فکرِ شیخ الاسلام: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام و مرتبہ

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ام المومنین حضرت عائشہؓ کا خدمت دین کے باب میں کردار اور مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین پر استقامت اور ریاضت و مجاہدہ میں آپ کو کتنا تمکن حاصل تھا۔ خدمت دین اس وقت تک مقبول اور مبارک نہیں ہوتی جب تک دین کی خدمت کرنے والے خود اپنی زندگی سیرت و کردار کو اور اپنے شب و روز کو عملی نمونہ نہ بنالیں۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ حضور نبی اکرم ﷺ کی مقبول ترین زوجہ مطہرہ تو تھیں مگر خود وہ اپنی عملی زندگی میں دین کا عظیم الشان نمونہ تھیں۔ یہاں آپ کی حیات مبارکہ چند گوشے اختصار کے ساتھ بیان کیے جارہے ہیں جس کی روشنی میں آپ کے کردار کے مبارک پہلو کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

حضرت عائشہؓ عبادت و ریاضت کا پیکر:

آپؓ کا ذوق عبادت اور ریاضت و مجاہدہ اس قدر بلند مرتبے کا تھا کہ نماز میں طویل قیام فرماتیں۔ جس کو احمد بن حنبل نے اپنی المسند میں نقل کیا ہے۔ اس طرح نفلی نمازیں ادا کرتیں تو قرات کے دوران جب آیت وعید کا ذکر آتا آپ پر گریہ و زاری طاری ہوجاتی، آپ ان کا تکرار کرتیں۔ نماز کے بعد دیر تک آپ پر گریہ کی کیفیت طاری رہتی۔ فرض نمازوں کا یہ عالم تھا کہ آپ اکثر و بیشتر نماز پنجگانہ باجماعت اداکرتیں۔ وہ یوں کہ مسجد نبویؐ کے ساتھ آپؓ کا حجرہ مبارک متصل تھا۔ امام کی آواز آتی تھی سو مسجد نبوی کے امام کی اقتداء میں متصل اپنے حجرہ مبارک میں نماز ادا کرتی تھیں۔ جب خواتین زیادہ جمع ہوجاتیں تو الگ سے اہتمام کرتیں اور خود صف کے وسط میں قیام فرماکر انہیں نماز پڑھاتیں۔ آپ صائم الدھر تھیں اکثر و بیشتر روزے کا اہتمام فرماتیں۔ سخت گرمیوں میں بھی نفلی روزہ ترک نہ کرتیں۔ امام احمد بن حنبل نے المسند، امام ابن سعد طبقات میں آپ کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت کرتے ہیں ایک مرتبہ گھر پر تھیں، حج پر نہیں گئی تھیں نویں ذوالحج تھی۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق روزہ رکھا تھا کیونکہ سخت گرمی تھی۔ آپ اپنے اوپر پانی گرارہی تھیں۔ آپ سے افطار کرلینے کا کہا گیا فرمایا: میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ جو لوگ حج پر نہ گئے ہوں ان کے لیے یوم عرفہ کا روزہ پچھلے پورے سال کے لیے کفارہ بن جاتاہے۔

عبادت میں کوئی ایک فضیلت کا امر اپنی حیات میں ترک نہ کرتی تھیں۔ حتی کہ سفر میں بھی روزہ ترک نہ کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ آپ نے جہاد کو افضل ترین اعمال قرار دیا ہے۔ کیا ہم جہاد نہ کیا کریں؟ یعنی شوق جہاد پیدا ہوا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل عبادت حج مبرورہے دوسری روایت میں ہے۔ حج و عمرہ افضل عبادت ہے آپ اس پر اکتفاء کریں۔ اسی طرح آپ کی حیات طیبہ میں اور عادت مبارک میں جودوسخا کمال درجے کا تھا۔ تھوڑا زیادہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دست مبارک تک پہنچ جاتا یا آپ کی ملکیت میں آجاتا اسی وقت خیرات کردیتیں۔

حضورنبی اکرم ﷺ کے فرمان کو اکثر بیان فرماتیں۔ ’’دوزخ کی آگ سے بچائو اختیار کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کی خیرات کے ذریعے سے ہو۔‘‘ حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں بہت فتوحات ہوئیں۔ اموال کثرت سے آنے لگے جو مال آپؓ کے حصے میں آئے آپ اس مال کو اسی لمحے خرچ کردیتیں۔

امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں بیان فرمایا ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم آپ کے حصہ میں آئے۔ آپ نے سورج غروب ہونے سے پہلے پورا ایک درہم خیرات کردیا۔ ایک روز آپ کی خادمہ نے عرض کیا: حضور اگر آپ ایک درہم بچا کر رکھ لیتی اس سے ہمارے لیے کچھ گوشت آجاتا۔ فرمایا: بیٹے! اگر مجھے پہلے بتادیتیں تو میں بچا لیتی۔

زہد و ورع:

سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی زہد و ورع بھی کمال درجے کا تھا آپؓ نے پوری حیات مبارکہ میں فرائض و واجبات اور سنن کا پوری صحت سے اہتمام کیا اور شبہات سے بچیں۔ ایک روز ایک نابینا شخص سوال کرنے کے لیے آیا تو آپؓ نے اس سے پردہ کرلیا جس پر آپؓ سے کہا گیا کہ وہ تو دیکھتا نہیں اس پر آپؓ نے فرمایا کہ میں تو دیکھتی ہوں۔

آپؓ کے حجرہ مبارک میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر انور تھی۔ بعد ازاں حضرت صدیق اکبرؓ بھی وہاں مدفون ہوئے جب سیدنا فاروق اعظمؓ تو آپ پردے کا زیادہ اہتمام کرتیں کیونکہ وہ آپ کے لیے نامحرم تھے اس سے آپ کے اعتقاد کا اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب مزار حاضر ہونے والے کو دیکھتا ہے۔

دعوت و تبلیغ:

اس طرح دعوت و تبلیغ میں آپ کا کردار بڑا نمایاں تھا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بڑا اہتمام کرتیں، جب کسی کے عمل میں کوئی کمی بیشی آپ مشاہدہ فرماتیں اسی وقت اس کو حکمت و بصیرت اور محبت سے اصلاح اور تربیت کرتیں۔ آپ کا علم دین اتنا وسیع تھا کہ جس قرآن کے علم، علم التفسیر، علم الحدیث، علم فقہ میں گہرائی و گیرائی، عربی ادب، شعر و نثر، علم میراث، علم تاریخ، علم انساب، علم طب پر کمال درجے کی مہارت رکھتیں۔ علم میں آپ کا درجہ صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ میں بلند تھا۔ ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں۔

جسے امام ترمذی نے روایت کیا جب بھی صحابہ کرامؓ کو علمی مسائل میں اشکال ہوتا اور کسی سے کوئی حل نہ ہورہا ہوتا تو آپؓ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اس مسئلہ کو حل فرمادیتیں۔ آپ کے دروازے پر علم کا کوئی طلبگار بھی آتا مشکل حل کروائے بغیر واپس نہ جاتا۔ جلیل القدر صحابہ بھی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آکر سوال کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ آپ سے اخذ فیض، استفادہ اور مسائل دریافت کرتے۔ اس وجہ سے 100 سے زائد صحابہ کرامؓ، تابعین عظام نے آپ سے علم اور احادیث نبوی روایت کی ہیں۔ آپ کا درجہ صحابہ اور صحابیات میں استاذ کا تھا۔

امام زہری فرماتے ہیں آپؓ کے علم کو جملہ خواتین علماء کے علم کے ساتھ سے موازنہ کیا جائے بلکہ سب کے علم کو جمع کرلیا جائے تو بھی حضرت عائشہؓ کا علم ان سب سے وسیع تر ہے۔ امام بدرالدین زرکشی نے الاجابہ کے نام سے کتاب لکھی جس میں آپ کی دقت علم کو بیان کیا ہے۔

امام جلال الدین سیوطی نے عین الصحابہ کے نام سے ایک رسالہ رقم فرمایا ہے آپ کے علم کی گہرائی، گیرائی، فقہ اجتہاد علم کا بیان کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو آپ کا ہی حجرہ مبارک محبط وحی تھا اکثر و بیشتر نزول وحی آپ کے ہی حجرہ مبارکہ میں ہوتا۔ اسی وجہ سے آپ صحابہ کرام تابعین عظام کے لیے معلمہ تھیں۔ آپ مفسرہ، محدثہ، مجتہدہ، فقیہہ، زاہدہ، عابدہ، طیبہ طاہرہ تھیں۔ پوری امت مسلمہ کی ماں ہیں۔ آپ کا شمار کبار حفاظ حدیث و سنت میں ہوتا ہے۔ آپ پردہ کے پیچھے سے تعلیم دیتی تفسیر پڑھاتیں، حضور علیہ السلام کی حدیث روایت کرتیں۔ سنت نبوی کے احکام سمجھاتیں، استنباط اور اجتہاد کے ذریعے پوری امت کی رہنمائی فرماتیں۔ آقا علیہ السلام کے وصال کے بعد کم و بیش 50 برس تک حضور علیہ السلام کی سنت کو امت تک پہنچایا، حدیث نبوی کی تعلیم دی۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی مرویات 2210 ہیں یہ مسند عائشہ ہیں۔ اس میں متفق علیہ 174 ہیں جو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت ہوئی ہیں۔ بقیہ میں سے صحیح بخاری میں 54 اور صحیح مسلم میں 69 بیان ہوئی ہیں۔ بقیہ حدیث دیگر کتب احادیث ہیں۔

