کتاب بینی کے انسانی زندگی پر اثرات

سُمیَّہ اسلام

کتب بینی ایک نہایت مفید مشغلہ ہے۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت مؤثر نسخہ ہے۔ کہتے ہیں کتاب انسان کی بہترین دوست ہے۔ انسان جب بھی تنہا ہوتا ہے تو کتاب ایک بہترین ساتھی کا کردار ادا کرتی ہے۔ کتابیں صرف انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ علم کا خزانہ بھی ہیں۔ انگریز شاعر شیلے کہتا ہے کہ مطالعہ ذہن کو جلا دینے اور اس کی ترقی کیلئے بہت ضروری ہے۔ ابراہیم لنکن کا کہنا ہے کہ کتابوں کا مطالعہ ذہن کو روشنی عطا کرتا ہے۔ والٹیئر کا قول ہے کہ وحشی اقوام کے علاوہ تمام دنیا پر کتابیں حکمرانی کرتی ہیں۔ کتابوں کی سیاحت میں انسان شاعروں، ادیبوں، مفکروں اور داناؤں سے ہم کلام ہوتا ہے، جبکہ عملی زندگی میں احمقوں اور بےوقوفوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف الجاحظ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:

کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔

ان تمام اقوال سے کتب بینی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اچھی کتاب بہترین دوست ہے:

ہر اچھی کتاب انسان کا دوست ہوتی ہے ، ساری زندگی میں انسان کی اخلاقیات کو سنوارتی رہتی ہے کتاب زندہ ہے پڑھنے والے بھی زندہ ہیں۔ یوں تو دنیا میں بہت سی کتابیں ہیں مگر جو سب کتابوں سے اچھی کتاب ہے دنیا و آخرت میں ہماری بہترین دوست ہے وہ کتاب قرآن پاک ہے اور قرآن پاک سب سے افضل کتاب ہے۔ اس کے فضائل تو اپنی مثال آپ ہیں یہ اللہ پاک کا مبارک کلام ہے، اس کا پڑھنا ، پڑھانا، سننا، سنانا، سب ثواب کا کام ہے۔ اس کے فضائل احادیث مبارکہ میں بھی بیان ہوئے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مجید ہے جس کی نزول پر مسلمانوں پر خیر و برکت کے دروازے کھل گئے۔ اس کے علاوہ دنیا میں بہت سی اسلامی کتابیں ہیں جنہیں ہم پڑھ کر دینی علم بھی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی کر سکتے ہیں۔ ہمیں سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو پڑھنا چاہیئے خلفائے راشدین کو پڑھنا چاہیے بہت سی اسلامی کتابیں حاصل کرنی چاہیے اور علم حاصل کر کے دوسروں تک بھی پہنچانا چاہیے اور ان تعلیمات پر عمل بھی کرنا چاہیے۔

ذوق مطالعہ اور قرآن:

اچھی کتاب واقعی بہترین دوست ہے اور اس کے بے شمار فوائد بھی ہم دیکھتے ہیں اور قرآن مجید بہترین کتاب اور بہترین دوست ہے۔ جو دوست ہوگا وہ ہم کو نفع دے گا، اور جو ہمیں نقصان پہنچائے بلاشبہ ہو ہمارا دشمن ہوگا، اور قرآن مجید اپنے پڑھنے اور عمل کرنے والے کو بہت بہت بہت ہی زیادہ نفع پہنچاتا ہے تو پھر اس کو دوست نہ بنانا اس بندے کی کم عقلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ سالہا سال لوگ اسے پڑھتے ہیں اور سنا گیا ہے کہ انہیں خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا تو پھر اس کی سب سے بڑی وجہ یہی یہی دیکھا گیا ہے کہ انہیں صحیح پڑھنا نہیں آتا تھا۔ ہم دنیا کے کسی کام کی مثال لے سکتے ہیں جیسے کمپیوٹر کا کام وہی کر سکتا ہے جو اسے چلا سکتا ہو، جب اس سے پوچھا جائے کہ یہ تمہیں کیسے آتا ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ میں نے یہ سیکھا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ سیکھنا بہت ضروری ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں میں لکھنے پڑھنے کا ایک غیر معمولی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ یہ ذوق مذہب کے پس منظر میں پیدا ہوا تھا۔ مگر ایک دفعہ پیدا ہوگیا تو صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ علم کی تمام شاخوں تک پھیل گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزار برس تک مسلمان دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ مسلمانوں کا زوال بھی جس واقعہ سے شروع ہوا وہ یہی تھا کہ بغداد اور اسپین میں مسلمانوں کی کتابوں کے ذخیرے یا تو جلادیے گئے یا پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئے۔

کتابوں کی اہمیت ہرزمانے میں مسلم ہے:

کتابوں کی اہمیت، ان کی حیثیت، عظمت اور افادیت ہرزمانے میں مسلم رہی ہے۔ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنھوں نے کتابوں کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ جن کے عظیم کارناموں کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ ایوب بن شجاع کہتے ہیں کہ میں نے اپنا غلام عبداللہ اعرابی کے پاس انھیں بلانے کے لیے بھیجا غلام نے واپس آکر کہا: میں نے انھیں اطلاع تو کردی ہے؛ لیکن وہ کہہ رہے تھے میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہیں ان سے فارغ ہوکر آتا ہوں؛ حالاں کہ وہ کتابوں کے مطالعہ میں مصروف تھے، کتابوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد عبداللہ آئے تو ایوب نے ان سے پوچھا: تمہارے پاس تو کوئی نہ تھا پھر تم نے غلام سے یہ بات کیسے کہہ دی؟ عبداللہ نے جواب میں چند اشعار پڑھے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

ہمارے چند ہم نشیں ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم نہیں اکتاتے۔ موجودگی اور عدم موجودگی دونوں صورتوں میں ہم ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں اور ہمیں گذرے ہوئے لوگوں کے علم، عقل، ادب اور صحت رائے کافائدہ دیتے ہیں۔ نہ ان سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہے اور نہ بری صحبت کا۔ اور نہ ہم ان کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے ڈرتے ہیں۔ انھیں مردہ کہنے کی صورت میں آپ کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا۔ اور اگر آپ انھیں زندہ کہیں تب بھی آپ کو غلط اور بے عقل نہیں کہا جاسکتا۔ (کتابوں کی درس گاہ میں)

کتاب بینی کے انسانی زندگی پر اثرات:

کتاب بینی انسانی زندگی پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرتی ہے جس کا اندازہ ایک کتاب دوست ہی لگا سکتا ہے۔ جس نیاسے چکھا ہی نہیں وہ اس کی لذت کیسے جان سکتا ہے۔ کتب بینی کے بے انتہا فائدے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ کتب بینی کی عادت ذہنی صحت کیلئے ایک اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، اگر روزانہ بیس منٹ کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماریو ں کا خطرہ 2.5 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ کتب بینی کے یوں تو بے شمار فائدے ہیں، تاہم چند ایک چیدہ چیدہ فائدے یہ ہیں۔

کتاب بینی علم میں اضافہ کا باعث بنتی ہے

کتابیں انسان کے علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ کتب بینی سے معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔ جس قدر کتابوں کا مطالعہ کیا جائے گا اس قدر علم زیادہ اور پختہ ہوگا۔ امریکا کی یونیورسٹی آف بفالو کی تحقیق کے مطابق فکشن بُکس پڑھنے سے دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اور آپ بہ آسانی اپنے مخاطب کے احساسات اور جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

کتاب بینی سے انسان کی تحقیقی اور تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ کتاب بینی اس سے انسان کے اندر تحقیقی اور تجزیاتی سوچ پروان چڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان دینی، قومی اور بین الاقوامی امور پر ایک واضح سوچ رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک کثیر المطالعہ شخص کو کسی جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے متاثر نہیں کیا جاسکتا ہے، ایسا شخص بڑی تیزی سے کسی بھی معاملے کی تہ تک پہنچنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔

کتاب بینی سے انسان میں تحریر کی استعداد پیدا ہوتی ہے

مطالعہ سے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہوتی ہے اس طرح انسان میں لکھنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور پہلے سے لکھنے والے لکھاریوں کی تحریر میں مزید شگفتگی اور پختگی پیدا ہو جاتی ہے۔

کتاب بینی سے انسان کی قوت ارتکاز بہتر ہوتی ہے

مطالعہ سوچ و بچار اور قوت ارتکاز کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جس سے انسان کی یاد داشت بہتر ہوتی ہے مزید برآں کتب بینی جذباتی ذہانت میں بھی اضافہ کا باعث ہے، جس کے نتیجے میں انسان اپنے جذبات کو ؎کنٹرول کرنا سیکھ لیتا ہے اور انسان میں بردباری کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔

کتاب بینی انسان کو پر اعتماد بناتی ہے

مطالعہ کے دوران انسان علماء اور حکماء سے ہم کلام ہوتا ہے جس سے اپنی ذات پر اعتماد پیدا ہوجاتا ہے اس سے عالی دماغ دانشوروں، مفکروں اور مایہ ناز شخصیات کی برابری کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔

کتاب بینی سے انسان کی ذہنی اور اخلاقی تربیت ہوتی ہے

مطالعہ ذہنی اور اخلاقی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ہم جو کچھ پڑھتے رہتے ہیں وہ ہمارے دل و دماغ اور جسم و جان میں رچ بس جاتا ہے اور پھر ہمارے عمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اس لئے ذہن کو صحت مند رکھنے کیلئے اچھی کتابوں کا مطالعہ اسی طرح ضروری ہے جیسے جسمانی فٹنس کو برقرار رکھنے کیلئے ورزش ضروری ہے۔

کتاب بینی سے انسان کو تنگ نظری اور تعصب سے بچاتی ہے

وسیع مطالعہ انسان کو تنگ نظری اور تعصب کے بھنور سے نکال کر وسعت قلب عطا کرتا ہے جس سے انسان میں رواداری اور گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے بلکہ سوچ کا زاویہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔

کتاب بینی سے انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچاننے کے قابل ہوجاتا ہے

انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچاننے کے قابل ہوجاتا ہے، یہ ایک ایسا فائدہ ہے جو ہر قسم کے فائدے سے برتر ہے کیوں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو افراد اپنی خداداد صلاحیتوں کو پالیتے ہیں اور ان کے مطابق ہی مشاغل کو اختیار کر لیتے ہیں، ایسے انسان ہی آسمان کے درخشندوہ ستاروں کا روپ دھارتے ہیں۔

کتاب بینی سے انسان اپنے مقصد حیات کو متعین کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے

کتب بینی کے نتیجے میں انسان اپنے مقصد حیات کو متعین کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو ایک بامقصد زندگی گزارنے کیلئے از حد ضروری ہے۔ مطالعہ کے دوران کسی ایسے فرد کی زندگی کے بارے میں پڑھنا جو اپنی زندگی میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کرکے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیتا ہے، درحقیقت آپ کے اندر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عزم کو بڑھا دیتا ہے جس سے انسان کو ایک گونہ تحریک ملتی ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی کے حصول کیلئے جستجو میں لگ جاتا ہے۔

درج بالا فوائد کے علاوہ بھی کتاب بینی کے بہت سے فوائد ہیں مثلاًمطالعہ سے غم اور بے چینی دور ہو جاتی ہے۔ مطالعہ کے دوران میں انسان جھوٹ بولنے اور فریب کرنے سے بچا رہتا ہے۔ مطالعہ کی عادت کی وجہ سے انسان کتاب میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ سستی اور کاہلی سے مغلوب نہیں ہونے پاتا۔ مطالعہ سے ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ کرنیوالا دوسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی طور پر ہمسفر بن جاتا ہے۔ مطالعہ کرنے والا اوقات کے ضیاع سے محفوظ رہتا ہے۔ مطالعہ سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ ناحق لڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔ فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔ زبان کھلتی ہے اور کلام کاطریقہ آتا ہے۔ ذہن کھلتا ہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔ علوم حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے تجربات اور علماء وحکماء کی حکمتوں کاعلم حاصل ہوتا ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ لوگوں کی آپسی دوستی کا نتیجہ فساد اور بگاڑ ہوا کرتا ہے، مگر کتاب کی دوستی سے روح کو تازگی اور طبیعت کو سرور حاصل ہوتا ہے۔ انسانی ذہن وفکر کی آبیاری ہوتی ہے، تہذیب و ثقافت کے عمدہ سانچے میں ڈھلنے کی ترغیب ملتی ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ تاریخ کی برگزیدہ شخصیتوں سے ملاقات ہوتی ہے اور ان کے تجربات سے استفادہ کا موقع ملتا ہے۔

کتاب کا عالمی دن:

23 اپریل ہر سال عالمی یوم کتاب منایا جاتا ہے۔ دنیا میں سو سے زیادہ ممالک میں کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کا مقصد کتاب بینی کے شوق کو فروغ دینا اور اچھی کتابیں تحریر کرنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ عالمی یوم کتاب کے موقع پر بک سیلرز اور پبلشرز کتابوں پر زیادہ ڈسکاؤنٹ دے کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہت ساری کتابیں مفت بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔

کتاب بینی اور لمحہ فکریہ:

اگر ایک شخص روزانہ ایک گھنٹہ مطالعہ کر ے اور ایک گھنٹہ میں 20 صفحات کا مطالعہ کرے تو ایک ماہ میں 600 صفحہ کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں 7200(سات ہزاردوسو) صفحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ بالفرض ایک شخص کی عمر 65 سال ہو اور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر 25 سال کی عمر میں مطالعہ شروع کرے اس طرح وہ 40 سال مطالعہ کرے گا اور اس مدت میں(دو لاکھ اٹھاسی ہزار) صفحات پڑھ ڈالے گا، اوسطاً اگر ایک کتاب 80 صفحہ کی ہو تو اس دوران 3600 کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ ذرا اندازہ کیجیے اتنی کتابوں کے مطالعہ کے بعد آپ کے علم اور نالج کی کیفیت کیا ہوگی؟اور اس علم کا آپ کی اپنی ذات کو آپ کے بچوں کو کس قدر فائدہ ہوگا۔ ملک و ملت کا جو فائدہ ہوگا وہ الگ ہے۔

گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں بیالیس فیصد کتب بین مذہبی بتیس فیصد عام معلومات یا جنرل نالج چھبیس فصد فکشن اور سات فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ گیلپ پاکستان کی طرف سے کئے جانے والے ایک اور سروے کے مطابق ملک میں 39 فیصد پڑھے لکھے افراد کتابیں پڑھنے کے دعویدار ہیں جبکہ 61 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کتابیں نہیں پڑھتے ہیں۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی صارفین کی کم قوت خرید حصول معلومات کے لئے موبائل انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کیلئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔

کتب بینی کے رجحان میں کمی کا ایک اہم سبب ہمارا تعلیمی نظام اور تدریسی نظام کی دن بہ دن گرتی ہوئی صورت حال ہے۔ ہمارے ہاں مطالعہ کی عادت ناقابل یقین حد تک زوال کا شکار ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے تعلیم کی شرح میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن اس سے کی بدولت کتب بینی کی شرح بھی گرگئی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے ہاں یہ شوق ماند پڑتا جارہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتاب پڑھنے کا کلچر پہلے ہی کم تھا اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے مزید کم ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان نسل لائبریریوں کی جگہ گیمنگ زون اور ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائل فونز، ٹیبلیٹ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ تھامے نظر آتی ہے۔ اگرچہ نجی سطح پر کتب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاہم ان میلوں میں بھی نوجوان کتابیں خریدنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ کتاب بہترین دوست ہے کی پرانی کہاوت کو ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے تبدیل کرکے موبائل فون بہترین دوست میں تبدیل کر دیا ہے، اور وہ نوجوان جو پہلے اپنا وقت کتب بینی میں گزارتے تھے اب وہی وقت جدید آلات اور انٹرنیٹ پر سرفنگ میں ضائع کر رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی پسماندگی کی بنیادی وجہ بھی کتب بینی کا فقدان ہے۔

ماحصل:

کتب بینی انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، تنہائی کی جاں گسل طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی نا ہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ، زندگی کے تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے۔ اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی اچھائی اور برائی سے باخبر ہونے لگتا ہے۔

آج کل کتابیں پڑھنے کا رحجان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں کتابیں پڑھنی چاہیے تا کہ آنے والے دنوں میں بچے بھی کتابیں پڑھیں۔ لازماً بچے وہی کرتے ہیں جو اپنے بڑوں کو کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ قصے، کہانیاں ، تاریخی کتابیں، اس کے علاوہ دیگر علوم کی کتابیں پڑھنی چاہیے۔ جو مستحق نہیں اگر انہیں شوق ہے تو انہیں لے کر دینی چاہیے۔

اے کتاب: ہم تیری عظمت واہمیت کو سلام کرتے ہیں اور تیری رفاقت ودوستی اختیار کرنے کا عزم مصمم کرتے ہیں، کیونکہ:

سُرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر