اکیسویں صدی کا عظیم مفکر اور نامور مصلح

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

اپنی ذات کے لئے ہر ایک انسان سوچتا بھی ہے اور اپنے اعمال، اخلاق اور احوال کی اصلاح کے لئے بھی مختلف تدابیر اختیار کرتا ہے۔ اسی معاشرے میں باری تعالیٰ کچھ شخصیات کو یہ توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی قوم اور ملت کے لئے سوچتے ہیں۔ اپنی قوم اور امت کو مختلف دنیوی فتنوں اور اغیار کے تخریبی منصوبوں سے بچاتے ہیں اور دشمن کے خطرناک حربوں اور مخالفین کی طاغوتی چالوں سے امت اور قوم کو گرداب میں پھنسنے سے پہلے اور عین ان فتنوں کے وقوع کے دوران نکالتے ہیں۔

مفکر اور مصلح کون؟

یہ کام امت کے جس فرد کے ذریعے سرزد ہوتا ہے اسے قوم اس کام کو انجام دینے پر اور اس کام میں مشغول ہونے پر مفکر اور مصلح کا لقب اور اعزاز بخشتی ہے۔ وہی شخصیت جب کسی امر کے بارے میں گہرا غوروفکر کرتی ہے، اس معاملے کے تمام ظاہری و باطنی پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے اور اس مسئلے کے مخفی اور باریک پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور نظرو فکر کے ذریعے اس کے جملہ پہلوؤں کا تجزیہ کرتی ہے، پھر اس مسئلے اور فتنے کا جو حل ڈھونڈتی ہے اور قوم و ملت کے سامنے پیش کرتی ہے اور قوم و امت بھی اس مسئلے کے مجوزہ حل کو صائب جانتی ہے تو یہ عوامی و ملی تصدیق اس شخصیت کی مفکرانہ حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے اور جب یہی فکر اس فتنے اور مسئلے کے حل کے تناظر میں ایک عملی حقیقت کا روپ دھارتی ہے تو یہ اصلاح کا عنوان اختیار کرتی ہے اور اس اصلاح کے فریضے کو سرانجام دینے والی شخصیت کو مصلح کا اعزاز قوم کی طرف سے بخشا جاتا ہے۔

فکرو اصلاح۔ سنت انبیاء ہے

فکر ملت ہو یا اصلاح قوم ہو، یہ دونوں تصور اپنی تاریخی حقیقت میں کار نبوت رہے ہیں، انبیاء علیہم السلام کی عظیم سنت اور اعلیٰ روش رہے ہیں۔ اس بناء پر یہ کام معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے قرآن بیان کرتا ہے:

انه فکر و قدر.

’’بے شک اس نے سوچ بچار کی اور (دل میں) ایک تجویز مقرر کرلی‘‘۔

(المدثر، 74: 18)

فکر کا معنی سوچنا ہے اور غوروفکر کرنا ہے۔ تفکیر کا عمل انسان کو اپنے مسائل کا حل دیتا ہے۔ تفکر فرد اور قوم کو مشکلات سے نجات کے راستے اور طریقے بتاتا ہے۔ فکر انسان کے سامنے مناسب راہوں کا تعین کرتی ہے۔ منزل کی طرف اقرب اور اصوب طریق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس لئے یہ عمل انبیاء علیہم السلام کا محبوب عمل رہا ہے اور ان کے پیروکاروں کا بھی پسندیدہ عمل رہا ہے۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے سوچ و فکر ایک مجسم صورت یعنی عمل کے روپ میں ڈھلتی ہے۔ گویا فکر میں خود ایک داعیہ موجود ہے جو اس کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ جب وہی نادر سوچ، وہی گہری فکر، وہی نایاب تفکیر اور وہی انسانی تفکر کی گہرائیوں سے اٹھنے والی سوچ جب عمل کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے تو وہ اصلاح بن جاتی ہے۔

فکرو اصلاح لازم و ملزوم ہیں

اس اعتبار سے فکرو اصلاح کا باہم تعلق لازم و ملزوم جیسا ہے اس لئے غوروفکر، تفکر و تدبر انسان کی شخصیت کا خلوتی پہلو ہے جبکہ کسی چیز کو عمدہ کرنے، کسی چیز کو سنوارنے اور کسی چیز کو مطلوبہ معیار پر بنانے اور کسی چیز کو احسن انداز میں تعمیر کرنے اور کسی بھی چیز کی ہمہ جہتی اصلاح انسانی شخصیت کا جلوتی پہلو ہے۔ جس عمل میں انسان کی خلوت اور جلوت دونوں شامل ہوجائیں تو وہ عمل نتیجہ خیز ہوجاتا ہے۔ اس لئے فکر کا نتیجہ اصلاح ہے اور اصلاح کا اثر فکر سے ہے۔ اصلاح احوال کی اسی اہمیت کو قرآن حضرت شعیب علیہ السلام کے باب میں واضح کرتا ہے۔

ان اريد الا الاصلاح ما استطعت.

’’میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے تمہاری اصلاح ہی چاہتا ہوں‘‘۔

(هود: 88)

اصلاح کارِ پیغمبر ہے، انبیاء علیہم السلام کا سب بڑا منصب ہی اصلاح انسانیت رہا ہے اسی کار نبوت کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات اقدس میں اپنایا اور اپنی حیات طیبہ کے شب و روز کو اسی کار اصلاح سے مزین کیا اور فروغ دین کے ذریعے پوری امت کو اور ہر مسلمان کو اصلاح کی طرف مائل کیا اور ہر عالم، ہر ولی، ہر حاکم اور ہر مومن کو مصلح کا منصب سپرد کیا۔ مفکرین اور مصلحین کے حوالے سے امت مسلمہ کی تاریخ ہمیں بھرپور اور معمور نظر آتی ہے۔

برصغیر کے نامور مفکرین و مصلحین

اگر ہم صرف اسلامی فکر کے باب میں برصغیر پاک و ہند کے بڑے بڑے نامور مفکرین اور مصلحین کے نام لیں تو ان میں شاہ ولی اللہ کا نام سرفہرست آتا ہے۔ جنہوں ایک طرف امت کو دین کے اصل مبادی قرآن و سنت کی طرف راغب کیا اور دوسری طرف اس وقت کے سیاسی اور انتظامی حالات سدھارنے کی طرف بھی قوم کو متوجہ کیا۔ ایک طرف قرآن و سنت کی طرف رغبت دلانے کے لئے الفوز الکبیر، المسوی فی الاحادیث الموطا، المصفی جیسی کتب امت کو دیں تو دوسری طرف فقہ و تصوف کے باب میں الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، التفہیمات الالھیہ، العقد الجیلہ اور ازالۃ الخفاء اور الطاف القدس جیسی کتب لکھ کر اختلافات و نزاعات کو حل کیا اور عمرانی اور سیاسی اور معاشی فکر کے باب میں حجۃ اللہ البالغہ لکھ کر قوم کے عصری افکار کی اصلاح کی۔ بعد ازاں شاہ ولی اللہ کے فیض یافتہ اصحاب کے ذریعے یہ اصلاحی کاوشیں جاری رہیں۔ جو افراد اس ضمن میں زیادہ نمایاں ہوئے ان میں عبیداللہ سندھی اور جمال الدین افغانی، ڈاکٹر محمد عبدہ، ڈاکٹر طہ حسین اور علامہ رشید رضا اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا نام آتا ہے۔

عصر جدید کا عظیم مفکر اور مصلح

تاریخ کے اسی تسلسل کے کڑی ملتی ملتی مفکر اسلام اور عظیم مصلح ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تک پہنچتی ہے۔ جنہوں نے قرآن سے احیائے اسلام اور اقامت دین، امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے کیا کیا اخذ کیا ہے اور اپنی فکر کو کیا تعبیر دی ہے اور اپنی فکر کو کن کن تشخصات اور کن کن جہات سے مزین کیا ہے اور اپنی فکر کو کس عنوان سے قوم کے سامنے پیش کیا ہے تو اس حوالے سے ہمیں ان کی ساری فکر، قرآنی فلسفہ انقلاب کے نام سے میسر آتی ہے ایک مفکر کا کام یہ ہے کہ وہ ملت کے امراض کا صحیح ادراک کرے اور پھر ان کا حل دے۔ اس لئے مفکر وہ ہوتا ہے جو ماضی کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور حال کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے اور مستقبل میں پیش آنے والے تمام حالات پر نظر رکھے ہوتا ہے۔ اقبال نے اسی مفکر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا:

حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے

قیادت عصری اور طاہرالقادری

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت اقبال کے اس شعر کا اپنے مفکرانہ پہلو کے اعتبار سے مصداق اتم نظر آتی ہے، ان کی شخصیت ایک فکر انگیز اور ایک ولولہ انگیز ہے۔ ایک سراپا یقین ہے۔ ایک بیدار مغز ہے ہر دم متحرک ہے، پراثر ہے، پر تاثیر ہے، جاذب کش ہے، ایک انقلاب انگیز شخصیت ہے اور ایک تحریک آشنا ذات ہے اور ان کی شخصیت میں موجود ایک تحریک اور ایک انقلاب کے لئے ایک بے تاب روح بھی ہے جو ہر وقت اپنے افکار تازہ سے ایک نیا جہاں تعمیر کرنے کے لئے انکو آمادہ کرتی رہتی ہے۔ وہ اپنے افکار تازہ کو ہر لمحہ نمو دیتے ہیں اور ہر لحاظ سے ان سے ایک جہان تازہ کو پیدا کرنے کے لئے کمربستہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح جب وہ بات کریں تو ہر دل کو موہ لیں جب وہ بولیں تو سب کو خاموش کردیں۔ جب وہ لکھیں تو سارے پڑھنے والوں کو مسرور کردیں، جب بھی وہ اپنی فکر دیں تو ساری عقلوں کو حیران کردیں جب وہ چلیں تو سارے زمانے کو ساتھ لے کر چلیں جب وہ اپنی تقریر کے ذریعے گرجیں تو سب کو ہلادیں اور سب کو ڈرادیں، سب کو رلادیں۔

قیادت اور تحریک کی موثریت کا راز

کوئی بھی فکر ہو یا اصلاح ہو یا کوئی فکری شخصیت ہو یا اصلاحی اور اسی طرح کوئی بھی تحریک فکری ہو یا اصلاحی وہ زمانے میں اسی وقت اپنے پاؤں جماتی ہے۔ جب اس میں یہ روح موجود ہو۔

واما ما ينفع الناس.

’’اور جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے‘‘۔

(الرعد، 13: 17)

وہ نفع بخش ہو، نفع رساں ہو، اس کا علم نافع ہو، اس کا علم لوگوں کو حیات بخشے اس کا عمل لوگوں کو نفع دے، اس کی ذات کا ایک ایک پہلو نفع بخش ہو۔ خواہ وہ شخصیت ہو خواہ وہ تحریک ہو۔ اس میں جس قدر منفعت، نفع رسانی، نفع بخشی اور لوگوں کے لئے فائدہ مندی، لوگوں کی راحت، لوگوں کی سہولت کا پہلو بڑھتا چلا جائے گا توں توں وہ شخصیت اور تحریک لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں سرایت کرتی جائے گی اور اس زمین پر اسی کی یہ شان ہوگی۔

فيمکث فی الارض

’’پس اسی نفع بخش کو زمین میں ٹھہراؤ ملتا ہے‘‘۔

(الرعد،13 :17)

اس زمین میں اسی کو پذیرائی ہے جو اپنے اندر نفع بخشی کی خاصیت، صلاحیت اور قابلیت رکھتا ہے۔ دنیا میں ٹھہراؤ ایسی نفع بخش شخصیات اور تحریکات کا ہی ہوتا ہے اور دنیا والوں کا جھکاؤ بھی ایسی ہی نفع رساں شخصیات اور تحریکات کی طرف ہوتا ہے اور ایسی فکر جس کی بنیاد قرآنی ہوجائے، اس کا مآخذ قرآن ہو اس کا منبع قرآن ہو، اس کا سرچشمہ قرآن ہو تو پھر اس فکر کو دوام بھی ملتا ہے اور اس کو آفاقیت کی شان بھی ملتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری بحیثیت طبیب ملت

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں موجود احیائے اسلام اور اقامت دین کے باب میں تصورات اور احساسات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور امت مسلمہ کی عظمت کی بحالی کے نظریات کا تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے امت میں موجودہ زوال اور ملی شکست کا صحیح ادراک کیا ہے اور پھر اس زوال اور شکست کے تدراک کا علاج بتایا ہے اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ امت پر زوال اور شکست خوردگی کا حملہ کس کس جانب اور کس کس جہت سے کیا گیا ہے۔ اس سارے کا جائزہ لینے کے بعد اس کا حل تجویز کیا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے اقبال کی زبان میں قوم کو اس مایوس کن سوچ سے نکالا کہ امت مسلمہ کا دوبارہ احیاء ممکن نہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اقبال کے ان اشعار کے ذریعے قوم و امت کو احیاء نو کا پیغام یوں دیا۔

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

اور مزید برآں

کتاب ملت بیضاء کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

زوال امت کو عروج میں بدلا جاسکتا ہے

اور اسی تاریخی حقیقت کا تجزیہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی کتاب قرآنی فلسفہ انقلاب میں یوں کرتے ہیں کہ 1258 میں تاتاری فتنہ بپا ہوا۔ یہ فتنہ جب بپا ہوا تو بغداد کے تخت کو تاراج کیا گیا۔ 22 سے 23 لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ اس وقت شیعہ سنی فسادات امت میں زوروں پر تھے۔ مساجد اور مقابر مسمار کردیئے گئے تھے۔ لائبریریاں اور کتابیں جلادی گئیں۔ بے شمار قلمی نسخے اور کتابیں دریا میں پھینک دی گئیں۔ مذکورہ تباہ کاریوں کے 50 سال کے بعد چنگیز خان اور ہلاکو خان کے خاندان کے کچھ لوگ سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیض یافتہ مرید اور ایک شیخ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے پھر انہوں نے ہی 1301ء اور 1302ء کے زمانے میں عثمان خان اور طغرل خان کے نام سے دو آدمیوں نے قبائلی سطح پر اسلامی حکومت قائم کی اور اس حکومت کو فروغ ملا جو بعد ازاں فروغ پاتے ہوئے خلافت عثمانیہ کی صورت اختیار کرگئی۔ اقبال نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا:

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اس تصور سے انہوں نے اس حقیقت کو واضح کیا قوم زوال کا شکار ہوکر دوبارہ عروج حاصل کرسکتی ہے، شکست کے بعد کامیابی کو پاسکتی ہے۔

امت کو شکست خوردہ کرنے کی سازش

اس سے اگلا تصور بھی وہ واضح کرتے ہیں برطانوی سامراج نے امت مسلمہ کے خلاف ایک بھیانک منصوبہ بنایا۔ 1914ء میں جنگ عظیم اول کے دوران اتحادیوں نے اسلام کی سیاسی قوت کا شیرازہ منتشر کردیا اور خلافت عثمانیہ کو ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دیا۔ ترکی سیکولر سٹیٹ بن گیا۔ 1924ء میں کمال اتاترک نے ترکی کی خلافت کو سنبھالا تو اسے نام کی حد تک بھی قائم نہ رکھا اور خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ برطانوی سامراج نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اس خطے میں ایسے اپنے پنجے گاڑے کہ رفتہ رفتہ وہ عرب ریاستوں عراق، مصر وغیرہ میں بھی اپنا قبضہ جمالیتا ہے۔ برطانیہ کی سلطنت اس قدر وسیع ہوتی ہے کہ اس کی نوآبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس سے قبل خلافت عثمانیہ تین سمندروں اور دو براعظموں پر قائم تھی۔ اسلام کو اپنے پنجہ استبداد میں جکڑا ہوا دیکھ کر برطانوی سامراج نے سابقہ دو صدیوں میں صلیبی جنگوں کا بدلہ لے لیا اور اسلام کے سیاسی غلبہ اور قوت کو منتشر کرنے کے بعد طاغوت نے یہ سمجھا کہ یہ کامیابی محاذ جنگ کی کامیابی ہے یہ محض سیاسی محاذ کی جیت ہے لیکن یہ شکست حتمی نہیں ہوسکتی اس لئے اس سامراج نے چاہا ان کی شکست کو شکست خوردگی میں تبدیل کیا جائے تاکہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوبارہ جی اٹھنے کی خواہش ہی مرجائے۔ اس لئے کہ شکست اور شکست خوردگی میں فرق یہ ہے۔ اگر پہلوان شکست کھا جائے اور گر پڑے مگر اس کا ذہن اس شکست کو تسلیم نہ کرے تو وہ انتقام کے لئے دوبارہ تیار ہوجاتا ہے اور پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیتا ہے مگر اگر وہ ذہن سے شکست کو تسلیم کرلے تو یہی شکست شکست خوردگی میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح اگر معاملہ فقط شکست تک رہے اور شکست خوردگی تک نہ پہنچے تو قوم زخمی شیر کا کردار ادا کرتی ہوئی دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کرکے ہارا ہوا میدان جیت سکتی ہے۔

شکست خوردگی کے لئے امت پر نظریاتی حملے

اس طاغوت اور سامراج نے قوم کو دائمی شکست سے ہمکنار کرنے کے لئے اور اس کی سیاسی شکست کو ذہنی اور فکری شکست خوردگی میں بدلنے کے لئے ذہنی سطح پر مایوسی طاری کرنے کے لئے اور مستقبل کی نسبت اعتماد کو مضمحل کرنے کے لئے اور بے یقینی پیدا کرنے کے لئے علمی، فکری، تعلیمی، مذہبی، سماجی، معاشرتی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی الغرض ہر ہر شعبہ زندگی پر حملے کئے۔ ان حملوں کو تغیرات کا نام دیا گیا ہے ان تغیرات اور ان حملوں نے مسلمانوں کی سیاسی شکست کو ذہنی اور فکری شکست خوردگی میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سات طرح کے تغیرات تھے۔

  1. سیاسی فکر میں تغیر
  2. معاشی و اقتصادی فکر میں تغیر
  3. قانونی و فقہی فکر میں تغیر
  4. عمرانی اور سماجی فکر میں تغیر
  5. تہذیبی و ثقافتی فکر میں تغیر
  6. دینی و مذہبی فکر میں تغیر
  7. تعلیمی و تربیتی فکر میں تغیر

