اخلاق ِ حسنہ دین کی روح (دوسری قسط)

ترتیب و تدوین: علامہ محمد حسین آزاد

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

جسم اور روح کا تعلق:

اخلاق اور خلق حسن کا معنیٰ سمجھنے کے بعد اس کے مراحل کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے پھر قلب کا تصفیہ ہوتا ہے، پھر باطن کا تخلیہ ہوتا ہے یعنی میل کچیل سب گندی چیزوں اور خصلتوں کو نکال کر اس سے باطن کو خالی کر دینا۔ تخلیہ کے بعد پھر تحلیہ ہے، جب خصلتیں نکل جائیں تو اس کے اندر اللہ کے اخلاق اور مالائے اعلیٰ کے اخلاق کو ڈال دینا، یہ تحلیہ ہو جاتا ہے۔ اور جب تخلیہ کے بعد تحلیہ ہو جائے تو پھر تجلی نصیب ہوتی ہے۔ یعنی جب عالم بالا کی پاک خصلتیں آ جائیں تو پھر اللہ تجلی کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ.

(الأعراف، 7: 143)

’’پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا‘‘۔

تجلی سے پہلے یہ مراحل تزکیہ و تصفیہ اور تخلیہ و تحلیہ کے ضروری ہیں ان سے اخلاق سنور جاتے ہیں۔ جب اخلاق ایسے عمدہ ہو جائیں اور ظاہر و باطن اتنا پاکیزہ ہو جائے تو پھر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنا نور ڈالے۔ جیسا کہ اس نے فرمایا:

وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ.

’’اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) پھونک دوں‘‘

(الحجر، 15: 29)

پھر وہ جب نور ڈالتا ہے اس کو تجلی کہتے ہیں۔ پھر جب تجلی ہونے لگتی ہے تو درجے بلند ہوتے ہیں اور جب اللہ کی تجلی بار بار ہوتی ہے پھر تدنی ہوتی ہے۔ تدنی کے بعد تدلی ہوتی ہے۔ تدلی کے بعد پھر ترقی ہوتی ہے، ترقی کے بعد تولی ہوتی ہے، پھر وہ کہتا ہے یہ جو بندہ جا رہا ہے یہ دیکھتا میری آنکھوں سے ہے، یہ سنتا میرے کانوں سے ہے، یہ بولتا میری زبان سے ہے، یہ پکڑتا میرے ہاتھ سے ہے، یہ چلتا میرے پاؤں سے ہے۔ دیکھنے میں بندہ ہے۔ دیکھنے میں فرشی ہے مگر اس کے اندر ایک عرش چلا جا رہا ہے۔ یہ کیفیت ہوتی ہے۔ لہذا اخلاق صرف ایک دو عادتوں کے بدلنے کا نام نہیں ہے۔ یہ complete change ہے، یہ پورا انقلاب ہے۔

ہمارے مشن کا عنوان ہے انقلاب۔ انقلاب باطن میں بھی آتا ہے اور ظاہر میں بھی۔ یہ دس روز باطنی انقلاب کے لیے ہوتے ہیں۔ اگر خلق حسن اور خلق جمیل کامل ہو جائے تو باطنی انقلاب بھی آ گیا اور بندہ اللہ کا ولی ہو گیا، اس کا نام ولایت ہے۔ دین کے اندر اس حسن اخلاق کی اور اس تزکیہ اور تصفیہ باطن کی جس کے ذریعے بندے کی خصلتیں بدل جائیں، بندے کی طبیعت بدل جائے اب طبیعت اور فعل اور عمل اس میں ایک فرق ہے۔

مثلاً آپ نماز پڑھتے ہیں، آپ ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتے ہیں، پھر آپ ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔ ہم حنفی ہیں ہم نیچے ہاتھ باندھتے ہیں کچھ ہمارے احباب اوپر سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ کچھ ہمارے دوست ہاتھ کا ارسال کرتے ہیں یعنی کھلا رکھتے ہیں۔ یہ اپنے اپنے فقہی مذہب کے مطابق قیام کی شکلیں ہیں۔ پھر آپ رکوع کرتے ہیں۔ رکوع کے بعد قومہ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر سجدے میں جاتے ہیں، پھر اٹھتے ہیں، قعدہ کرتے ہیں، بیٹھتے ہیں، پڑھتے ہیں، رکعتیں پوری کرنے کے بعد پھر سلام پھیرتے ہیں۔ یہ سارا جو کچھ کرتے ہیں ان کو حرکات یا انتقالات کہتے ہیں۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے باندھ لیے، یعنی آپ اپنی پہلی حالت کو بدلتے جا رہے ہیں، حرکت کر رہے ہیں۔ جھک گئے، پھر زمین پہ سجدے میں چلے گئے، پھر کھڑے ہو گئے۔ آپ نے پڑھا آخر میں دائیں بائیں سلام پھیر دیا۔ یہ ساری مختلف قسم کی جسمانی حرکات، انتقالات اور افعال ہیں۔ ان تمام افعال کو جمع کر دیں اُس میں پڑھنا بھی شامل ہے ، قرات بھی ہے، تسبیح بھی ہے، رکوع، سجود اور قعود میں جو پڑھا جاتا ہے وہ سب شامل ہیں۔ یہ سب ملا دیں تو اس کو نماز کہتے ہیں۔

یہ نماز کا جسم ہے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کیں تکبیر تحریمہ، قیام، رکوع، تسبیح، قومہ، سجود، قعدہ، تسلیم ساروں پر بار بار ذہن کو دوڑائیں اور میں سوال یہ کر رہا ہوں کہ کیا ان ساروں میں کہیں لفظ آپ نے سنا کہ اس حرکت کا نام خشوع ہے؟ اس انتقال کا نام خضوع ہے، اس انتقال کا نام صدق اور اخلاق ہے، اس کا نام اللہ کے حضور انکساری ہے، اس انتقال اور حرکت کا نام اللہ کے حضور رقت ہے، رجوع الی اللہ ہے، قلبی رغبت ہے، توجہ الی اللہ ہے۔ کوئی نام آیا؟ اس سے کیا پتہ چلا؟ پتہ یہ چلا کہ یہ جو ساری چیزیں جو پہلے گنیں یہ ایک اور مضمون ہے اور جو ساری چیزیں میں نے سوال میں آپ سے پوچھیں یہ کوئی اور مضمون ہے۔ یہ ساری چیزیں جو بعد ازاں پوچھیں یہ نماز کی روح ہیں۔

اب آپ کو میں نے مثال پہلے دے دی ہے ایک جسم ہے اور ایک روح ہے۔ اب اُسی مثال کو لے کے آگے چلیں تو نماز کا بھی ایک جسم ہے اور ایک روح ہے۔ یہ جتنے ارکان ہیں، واجبات ہیں، مستحبات ہیں، جتنے انتقالات ہیں، جتنی ہماری نماز کی حرکات ہیں یہ نماز کا جسم ہیں۔ ان میں ایک بھی روحِ صلوٰۃ نہیں ہے۔ یہ سارے مل کر نماز کے جسم کو مکمل کرتے ہیں۔ جیسے بازو کٹ جائے تو جسم نامکمل ہو جائے گا، ٹانگیں کٹ جائیں تو جسم نامکمل ہو گیا، کان ناک کٹ گیا تو جسم نامکمل ہو گیا، دھڑ ناقص ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان میں سے کوئی رکن، کوئی فعل، کوئی حرکت اگر رہ جائے تو نماز کا جسم ناقص ہو جائے گا، نامکمل ہو جائے گا۔

یہ سارے افعال ملا کر نماز کا جسم بنتے ہیں اور جسم کبھی زندہ نہیں ہوتا روح کے بغیر۔ روح پڑے تو جسم زندہ ہوتا ہے۔ جب انسان کی death ہوتی ہے تو کتنا فرق پڑتا ہے؟ کیا ان جسمانی اعضاء میں سے کوئی عضو miss ہوتا ہے؟ جب موت واقع ہوتی ہے تو سر سے لے کر پاؤں تک جتنے عضو ہیں سب قائم دائم ہوتے ہیں کہ نہیں؟ اُس میں سے نکلتا کیا ہے؟ صرف روح۔ جب روح نکل جاتی ہے تو آپ اُس کو انسان نہیں کہتے۔ آپ اُس کا عنوان بدل دیتے ہیں کہ میت پڑی ہے اور عمر بھر جنہوں نے پالا پوسا سارے فیملی کے لوگ کہتے ہیں لے چلو دیر ہو رہی ہے اور اُس کو لے جا کے گڑھے اور قبر میں مٹی کے نیچے دفن کر کے چھوڑ کے سارے گھر پلٹ آتے ہیں۔ کبھی کوئی اولاد ایسی دیکھی جو کہے میں تو اب زندگی بھر اپنے باپ کے پاس رہوں گا یا کسی کا جواں بیٹا فوت ہوجائے تو کوئی باپ دیکھا جو کہے میں نے زندگی بھر ادھر ہی رہنا ہے یا ادھر ہی مرنا ہے۔ وہ محبت کرنے والے کہاں گئے؟ وہ ایک دوسرے پر مر مٹنے والے کہاں گئے؟ باپ ہے یا بھائی ہے یا بیٹا ہے، بیٹی ہے، بہن ہے، بیوی ہے جو ایک دوسرے پر مرتے تھے اور ایک دوسرے کے لیے جیتے تھے۔ ہر کوئی اس کو مٹی کے نیچے قبر کے گڑھے میں دفن کر کے واپس پلٹ کر گھر آ رہا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی آ گئی؟ رشتے ہی بدل گئے؟ احساسات کی دنیا ہی بدل گئی؟ تعلقات کی نوعیت ہی بدل گئی؟ کس شے نے بدل دیا؟ وہ ایک شے تھی جو نظر کبھی کسی کو نہیں آئی تھی۔ نظر وہی کچھ آتا تھا یعنی جسم پہلے بھی وہی تھا اب بھی وہی ہے اب قبر میں لٹایا جانے والا بھی وہی ہے۔ جو کچھ نظر آتا تھا وہ تو جوں کا توں ہے اور جو کچھ نکل کے گیا ہے وہ تو نظر کبھی نہیں آئی تھی۔

پتہ چلا جو شے نظر آتی ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی اور حقیقت وہ شے ہوتی ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔ حقیقت وہ تھی جس نے انسان کو انسان بنا رکھا تھا۔ جس نے باپ بنا رکھا تھا، جس نے بیٹا بنا رکھا تھا، جس نے پیار پیدا کر رکھا تھا، جس کے ساتھ احترام تھا، جس کے ساتھ لپٹ لپٹ کر سوتے تھے، وہ کوئی شے تھی اُس کے وجود کے اندر ہم نے اس شے کو بھلا دیا ہے۔ اس کے تقاضوں کو بھلا دیا ہے۔ اس کو قتل کر دیا ہے اور ہم پجاری بن گئے ہیں اس جسم کے مادی اور ارضی سراپا کے جو نطفہ پلید سے تشکیل پا کے جوان ہوا ہے۔ اور ہم اس حقیقت کو بھول گئے ہیں جو اُس مولا کے گھر سے آئی ہے۔ جس کا چراغ جلایا گیا تھا وہ جو نظر تو نہیں آتی تھی مگر نکلی تو آنکھیں پھر گئیں، رشتے بدل گئے، نام ہی بدل گیا۔

یہ جو فرق انسانی زندگی اور موت کی مثال سے آپ سمجھے یہی فرق نماز کے جسم اور نماز کی روح میں ہے۔ نماز کا جسم تو ہو گیا مگر جس میں خشوع، رجوع، صدق، اخلاص، تضرع، گریہ، طلب، جھکاؤ، انکساری اور عبدیت نہ تھی۔ یہ سب چیزیں نماز کی طبیعت ہے۔ یعنی ارکان نماز کا جسم ہے اور اُس کے اندر کی یہ کیفیات اور احوال، یہ نماز کی طبیعت ہے، یعنی باطنی کیفیت یہ طبیعت ہے۔ اسی طرح دین کا اور دینی تمام عبادات کا ایک جسم ہے اور ایک جسم کی روح ہے۔ اخلاق حسنہ سارے دین کی روح ہے۔

نماز کی روح اخلاق کو سنوارنا ہے:

اب میں جو ارکان اسلام ہیں توحید اور رسالت کی شہادت کے بعد باقی جو چار ہیں نماز، روزہ، زکاۃ اور حج۔ ان چاروں کو قرآن مجید سے سمجھاتا ہوں۔ قرآن مجید نے ان میں جسم اور روح کا تعلق کیسے جوڑا ہے؟ شہادت توحید وسالت کے بعد پہلا رکن نماز ہے۔ اب قرآن مجید کی سورۃ العنکبوت آیت 45 میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَط اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.

