فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیَنَهُمْ ط قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللهِ وَمَا کَانُوْا مُهْتَدِیْنَ. وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْنَتَوَ فَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللهُ شَهِیْدٌ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ.

(الضحیٰ، 93: 1 تا 8)

’’اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا دنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے، وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے۔ بے شک وہ لوگ خسارے میں رہے جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا تھا اور وہ ہدایت یافتہ نہ ہوئے۔ اور خواہ ہم آپ کو اس (عذاب) کا کچھ حصہ (دنیا میں ہی) دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں (اور ہم آپ کی حیاتِ مبارکہ میں ایسا کریں گے) یا (اس سے پہلے) ہم آپ کو وفات بخش دیں، تو انہیں (بہر صورت) ہماری ہی طرف لوٹنا ہے، پھر اللہ (خود) اس پر گواہ ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں‘‘

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، یَقُولُ: مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَبْتَغِي فِیْهِ عِلْمًا سَلَکَ اللهُ لَهُ طَرِیْقًا إِلَی الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا، رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِیْتَانُ فِي الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ، کفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، إِنَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءَ إِنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُؤَرِّثُوْا دِیْنَارًا، وَلاَ دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ، أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. رَوَاهُ أَبُوْحَنِیْفَةَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ اور بیشک فرشتے طالبِ علم کی رضا کے حصول کے لئے اس کے پائوں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں۔ اور عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے۔ اور بے شک علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ بے شک انبیاء کرام کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتی بلکہ ان کی میراث علم ہے پس جس نے اسے پایا اسے (وراثتِ انبیاء سے) بہت بڑا حصہ مل گیا۔‘‘

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 430)