امت مسلمہ کے اندر سات طرح کے فکری تغیرات ظاہر ہوئے۔

اسلام کی سیاسی فکر۔۔ قوت نافذہ کی ضرورت

اسلام کے سیاسی فکر کے باب میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیان کرتے ہیں اسلام کی سیاسی فکر ادیان باطلہ پر دین حق کے سیاسی غلبے سے عبارت ہے۔ باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اور پیغمبر انقلاب نے اپنے اسوہ مبارکہ میں ملت اسلامیہ کو جو سیاسی فکر دیا ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ سیاسی غلبے کے بغیر اپنا کھویا ہوا دینی، علمی، قومی، اسلامی، تہذیبی و ثقافتی اور اخلاقی و روحانی تشخص نہ بحال کرسکتی ہے اور نہ ہی حاصل شدہ تشخص کو برقرار رکھ سکتی ہے اور معمول بہ دین کے تین گوشوں کی افادیت اور نتیجہ خیزی کا انحصار سیاسی غلبے پر ہے۔ خواہ وہ گوشہ شریعت اسلامی کا ہو، طریقت اسلام کا ہو یا عقائد و مسالک امت کا ہو۔

سیاسی فکر میں یہ تبدیلی آئی کہ اب بحیثیت قوم مسلم دوبارہ ہم اپنی عالمی شناخت بحال نہیں کرسکتے۔ قرآن اور اسلام اس دنیوی زندگی میں حق و باطل کے معرکے میں حق کے غلبے و فتح کی کامیابی نہیں دے سکتے۔ اب ہمارا کام جدوجہد کرنا اور جہاد کرنا ہے کامیابی ملے یا نہ ملے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ معروضی نتائج کے اعتبار سے اس دنیا میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس سوچ کے تحت لوگوں نے ’’غلام اسلام‘‘ کو قبول کیا اور ’’حاکم اسلام‘‘ کے لئے آمادہ نہ ہوئے جبکہ اسلام کی حقیقی سیاسی فکر یہ ہے کہ معروضی نتائج کے بارے میں باری تعالیٰ کا جو وعدہ ہے اسے ابدی ضابطہ اور اصولی ہدایت سمجھ کر موثر اور نتیجہ خیز سمجھا جائے۔ یہی وہ اسلام کی سیاسی فکر ہے جس پر ایک مسلمان کی زندگی کا انحصار ہے اور قوت نافذہ ہی اسلام کے معمول بہ دین کی حفاظت کرسکتی ہے اور ان کے اثرات سے معاشرے کو مستفید کرسکتی ہے۔

اسلام کی معاشی فکر۔ ہر فرد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل

اب ہم اسلام کے معاشی فکر میں تغیر کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک نہیں اسلام کی معاشی فکر اس نکتے پر رکھی گئی ہے کہ فلاح عامہ اور بنیادی ضروریات کی تکمیل ریاست کے ہر شہری کو میسر ہوں، اسلام میں لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے منصب داری کا نظام تھا۔ لوگوں کے پاس جاگیریں بطور امانت تھیں لیکن معاشی تغیر کے ذریعے ان جاگیروں کی ملکیت امانت سے نکال کر ملکیت مطلقہ میں تبدیل کردیا گیا جس کی وجہ سے جاگیرداری نظام کا آغاز ہوا اور اس ملکیت مطلقہ کی وجہ سے سرمایہ داری نظام کی بنیادیں پڑیں۔

اسلامی اجتہاد ہی نئے مسائل کا حل

فقہی اور قانونی تغیر یہ ہوا کہ برطانوی سامراجی نظام کے آتے ہی شرعی عدالتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اسلامی نظام میں شرعی عدالتیں سپریم عدالتیں تھیں۔ عثمانی دور میں شیخ الاسلام کا حکم خلیفہ وقت کے حکم سے بالا تر تھا اسی دور میں اسلامی عدالت خلیفہ کی نامزدگی کو چیلنج کیا اور اسے کالعدم قرار دے دیا اور نئے استعماری نظام کے تحت قانون کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک شخصی قانون اور دوسرا سیکولر قانون۔ شخصی قانون یا فیملی لاء میں نکاح، طلاق، وراثت، عبادات، طہارت، جنازہ جیسے مسائل آگئے جبکہ بقیہ ساری زندگی کے مسائل، سیاسی، معاشی، اقتصادی، عدالتی، حکومتی، بین الاقوامی، بنکاری، انشورنس، طبی میدان وغیرہ کے سارے مسائل کا تعلق سیکولر قانون کے ساتھ ہوگیا اور دوسرا تصور تقلید کا دیا گیا اور یہ بھی تقلید محض کا تصور تھا اب کسی کے مجتہد ہونے کی ضرورت ہی نہیں حتی کہ کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں فقط جو ائمہ نے بیان کردیا ہے اس کی پیروی کی جائے۔ اس کا ردعمل آیا اور کچھ لوگ فقہ ہی کے خلاف ہوگئے اور ائمہ اربعہ کے خلاف ہوگئے حالانکہ تقلید کا فی الحقیقت تصور یہ تھا چاروں ائمہ میں سے کسی کی پیروی کی جائے اور کوئی پانچواں نیا فقہی مذہب اب قائم نہ کیا جائے۔ جب بعض لوگوں نے فقہ سے اختلاف کیا تو انہوں نے اپنی رائے کو اجتہاد قرار دے دیا۔

اسلام کی سماجی فکر، جاہلیت آشنا اقدار سے اعراض

عمرانی اور سماجی فکر میں تغیر یہ آیا امت مسلمہ کی عمرانی وحدت دین کی بجائے وطن پرستی میں بدل گئی وطن پرستی نے اسلامی جذبہ اخوت کو ختم کردیا۔ اسلامی اخوت کی جگہ نسلی تفاخر اور خودپسندی نے لے لی، اس نسلی تفاخر نے قوم کو گروہ بندیوں میں تقسیم کردیا۔ میدان معاشرت کے اس بگاڑ نے قوم میں بخل، لالچ، مفاد، اکتناز کو فروغ دیا۔ جس کی وجہ سے میدان سیاست میں ہوس اقتدار ایک قاعدہ اور ضابطہ بن گئی اور اقتدار کے حصول کے لئے جائز و ناجائز کی تمیز ختم ہوگئی۔ برصغیر کے لوگ حمیۃ الجاہلیہ کے تحت عمرانی وحدت دین کے خلاف، وطن پرستی کے فتنے میں مبتلا ہوئے جس میں محمد حسین مدنی جیسے بڑے بڑے علماء بھی بہہ گئے۔ اقبال نے اس حقیقت کا ادراک کیا اور اس فتنے پر کاری ضرب لگائی۔ اس کے بعد ایک اور تغیر سے امت مسلمہ کو واسطہ پڑتا ہے وہ اس کی تہذیب و ثقافت کا تغیر ہے۔

اسلام کی تہذیبی فکر۔ اسلامی تہذیب سے گہری وابستگی اورتہذیبی دشمنوں سے چوکنا رہنا

جب اسلامی معاشرہ دینی اقدار کی پابندی سے آزاد ہوا تو پھر لادینی معیارات ہی دلکش اور دلفریب نظر آنے لگے۔ جب تہذیبی ادارے کمزور ہوئے تو قانون کمزور ہوا۔ حاکم وقت مضبوط ہوا۔ زندگی کو بقاء حلال کی بجائے حرام میں ملنے لگی۔ اسلامی اور انسانی اقدار مات کھاگئی۔ ہماری تہذیب و ثقافت پر تین طرح کے حملے ہوئے نظریاتی، ثقافتی، جذباتی جس کا نتیجہ اقبال کی زبان میں یوں ہوا۔

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ہمارے کردار میں یکسانیت نہ رہی بلکہ منافقت در آئی جس کی طرف اشارہ حافظ شیرازی نے یوں کیا:

چوں خلوت می روند کار دیگر می کنند

ہماری جلوت اور ہے اور ہماری خلوت اور ہے۔ ہماری خلوت اورجلوت ایک واضح تضاد رکھتی ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت پر جو مستقل اور مسلسل حملہ کرنے کے لئے اور اس میں تشکیک اور ابہام پیدا کرنے کے لئے اور اس میں طرح طرح التباسات اجاگر کرنے کے لئے اور اسلامی تعلیمات کا اصل ماخذ یونانی افکار اور یہودیت و مسیحیت کو ثابت کرنے کے لئے اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے اور ہماری کچھ شخصیات کی تعریف کرکے اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر تنقید کرکے اور اسلام کو اپنے راستے کی ایک بہت بڑی رکاوٹ سمجھ کر اس کے خلاف محاذ آرائی کرکے اور مسلمانوں کو باہم لڑا کر اور ان میں مختلف فتنوں کو ہوا دے کر اور ان کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے لئے طبقہ مستشرقین کو وجود میں لایا گیا تاکہ اس طرح امت مسلمہ کی تہذیب و ثقافت دنیا کے لئے قابل رشک اور قابل تقلید نہ رہے۔