اگر آپ کی مرویات نہ ہوتیں تو سنت نبوی کا بہت بڑا حصہ امت کو معلوم نہ ہوسکتا۔ خاص کر سنت فعلیہ کا حصہ، آپ کا حجرہ مبارک اس امت کا سب سے بڑا مدرسہ، حدیث و سنت تھا۔ جہاں علم، فقہ، علم، حدیث، علم قرآن، علم تفسیر کے چشمے بہتے تھے۔ صحابہ کرام تابعین عظام مختلف شہروں سے اطراف عالم سے سفر کرکے آپ سے اکتساب فیض کرتے۔ آپؓ کا فیض آج بھی امت کو جاری ہے۔ آج بھی عالم رئویا میں ام المومنین حضرت صدیقہ حدیث کی اجازت فرماتیں ہیں حدیث کی سند حدیث کا سبق دیتی اور حدیث کا سبق سنتی ہیں۔ بخاری و مسلم کی کتب کی اجازت اور سند خود دیتی ہیں۔ آج بھی آپ کا فیض امت محمدی ﷺ میں جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ طریق جاری رہے گا۔

آپ نے حدیث میں روایت بالمعنی کا طریق اختیار نہیں اپنایا بلکہ روایت بالفظ پر تمسک کیا۔ ضبط الفاظ حدیث کا بڑی اہتمام کیا۔ امت کی سب بڑی فقیہ تھیں۔ کبار مجتہدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی طرف سے آپ سے فتویٰ طلب کیا جاتا احکام میں اجتہاد اور استنباط کرتیں، آپ نے بہت سے شاگرد چھوڑے جن میں عروہ بن زبیرؓ ہیں جنہیں عالم المدینہ کا لقب دیا جاتا تھا یہ آپ کے بھانجے اور حضرت اسما بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے طویل عمر آپ کی صحبت میں رہ کر اخذ علم اور اکتساب فیض کیا اور مدینہ طیبہ کے سب سے بڑے عالم بنے۔ اس طرح آپ کے تلامذہ میں حضرت قاسم بن ابی بکر آپ کے بھتیجے ہیں جو اتنے بڑے زاہد اور اتنے بڑے صوفی زہد و ورع کے پیکر تھے کہ دور دراز سے تابعین چل کر آپ سے اکتساب فیض کے لیے تشریف لاتے۔

آپ کے معمولات کو دیکھ کر دین سیکھتے۔ یہ قاسم بن محمد بن ابی بکر وہ ہستی آپکے درس کے دوران جن کی مسجد نبوی میں مسند حدیث تھی اور مسجد نبوی بھری رہتی تھی۔ طلبہ ان سے حدیث کا درس لیتے یہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے فیض کے قاسم ہیں۔ بعد ازاں ان کی مسند پر عبدالرحمن بن قاسم بن محمدبن ابی بکر بیٹھے۔ انہوں نے علم حدیث کے چشمے بنائے۔ یہی وہ نشست ہے جس پر بعد ازاں امام مالک بیٹھے۔ آپ کے تلامذہ میں ان تابعین کے علاوہ سعید بن مسیب جیسی جلیل القدر ہستیاں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عامر حضرت مسروق بن اجداء بھی ہیں۔ آپ سے حضرت عکرمہ نے بھی براہ راست اخذ علم اور اکتساب فیض کیا۔

اسی طرح خواتین میں بھی بہت سی مفسرہ، محدثہ اور فقیہہ ہوئیں جن کے ذریعے آپؓ نے امت میں علم کے چشمے اور دریا بہائے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں میں امت میں کسی ایسی عالمہ،محدثہ، فقیہا، مفسرہ سے واقف نہیں ہوں جن کا علم حضرت عائشہ ؓ جتنا ہو۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں انہوں نے آقا ﷺ سے علم کا بہت سا حصہ یاد کرلیا اور 50 برس تک اس نبویؐ علم کی امانت امت کو پہنچاتی رہیں اور کثیر تعداد میں خلق نے آپ سے اخذ علم کیا اور استفادہ کیا۔ اور دین کے احکام و اداب سیکھے اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں شریعت کے کم و بیش ایک چوتھائی احکام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقؓ سے مروی ہیں۔ آپ سے استفادہ کرنے والے جلیل القدر تلامذہ کا عدد88 ہے۔ جیسے خلق کثیر کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ بنت طلحہؓ کہتی ہیں کہ آپ مرجع خاص و عام تھیں ہر شہر سے طالبان علم سفر کرکے آپ کی بارگاہ میں آتے۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں کہاں ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ چشمہ علم محمدی ﷺ تھیں۔ آپ نے حضور ﷺ کے علم کے دریا بہادیئے۔ کتب حدیث آپ کی مرویات سے معمور ہیں۔ نسلاً بعد نسل امت کے علماء، محدثین ، مجتہدین، فقہاء بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ سے فیض لیتے رہے۔ دین میں آپ کی خدمات کا یہ عالم ہے کہ آپ ام المومنین تو ہیں ہی مگر محسنہ المومنین بھی ہیں۔ علم کے باب میں پوری امت کی سرپرستی فرمانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ سے اکتساب فیض کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے علم سے حاصل ہونے والے نور سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