تبصرۂ کتب: قرآن نسلِ انسانی کے تمام طبقات کیلئے مساوی ہے

نازیہ عبدالستار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شہرۂ آفاق تصنیف سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چند اقتباس

اس دور پرفتن میں امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔ اقوامِ عالم نے امت مسلمہ پر ایک ایسے بھوکے درندے کی صورت میں حملہ کردیا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حرزِ جاں بنائیں۔ اپنے مسائل کے حل کے لئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کریں۔ زیر مطالعہ کتاب اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ ’’قرآن کا اسلوب اور سنت کا منہاج عالمگیر ہے جو کوئی جتنا قرآنی ہدایت کو عملاً قبول کرے گا وہ اس قدر اس کا نتیجہ پالے گا‘‘۔ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے یہ سطور زیر نظر کتاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہیں۔ خود مصنف کی زندگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے عمل و کردار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نظر آتی ہے۔ حاسدین کو چھوڑ کر ہر طبقہ فکر کا پڑھا لکھا طبقہ ان کی علمی حیثیت کا قائل نظر آتا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت و عشق و مستی میں ڈوب کر لکھی ہے جس کو پڑھتے ہوئے قاری اپنے تمام مسائل و مشکلات کا حل اور عروج و ترقی کا راستہ صرف سنت و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیر اہونے میں ہی پاتا ہے۔

اس کا بین ثبوت ہمیں اس کتاب کے اقتباس سے ملتا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری مدظلہ اپنی کتاب مقدمہ سیرت الرسول صفحہ 475 میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اسلام خود اپنے پیش کردہ نظام کو غالب و نافذ کرنے کا ایک طریقہ بتاتا ہے اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ کامیاب ہونے کی ضمانت دیتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں اس طریقے سے کامیاب ہوکر دکھایا۔ پس جس رہنمائی نے یہ نتیجہ پیدا کیا اسی رہنمائی اور لائحہ عمل کے نتیجہ خیز ہونے کی ضمانت مہیا کردیئے جانے کا نام دین ہے‘‘۔

ایک اور جگہ مقدمہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ 481 میں آپ لکھتے ہیں:

’’قرآن نسل انسانی کے تمام طبقات کے لئے مساوی ہے۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم عروج و زوال اور کامیابی و ہلاکت کے خدائی قوانین اٹل ہیں۔ جو شخص قرآن کی بیان کردہ ڈگر پر چلے گا، عظمت و کمال سے ہمکنار ہوگا اور جو کوئی اس ڈگر سے ہٹے گا۔ ذلت و رسوائی کا شکار ہوگا۔ اس فیصلہ کا نام مشیت ایزدی ہے‘‘۔

انقلاب کی واضح مثال ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے بھی ملتی ہے۔ مقدمہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ 482 پر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

’’پھر شرک کی تمام آلودگیوں سے نجات پاکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں اس طرح انقلاب آشنا ہوئیں کہ وہ حیات عالم کے انداز بدل ڈالیں۔ اگر قرآنی دعوت اور نگاہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے یہ انقلاب بپا نہ ہوا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جدوجہد سے تاریخ عالم کا رخ نہ بدل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی انقلابی سیرت کا ذکر بھی معیت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لف کردیا ہے‘‘۔

جس انسانی طبقہ میں سب سے پہلے انقلاب آیا وہ صحابہ کی جماعت تھی۔ ان کے انقلاب کا مرکز سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھی کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں جو بہار دکھائی دے رہی ہے وہ سیرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک ہے۔ حقیقت میں آج بھی قرآنی دعوت کی تاثیر ختم ہوئی ہے نہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض منقطع ہوا ہے اور ہماری ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ہم خلوص نیت سے کاسہ گدائی لے کر ان کے درپر جاتے ہی نہیں وگرنہ قرآن و سنت آج بھی ہمارے دلوں پر دستک دے رہی ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عصری اور بین الاقوامی مسائل اور ان کے حل کو بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب صفحہ نمبر 407 سے 422 تک پر رقمطراز ہیں:

1۔ وحدت نسلِ انسانی رنگ ونسل کے امتیاز کے خاتمہ کا ذریعہ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والاہے‘‘

(الحجرات، 49:13)

اس آیت کی روشنی میں امیر و غریب گورے اور کالے کے فرق کو ختم کیا۔

2۔ معاشی عدل و احسان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں۔ آپ فرمادیں: جو ضرورت سے زائد ہو۔

(البقره، 2: 219)

3۔ صدقہ و خیرات کے بارے ارشاد ربانی ہے:

’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا‘‘

(الذاریات، 51: 19)

4۔ ’’صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات اپنے دستِ قدرت سے) وصول فرماتا ہے‘‘

(التوبة، 9: 104)

5۔ اسلام نے اصل رزق اور بنیادی ضروریات زندگی میں سب کی برابری کے تصور کے ذریعے بے گھر ہونے کے مسئلہ کو حل کیا ہے۔ انسان کو یہ اصول فراہم فرمایا:

’’(اب) زمین تمہاری قیام گاہ ہے اور (وہیں رہ کر تم کو) ایک وقت معینہ تک نفع اٹھانا ہے‘‘

(البقره،2: 36)

6۔ اسلام نے عورت کے سماجی، معاشی، قانونی، عائلی اور اخلاقی حقوق کا تعین کرکے عورت کے مسئلہ کا متوازن حل پیش کیا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 228 میں بیان فرمایا:

’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر‘‘

7۔ اسلام نے زندگی کو باقاعدہ نظم دینے اور اسے بے راہ روی سے بچانے کیلئے نکاح کا شرعی تصور دیا۔ قرآن مجید نے اس بابت واضح ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:

’’تم ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں‘‘

(النساء، 4: 3)

8۔ نوجوانوں کی پریشان خیالی کے خاتمہ کے لئے روحانی، ذہنی اور جسمانی سرگرمیوں کی صورت میں مثبت طرز فکر عطا کیا ہے تاکہ ان کے سیرت و کردار کو انتشار سے بچایا جاسکے۔ کنزالعمال (9:456) میں حدیث مبارکہ ہے:

اپنی اولاد کو تین امور کی تربیت دیں: اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی، اہل بیت کی محبت کی اور قرآن پڑھنے کی محبت۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ کے ذریعے نوجوانوں کو محبت الہٰی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جہاد، صحت مند سرگرمیوں اور کھیلوں کی بھی ترغیب دی جن میں فوجی اور دفاعی فنون کے علاوہ شہ سواری، تیر اندازی، کُشتی، دوڑیں، نیزہ بازی اور ویٹ لفٹنگ جیسی کھیلوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی بھی براہ راست حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

9۔ دماغی اور نفسیاتی دبائو کا روحانی علاج کے لئے ایک خاص طرز فکر عطا کیا جس کی تفصیل سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میسر آتی ہے۔ اس میں قناعت، صبرو شکر کو اپنانا، حسد، حرص اور لالچ جیسے رذائل اخلاق سے اجتناب شامل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ: اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

(الرعد، 13: 28)

10۔ شراب نوشی اور دیگر منشیات کی کلی حرمت قرار دے کر اس مسئلہ کو حل کردیا ہے۔ دنیا بھر میں منشیات کی روک تھام کے لئے جو عالمی مہم چلائی جارہی ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس کا حل 14 صدیاں پہلے ہی فرمادیا ہے۔ جس چیز کا کثیر حصہ نشہ لائے اس کا تھوڑا حصہ بھی حرام ہے۔

(سنن ابن ماجه، کتاب الاشربه)

11۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

صفائی نصف ایمان ہے۔

(ترمذی، السنن، 536: 3519)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شجر کاری کو صدقہ قرار دیا۔ ارشا دگرامی:

اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اس کو لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔

(مسند احمد، 3: 191)

یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایسا شاہکار ہے کہ جو قاری اس سمندر میں غوطہ زنی کرتا ہے وہ گوہر نایاب پاتا ہے۔

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملی پہلو اور روحانی پہلو سے اس کتاب کی ابتداء کی گئی ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انقلابی انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ موجودہ شکست خوردہ امت مسلمہ پھر سے افق کی بلندیوں کو چھوسکے۔

اس کتاب کے ہر باب میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کے موضوع کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں یہ کلمات کہہ دیئے جائیں تو بے جانہ ہوں گے کہ کتاب کیا ہے علم و تحقیق کا ایک مرقع ہے ابتدا سے انتہاء تک لفظ لفظ بصیرت کا آئینہ اور حرف حرف آگہی کا مظہر ہے۔ مقدمہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 539 صفحات کی ضخیم کتاب شائع کرنے کا اعزاز منہاج پرنٹرز کو حاصل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1995ء میں ہوا اب تک اس کے لاتعداد ایڈیشن چھپ ہوچکے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ احقر کی نظر سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ اور سیرت مقدسہ پر کثیر کتب و رسائل گزرے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے سیرت الرسول پر جس پہلو سے کام کیا اس میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی۔ یہ کتاب ہر خاص و عام کے لئے لائق مطالعہ ہے اور ہر گھر کی ضرورت ہے۔ اس کتاب سے آگاہی ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے جو محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دم بھرتا ہے۔ یہ کتاب گورنمنٹ آف پنجاب کے نوٹیفیکیشن کے تحت تمام کالجوں اور سکولوں کی لائبریریوں کے لئے بھی منظور شدہ ہے۔