اسلام کی دینی فکر۔۔۔ قرآن و سنت سے مضبوط تمسک

دینی اور مذہبی فکر میں یہ تغیر آیا کہ ہماری مذہبی فکر پر مادیت کا حملہ چار اعتبارات سے حکم الجاہلیۃ ظن الجاہلیہ، تبرج الجاہلیہ اور حمیۃ الجاہلیہ کی صورت میں کیا گیا پھر دوسرا حملہ اشراقیت کی صورت میں کیا گیا۔ شریعت اور طریقت میں دوئی پیدا کی گئی۔ تیسرا حملہ متنبیت کی صورت میں کیا گیا جس کے تحت دین اسلام کے ختم نبوت کے تصور اور عقیدہ پر حملہ کیا گیا اور چوتھا حملہ معرضیت کی صورت میں کیا گیا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت محبت و عشق کو ہمارے دلوں سے نکالا گیا۔ جس کی طرف اقبال نے یوں اشارہ کیا:

یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

اور اس دینی اور مذہبی فکر میں تغیر کی وجہ سے یہ ہوا کہ ہماری زندگیوں میں دین عملاً آخرت کا حصہ بن کر رہ گیا اس کا زندگی کے عملی معاملات سے کوئی علاقہ نہ رہا۔ ہم علم بالوحی یعنی قرآن کی بجائے علم زائیدہ تغیرات اور تشریحات قرآن کو زیادہ پڑھنے لگے۔ ختم نبوت کے عقیدہ پر حملہ ہوا، تکمیل دین کا مفہوم، تکمیل فقہ سمجھ لیا گیا، جس کے تحفظ کے لئے قوت نافذہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ توحید کو ہم نے رسمی عقیدہ بنالیا اور نزول قرآن کے مقصد کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہم نے شرع اور منہاج میں فرق قائم کرلیا۔ ہم شرع پر تو ہیں مگر اس کی نتیجہ خیزی کے لئے منہاج سے بے نیاز ہوگئے۔ مذہبی فکر میں تغیر کی وجہ سے ہماری سیاست اور ہماری معیشت بھی آزاد ہوگئی۔ قرآن و سنت سے ہمارا تعلق اخذ ہدایت کا کمزور پڑگیا، سلوک و روحانیت کے علوم بھی مراسم خانقاہ بن کر رہ گئے۔ جس کی وجہ سے روحانیت کے یہ چشمے سوکھ گئے جس کی طرف اقبال یوں اشارہ کرتا ہے:

نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی

اسلام کی تعلیمی فکر۔۔۔ جدید و قدیم کو یکجا کیا جانا

اس کے بعد ہم تعلیمی فکر میں تغیر دیکھتے ہیں۔ عمل، تغیر سے قبل اسلامی معاشرے میں دونوں علوم بیک وقت پڑھائے جاتے تھے ایک ہی درسگاہ میں تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث، فقہ و اصول فقہ، علم الکلام، علم المعانی اور علم البلاغہ بھی پڑھائے جارہے ہوتے اور اسی درسگاہ میں اسی وقت طب، ہندسہ، ریاضی، جغرافیہ، منطق، فلسفہ، تاریخ، فلکیات کے علوم بھی پڑھائے جارہے ہوتے۔ ان درسگاہوں میں بیک وقت رازی بھی نکلتے فارابی بھی نکلتے ابن سینا بھی ظاہر ہوتے اور جابر بن حیان بھی دکھائی دیتے۔ جدید و قدیم کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ دینی اور دنیوی کی کوئی تقسیم نہ تھی۔ مذہبی اور غیر مذہبی کی کوئی تفریق نہ تھی۔ سب کچھ ایک ہی جگہ پر تھا البتہ نصاب وقت کے تقاضوں کے ساتھ بدلتا رہا، مضامین کے نام بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہے طبیعیات، کیمیا، حیاتیات کے مضامین فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے نام سے ان تعلیمی اداروں میں پڑھائے جاتے رہے۔

مدارس کا نصاقب وقت کے ساتھ بدلتا رہا، یہ اپنے ساتویں ایڈیشن میں نظام الدین سہالوی (1677۔ 1748) کے نام سے موسوم ہوا اور اب تک درس نظامی ہی کہلوارہا ہے۔ زندہ اور آزاد قومیں اپنے نصابات کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتی رہتی ہیں۔ آج نصاب میں پھر قرآن کو مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے قرآن کو سمجھنے کے لئے تفسیر کی طرف گئے تفسیر کا موضوع یہ ہے کہ علم قرآن کیا ہے۔ قرآنی علوم کیا ہیں۔ ان کی توضیحات کیا ہیں جبکہ خود قرآن انسان کے عمل سے بحث کرتا ہے۔ اس لئے معاشرے میں تبدیلی علم سے نہیں عمل سے آتی ہے۔ جب تفسیر، قرآن کا بدل بن گئی تو معاشرے میں تبدیلی کے امکانات ختم ہوگئے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے امام رازی کی طرح قرآن سے سوال کرکے اپنے زمانے کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے جیسے انہوں نے یونانی فلسفے کا حل قرآنی تفسیر کی صورت میں دیا۔ آج ہمیں اپنے نصاب تعلیم کے ذریعے افکار اسلام کو اصل ماخذ سے فروع دینا ہے اور نوجوان نسل میں کردار اسلام کو زندہ کرنا ہے۔

