اداریہ: اولیائے اللہ کی دعائیں اور تحریک منہاج القرآن

چیف ایڈیٹر

الحمدللہ تحریک منہاج القرآن کے اندرون و بیرون ملک مقیم لاکھوں کارکنان، ذمہ داران اپنے محبوب قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا 68 واں یوم پیدائش منارہے ہیں اور سالگرہ کے موقع پر تحدیث نعمت کے طور پر اپنے قائد کی علمی، دینی، خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ 68 ویں یوم پیدائش کے پرمسرت لمحات کو قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی تقریب رونمائی سے موسوم کیا گیا ہے اور قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے حوالے سے پاکستان بھر میں یہ تقاریب انعقاد پذیر ہورہی ہیں، بلاشبہ 8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی تالیف عصرحاضر کی ایک بہت بڑی دینی، ملی،علمی انسانی خدمت ہے، یہ انسائیکلوپیڈیا پانچ ہزار سے زائد موضوعات پر مشتمل ہے اور موضوعاتی فہرست 400 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس فہرست کے ذریعے قاری کی احکامات ربانی تک رسائی کو انتہائی سہل اور موثر بنا دیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فی زمانہ وہ واحد نابغہ روزگار ہستی ہیں جنہوں نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور امت کو فکری رہنمائی مہیا کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اکتوبر 1981ء میں تحریک منہاج القرآن کی شکل میں علم و آگہی کا ایک ایسا بیج بویا تھا جو آج تنا آور درخت بن چکا ہے اور جس کی چھاؤں میں شرق و غرب کے لاکھوں، کروڑوں متلاشی رشد و ہدایت فیض یاب ہورہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے 38 سال کے مختصر عرصہ میں جو علمی حوالے سے کارہائے نمایاں انجام دئیے ماضی قریب و بعید میں اس کی کوئی دوسری مثال پیش کرنا ناممکن ہے، ایسا ممکن ہو بھی کیونکر سکتا ہے کیونکہ اللہ کے برگزیدہ بندوں اور ولیوں کی دعائیں قائد تحریک منہاج القرآن اور تحریک منہاج القرآن کے ساتھ ہیں، اس تاریخی موقع پر ہم شیخ المشائخ قدوۃ اولیا حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ خوبصورت اور تاریخی الفاظ یہاں نقل کرنا چاہیں گے جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جس تحریک اور قائد تحریک کے ساتھ ایسے اولیائے اللہ کی دعائیں ہوں اسے آگے بڑھنے اور علمی و روحانی اعتبار سے پھلنے پھولنے سے کون روک سکتا ہے؟ حضور پیر قدوۃ اولیا سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی نے 9 جنوری 1987ء کو اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ ’ہم ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کام سے بہت مطمئن ہیں، ڈاکٹر طاہرالقادری طریقہ قادریہ اور دین اسلام کی عالمگیر سطح کی خدمت کررہے ہیں، ان کے شب و روز خدمت سے سلسلہ قادریہ اور اسلام کو بہت فائدہ ہورہا ہے، ان پر کیچڑ اچھالنا اور اس کے اوپر تکفیر کرنا سخت ناگوار اور نقصان دہ کوشش ہے، ہر کسے باشد جو بھی اس ادارہ منہاج القرآن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے وہ خود کو طریقہ قادریہ پر نہ سمجھے اور یہ بھی نہ خیال کرے کہ وہ اسلام کی کوئی خدمت کررہا ہے بلکہ وہ مذہب کو سخت نقصان پہنچارہا ہے۔ چنانچہ تمام علمائے کرام، مشائخ عظام، سنی، حنفی برادران بالخصوص مریدین حضور غوث الاعظم دستگیر سے التماس ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے ادارہ منہاج القرآن سے وابستگی اختیار کریں اور اس کی خدمت کریں۔‘ اسی طرح ایک واقعہ حضرت پیر خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے حوالے سے ہے، 1966ء میں دارالعلوم سیال شریف میں پیر خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر صدارت منعقدہ تقریب میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد کے ساتھ شریک تھے، آپ کی عمر اس وقت 15 سال تھی، آپ نے صرف 10 منٹ نہایت پرجوش علمی و فکری خطاب کیا جس کے بعد حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا ماتھا چومتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر مائیک پر اپنے عظیم تاثرات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ ’لوگو! آپ نے اس بچے کا خطاب تو سن لیا ہے میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس بچے پر فخر ہے، ان شاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ یہی بچہ عالم اسلام اور اہلسنت کا قابل فخر سرمایہ ہو گا، میں تو شاید زندہ نہ ہوں لیکن آپ میں سے اکثر لوگ دیکھیں گے یہ بچہ آسمان علم و فن پر نیئرِ تاباں بن کر چمکے گا، اس کے علم و فکر اور کاوش سے عقائد اہلسنت کو تقویت ملے گی اور علم کا وقار بڑھے گا، اہلسنت کا مسلک اس نوجوان کے ساتھ منسلک ہے اور اس کی کاوشوں سے ایک جہان مستفید ہو گا۔‘ سینئر کالم نویس، دانشور، سینئر سیاستدان محترم قیوم نظامی صاحب نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حوالے سے خصوصی طور پر تحریر ارسال کی ہے جسے من و عن یہاں نقل کررہے ہیں، انہوں نے لکھا کہ ’’اسلامی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے اسلام کے مذہبی اسکالروں نے اسلامی فلسفہ تفسیرات و تعمیرات اور تشریحات میں الجھ کر اسلام کی بنیادی تعلیمات اور احکامات کو ہی نظر انداز کردیا۔ یہ رویہ ملوکیت کے بعد اختیار کیا گیا عالم اسلام کے دشمنوں نے بھی اس رویے اور بیانیے کی حوصلہ افزائی کی تاکہ مسلمان مسائل تصوف اور فلسفہ میں الجھے رہیں اور اسلام کی اصل روح غائب رہے تاکہ مسلمان کبھی بھی اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد پر ایک ملت اور قوم نہ بن سکیں۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شمار ان مذہبی سکالرز میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور حدیث کا درست فہم عطا کیا ہے جب میں اپنی مقبول عام کتاب معاملات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تحقیقی کام کررہا تھا تو میں نے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کتب کا مطالعہ کیا جب ان کی سیرت پر لکھی ہوئی کتابوں کا دوسرے سیرت نگاروں سے موازنہ کیا تو مجھے دلی مسرت ہوئی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری سیرت کو واضح اور دوٹوک الفاظ میں بیان کرتے ہیں غیر ضروری بحث و مباحثہ میں پڑھ کر قاری کے ذہن کومنتشر نہیں کرتے تاکہ سیرت کا اصل پیغام پڑھنے والوں کے دلوں کے اندر اتر جائے اور اس طرح ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں جو قرآن اور سیرت کا منشا اور مطالبہ ہے۔ میں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقاری کے مایہ ناز اور منفرد قرآنی انسائیکلو پیڈیا کا مطالعہ بھی کیا ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں پانچ ہزار سے زائد موضوعات بیان کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے دنیا کی یونیورسٹیاں اور عالمی فکری مرکزوں سے زیادہ اکیلے کام کیا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا شمار اللہ کے پسندیدہ بندوں میں آتا ہے کیونکہ اللہ کی تائید اور حمایت کے بغیر اتنا بڑا کام کرنا آسان نہیں تھا۔ میں نے معاملات انسان اور قرآن لکھ کر ایک عاجزانہ سی کوشش کی ہے مگر ڈاکٹر صاحب کے قرآنی انسائیکلو پیڈیا کو پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنی کتاب پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے جن طلباء نے تعلیم حاصل کی ہے وہ نہ صرف ریاست کے مختلف اداروں اور شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ عزت اور آبرو کے ساتھ اپنے خاندانوں کی پرورش بھی کررہے ہیں۔ گویا قرآنی انسائیکلو پیڈیا اور سیرت کے بنیادی اصول کے مطابق وہ ضابطہ حیات پر مکمل عمل کررہے ہیں۔ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کا سیاسی شعور بھی بڑا پختہ ہے جو انہیں قرآن اور سیرت کے گہرے مطالعہ کے بعد حاصل ہوا ہے وہ درست طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان میں انگریزوں کا نظام تبدیل کیے بغیر پاکستان کے قومی مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو صحت و تندرستی کے ساتھ ہمارے درمیان موجود رکھے اور وہ اسی آب و تاب کے ساتھ علوم دینیہ کی خدمت انجام دیتے رہیں۔‘‘