منہاج القرآن ویمن لیگ کے اہداف اور امتیازات

محمد شفقت اللہ قادری

منہاج القرآن ویمن لیگ کے اہدافی امتیازات اور اس کے دائرہ کار کا تعین کرنے سے قبل خواتین کو ودیعت شدہ درج ذیل امتیازات کی روشنی میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے تحریکی اہداف، ماحصل اور نظریاتی و معاشرتی چیلنجز میں موثر کردار کا عملی تعین اور خواتین کے تعمیری اور نظریاتی کل پر ایک طائرانہ نظر ڈالنی ہوگی:

خواتین کے امتیازات کا دائرہ کار:

  1. توقیر حواؑ کا الوہی امتیاز
  2. توقیرِ عورت کا قرآنی امتیاز
  3. توقیرِ عورت کا نبوی امتیاز
  4. امہات المومنین کی سوانح مظاہرہ کی روشنی میں عورت کا خصوصی امتیاز

توقیر حوا کا الوہی امتیاز:

یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘

(النسآء، 4: 1)

قارئین محتشم! یہ درحقیقت تخلیق حواؑ کی طرف توجہ مبذول کروائی جارہی ہے کیونکہ کائنات کے چند مافوق الفطرت واقعات میں سے ایک خاص معجزانہ کرشمۂ قدرتِ کاملہ رونما ہوا۔ خالق کے حکمِ کُن اور توجہ تخلیقی کے باعث حضرت حواؑ کو حضرت آدمؑ کی بائیں پسلی سے پیدا کیا۔ قادر مطلق کا مطمع نظر آدم و حوا کو عین فطرت کے مطابق تسکین اور اطمینان بخشنا تھا اور دوسرا عظیم اور اصل مقصد جس کی غمازی سورہ النساء کی مذکورہ آیت میں ہوچکی کہ تخلیقی پیدائش کی ابتدا آدمؑ سے ہوئی پھر جوڑا پیدا فرمایا یعنی کہ تخلیقِ حواؑ مافوق الفطرت طریق سے ہوئی پھر دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں کی (تخلیق) کو پھیلادیا۔ اس امر میں خدا تعالیٰ کی دسترس کاملہ کے لیے قرآن فرماتا ہے:

یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ ط اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.

(فاطر، 35: 1)

’’اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔‘‘

لطیف منطقی نکتہ وجدانی:

جس طرح تخلیق آدمؑ مافوق الفطرت طریق سے قادر مطلق خالق عـظیم نے کی اور آدمؑ کو مسجود ملائکہ بنایا۔ اس کا خاص مطمع نظر اشرف المخلوق آدمؑ ہی تھا اور اشرف المخلوق آدمؑ کی منطقی اور تخلیقی حقیقت مقصدِ تخلیقِ کائنات حبیب کبریا، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺ کے بشری مجسم حقیقتِ وجودِ مسعود کی مبارک ولادت اور تشریف آوری تھا۔

قارئین محتشم! عین اسی طرح قادرِ مطلق صانعِ عالم ہائے ہفت رب کائنات نے اپنی خاص حکمت عالی کے باعث اماں حواؑ کو مافوق الفطرت طریق سے حضرت آدمؑ کی بائیں پسلی (Rib) سے تخلیق کیا، اصل حقیقت بھی خدا اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ تاہم ایک لطیف نکتہ ایمانی ووجدانی آپ کے ذوق آگہی کے لیے حاضر ہے۔

یاد رہے کہ تخلیق آدم فرشتوں کی نگرانی میں حکم ایزدی سے روبرو عالم نور ملائکہ کے ذریعے تکمیل پذیر ہوئی۔ جب خالق تخلیقی تشکیل فرمارہا تھا تو لمحہ لمحہ فرشتے مشاہدہ تخلیق آدم ملاحظہ بھی فرمارہے تھے جب تمام اجزائے ترکیبی و جسمانی تکمیل پذیر ہوئے تو اس میں روح پھونک کر فرشتوں کو سجدہ آدمؑ کا حکم دیا۔ ابلیس کے علاوہ سب سجدہ ریز ہوگئے۔

سبحان اللہ! اے عورت دخترِ حوا! تیری تعظیمی و توقیری عظمت و فوقیت ازل سے خالقِ کائنات رب العظیم کی منشا ایزدی میں پنہاں تھی۔ میری نظر میں سب سے پہلے رب کائنات نے خود اپنی تخلیق یعنی کہ عورت کو توقیر، حیا، عصمت، عظمت اور شرف بخشا جب تخلیق حواؑ کا عین لمحہ تخلیق آیا تو خالق عظیم قادر مطلق نے توقیرَ حوا اور احترامِِ عورت اور تحریم و تکریم خواتین عالم کے پیش نظر اور اجزائے ترکیبی جسمانی کے لحاظ سے تخلیق حواؑ ظاہراً سر عام فرشتوں سے بھی مخف رکھنا چاہی تو اپنی خاص قدرت کاملہ اور صانع گری کے باعث حضرت حواؑ کو حضرت آدمؑ کی بائیں پسلی (Rib) سے تخلیق فرمادیا۔

خاص منشا ایزدی یہ تھی کہ کہیں بے توقیری جسمانی حواؑ کی فرشتوں کے روبرو بھی ممکن نہ ہوجائے۔ جو پہلے نبی کی پہلی زوجہ ذی وقار ہے اور پوری انسانیت کی ماں بھی۔ یاد رہے تخلیق حواؑ کو خاص توقیر اکرام بخش کر رب کائنات نے ماں کا احترام و مقام بلند و مرتفع کردیا، فوری تخلیق کے بعد آپؑ کو جنتی لباس سے ملبوس مزین فرمادیا گیا اور آدمؑ و حواؑ کو ایک دوسرے کا لباس توقیری بنادیا۔

توقیر حرمت عورت کا قرآنی امتیاز:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ.

(النور، 24: 31)

’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں ۔‘‘

اسی طرح قرآن عظیم کی ایک اور سورہ بھی توقیر و اکرام عورت کے امتیازی گوشہ تحریم کی حامل ہے۔ جب روئے کائنات تیسرا مافوق الفطرت واقعہ رونما ہوا اور خالق عظیم قادر مطلق نے عورت پر مہر اکرام و توقیر اپنے حکم قرآنی سے ثبت کردی:

وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰکِ وَطَهَرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ.

(آل عمران، 3: 42)

’’اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے۔‘‘

معزز خواتین حاضرات! خاص لطیف نکتہ توجہ طلب یہ ہے کہ جب خالق عظیم نے ایک خاص واقعہ مافوق الفطرت کے رونما ہونے کے بعد پاکیزگی اور احترام حضرت مریمؑ پر مہر ثبت فرمائی تو عورت کو الوہی توقیر و عظمت کی حامل ہونے کے بعد شکرانہ نعمت کے طور حضرت مریمؑ کو قرآنی حکم کے ذریعہ روئے کائنات کی معزز عورت (دختر حواؑ) کو ایک تکریمی تحریمی ضابطہ عطا کیا۔ حکم قرآنی:

یٰـمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ.

’’اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔‘‘

(آل عمران، 3: 43)

معزز خواتین و حضرات! قائد عظیم المرتبت مجتہد اعظم، مجدد صدی حاضر، داعی مصطفوی انقلاب، حقیقی علمبردار تحفظ ناموس و حقوق نسوانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآن عظیم کی روشنی میں حقوق خواتین کے چند امتیازی حقوق کی نشاندہی کی۔ آپ کے علمی ذوق و آگاہی اور تشنگی کے باعث حاضر خدمت ہیں۔

اسلام میں عورت کا مقام اور حقوق کا تعین:

قرآن عظیم کی روشنی میں مختصراً جائزہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی حوالے سے عورت کے مقام کا تعین کرتے ہوئے مندرجہ ذیل سات نکات بیان فرمائے ہیں۔ ملاحظہ ہوں اور یہی نکات منہاج القرآن ویمن لیگ کے تعمیر معاشرہ میں تحریکی اہداف جدوجہد ہیں۔

اول: ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی:

اسلام کی آمد کے ساتھ ہی عورت کے لیے غلامی، ذلت اور جبر و استحصال کی ساری زنجیریں ٹوٹ گئیں۔ اسلام نے ان تمام روائتی اور ظلم استبداد پر مبنی رسومات کا قلع قمع کردیا اور عورت کو معاشرے میں وہ عزت و تکریم ملی جو مرد کو ملی۔

دوم: تکوین انسانیت میں عورت اور مرد کو ہم مرتبہ بنادیا:

جاہ و منصب اور مرتبے کے اعتبار سے اسلام نے عورت اور مرد کو قدرو منزلت اور تکوین انسانیت میں برابر رکھا۔

سوم: عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت کا خاتمہ:

اسلام نے عورت پر سے دائمی معصیت کی لعنت کا خاتمہ کردیا۔ جنت میں دونوں کو وسوسہ ڈالنے کا موجب اور ذمہ دار فقط شیطان قرار پایا۔ جس کے نتیجے میں آدمؑ و حواؑ دونوں جنت سے اخراج کا سبب بنے۔

چہارم: اجر و انعام میں برابر کا استحقاق:

اسلام نے مرد و عورت کو یعنی کہ آدمؑ و حواؑ کو اجر میں برابر کا مستحق قرار دیتے ہوئے دونوں کو جزا میں برابری عطا کی۔

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی ج بَعْضُکُمْ مِّنْ م بَعْضٍ.

’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو۔‘‘

(آل عمران، 3: 195)

پنجم: عورت کو زندہ درگور کرنے کی رسم کا خاتمہ:

قبل از اسلام عورت کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا اس رسم کا اسلام نے کلیتاً خاتمہ کردیا۔ یقینا یہ عمل توقیر حوا اور احترام انسانیت کے منافی تھا جو شارح قرآن شارع اسلام نے ختم فرمایا۔

ششم: حق نفقہ کی ضمانت فراہم کی:

اسلام نے مرد کو عورت کے حق نفقہ کا ضامن بناکر اسے روٹی کپڑا اور مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت کے لیے حکم دیا کہ ولی الامر کی جانب سے ملے گی۔

ہفتم: عورت کی تذلیل کرنے والے زمانہ جاہلیت کے نکاح کا خاتمہ:

اسلام نے عورت کی تذلیل اور توہین والے جاہلانہ نکاح ممنوع قرار دے دیئے۔

مطابق شیخ الاسلام عورت کے انفرادی حقوق:

مختصراً اجمالی طور ذکر کرکے نشاندہی کی جاتی ہے:

1۔ عصمت و عفت کا حق ودیعت کیا (حکم قرآنی)

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ.

’’آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔‘‘

(النور، 24: 30)

2۔ عزت و رازداری کا حق:

معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت، عصمت کی حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں مضمر ہے۔ حضور اقدس ﷺ نے خواتین کو رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرہ کو اس حق کے احترام کا پابند کیا۔

3۔ حق تعلیم و تربیت عطا کیا:

حضور اقدس ﷺ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا جتنا مردوں کے لیے۔ اسلام کی تعلیمات کا آغاز بھی اقرا سے کیا گیا اور عورت کی تعلیم و تربیت کو شرف انسانیت قرار دیا۔ مرد و عورت کو یکساں مساوی تعلیم کا حق حاصل ہے۔

4۔ حسن سلوک کا حق خاص عطا کیا:

حضور اقدس ﷺ نے عورتوں سے حسن سلوک کی باقاعدہ تعلیم دی اور زندگی کے عام معاملات میں بھی عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت محبت پر مبنی سلوک کی تلقین فرمائی۔

5۔ حق ملکیت و جائیداد تفویض کیا:

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔ وہ نہ صرف خود جائیداد خریدوفروخت کرسکتی ہے بلکہ وراثت میں حاصل جائیداد کی کامل مالکہ بھی بن سکتی ہے۔

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ.

(النساء، 4: 32)

’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔‘‘

اسلام نے عورت کا حق ملکیت طلاق کی صورت میں بھی قائم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ عورت کو اسلام نے بہت حقوق طلاق ہوجانے کے بعد بھی عطا کیے ہیں۔

6۔ حرمت نکاح کا حق عطا ہوا:

دور جہالت میں اسلام سے قبل مشرکین عرب بلا امتیاز عورت سے نکاح جائز سمجھتے تھے۔ حتی کہ سوتیلی ماں سے بھی نکاح کرلیتے تھے۔ اسلام نے ایسے تمام نکاح حرام قرار دیئے اور باقاعدہ حرمت کا ضابطہ عطا فرمایا۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں نکاح کے شرعی قوانین کا تعین کرکے لاگو فرمائے۔

تحریم تکریم خواتین کانبوی ﷺ امتیاز:

یہ امر اظہر من الشمس ہے آقائے دو جہاں رسول انور ﷺ نے روئے کائنات تمام اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے دے کر عورت کو ماں کے روپ کے حوالے سے ماں کو معظم و محترم ترین مقام عطا فرمایا اور عورت کے تین روپ بہترین خونی رشتوں کی معراج قرار دیئے۔ ماں، بیوی اور بیٹی۔ انہی رشتوں کی عائلی زندگی میں خاص اہمیت ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں بھی اہمیت ہے۔ حدیث میں ہے:

الجنة تحت اقدام الامهات.

’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔‘‘

عورتوں پر خصوصی رحیمی و شفقت کا ہاتھ:

اسلام سے پہلے معاشرے میں عورت ہمہ وقت تذلیل، ظلم و بربریت کے باعث جبر استحصال کی چکی میں پسی ہوئی تھی۔ حقارت بے توقیری کی کھلی علامت بن کر رہ گئی تھی۔ مال تجارت سمجھا جانے لگا اور حتی کہ بچی کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا۔ بعثت نبوی کے بعد حضور اقدس ﷺ نے عورت کا قرآنی مقام متعین فرمایا عورت کے حقوق و فرائض کا تعین فرمایا۔ ماں، بیوی، بیٹی تینوں حیثیتوں کو معراج بخشا۔

غزوہ موتہ میں کافر خواتین کا احترام:

غزوہ موتہ جب ہوئی تو چند کفار و خواتین بھی پکڑی گئیں اور مردوں کے ہمراہ جنگ کے ماحول میں لائی گئیں۔ حالات کی شدت دیکھتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کافر عورت پر قطعی ہاتھ نہ اٹھایا جائے اس کی عزت تحریم و تکریم مسلمان عورت کی موافق رکھی جائے۔

خطبہ حجۃ الوداع میں خواتین کی اہمیت:

حضور اکرم ﷺ نے انسانیت کے امن و تحفظ و سلامتی کے جس منشور ہدایت ایزدی کے تحت اعلان فرمایا اسے خطبہ حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ یعنی کہ بنی نوع انسان کے لیے ایسا جامع اور ہمہ گیر دستور دیا اس خطبہ حجۃ الوداع میں آقائے دو جہاں ﷺ نے انسانی حقوق کا مکمل ضابطہ حیات مقرر فرمادیا۔

مطابق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بحوالہ کتاب اسلام میں انسانی حقوق صفحہ 581 خطبہ حجۃ الوداع کے عنوان میں پندرہ نکات کی حقوق کے حوالے سے اہمیت اجاگر کرتے ہوئے خصوصی نقطہ نمبر 12 فقط تحفظ حقوق خواتین پر ہے۔

خطبہ حجۃ الوداع میں تحفظ خواتین کے لیے حکم:

مندرجہ ذیل دو گوشے خصوصی قابل ذکر ہیں جن کا حکم آقائے دوجہاں ﷺ نے دیا۔

1۔ لوگو! آگاہ رہو تمہاری عورتوں پر تمہارا ایک حق ہے اور تم پر بھی ان عورتوں کا ایک حق ہے۔

2۔ لوگو! تمہاری بیویاں تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ کی امانت ہیں، میرا حکم ہے کہ تم پر ان کے لیے نیک سلوک واجب ہے۔

حضور اکرمؐ بحیثیت سربراہ خاندان معلم حقوق زوجین ٹھہرائے گئے:

بحیثیت سربراہ خاندان نبی اکرم ﷺ اپنے عمل سے بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کی باقاعدہ تعلیم فرمائی اور معلم انسانیت کے ساتھ ساتھ معلم حقوق نسواں اور معلم حقوق زوجین بھی ٹھہرائے گئے۔ حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کی روشن دلیل کہ عورت کو بطور بیوی عزت و احترام پر مبنی معاشرتی و سماجی مرتبہ عطا کیا اور عورت کو منجملہ معاشی حقوق کے تحفظ سے بھی نوازا۔

روشن دنیا میں مغربی عورت کی معاشی اور اقتصادی حالتِ زار:

مسلم خواتین کے لیے خاص توجہ طلب تجزیہ پیش خدمت ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ عورت دنیا کے دو تہائی کام کے گھنٹوں میں کام کرتی ہے مگر اس کو دنیا کی آمدنی کا دسواں حصہ ملتا ہے اور وہ دنیا میں املاک کی دسویں حصہ سے بھی کم کی مالک ہے۔

عورت کے بحیثیت ماں، بیوی، بیٹی خاص ذوق آگہی کے پیش نظر لفظ عورت کی حروفی تفسیر ملاحظہ ہو۔

لفظ عورت کا حرف (ع) معنوی مرادی اعتبار سے غماز ہے لفظ عفت کا جس کا مفہوم ہے عصمت، پارسائی، پاک بازی۔

لفظ عورت کا (و) مرادی و معنوی اعتبار سے غماز ہے لفظ وفا جس کا لغوی مفہوم ہے دل و جان سے فریفۃ، خیر خواہ، جانثار

لفظ عورت کا حرف (ر) معنوی مرادی اعتبار سے غماز ہے لفظ رحمت کا جس کا لغوی مفہوم ہے کرم ،عطوفت، مہربانی، خدا کی عنایت، عطائے خداوندی۔

لفظ عورت کا حرف (ت) معنوی و مرادی اعتبار سے اس کا غماز لفظ ہے تکریم جس کا لغوی مفہوم ہے احترام، توقیر۔

اجتماعی حروفی تفسیر لفظ عورت:

اجتماعی حروفی تفسیر یہ ٹھہری کہ عورت عفت مآبی اور پارسائی کی علامت، وفا کی دیوی، رحمتِ خداوندی، عطوفت، مہربانی اور احترام تکریم انسانیت کا آسمانی خوبصورت حوالہ ہے جس کے بغیر یہ کائنات رنگ و بو بے نور ہے۔

امہات المومنین کی سوانح حیات کی روشنی میں ازواج مطاہرات کا نبوی امتیاز:

امہات المومنین کی عائلی اور مثالی زندگی مومن عورتوں کے لیے خاص مشعل راہ اور نمونہ ابدی حیات ہے۔ امہات المومنین کے لیے قرآن مخاطب ہوا:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰـتُهُمْ.

(الاحزاب، 33: 6)

’’یہ نبیِ (مکرّم ﷺ ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر قرآن مخاطب ہوا:

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّـاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ.

(الاحزاب، 33: 59)

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔‘‘

یاد رکھیں نبی اقدس ﷺ کی عائلی زندگی بطور سربراہ خاندان نہ صرف امہات المومنین کے لیے نمونہ حیات نبویؐ کا نچوڑ اور جوہر نایاب ہے۔ قرآن نے دونوں آیات مقدسہ میں دو ضابطے مضمر کردیئے ہیں۔

1۔ ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں ہیں۔

2۔ پھر قرآن عظیم نے امہات المومنین اور صاحبزادیان رسول محتشم ﷺ کے ساتھ مسلمان عورتوں کو بھی ضروری ستر کے لیے اپنے اوپر چادریں اوڑھنے کا حکم صادر کرکے تقدس عورت اور حرمت حوا کا دائمی ضابطہ اخلاق دے دیا جبکہ میری نظر میں عام خواتین کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ایسا حکم صادر ہوا کیونکہ حیا پردہ دائمی طور امہات المومنین کی پہچان تھا اور رسول کی بیٹیوں کا الوہی تقدس تھا جن کے لیے محشر میں اور جنتیوں کو بھی پردہ کرنے کا حکم ہوگا کہ نبی کی صاحبزادہ فاطمۃ الزہراؓ تشریف لارہی ہیں جنتی مرد پردہ کرلیں۔

امہات المومنین کی عائلی تربیت گاہ پوری عالم نسوانیت کی عائلی تعلیم تربیت کا مرکز تھا اور پوری امت کی خواتین کی عزت نفس، عدل و انصاف کی فراہمی، تحفظ حقوق عائلی قوانین مکتب رسالت مآب کا عالی مرتبت نصاب تطہیر ازواج مطہرات اور مسلم خواتین کی عملی و عائلی زندگی کی ضمانت ہے۔ دیگر جو امور تحفظ خواتین اس عائلی مکتب میں مرتب ہوئے درج ذیل ہیں:

1۔ اختلاف میں مصالحت کروانا

2۔ نفقہ سکنی (گزر بسر کے لیے نان نفقہ کا انتظام کرنا)

3۔ عورت کے حق مہر کی ادائیگی

4۔ ایک سے زائد بیویوں میں عدل قائم رکھنا

5۔ باعصمت عورتوں کی عزت کی حفاظت کرنا اور ان پر تہمت کے گناہ سے بچنا

خصوصی تنبیہ فرماتے ہوئے قرآن مخاطب ہوا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْٰاخِرَةِ ص وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.

(النور، 24: 23)

’’بے شک جو لوگ ان پارسا مومن عورتوں پر جو (برائی کے تصور سے بھی) بے خبر اور ناآشنا ہیں (ایسی) تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت (دونوں جہانوں) میں ملعون ہیں اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔‘‘

امید واثق ہے کہ میں قرآن و سنت کی روشنی میں کس حد تک حوا کی بیٹی کا تقدس اور عورت کا قرآنی اور نبوی امتیاز سمجھانے میں کامیاب ہوا ہوں گا جس کا در حقیقت مقصد خواتین کو اس کی کھوئی ہوئی نشاۃ ثانیہ سے روشناس کروانا ہے اور اس تحریری جدوجہد کا اصل مقصد منہاج القرآن ویمن لیگ کے عملی و تحریکی اہداف کا تعین اور دائرہ کار بتانا مقصود ہے جس کی بدولت شیخ الاسلام کی روحانی بیٹیاں شرق تا غرب جان فشانی سے دیگر لاکھوں فرزندان منہاج کے ہمراہ شانہ بشانہ تحریکی اہداف پوری کامیابی سے پورے کررہی ہیں۔

معزز خواتین و حضرات! منہاج القرآن ویمن لیگ کے اہدافی امتیازات اور اس کے دائرہ کار کا تعین گزشتہ طویل نگارش میں چار جہتوں سے کرنے کی کوشش کرچکا ہوں جو درج ذیل ہے اور یہی ویمن لیگ کا قرآنی اور شرعی نصاب معرفت بھی ہے۔ یعنی کہ

1۔ توقیر حوا کا الوہی امتیاز

2۔ توقیر حرمت عورت کا قرآنی امتیاز

3۔ توقیر اکرام عورت کا نبویؐ امتیاز

4۔ امہات المومنین کی سوانح حیات کی روشنی میں ازواج مطہرات کا نبوی امتیاز

اور یہی امتیازات منہاج القرآن ویمن لیگ کی تحریکی تعمیری گزشتہ گزری جدوجہد اور آئندہ کی حکمت عملی کے ساتھ کی جانے والی جدوجہد کا مطلوبہ منطقی نکتہ عروج ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کے تحریکی اہداف کا دائرہ کار اور ترجیحات:

منہاج القرآن ویمن لیگ کی نظامتیں اور شعبہ جات:

منہاج القرآن ویمن لیگ کے تحت مندرجہ ذیل چار نظامتیں اپنے تحریکی نظریاتی اہداف پورے کرنے میں کوشاں ہیں:

  1. نظامت دعوت
  2. نظامت تربیت
  3. نظامت تنظیمات
  4. مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ (طالبات)

1۔ نظامت دعوت:

خواتین کو قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات اور اہمیت سے روشناس کروانے کے لیے اور تحریک کے فکری ونظریاتی بیداری شعور کے پیغام کو خاص و عام خواتین تک پہنچانے کے لیے نظامت دعوت ہمہ وقت کوشاں ہے۔

2۔ نظامت تربیت:

بامقصد زندگی گزارنے کے لیے عملی تربیت اور تعمیر شخصیت کے ذریعے موثر و مثالی کردار کی حامل خواتین کی تیاری کے لیے نظامت تربیت موثر اقدامات اٹھائے ہوئے ہے اور کامیابیوں کی طرف گامزن ہے۔ شب روز اپنے اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے جو وقتاً فوقتاً مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ویمن لیگ کی مشاورت سے مرتب کیے جاتے ہیں اور باقاعدہ اجازت اور سرپرستی فرمائی جاتی ہے۔

3۔ نظامت تنظیمات:

انتہائی حساس اور اہم نظامت ہے جس کا دائرہ کار انتہائی وسیع و عریض ہے۔ اس میں نئی تنظیمات کا قیام اور موجودہ تنظیمات کا استحکام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا پورا نیٹ ورک پورے ملک میں حرکت پذیر اور اپنے مکمل اہداف کی طرف بڑھ رہا ہے۔

4۔ مصطفوی سٹوڈنٹ موومنٹ (طالبات):

مصطفوی سٹوڈنٹس کے شانہ بشانہ گرلز کالجز میں اور یونیورسٹیوں میں شیخ الاسلام کے مرتب کردہ پرامن پاکیزہ جدوجہد کے قواعد و ضوابط کے ساتھ ایک طویل عرصہ سے تحریکی علمی و عملی طور پر کام کررہی ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کے عملی اہدافی امتیازات

مندرجہ ذیل نظریاتی اور عملی اہداف تحریک ہیں جو منہاج القرآن ویمن لیگ لاکھوں مردوں کے شانہ بشانہ تجدید و احیائے دین کی عظیم تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے قائد عظیم المرتبت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی وعملی نظریاتی جدوجہد کے جھنڈے تلے سرانجام دے رہی ہے اور ہمہ وقت کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔

مخصوص علمی و نظریاتی اہداف درج ذیل ہیں:

جس کی تشہیر وقتاً فوقتاً ویمن لیگ کے لٹریچر اور دیگر ذرائع سے ہوتی رہتی ہے۔ تاہم خلاصۃً یاد دہانی کے طور پر پیش خدمت ہیں:

ہدف اول: اللہ تعالیٰ سے تعلق بندگی میں مضبوطی اور استحکام کی دعوت

ہدف دوم: حضور اکرم ﷺ کی ذات و سیرت سے تعلق کی پختگی کی دعوت

ہدف سوم: رجوع الی القرآن کی دعوت اور قرآن سے تعلق مضبوط کرنا

ہدف چہارم: مسلم خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنا اور غیر مسلم خواتین کو اسلام کی دعوت دینا

ہدف پنجم: قوم کی بیداری شعور کے لیے باشعور قوم کی پرورش کے لیے اچھی ماؤں کی تلاش کرنا اور تربیت دینا

ہدف ششم: امت مسلمہ کے زوال کے اسباب سے آگاہی دے کر خواتین میں امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے جدوجہد کا نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کرنا

ہدف ہفتم: خواتین میں اپنے حقوق کا تحفظ اور فرائض کی ادائیگی کا احساس پیدا کرنا

ہدف ہشتم: خواتین میں تعلیم کے حصول اور فروغ کے لیے جدوجہد کرنا

ہدف نہم: خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے مواقع فراہم کرنا

ہدف دہم: خواتین کی فلاح و بہبود کے کام کرنا

ہدف گیارہ: خواتین میں اخلاقی اقدار کی ترویج کرنا

ہدف بارہ: ملک کے ظالمانہ اور کرپٹ نظام کی تبدیلی کے لیے قوم میں بیداری شعور کا فریضہ سرانجام دینا

معزز خواتین و حضرات! منہاج القرآن ویمن لیگ کے یہی اہداف میری ان نگارشات کا قرآنی و نبویؐ طریق اور ماحصل ہیں۔