اسلام کی تربیتی فکر۔۔ فطرت بالقوۃ کو فطرت بالفعل پر غالب کرنا

تربیتی فکر میں تفسیر کے باب میں دیکھتے ہیں مغربی تہذیب نے ہمیں اپنی خواہشات کو آزادانہ عمل کے قالب میں ڈھالنے کی ترغیب دی جبکہ اسلامی تہذیب ہمیں یہ کہتی ہے ہم اپنی زندگی میں اور اپنی خواہشات میں اللہ کو حاکم جانیں اور اس کی فرمانبرداری اور رضا و خوشنودی کو اپنا مقصد حیات تصور کریں۔ اپنے اندر موجود فطرت بالقوہ کو غلبہ دیں اور فطرت بالفعل کو مغلوب کریں۔ اس لئے جو فکر غالب ہو، دینی فکر زمانے میں ٹھہرتی ہے۔ اسلامی فکر کبھی بھی مغلوب نہیں رہی، اسی طرح انسانی شخصیت کی تربیت فطرہ بالقوہ کو غالب کرنے اور فطرت بالفعل کو مغلوب سے پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔

خلاصہ کلام

امت مسلمہ کیونکر زوال کا شکار ہوئی، کن کن تصورات اور افکار کے ذریعے اسے شکست خوردہ بنایا گیا اور اس کی اجتماعی زندگی کو کن تغیرات سے ہمکنار کیا گیا، ان سب تغیرات کا عمیق نظر سے تجزیہ کرکے اور ان کی حقیقت کا ادراک کرکے ڈاکٹر طاہرالقادری نے عصر حاضر میں ان سے نجات کا نظری اور عملی طریق دیا ہے اور ان تغیرات کا عملی خاتمہ اپنی عالمگیر تحریک، منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تمام شعبہ جات اور بین الاقوامی نیٹ ورک کے ذریعے کیا ہے جو ان کے فکر کے قابل عمل ہونے پر ایک واضح اور بین دلیل اور ثبوت ہے۔ آج امت مسلمہ کے لئے من حیث المجموع یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اس میں یہ مرض زوال پایا جاتا ہے، کوئی بھی اس کی تشخیص صحیح ہے یا غلط، اگر ہم اس کو صحیح سمجھیں تو ان پھر تغیرات کے شعبوں کے عمائدین اور قائدین پر لازم ہے کہ وہ سیاسی فکر میں تغیر کا بھی موثر سدباب کریں اور معاشی فکر میں آنے والے مفاسد کا بھی خاتمہ کریں اور فقہی و قانونی زندگی میں آنے والے جمود کا نام و نشان بھی مٹائیں۔ عمرانی اور سماجی فکر میں آنے والے مہلک تغیرات کی بھی اصلاح کریں۔ تہذیب و ثقافت کے نام پر ہونے والے حملوں کا بھی تدارک کریں۔ دینی و مذہبی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات کا دین کی اصل روح کے ساتھ خاتمہ کریں اور تعلیم و تربیت میں آنے والے تغیرات کو اسلامی فکر کی اصل جہات سے متعارف کرائیں۔

ان سامراجی و استعماری تغیرات کو امت مسلمہ کے وجود اور چہرے سے دور کرنے کے لئے ضروری ہے ہمارا بھی شخصیتوں میں ایک ایسا تغیر آئے کہ ہماری انا کا بت اصلاح احوال امت میں رکاوٹ نہ بنے۔ ہماری شخصی وجاہت کسی اعلیٰ فکر کو اختیارکرنے میں مزاحم نہ ہو، ہمارے ذاتی مفادات امت کے وسیع تر مفادات میں سدراہ نہ بنیں، ہماری ذاتی پسند اور ناپسند امت کی اصلاح احوال کی کاوشوں اور اس کے عروج و تمکنت کے سفر اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی اور احیائے اسلام اور اقامت دین کے عظیم مشن میں ممدو معاون تو بنے مگر رکاوٹ ہرگز نہ بنے اور اس راستے میں کوئی ڈر ہمیں ڈرا نہ سکے کوئی عداوت ہمیں اس راہ سے ہٹا نہ سکے۔ یہی فیصلہ ہی امت مسلمہ کے عروج کا فیصلہ بن جائے گا۔ بقول اقبال

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

نوٹ: اس مضمون کا زیادہ تر حصہ ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ از ڈاکٹر طاہرالقادری سے ماخوذ ہے۔