(العنکبوت، 29: 45)

’’اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔

حکم دیا نماز قائم کرو، کیوں؟ کہ نماز تمہیں دو چیزوں سے روکتی ہے۔۔۔’نماز قائم کرو‘ یہ حکم نماز کا جسم قائم کرنے کے لیے ہے اور نماز جن دو چیزوں سے روکتی ہے یہ اُس نماز کی روح ہے۔ سو جو نماز نمازی کو ان دو چیزوں سے نہ روکے وہ نماز نہیں ہے، وہ مردہ جسم ہے۔ وہ زندہ نماز نہیں ہے۔ ان میں سے ایک فَحْشَآئِ ہے جو رزائلِ اخلاق کو کہتے ہیں اور دوسرا الْمُنْکَرِ ہے جو سیئاتِ اعمال کو کہتے ہیں۔ یعنی برے اخلاق کو فحشاء کہتے ہیں اور برے افعال کو منکر کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ نماز کی خاصیت یہ ہے کہ بری خصلتوں سے اور برے اخلاق سے بھی روکتی ہے اور برے اعمال اور افعال سے بھی روکتی ہے۔ فحشاء سے بھی روکتی ہے اور منکرات سے بھی روکتی ہے۔ فواحش سے مراد صرف ایک بدکاری کا فعل نہیں ہے، اگر زبان گندی ہو گی تو کہیں گے یہ فحش زبان ہے وہ بھی فاحش میں آئے گا۔ برتاؤ گندہ ہو گا فواحش میں آئے گا، سوچ گندی ہو گی فواحش میں آئے گی۔ ہر وہ کام جو نظافت، لطافت اور شرافت کے معیار پہ نہیں ہے، جو حسین اور جمیل نہیں ہے، بھدا ہے، برا ہے، ناپسندیدہ ہے یعنی ہر وہ عمل جو بے حیائی کا ہے وہ فحشاء کے اندر آتا ہے۔ جیسے زبان کی بدکاری، آنکھوں کی بدکاری، اخلاق کی بدکاری، گفتگو کی بدکاری، برتاؤ کی بدکاری، دل کنجوس ہے تو بدکار ہے۔ سارے رویے فحشاء میں آتے ہیں۔ تو نماز تمہیں برے رویوں سے روکتی ہے اور نماز تمہیں گناہوں کے اعمال سے روکتی ہے۔ تو برے رویوں سے رکنا اور برے اعمال سے بچنا یہ نماز کی روح ہے۔ تو نماز فرض کی گئی تاکہ بندے کے اخلاق اور افعال سنور جائیں۔ تو آپ نے دیکھا کہ سب سے پہلا رکن شہادت توحید و رسالت کے بعد نماز ہے اور نماز کی روح اخلاق کو سنوارنا ہے۔ مسند بزار کی حدیث ہے۔آقا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے اللہ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا أَتَقَبَّلُ الصَّلاةَ مِمَّنْ تَوَاضَعَ بِهَا لِعَظَمَتِي وَلَمْ یَسْتَطِلْ عَلَی خَلْقِي وَلَمْ یَبِتْ مُصِرًّا عَلَی مَعْصِیَتِي وَقَطَعَ نَهَارَہُ فِي ذِکْرِي.

میں اُس شخص کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری عظمت کی خاطر متواضع اور منکسر ہو جائے۔ اُس کی نماز قبول کرتا ہوں جس کی نماز اُس کے تکبر اور رعونت کو ختم کر دے اور اُس کی طبیعت اور مزاج میں تواضع اور انکساری پیدا کر دے۔ اور میری مخلوق پر ظلم نہ کرے اور میری نافرمانیوں پر اصرار نہ کرے اور میری یاد کو جاری رکھے۔

اور آخر پہ فرمایا:

وَرَحِمَ الْمِسْکِینَ، وَابن السَّبِیلِ وَالأَرْمَلَةَ وَرَحِمَ الْمصَابَ.

(مسند بزار)

’’اور مسکینوں محتاجوں پر رحمت کرے اور مسافروں پر کرم کرے اور بیوائوں پر رحمت کرے اور مصیبت زدوںپر رحم کرے‘‘۔

جس شخص کے اندر ایسے اخلاق پیدا ہو جائیں میں اُسی کی نماز قبول کرتا ہوں۔ بقایا لوگ تو نماز کے جسم کو کندھوں پر اٹھا کر پھر رہے ہیں۔ نماز انہی کی نماز ہے جن کے اند تواضع، انکساری، تکبر، بڑا پن اور اکڑ نہ رہے، وہ جھکنے والے بن جائیں، خود کو چھوٹا اور حقیر سمجھیں کہ ہر وقت اُن کی نگاہ میری عظمت پہ رہے۔ وہ مخلوق پہ ظلم و جبر نہ کریں اور وہ ان کی حق تلفی کریں۔ وہ شب و روز مجھے یاد رکھیں، کوئی مسکین اور محتاج ہو تو اُس کے لیے سراپا رحمت بنیں، مسافر ہو تو اس کے لیے سراپا شفقت بنیں، بیواؤں اور یتیموں پر سراپا رحمت بنیں۔ وہ مصیبت زدہ کے لیے ہمیشہ سہارا بنیں۔ نماز جن لوگوں کی سیرت و اخلاق اور کردار میں یہ تبدیلی پیدا نہیں کرتی فرمایا: میں اُن کی نماز قبول نہیں کرتا۔ وہ نماز کا جسم تھا یہ نماز کی روح ہے۔

آپ نے دیکھا کہ نماز کے فرض کرنے کا مقصد بھی اخلاق سنوارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سجدوں کا محتاج نہیں ہے۔ اسے کوئی محتاجی نہیں وہ بے نیاز ہے۔ پھر اُس نے صبح شام 5 وقت نمازوں میں ہمیں کیوں ڈالا ہے؟ سوال ہے اپنی ضرورت کے لیے یا ہماری ضرورت کے لیے؟

اگر تو اُس کی ضرورت ہے تو معاملہ اور ہو گیا اور اُس کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں۔ وہ تو غنی ہے، وہ محتاج نہیں، بے نیاز ہے۔ تو پھر ہماری ضرورت ہوئی۔ ہماری ضرورت ہے تو وہ کیا ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ نے بیان کر دی ہے ہماری ضرورت یہ ہے وہ ہمارے اخلاق ہمارا طرزِ زندگی، ہمارے رویے، ہماری سوچیں سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بندو! ہر روز پانچ وقت نمازیں پڑھ کر بھی اگر اندر سے نہ بدلو تو میں نے تمہاری نمازوں کو کیا کرنا ہے۔ میں نے تو نمازیں فرض ہی اس لیے کی ہیں کہ تم فحشاء سے بھی بچ جاؤ اور منکرات سے بھی بچ جاؤ۔ تمہارے رویے اور تمہاری سوچوں کے انداز بدل جائیں، تمہارے طرزِ زندگی اور تمہارے شیوے بدل جائیں، اگر تمہارے من نہ بدلے تو اس تن کو رکوع، سجود کی مشقتوں میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟

زکوٰۃکی روح۔۔۔ اخلاق کو سنوارنا:

نماز کے بعد فرض ہے زکوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال کے دو۔ یعنی (ہر 100 میں سے اڑھائی روپے نکالنا)۔ پھر میرا سوال ہے کیا اللہ پاک کی کوئی ضرورت ہے؟ اُس کی کوئی ضرورت ہوتی تو معاذ اللہ اُس نے کوئی ایک جگہ بنائی ہوتی اور وہ کہتا کہ اس میں جا کے پیسے پھینک آؤ اور فرشتوں کو بھیج کے ہر روز collection کر کے منگوا لیتا۔ استغفروا اﷲ العظیم۔ اس کی تو کوئی حاجت نہیں۔ وہ تو دینے والا ہے۔ وہ کہتا ہے زکوٰۃ دو، دو کس کو؟ غریبوں کو۔ یعنی بندے بندوں کو دیں۔ مالدار محتاجوں کو دیں۔ دینی کاموں پر دیں، ضرورت مندوں کو دیں۔ اب زکوٰۃ کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس سے ضرورت پوری ہوتی ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ اس کا پیغام کیا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ بھی جان لیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے محبوب!

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْهِمْ بِهَا.

(التوبة، 9: 103)

’’ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں‘‘۔

یعنی مالدار مسلمانوںکی دولت سے صدقہ اور حصہ لے کر غریبوں کو دو۔ باری تعالیٰ کیوں؟فرمایا: اس لئے یہ اپنے مال میں سے حصہ نکالیں گے اور زکوٰۃ دیں گے تو یہ پاک ہو جائیں گے اور نہ صرف ان کے مال پاک ہوں گے بلکہ ان کے حال بھی پاک ہو جائیں گے۔ حال کیسے پاک ہوں گے؟ وہ زکوٰۃ کے عنوان سے ہمارے اندر غریبوں کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جس کے پاس کھانے کو ہے وہ اسے بھی کھلائے جس کو کھانا نہیں ملتا۔ غریب کا یہ احساس اگر من میں پیدا نہ ہو تو تمہاری زکاتوں سے اُس نے کیا لینا ہے۔ محتاج کی محتاجی اور غریب کی غربت اور پریشان حال کی پریشانی، ضرورت مند کی ضرورت اگر تمہارے اندر ایک درد اور concern پیدا نہ کرے اور ایک ہمدردی اور تڑپ پیدا نہ ہو جو ہر وقت زندگی کا حصہ بن جائے، اُس نے اڑھائی فیصد دلوا کے کیا لینا ہے؟ ہم نے زکوٰۃ کو صرف اڑھائی فیصد سمجھ لیا ہے۔ نہیں، یہ تو اُس نے ایک limit رکھی ہے۔ جبکہ زکوٰۃ کی روح اڑھائی فیصد خرچ کرنا نہیں وہ تو اس کا نصاب ہے۔ اصل زکوٰۃ کی روح تمہارے من میں غریب، دکھی اور محتاج انسانوں کی تڑپ اور آگ لگا دینا ہے لہذا جن کے پاس وسائل اور روزگار نہیں ہے، اُن کا درد اگر تمہارے اندر پیدا نہ ہو تو ان زکاتوں سے اللہ نے کچھ نہیں لینا۔ نماز کے ذریعے اخلاق بدلنا چاہتا ہے، زکوٰۃ کے ذریعے ہمارے اخلاق بدلنا چاہتا ہے۔ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو ایک غریب شخص نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر سوال کیا کہ آقا! ہمارے پاس تو مال نہیں ہے کہ ہم کسی غریب پر خرچ کریں۔ پھر ہم کیا کریں؟ آقا علیہ السلام نے اُس کا سوال سنا۔ سب صحابہ کرامؓ بیٹھے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا:

تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَةٌ.

’’تمہارا اپنے مسلمان بھائی کا تبسّم کے ساتھ سامنا کرنا صدقہ ہے‘‘۔

یعنی فرمایا: اگر تیرے پاس کچھ بھی نہیں دینے کے لئے تو تو اپنے دوست اور بھائی کے ساتھ مسکرا کر مل یہی صدقہ ہے۔ تیرے چہرے کا تبسم صدقہ ہے۔ تیرا مسکرا کے ملنا صدقہ ہے۔

اب اس حدیث اور اُس آیت کو ملا کے پڑھیے۔ کیا معنیٰ بنا؟ قرآن نے کہا تھا اُن کے مال سے صدقہ لو آقا a نے فرمایا: مسکراؤ یہ بھی صدقہ ہے۔ آیت اور حدیث کو جمع کر دو تو معنیٰ نکل آیا کہ زکوٰۃ کی روح انسان کے اندر اُس concern کو پیدا کرنا ہے کہ دوسروں کے لیے ایک احساس پیدا ہوجائے اور فرمایا:

وَأَمْرُکَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْیُکَ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ.

’’نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے‘‘۔

وَإِرْشَادُکَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَکَ صَدَقَةٌ.

’’بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے‘‘۔

وَإِمَاطَتُکَ الْحَجَرَ وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِیْقِ لَکَ صَدَقَةٌ.

’’راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے‘‘۔

اس سے بھی تزکیہ اور تطہیر نصیب ہو جائے گی۔ حتیٰ کہ فرمایا:

وَإِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِي دَلْوِ أَخِیْکَ لَکَ صَدَقَةٌ.

’’اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے‘‘۔

وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَّدِیئِ الْبَصَرِ لَکَ صَدَقَةٌ.

’’کسی کمزور بصارت والے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے‘‘۔

(ترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في الشکر لمن أحسن إلیک، 4/339، الرقم/1956، وابن حبان في الصحیح، 2/221، الرقم/474، والبزار في المسند، 9/457، الرقم/4070)

اتنی مثالیں دے کر آقا علیہ السلام نے زکوٰۃ کی روح سمجھا دی کہ زکوٰۃ کی روح غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات کو adjust کرنا ہے۔ پیسہ ہے تو پیسے سے، علم ہے تو علم سے، طاقت ہے تو طاقت سے، رہنمائی کی قوت ہے تو رہنمائی سے، مسکرانا ہے تو مسکراہٹ سے، نرم میٹھی زبان کے دو بول بولنے سے جس سے اُس کا دل رہ جائے یہ بھی صدقہ ہے۔ گویا آقا علیہ السلام نے نماز کے ذریعے بھی رویے بدلنے کی بات کی اور زکوٰۃ کے ذریعے بھی رویے بدلنے کی بات ہوئی۔ اپنے اندر یہ حسن اخلاق پیدا کریں۔