عصرِ حاضر میں معلم کا کردار

سمعیہ اسلام

تعلیم (Education) اپنے وسیع تر معنوں میں وہ چیز ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔ اپنے تکنیکی معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اور اقدار ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتا ہے اس کے لیے استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو طالب علم کی مدد و معاونت و رہنمائی کرتا ہے اور مدارس، اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اوردرس گاہیں استادکے بغیر بالکل ایسے ہی ہیں جیسے کہ ماں کے بغیر گھر ہوتا ہے۔ایک استاد سیکھنے کے عمل میں انتہائی موثر و مستند راہبر ثابت ہوتا ہے، استاد معمار قوم ہوتا ہے، وہ قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتا ہے اور انہیں تراش خراش کر قیمتی ہیرا بناتا ہے۔ تعلیم کے بغیر مسلمانوں کو عروج کسی طور پر حاصل نہیں ہوسکتا۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ معیاری تعلیم کا فروغ وقت کا اہم تقاضا ہے۔ تعلیم ہی معاشرتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے وسائل مہیا کرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پوراکرنے کیلئے معلّم کاکردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

استاد کے بغیر درس و تدریس ناقص ہے۔ دور حاضر ٹیکنالوجی سے بھرپور دور ہے لیکن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ وغیرہ استاذکا نعم البدل نہیں ہو سکتے ہیں اگرچہ انٹرنیٹ کی مدد سے ہر طرح کی معلومات تو ایک کلک پر میسر ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ معلومات صحیح اور درست بھی ہوں یہ ہمیں معلومات تو دے سکتا ہے مگر صحیح اور غلط کی تمیز نہیں سکھا سکتا، جو استاذ ہمیں سکھاتا ہے۔ انٹرنیٹ انسان کو ذہین تو بنا سکتا ہے مگر اس کی تربیت نہیں کرسکتا ہے گویا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے انٹرنیٹ کتنی ہی جدت اختیار کیوں نہ کر لے مگر استاذ کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے کیونکہ استاذ اپنے تجربات اور مشاہدات سے سکھاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں ہے جہاں وہ اچھائی اور برائی کے درمیان فرق کرنا سکھا سکے اور استاذ ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ صرف سکرین دکھا سکتا ہے اس لئے ہر دور میں استاد بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی ضرورت پڑتی ہے شاید ہی ماں باپ کے علاوہ کوئی ذات انسان کی ذات پر اتنا اثر رکھتی ہے جتنا استاذ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے استاذ کی طرح بننے کی کوشش کرتا ہے۔

استاذ کا کردار ہمیشہ سے انسان کی زندگی کا اہم جزو ہوتا ہے اور یہ اس کی ذات سے جھلکتا بھی ہے کیونکہ استاذہمیں صرف پڑھاتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ہماری ذات کی تشکیل بھی کرتے ہیں اسی لیے تو استاذ کا مقام بہت بلند ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک اور مہذب قوم میں استاذسے زیادہ کسی شخص کا پروٹوکول نہیں ہوتا ہے اورجہاں استاذ کا پروٹوکول نہیں ہوتا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے انکار کر دیا جاتا ہے وہاں پستی ہی پستی ہوتی ہے اور کوئی اپنی مرضی سے استاذنہیں بننا چاہتا ہے جس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا ہے وہ اس شعبہ کا مجبورا انتخاب کرتا ہے! پھر اس کے نتیجے میں ایک مفلوج قوم پیدا ہوتی ہے جبکہ استاذ ہی وہ ذات ہے جو پوری قوم کو بناتا ہے اور اسے تشکیل دیتا ہے اس لیے استاذ کے وقار اور احترام کو معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے بلند کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اسی لیے کسی شاعر نے یوں کہا ہے:

دیکھا نہ کوہِ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

استاذ کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے وہ قوم کو تہذیب وتمدن، اخلاقیات اور معاشرتی اتار چڑھائو سے واقف کرواتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاذکے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاذ ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ گویا کسی بھی قوم کو کوئی حکومت تربیت نہیں دیتی بلکہ ایک استاذ تربیت دیتا ہے۔

اسی لیے استاذ معاشرے میں اس عظیم شخصیت کو کہا جاتا ہے، جو معاشروں کی بنیادوں، قوموں کی جڑوں، ملکوں اور ریاستوں کی سرحدوں اور نظامِ عالم کی بقاء میں بنیادی اور مرکزی کردار اد ا کرتا ہے اور انہیں گھن لگنے سے بچاتا ہے۔ ایک استاذمحض ایک شخص یا ذات کا نام نہیں ہوتا ہے بلکہ پورا ایک جہان ہوتا ہے جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ متعلق ہوتے ہیں۔استاذکی محنت، لگن، شوق، امانت، دیانت، راست بازی، نیک نیتی کا اثرصرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں ہوتا ہے بلکہ ان صفاتِ حسنہ کا دائرہ کار کروڑوں لوگوں تک وسیع ہوتا ہے۔

استاد معاشرے کا وہ معزز رکن ہے جو اپنی علمیت، قابلیت، صلاحیت اور محنت کی بدولت معاشرے کو بام عروج تک پہنچاتا ہے۔ اسلا م نے معلّم کے پیشے کو پیغمبرانہ صفات کا حامل قرار دیا ہے۔ استاد شعور ذات کے سفر میں رہنمائی مہیا کرنے والا اور علم، دانش کا رکھوالا ہے۔ مختصر یہ کہ نظام تعلیم کا نیو کلیئس استا دہی ہے۔ شیخ مکتب یقینا ا س قابل ہے کہ ملّت کی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچا سکتا ہے۔ استاد علمی دنیا کا وہ معمار ہے جس کی تعمیر کی خوبصورتی دنیا میں وقار، متانت، کے کو ہِ گراں تعمیر کرتی ہے۔

آج علوم و فنون، تہذیب و تمدن کی جو اتنی بڑی عمارتیں کھڑی ہیں ان کے پیچھے اسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے جسے استاذ کہتے ہیں۔دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی، اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے۔ سکندرِ اعظم یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی، ارسطو جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔چاہے مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یا خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یا اندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر ہو تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اسقدر بلند پایہ اولولعزم لوگ بھی واقف تھے۔

آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاذ کا اصل مقام جانتے ہیں اور تعلیم کی اہمیت و افادیت سے واقف ہو چکے ہیں اور اس کو عملی جامہ پہنا چکے ہیں۔ جب ہمارے یہاں بھی ان سے زیادہ استاذکا ادب و احترام کیا جاتا تھا تو ہم ترقی و کامیابی کے منازل طے کر رہے تھے چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال کو وقت کے گورنر نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبال نے فرمایا:

میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔

یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ کو توسرکا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسن صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے؟

یہ سن کر حضرت علامہ اقبال نے جواب دیا کہ:مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے۔ یہ سن کر انگریز گورنر نے ڈاکٹر اقبال کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن کوشمس العلماء کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ:میرے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے، یعنی میرے استاذ کے گھراور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسن کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبال کے استاذ نہ ہوتے لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔

تاریخ اِس صداقت کی گواہی دے رہی ہے کہ درسگاہوں سے ہی ایسے انقلابات نے جنم لیا جنہوں نے اِس قوم کو اوج ثریا پر متمکّن کردیا۔ تعلیمی انقلاب کا مقصدیہ ہے کہ اساتذہ کرام، نوجوان نسل کی سوچ میں نمایاں تبدیلی پیدا کریں۔ انہیں عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ معاشرے سے بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت کا خاتمہ کرکے قو م میں ذوق یقین پیدا کریں۔ نوجوانوں کو تعمیر چمن کیلئے قومی یکجہتی کی تسبیح میں پرونے کی خاطر درسگاہوں کی اصلاح پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ اُستا دکی عظمت مطالعہ سے قائم ہوسکتی ہے۔ اساتذہ کرام تحقیق اور تخلیق کے عنصر پر خصوصی توجہ دیں۔ ذوق ِ کتاب داری، کتاب خوانی اپنائیں۔ اپنے علم میں مسلسل اضافے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہیں۔ اساتذہ کی یہ اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ سچے محب وطن پاکستانی پید ا کرے۔ شیخ مکتب کو چاہیے کہ وہ اپنے پیشے سے مخلص ہو کر شرح خواندگی بڑھانے اور طلباء کے معیار تعلیم کو بلند کرنے میں نمایاں کردار اداکرے۔ معلّم معمار ِقوم ہے۔ یہ سراسر محبت و شفقت ہے۔ اساتذہ کرام کو تعلیمی اداروں میں محبتوں کے چراغ جلانے چاہئیں۔ نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لاکر نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کیا جائے، تاکہ نسلی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصب کاخاتمہ کرکے پورے معاشرے کو اسلامی نظریہ حیات کا پابند بنایا جائے۔اساتذہ پر قوم، والدین اور بچے کی طرف سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قوم اپنی تعلیم و تہذیب اپنی طاقت، اپنی رگوں میں تازہ لہو کی روانی کیلئے اور گلوبل چیلنجز کیلئے نئی نسل کی بہتر تربیت کی خواہش مند ہے۔ والدین اپنی قیمتی متاع اُستاد کے سپرد کردیتے ہیں اور پھر اپنے بچوں کو مثالی انسان اور اچھے پاکستانی شہری کے روپ میں دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے معلّم کو چاہیے کہ وہ صحیح معنوں میں معمارقوم بنے۔ اُسے چاہیے کہ قوم کے شاہینوں کو جذبہ جستجو کی تربیت دے۔ انہیں کردار عمل کے وصف سے مُزیّن کرے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم سے آراستہ کرے۔

شیخ مکتب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اینٹ اور پتھر سے عمارتیں بنا ناآسان کام ہے لیکن انسانی اخلاق اور سیرت کی تعمیر جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیں۔ مشفق اور مہربان اتالیق شاہین بچوں کو حیات ابدی کے جام پلانے کے ساتھ ساتھ خودی کے بحر بیکراں سے بھی آشنا کریں تاکہ وہ ملک وملت کے خیر خواہ وعدے کے پابند، الفت ومحبت کے خواہش مند، مشکلات اور مصائب میں سربکف مجاہد وطن کی آن کے رکھوالے، اتحاد، ایمان اور تنظیم کی پہچان بن کر انسانیت کو اوج ثریا پر متمکّن کردیں۔ تشکیل کردار کے سلسلہ میں کتابی علم سے ہٹ کر اساتذہ ایسے مشاغل کا اہتمام کریں جو طلبہ میں ڈسپلن اور قیادت کے اوصاف پیدا کریں۔ کھیل، گرل گائیڈ، سائنس کلب اور جغرافیائی سوسائیٹیوں کا اجراء ایسی مفید سرگرمیاں ہیں جن سے بچوں کی روحانی، ذہنی، جسمانی اور سماجی نشوونما کمال احسن انداز میں ہوتی ہے۔ تعاون اور اعتماد کی فضا میں تخلیق اور جدت طرازی کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور اسی طرح ہی ہم باعزت طور پر اور ایک ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے اکیسویں صدی میں داخل ہو سکتے ہیں اور یہی اُستاد کا ملک اور قوم میں حقیقی کردار ہے۔

دیکھا نہ کوہِ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر