسے لوگوں کے لیے فرمایا کہ اللہ انھیں لے جائے گا اور ایسے لوگوں کو لائے گا جو گناہوں سے اجتناب کرنے اور نیکیاں کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے اور اس سے استغفار کرتے رہیں گے۔

شبِ برأت میں کثرت مغفرت کے متعلق احادیث صحیح

حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو گم پایا، میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ بقیع کے قبرستان میں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمھیں یہ خطرہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں نے یہ گمان کیا تھا کہ شاید آپ اپنی دوسری ازواج کے پاس گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ عزوجل نصف شعبان کو آسمان دنیا کی طرف اپنی شان کے مطابق نازل ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کے گناہ معاف کردیتا ہے۔

حضرت علی ابن ابی طالبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات ہو تو اس میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ عزوجل اس رات میں غروب شمس سے آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے۔ پس فرماتا ہے سنو! کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے تو میں اس کو بخش دوں، سنو! کوئی مصیبت زدہ ہے تو میں اس کو عافیت سے رکھوں، وہ یونہی فرماتا رہتا ہے حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ عزوجل شعبان کی نصب شب کو متوجہ ہوتا ہے اور تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے، ماسوا مشرک اور کینہ پرور کے۔

حضرت عثمان بن ابی العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب نصب شعبان کی شب ہوتی ہے تو ایک منادی ندا کرتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے تو میں اس کو بخش دوں، ہے کوئی سائل تو میں اس کو عطا کردوں۔ پس جو شخص بھی سوال کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اسے ضرور سنتا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ تم جانتی ہو کہ اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس رات میں اس سال اولاد آدم سے ہر پیدا ہونے والے کا نام لکھ لیا جاتا ہے اور اس سال اولاد آدم سے ہر مرنے والے کا نام لکھ لیا جاتا ہے اور اس رات میں لوگوں کے اعمال اوپر لے جائے جاتے ہیں اور اس سال کا ان کو رزق نازل کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ! کیا کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ بھی نہیں؟ تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر تین مرتبہ فرمایا: میں بھی نہیں الا یہ کہ اللہ عزوجل مجھے اپنی رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔

خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ چار راتوں میں خیر کو کھولتا ہے، بقر عید کی رات، عیدالفطر کی رات، نصف شعبان کی رات جس میں لوگوں کی زندگیوں اور رزق کے متعلق لکھا جاتا ہے اور اس میں حج کرنے والے کا نام لکھا جاتا ہے اور عرفات کی شب میں فجر کی اذان تک۔

ان تمام احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شب برأت، گناہوں سے نجات کی رات ہے اور گناہوں کی نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے اس مبارک رات میں کثرت سے توبہ و استغفار کرنا لازمی ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اس رات میں استغفار کرنے کی بہت زیادہ فضیلت اور قبولیت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔ اس لیے اس رات میں اپنے لیے اور اپنے والدین اور اعزہ و اقارب کے لیے دعا لازمی مانگی جائے تمام مرحومین کے لیے بھی دعائے مغفرت ضرور کی جائے کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وہ ایک نیک بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرمائے گا، وہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے یہ درجہ کہاں سے ملا، اللہ عزوجل فرمائے گا، تیرے بیٹے کے تیرے لیے استغفار کرنے کی وجہ سے تیرا درجہ بلند کیا گیا۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: قبر میں مردہ اس طرح ہوتا ہے جس طرح دریا میں ڈوبنے والا اپنے بچاؤ کے لیے فریاد کررہا ہو، وہ مردہ اپنی قبر میں باپ، ماں، بھائی یا دوست کی دعا کا انتظار کررہا ہوتا ہے کہ کوئی اس کے لیے دعائے مغفرت کرے، پھر جب اسے کسی کی دعا پہنچ جاتی ہے تو وہ دعا اسے دنیا اور مافیھا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ زمین والوں کی دعاؤں سے قبر والوں پر پہاڑوں کی مثل ہدیے داخل فرماتا ہے اور مردوں کے لیے زندوں کا ہدیہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے۔

یہ حدیث مبارکہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شبِ برأت میں اپنے مرحومین کی مغفرت کے لیے بھی کثرت سے دعا کرنی چاہیے جیسا کہ خود حضور نبی اکرم ﷺ بھی جنت البقیع میں تمام مرحومین کی مغفرت کی دعا فرماتے تھے۔ انسان کو خود بھی اس رات میں کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔

حضرت عبداللہ بن بسرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کو مبارک ہو جس کے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنادے جو کوئی نیک کام کرتے ہیں خوش ہوتے ہیں اور جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں۔ انسان کو توبہ پر اصرار کرنا چاہیے اور ہر وقت اور ہر حال میں اور خصوصی طور پر شبِ برأت میں استغفار کی کثرت کرنی چاہیے اور دعاکے قبول نہ ہونے سے بیزار نہیں ہونا چاہیے بلکہ مسلسل دعاکرتے رہنا کا حکم ہے۔

علامہ اسماعیل حقی حنفی توبہ کے اصرار سے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا آدمی ایک نوجوان کے ساتھ حج کرنے کے لیے گیا، بوڑھے نے احرام باندھااور لالبیک یعنی تیری حاضری قبول نہیں۔ نوجوان نے بوڑھے سے کہا: کیا تم یہ جواب نہیں سن رہے؟ بوڑھے نے کہا میں تو ستر سال سے یہی جواب سن رہا ہوں۔ نوجوان نے کہا کہ پھر تم ہر سال کیوں حج کرنے آتے ہو جبکہ اللہ قبول نہیں فرمارہا؟ وہ بوڑھا رو کر کہتا ہے پھر میں کس کے دروازے پر جاؤں؟ مجھے رد کیا جائے یا قبول کیا جائے میں نے تو یہیں آنا ہے۔ اس گھر کے سوا میری اور کوئی پناہ نہیں ہے۔ پھر غیب سے آواز آئی کہ جاؤ تمہاری ساری حاضریاں قبول ہوگئیں۔

اس واقعہ سے ترغیب ملتی ہے کہ شبِ برأت کے عبادت گزاروں اور توبہ کرنے والوں کو چاہیے کہ اس رات بار بار اللہ کے حضور اپنی ندامت اور توبہ پیش کرتے رہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ اس رات کو بقیع کے قبرستان میں جاتے مردوں کے لیے مغفرت طلب کرتے اور امت کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے تھے اور اپنی ذات کے لیے بھی توبہ و استغفارکرتے رہتے۔

شبِ برأت میں حضور اکرم ﷺ کی دعا

حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ نصف شعبان المعظم کی رات حضور نبی اکرم ﷺ سجدے میں یہ دعا مانگ رہے تھے میرا جسم اور ذہن تیرے لیے سجدہ ریز ہے اورمیرا دل تجھ پر ایمان لاچکا ہے اور یہ میرا وہ ہاتھ ہے جس سے میں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، سوائے عظیم! عظیم گناہ کو تو عظیم رب ہی معاف کرسکتا ہے۔ پس تو میرے عظیم گناہ کو معاف فرمادے۔ حضرت عائشؓہ نے کہا پھر آپ ﷺ اپنا سر اٹھا کریہ فرمارہے تھے کہ اے اللہ تو مجھے ایسا دل عطا فرما جو پاکباز ہو، برائی سے بری ہو نہ کافر ہو نہ شقی ہو پھر آپ ﷺ دوبارہ سجدہ میں گئے اور یہ دعا کی کہ میں تجھ سے اس طرح دعا کرتا ہوں جس طرح میرے بھائی داؤد نے دعاکی تھی: اے میرے مالک میں اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہوں اور تمام چہروں کا حق یہی ہے کہ وہ اس کے چہرے کے سامنے خاک آلودہ ہوں۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے کہا کہ آپ ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ کس وادی میں ہیں؟ اور میں کس وادی میں تھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے حمیراء کیا تم جانتی ہو کہ یہ رات نصف شعبان کی رات ہے اور بے شک اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی ببکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگ دوزخ سے آزاد فرمائے گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی عادی شرابی، ماں باپ سے قطع تعلق کرنے والا، زنا پر اصرار کرنے والا، رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا، تصویر بنانے والا اور چغل خور۔

ان تمام احادیث و روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نصف شعبان المعظم کی رات ہی شبِ برأت ہے یعنی گناہوں سے نجات کی رات ہے۔ اس رات میں کثرت سے استغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزی پیش کرنا ہمارے نبی کریم ﷺ کی سنت ہے اور ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں شبِ برأت کی قدر کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے اپنے گناہوں کی بخشش اور مغفرت طلب کرنی چاہیے۔