یوم دفاع پر خصوصی تحریر

ام حبیبہ

گزشتہ چند دہائیوں سے پوری دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص دہشت گردی کی لہر کا سامنا ہے۔ عالمی و قومی سطح پر انتہا پسندی کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے عالمی طاقتیں مسلمان ممالک کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی سا لمیت و دفاع کی جنگ لڑنا پڑی۔ ایسے میں جہاں ایک طرف بیرونی خطرات کا سامنا کرنا پڑا وہیں دوسری طرف داخلی استحکام بھی کسی نہ کسی حملے کی زد میں رہا۔ اسی میں ایک بڑا حملہ دہشتگردی کا تھا۔

9/11 کے واقعہ کے بعد جب امریکہ نے طالبان کے خلاف افغانستان میں آپریشن کا آغاز کیا تو بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا۔ ایسے میں دہشتگردوں کی جو نرسریز افغانستان میں کام کر رہی تھیں انہیں پاکستان تک بھی رسائی حاصل ہو گئی تھی، نتیجتاً پاکستان ہر دوسرے روز دھماکوں کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ دہشتگردی کی اس لہر نے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایسے میں جن ممالک کی نظروں میں پاکستان پہلے ہی کھٹک رہا تھا انہیں کھل کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا موقع مل گیا اس نازک موڑ پر افواج پاکستان نے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے اور مسلح دہشتگرد گروپس کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا۔ 2002ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے فاٹا میں دہشگردوں کے خلاف آپریشن ’’المیزان‘‘ کا آغاز کیا جو کہ تقریبا چار سال تک جاری رہا۔ اسی دوران 2004ء میں آپریشن ’’راہ حق‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن تین مراحل میں مکمل کیا گیا۔ اسی دوران لال مسجد، فاٹا اور سوات آپریشنز کیے گئے۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ 2009ء میں مذکورہ علاقوں میں حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا۔

درج بالا آپریشنز کے علاوہ صراط مستقیم (2008ء)، آپریشن راہ راست (2009ء)، آپریشن راہ نجات (2009ء)سر فہرست ہیں۔ ان تمام آپریشنز کے بعدجس آپریشن نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی وہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد تھا۔ یہ آپریشن پاکستان میں تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، جند اللہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ہوئے۔ مذکورہ تمام آپریشنز کے باوجود آپریشن ردالفساد کی کامیابی نے پاکستان میں امن کے قیام کو دوبارہ ممکن بنایا۔ اس آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں دہشتگرد مارے گئے، تقریباً 21193گرفتار ہوئے۔ بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے سلیپرز سیل اور ٹھکانے تباہ کئے گئے مگر اس کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کو کئی جوانوں کے خون کی قربانی دینی پڑی۔ ان آپریشنز کے ذکر کا مقصد پاکستان کی سا لمیت کی محافظ افواج پاکستان کی قربانیوں کو ان ذہنوں میں از سر نو زندہ کرنا ہے جو آج انہی افواج کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ افواج پاکستان نے تو دفاعی محاذوں پر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کیا مگر فکری محاذوں پر اس جنگ میں بہت کم لوگوں نے حصہ لیا۔ 2008ء میں جب افواج پاکستان آپریشنز میں مصروف تھیں تو فکری محاذوں پر یہ ابہام پیدا کر دیا گیا کہ اس جنگ میں مارے جانے والے دہشت گرد بھی اسی طرح شہید قرار دیے جائیں گے جس طرح افواج پاکستان کے جوان یعنی لامحالہ دہشتگردوں کو بھی شہید قرار دیا گیا۔ یہ بحث پورے پاکستانی میڈیا پر پھیل گئی۔ جس سے ایک طرف افواج پاکستان کے حوصلوں میں کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا تو دوسری طرف عالمی سطح پر دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا گیا جس سے عالم اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ایسے میں ایسے جرأت مندانہ بیانیہ کی ضرورت تھی جو اس ابہام کو ختم کر سکے، مگر بدقسمتی سے ہمارے علماء نے اس پر بات کرنے سے احتراز برتا۔ ایسے وقت میں ایک شخصیت نے نہ صرف اس سوچ کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے نام سے تاریخی فتوی ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کے نام سے دیا۔ اس فتوی کو عالمی میڈیا میں بھر پور پذیرائی حاصل ہوئی۔ اگرچہ پاکستانی میڈیا نے بدقسمتی سے اس فتوی پر زیادہ توجہ نہیں دی مگر پاکستان میں آرمی آپریشنز کے متعلق جو فکری ابہام پیدا ہو گیا تھااس کاقلع قمع ہوگیا۔ آپ نے دنیا بھر میں اس فتویٰ پر خطابات کے ذریعے اسلام کے تصور جہاد کو واضح کیا اور تمام اشکالات کا خاتمہ کیا۔ اس شخصیت کا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہے۔ اس تاریخی فتوی میں آپ نے فرمایا:

’اسلام امن و سلامتی اور محبت و مروت کا دین ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم اور غیر مسلم سب بے گناہ انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ انسانی جان کا تقدس و تحفظ شریعت اسلامی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی انسان کی ناحق جان لینا اور اسے قتل کرنا فعل حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عمل موجب کفر بن جاتا ہے۔ آج کل دہشت گرداپنے نظریات مسلط کرنے اور اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی ناکام کاوِش میں جس بے دردی سے خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے گھروں، بازاروں،عوامی مراکز، حکومتی دفاتر اور مساجد میں بے گناہ مسلمانوں کی جانیں لے رہے ہیں وہ صریحا کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں ان کے لیے ذلت آمیز عذاب کی وعید ہے۔ دہشتگردی فی نفسہ کافرانہ فعل ہے اور جب اس میں خودکشی کا حرام عنصر بھی شامل ہو جائے تو اسکی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں درجنوں آیات اور بیسیوں احادیث کے ذریعے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کا قتل عام اور دہشت گردی اسلام میں قطعی حرام بلکہ کفریہ افعال ہیں۔‘ (دہشت گردی اور فتنہ خوارج، ص: 29-28)

اس فتوی کو 2010ء میں کتابی صورت میں مرتب کر دیا گیا۔ اب تک اس فتوی کا عربی، انگریزی اور ہندی سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے صرف فکری محاذ پر ہی کام نہ کیا بلکہ 2014ء میں آپریشن ضرب عضب پر جب مختلف سیاسی جماعتیں مخمصے کا شکار تھیں ایسے میں آپریشن کے اعلان کے بعد فی الفور آپ نے پریس کانفرنس کر کے اس آپریشن کی حمایت کا اعلان کر دیااور کہا کہ ’فوج ملکی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے‘۔ آپ نے ضرب عضب، ضرب امن کے نام سے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے تحریک کا آغاز کیا، اس تحریک کا مقصد پاکستان میں امن کی بحالی کے لیے فوج کے کردار کو سراہنا تھا۔ آپ کی حمایت کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں اس آپریشن کی حمایت کے اعلانات ہونے شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا۔ بلاشبہ یہ پاکستان کی امن و سلامتی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی بے مثال کاوش تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ نے فکری محاذ پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والی سوچ کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر کاوشیں شروع کر دیں۔ آپ نے ایک جگہ فرمایا:

’’دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اس حد تک ہمارے معاشرے پر غلبہ پا لینے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کی امن و سلامتی، انسانیت سے محبت اور عدم تشدد پر مبنی تعلیمات کو اپنی قوم کے بچوں کے تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بنایا۔ ہماری نوجوان نسل ان تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ یہ تعلیمات پاکستان کے نصابات میں ہونی چاہئیں۔ اسی تناظر میں نصابات میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔‘‘ (عالمی میلاد کانفرنس، جنوری 2015ء)

آپ صرف یہ بات کہنے تک محدود نہ رہے بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے دائمی حل کے لیے 2015ء میں قومی نصاب برائے فروغ امن اورانسداد دہشت گردی مرتب کیا۔ اس نصاب میں معاشرے کے ہر طبقہ کی فکری تربیت کے لیے الگ الگ کتابیں شامل کی گئی ہیں،مثلا سکیورٹی اداروں، اساتذہ،آئمہ و فقہائ،طلبا،وکلاء و ججز اور صحافی طبقہ کے لیے الگ الگ نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ اس نصاب میں جو کتاب سکیورٹی اداروں کے لیے مرتب کی گئی ہے اس میںاسلام کے حقیقی تصور جہاد کو مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ابتدائیہ میں درج ہے:

’’یہ نصاب ریاستی سکیورٹی اداروں کے افسران اور جوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے،تاکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف ان کی علمی و فکری اور نظریاتی و اعتقادی تربیت کی جائے بلکہ انہیں عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہونے کا کامل تیقن بھی دیا جائے۔ بلاشبہ یہ نصاب اس قوم کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔‘‘ (ص: 21)

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی طرح دیگر مذہبی، سیاسی شخصیات اور ادارے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان کی کاوشوں کو نہ صرف سراہیں، بلکہ ان کی مکمل اخلاقی حمایت بھی کریں۔ 6 ستمبر، یوم دفاع پاکستان پر ملکی دفاع اور سلامتی کے لیے قربانیاں دینے والے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہمارا اخلاقی و مذہبی فریضہ ہے۔ آج پاکستان میں امن و سکون کی فضا ان شہیدوں کے دم سے ہے۔ نئی منتخب حکومت سے عوام یہ امید کرتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کے پرامن تشخص کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ عالمی یوم امن پر پاکستانی قوم کی امن کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو دنیا میں تسلیم کروانا بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