غربت کا خاتمہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

بلاشبہ دور حاضر میں انسانیت کے اجتماعی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ غربت و افلاس ہے ۔غربت کسی انسان کی ایسی حالت کا نام ہے جس میں اس کے پاس کم ترین معیار زندگی کے لیے اشد ضروری اسباب و وسائل اور ضروریاتِ زندگی کا فقدان ہو۔اگر سادہ اور آسان الفاظ میں دیکھا جائے تو غربت، بھوک و افلاس کا نام ہے یعنی ایک شخص کے پاس اتنی رقم میسر نہ ہو جس سے وہ اپنی یا اپنے اہل و عیال کی بنیادی ضروریات کو پورا کر سکے تو ایسا شخص مفلس ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی مفلسی اور امیری جیسے دو بنیادی تصورات موجود رہے۔ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، کمزور کے مال پر ناجائز تصرف، امراء میں مال و زر کی ہوس ایسی قباحتیں ہیں جنہوں نے اس تصور کو مزید واضح کیا ہے ۔مال و زر کی ہوس انسان میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اس کے سامنے دنیا کا ہر رشتہ و قانون ہیچ نظر آتا ہے ۔انسان کی اس فطرت کو اللہ رب العزت نے قرآن میں یوں ذکر فرمایا:

کَلَّا بَل لَّا تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ. وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِینِ. وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلًا لَّمًّا. وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.

(الفجر، 89: 17-20)

’’یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتے۔ اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔ اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے) اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔‘‘

بلاشبہ اللہ رب العزت نے انسان کے اندر مختلف طبقات بنائے ہیں۔ کسی کو عزت و نامور ی عطا فرمائی ہے تو کسی کو تقویٰ و رہبری سے نوازا ہے اور کسی کو دولت و مال کی فروانی عطا فرمائی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں انسان قارونی و سامراجی فکر کے زیر اثر اپنا مقصد حیات بھول جائے اور ارد گرد کے لوگوں کو غلام و کمزور سمجھ کر فرعون بن جائے۔ انسانی طبقات میں یہ تفاوت انسان کی آزمائش کے لیے ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاللهُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ فِی الْرِّزْقِ فَمَا الَّذِینَ فُضِّلُواْ بِرَآدِّی رِزْقِهِمْ عَلَی مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُمْ فَهُمْ فِیهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللهِ یَجْحَدُونَ.

(النحل، 16: 71)

’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)، مگر جن لوگوں کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنی دولت (کے کچھ حصہ کو بھی) اپنے زیردست لوگوں پر نہیں لوٹاتے (یعنی خرچ نہیں کرتے) حالانکہ وہ سب اس میں (بنیادی ضروریات کی حد تک) برابر ہیں، تو کیا وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُم مَّعِیشَتَهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ.

(الزخرف، 43: 32)

’’ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں (یہ غربت کا تمسخر ہے کہ تم اس وجہ سے کسی کو رحمتِ نبوت کا حق دار ہی نہ سمجھو)، اور آپ کے رب کی رحمت اس (دولت) سے بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے (اور گھمنڈ کرتے) ہیں۔‘‘

مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیوی زندگی کا دار و مدار اسباب ِ معیشت پر ہے ۔اللہ رب العزت نے ان اسباب و وسائل کو افراد و اقوام میں حکمت و حکم کے مطابق تقسیم کیا ہے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ عطاء فرمایا تاکہ لوگ ایک دوسرے کی خدمت لیں، ایک دوسرے کے محتاج بھی ہوں اور ان کے معاون بھی بنیں۔ صاحبِ ثروت لوگ اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ دوسرے کے حقوق کا بھی خیال رکھیں تاکہ کمزوروں اور مجبوروں کی مدد کر کے اخروی زندگی میں اللہ رب العزت کے حضور سر خرو ہو سکیں۔

معاشرے کے متمول اور صاحب ثروت افراد کا غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی معاشی معاونت اور مدد کرنا ان پر احسان کرنا نہیں بلکہ یہ اصل حقدار کو اس کا حق لوٹانا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَفِی أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ.

’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔‘‘

(الذاریات، 51: 19)

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ:

قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ فِی سَفَرٍ مَعَ النَّبِیِّ صلی الله علیه وسلم إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَی رَاحِلَةٍ لَهُ قَالَ فَجَعَلَ یَصْرِفُ بَصَرَهُ یَمِینًا وَشِمَالاً فَقَالَ رَسُولُ الله ﷺ: ’’مَنْ کَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْیَعُدْ بِهِ عَلَی مَنْ لاَ ظَهْرَ لَهُ وَمَنْ کَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِهِ عَلَی مَنْ لاَ زَادَ لَهُ.‘‘ قَالَ فَذَکَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَکَرَ حَتَّی رَأَیْنَا أَنَّهُ لاَ حَقَّ لأَحَدٍ مِنَّا فِی فَضْلٍ. رواه مسلم

’’ہم سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اتنے میں ایک شخص اونٹنی پر سوار آپ ﷺ کے پاس آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس اضافی توشہ (کھانا ) ہو وہ اس کو دیدے جس کے پاس توشہ (کھانا) نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے بہت سی قسم کے مال بیان کیے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ ضرورت سے زائد کسی شے میں بھی ہمارا حق نہیں ہے ۔‘‘

غربت کے خاتمہ کے لیے اسلام نے جو بنیادی اور اہم اقدامات اٹھائے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

گردش زر کا اصول:

غربت کی ایک وجہ دولت کا ارتکاز ہے یعنی دولت اگر چند ہاتھوں میں ہی مرکوز ہو کر رہ جائے گی تو پھر غربت میں اضافہ ہوگا لہذا اسلام نے دولت کو جمع کر کے رکھنے کی مذمت کی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَهَا فِی سَبِیلِ اللهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیم.

(التوبة، 9: 30)

’’اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔‘‘

شرعی اصطلاح میں کنز وہ مال ہے جس کی زکوۃ ادا نہ کی جائے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں:

وکل مال لا تؤدی زکاته فهو کنز.

’’ہر وہ مال جس کی زکوۃ نہیں دی گئی وہ کنز ہے ۔‘‘

مال جمع کرنے والے شخص کی ہلاکت کا صراحتا قرآن میں ذکر آیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَیْلٌ لِّکُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ. الَّذِی جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ. یَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ. کَلَّا لَیُنبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ. وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْحُطَمَةُ. نَارُ اللهِ الْمُوقَدَةُ.

(الهمزة، 105: 1-6)

’’ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے۔ (خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ہرگز نہیں! وہ ضرور حطمہ (یعنی چورا چورا کر دینے والی آگ) میں پھینک دیا جائے گا۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ حطمہ (چورا چورا کر دینے والی آگ) کیا ہے۔ (یہ) الله کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔‘‘

اگر دولت مختلف طبقات میں گردش کرتی رہے تو اس سے نہ صرف غربت کا خاتمہ ہوگا بلکہ ریاست بھی معاشی طور پر مستحکم ہوگی۔ چنانچہ اسی اصول کے پیش نظر اسلام نے صدقات و زکوۃ کا ایسا نظام وضع کیا ہے جس سے دولت کی گردش کا عمل جاری رہتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ کَیْ لَایَکُونَ دُولَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ.

(الحشر، 59: 7)

’’جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول ( ﷺ ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کے لئے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔‘‘

زکوۃ و صدقات:

اسلام نے معاشرے سے غربت کے خاتمے کے لیے زکوۃ و عشر کو فرض قرار دیا۔ جس کے تحت ہر صاحب نصاب مسلمان کو سال میں ایک مرتبہ اپنے مال میں سے ایک مخصوص حصہ اللہ کی راہ میں غربا و مساکین پر خرچ کرنا ضرور ی ہے۔ ارشا د باری تعالیٰ ہے:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِّنَ اللهِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ.

(التوبة، 9: 60)

’’بیشک صدقات (زکوٰۃ)محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں زکوۃ کے حکم کو نافذ کیا اور فرمایا:

ان الله فرض علیهم زکاة من اموالهم وترد علیٰ فقرائهم. رواه بخاری

’’اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی (جو صاحب نصاب ہوں گے) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کر دی جائے گی۔‘‘

انفاق فی سبیل اللہ:

انفاق فی المال کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے سرمایہ و دولت کو ضرورت مندوں پر اس طرح خرچ کیا جائے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو اور مالی طور پر مستحکم ہو سکیں۔قرآن کریم میں ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں صراحت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْکَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ.

(البقرة، 2: 254)

’’اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (الله کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

قَالَ اللهُ: أَنْفِقْ یَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَیْکَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔‘‘

حضرت اسماءj سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَنْفِقِی، وَلَا تُحْصِی فَیُحْصِیَ اللهُ عَلَیْکِ، وَلَا تُوعِی فَیُوْعِیَ اللهُ عَلَیْکِ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

’’خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔ ‘‘

باہمی تعاون:

اسلام میں نیکی و تقویٰ کے کام میں معاونت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوْا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ.

اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور الله سے ڈرتے رہو۔ بیشک الله (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنیا، نفس الله عنه کربة من کرب الآخرة، ومن ستر علی مسلم، ستره الله فی الدنیا والآخرة، والله فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیه.‘‘ رواه مسلم

’’جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہے۔‘‘

یعنی کسی مومن کی مدد کرنے اور اس کی مالی معاونت کرنے والے کا اجر یہ ہے کہ اللہ رب العزت ایسے بندہ مومن کی نہ صرف دنیا میں مدد فرما تا ہے بلکہ اس کی آخرت کی تکالیف اور مصائب کو بھی دور فرماتا ہے۔

اللہ رب العزت کے نزدیک وہ شخص محبوب ترین ہے جو لوگوں کی مالی و معاشی مشکلات کو دور فرمائے۔ حدیث مبارکہ ہے جس کو امام طبرانی نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور سوال کیا:

یَا رَسُولَ اللهِ أَیُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ وَأَیُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَحَبُّ النَّاسِ إِلَی اللهِ أَنْفَعَهُمْ لِلنَّاسِ، وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللهِ سُرُورٍ تُدْخِلُهُ عَلَی مُسْلِمٍ، أَوْ تَکْشِفُ عَنْهُ کُرْبَةً، أَوْ تَقْضِی عَنْهُ دِینًا، أَوْ تَطْرَدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلِأَنْ أَمْشِیَ مَعَ أَخٍ لِی فِی حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَعْتَکِفَ فِی هَذَا الْمَسْجِدِ، یَعْنِی مَسْجِدَ الْمَدِینَةِ. رواه طبرانی

’’اللہ کے ہاں محبوب ترین شخص کونسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ہاں محبوب ترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچائے۔اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل یہ ہے کہ تم کسی مسلمان کو خوش کرو یا اس سے کسی تکلیف دور کرو۔ یا اسکا قرض ادا کرو۔ یا بھوک لگی ہو تو اسکو کھانا کھلاؤ۔ اور مجھے اپنے اپنے بھائی کے ساتھ اسکی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے چلنا مسجد میں ایک ماہ کے اعتکاف سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

معاشی کفالت:

معاشی زندگی میں امدادِ باہمی کا اصول اسلامی ریاست کے قیام کے بعد سب سے پہلے نافذ العمل ہوا۔ریاست مدینہ کے قیام کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے مواخاتِ مدینہ کی صورت میں جس اسلامی نظام کو نافذ کیا اس کی بنیاد غربت و افلاس کا خاتمہ اور معاشی استحکام و بحالی تھی ۔

امدادِ باہمی اور کفالت عامہ کے تصور کے تحت اسلام نے پورے معاشرے اور اس کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داری قرار دی ہے کہ جو افراد محض اپنے وسائل سے اپنی جائز ضروریات کی کفالت نہیں کر سکتے ان کا بوجھ معاشرہ ان کے ساتھ مل کر اٹھائے۔غربا اور مساکین کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے والے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے جنت کی خوشخبری سنائی ہے۔چنانچہ حضرت ابوہریرۃ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’کافل الیتیم له او لغیره انا و هو کهاتین فی الجنة‘‘. رواه مسلم

’’میں اور یتیم کی خبر گیری کرنے والا خواہ اس کا عزیز ہو یا غیر ہو جنت میں اس طرح سے ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔‘‘

اسلامی نظام حکومت میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مفلوک الحال اور غربت کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کی بیت المال سے مالی معاونت کرے اور ان کی بحالی کے لیے اقدام کرے ۔اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ اور ان کے خلفائے کی واضح ہدایات موجود ہیں ۔حضرت ابوہریرۃ سے مروی ہے کہ

ان رسول الله صلی الله علیه وسلم کان یؤتی بالرجل المتوفی علیه الدین، فیسال: هل ترک لدینه فضلا؟ فإن حدث انه ترک وفاء صلی، وإلا قال للمسلمین: صلوا علی صاحبکم، فلما فتح الله علیه الفتوح، قال: انا اولی بالمؤمنین من انفسهم، فمن توفی من المؤمنین فترک دینا فعلی قضاؤه، ومن ترک مالا فلورثته.

’’رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ ﷺ دریافت فرماتے کہ مرنے والے نے قرض کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑا ہے یا نہیں۔ اگر کہا جاتا کہ اتنا چھوڑا ہے جس سے ان کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ ان کی نماز پڑھتے، ورنہ مسلمانوں سے کہتے کہ اپنے ساتھی پر تم ہی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر فتوحات کے دروازے کھول دیئے تو فرمایا کہ میں مسلمانوں سے ان کی خود اپنی ذات سے بھی زیادہ قریب ہوں اس لیے ان مسلمانوں میں جو کوئی وفات پائے اور قرض چھوڑے تو اس کی ادائیگی کی ذمہ داری میری ہے اور جو کوئی مال چھوڑے وہ اس کے ورثاء کا ہے۔‘‘

کسب معاش و محنت کی ترغیب :

دین اسلام میں غربت کے خاتمے کے لیے انسانوں کو کسب معاش اور جدوجہد کرنے کی بھی ترغیب دی ہے یہاں تک کہ رزق حلال کمانے والے کو اللہ کا محبوب بندہ قرار دیا گیا ہے۔جیساکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الکاسب حبیب الله.

’’محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔‘‘

اسی طرح اسلام نے انسانوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دی ہے ۔جیساکہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

خیرُ الکسبِ کسبُ یدِ العاملِ إذا نصَح. رواه احمد.

’’بہترین کمائی مزدور کے ہاتھ کی کمائی ہے بشرطیکہ وہ خیر خواہی اور بھلائی کے ساتھ کام والے کا کام انجام دے۔‘‘

اسی طرح طلب حلال اور کسب معاش فرض عبادات کے بعد اہم درجہ رکھتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیضَةٌ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ. رواه بهیقی

’’رزق حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے۔‘‘

مذکورہ بالا مندرجات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دین اسلام غریبوں اور فقراء کو کئی طرح کے حقوق عطا فرماتا ہے اور مال دار اور متمول طبقے پر کچھ فرائض عائد کرتا ہے ۔تاکہ معاشرے میں سے غربت کا خاتمہ کیا جاسکے اور معاشرے کے کمزور افراد کو مالی و معاشی طور پر مضبوط کیا جاسکے۔ بلاشک و شبہ اگر اسلامی معاشرے میں ان تعلیمات اسلامیہ پر امت مسلمہ عمل پیرا ہو جائے تو ہمارے اسلامی ممالک میں غربت کا ممکنہ حد تک خاتمہ ہو جائے۔ یہ ایسے امور ہیں جن کے ذریعے معاشرے کو مالی اعتبار سے مساوی اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