ولایتِ علی درحقیقت ولایتِ محمدی ﷺ ہی ہے

ڈاکٹر فرخ سہیل

اعلان ولایت علی 18 ذی الحج (حجۃ الوداع) کا ایک تاریخ ساز فرمان مصطفی ﷺ تھا، جس کا اطلاق تمام اہل ایمان پر قیامت تک کے لیے ہوتا ہے اور جو بھی ولایت علی کا منکر ہوگا وہ ولایت محمدی کا منکر قرار پائے گا جیسا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری لکھتے ہیں کہ:

’’مقام غدیر خم پر ولایت علیؑ کے مضمون پر مشتمل اعلانِ محمدی نے ابدالآباد تک کے لیے ثابت و ظاہر کردیا کہ ولایت علی درحقیقت ولایت محمدیؐ ہی ہے۔ بعثتِ محمدی کے بعد نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ لہذا تا قیامت فیض نبوت محمدی کے اجرا و تسلسل کے لیے باری تعالیٰ نے امت میں نئے دروازے اور راستے کھول دیئے۔ یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا تاآنکہ امتِ محمدیؐ میں آخری امام برحق اور مرکز ولایت کا ظہور ہوگا یہ سیدنا امام محمد مہدی ہوں گے جو بارہویں امام بھی ہوں گے اور آخری خلیفہ بھی۔‘‘

اسی طرح الجامع الصحیح ترمذی کی یہ روایت ولایت علی پر ایک مستند ثبوت ہے کہ:

’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ پھر فرمایا بے شک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے۔‘‘

امام احمد بن حنبل فضائل الصحابہ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ

براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم رسول اکرم ﷺ کے ساتھ سفر پر تھے ہم نے غدیر خم میںقیام کیا وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہوگئی ہے۔ حضرت محمد ﷺ کے لیے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی۔ پس آپ نے نماز ظہر ادا کی اور حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر آپؐ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

’’جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ تو دوست رکھ جو اسے (علی) کو دوست رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھے۔ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے ملاقات کی اور ان سے کہا ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ابدالآباد) ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے۔‘‘

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب ایک جگہ تحریر کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ سے تین طرح کی وراثتیں جاری ہوئیں:

  1. خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت
  2. خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت
  3. خلافتِ دینی کی عمومی وراثت

ڈاکٹر صاحب کے مطابق خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت اہلِ بیت اطہارؓ کے نفوسِ طیبہ کو عطا ہوئی اور خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت خلفاء راشدین کی ذواتِ مقدسہ کو عطا ہوئی اور آخری خلفاء راشدین کی ذواتِ مقدسہ کو عطا ہوئی اور آخری خلعت یعنی خلافتِ دینی کی عمومی وراثت بقیہ صحابہ و تابعین کو عطا ہوئی۔

ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں کہ خلافتِ باطنی نیابتِ محمدی کا وہ سرچشمہ ہے جس سے نہ صرف دین اسلام کے روحانی کمالات اور باطنی فیوضات کی حفاظت ہوئی بلکہ اس سے امت میں ولایت و قطبیت اور مصلحیت و مجددیت کے چشمے پھوٹے اور امت اسی واسطے سے روحانیت محمدی ﷺ سے فیض یاب ہوئی۔

لہذا خلافت باطنی بھی علی مرتضیٰؓ سے ہی شروع ہوتی ہے اور اس کا فیض ائمہ اہل بیت اور امت کے اولیاء کاملین کو منتقل ہوتا چلا گیا۔

باب ولایت میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ اس امت میں (فاتح اول) ولایت کا دروازہ سب سے پہلے کھولنے والے فرد حضرت علی مرتضیٰؓ ہیں۔ حضرت علیؓ کا راز ولایت آپ کی اولاد کرام میں سرایت کرگیا چنانچہ اولیائے امت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طرح حضرت علیؓ کے خاندانِ امامت سے وابستہ نہ ہو۔

شاہ اسماعیل دہلوی اپنی کتاب صراط مستقیم میں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

حضرت علی مرتضیٰؓ کے لیے شیخینؓ پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامات ولایت بلکہ قطبیت و غوثیت، ابدالیت اور انہی جیسے باقی مقامات آپ کے زمانہ سے لے کر دنیا کے اختتام تک آپ ہی کی وساطت سے طے ہوتے ہیں۔ اہل ولایت کے اکثر سلسلے بھی جناب مرتضیٰؑ ہی طرف منسوب ہیں۔ بس قیامت کے دن بہت فرمانبرداروں کی وجہ سے جن میں اکثر بڑی بڑی شانوں والے اور عمدہ مرتبے والے ہوں گے حضرت علی مرتضیٰؑ کا لشکر اس رونق اور بزرگی سے دکھائی دے گا کہ اس مقام کا تماشا دیکھنے والوں کے لیے یہ امر نہایت ہی تعجب کا باعث ہوگا۔

مقام ولایت علی مرتضیٰؓ کی عظمت پر درج ذیل روایت جو حضرت عمرؓ کی زبان سے ادا ہوئی ثبوت ہے کہ ابن المسیب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ نے ارشاد فرمایا ’’اشراف (سادات) سے محبت اور مودت کرو اور گھٹیا لوگوں سے اپنی عزت کی حفاظت کرو اور جان لو کہ کوئی شرف ومرتبہ علیؓ کی محبت کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔

اور یہ تمام مقام و مرتبہ اس گھٹی کی سعادت تھی نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو طالبؓ سے مولی علی کو مانگ کر اپنی کفالت و تربیت میں لے لیا تھا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ کسی بچے کو آغوش نبوی میسر آجائے۔ شرح خصائص علی میں درج ہے کہ پوری مخلوق سے اللہ تعالیٰ نے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم سے حضور اکرم ﷺ کو چنا اور حضور اکرم ﷺ نے بنو ہاشم سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو چنا۔ لہذا نبی کریم ﷺ انتخاب ایزدی ہیں اور مولا علیؓ انتخاب نبوی ہیں اور پھر یہی انتخاب نبوی مولیٰ علی کو تمام ہاشمیوں پر مقدم کرگیا۔

السنن الکبریٰ للنسائی میں ابو اسحاق کے حوالے سے ذکر ملتا ہے کہ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ خالد بن قثم سے دریافت کیا گیا آپ نے دادا (عباس بن عبدالمطلب) کو چھوڑ کر سیدنا علی کیسے رسول اللہ کے وارث ٹھہرے۔ حالانکہ آپ کے دادا حضور کے چچا ہیں انہوں نے کہا کہ علیؓ ہم سب سے پہلے حضور نبی اکرم ﷺ سے ملے اور ہم سب سے بڑھ کر آپؐ سے وابستہ رہے۔

اگرچہ فضائل علی بیان کرنے کے لیے بےشمار دفتر درکار ہیں لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حضرت علی المرتضیٰؓ کی ہر میدان میں اولیت و سبقت آغوش نبوی کی ہی مرہون منت ہے۔ شرح خصائص علی میں حضرت علی المرتضیٰؓ کی معنوی قربت کی افضلیت کے بارے میں درج ہے۔

حضرت علی المرتضیٰؓ کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خصوصی محبت کا ذکر ایسا معنوی قرب ہے جو نسبی، صحبتی اور تربیتی تمام قربتوں سے زیادہ اہم ہے اور اگر یہ قرب معنوی نہ ہو تو دوسری تمام قربتیں بیکار ہوتی ہیں اور کسی بھی نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ محض نسبی رشتہ داری کی بنا پر کسی سے محبت کرے اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے نزدیک توایمان کا کمال ہی الحب فی اللہ البغض فی اللہ ہے۔

لہذا حضرت علی المرتضیٰؓ سے نبی کریم ﷺ کی یہ خصوصی محبت محض نسبی یا حسبی رشتہ داری کے باعث نہیں تھی بلکہ دینی سبقت اور اہم کارناموں کے باعث بھی یا پھر اس محبت کا باعث وہ خصوصی فضل الہٰی تھا جس کی بدولت مولیٰ علیؑ پیدا ہوتے ہی بارگاہ نبوت کے منظور نظر ہوگئے حتی کہ اپنے چچائوں پر بھی فضیلت لے گئے اور یہ حدیث مبارکہ حب علی کے لیے بین ثبوت ہے کہ:

قال رسول الله ان علیا منی وانا منه وهو ولی کل مومن بعدی.

کہ رسول اللہ نے فرمایا بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے۔

امام احمد بن حنبل، حضرت سعید بن وہب اور زید بن میثیع سے روایت کرتے ہیں کہ غدیر خم کے دن رسول اللہ ﷺ کو سیدنا علیؑ کی شان میں فرماتے ہوئے سنا تھا، کیا میں مومنین کی جانوں سے زیادہ انہیں محبوب نہیں ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا۔ اے اللہ! جس کا میں مولی ہوں تو علی بھی اس کا مولیٰ ہے، اے اللہ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور تو اس سے عداوت رکھ جو علی سے عداوت رکھے۔

آخر میں پروردگار عالم سے دعا کے وہ سب مسلمانوں کے دلوں کو حبِ خدا و رسول ﷺ کے ساتھ ساتھ حبِ علی کی حلاوت و چاشنی سے بھر دے کیونکہ بقول امام شافعیؒ

علی حبه جنة، قسیم النار و الجنة
وصی المصطفیٰ حقاً امام الانس والجنة