ویشاء وحید

جب کوئی باہر سے سفر کرکے آئے تو ساری فیملی بیٹھ کر اس کی روداد سنتی ہے۔ مغربی دنیا میں یہ کلچر ختم ہوگیا ہے۔ وہاں فیملیز نہیں رہیں، سوسائٹی جس طرح ویسٹانائز ہورہی ہے معلوم نہیں کہ ایک عرصہ کے بعد کسی ملک میں فیملیز کا کلچر بچے گا کہ نہیں۔ جبکہ تحریک منہاج القرآن نئے دور میں پرانی قدروں کو زندہ کرنے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم و جدید کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ نئے طریقے استعمال کرکے مٹی ہوئی قدروں کو زندہ کررہے ہیں جو علم صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔

جیسا کہ لغات میں اب تو شیئر کرنے کا معنی میں بدل گیا ہے اب معنی یہ ہے کہ بیٹھ کر بات کرنا اور سننا جبکہ شیئر کرنے کا معنی پہلے یہ نہیں تھا۔ شیئر کرنے کا معنی تھا کہ شیئر کرنے والا جتنا خوش ہو اتنا سننے والا بھی خوش ہو۔ اگر دل میں خوشی شیئر نہ ہو شیئرنگ نہیں ہوتی تھی۔ بصورت دیگر ایک رکھ رکھائو اور ایک رسم ہے۔ اب لوگ صرف رسم نبھاتے ہیں جبکہ شیئر کا معنی تھا وہ کیفیات و احساسات بھی شیئر ہوں۔ اگر ہر شخص دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی، دوسرے کے غم کو اپنا غم تصور کرے گا تو کیفیات و احساسات بھی شیئر ہوں گے تو تب کوئی کسی کے کیفیات و احساسات کو ٹھیس نہیں پہنچا سکے گا۔ نہ اپنے کلام سے، نہ عمل سے کسی کو تکلیف پہنچائے گا کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ میرا ہی احساس ہے اس کے بہت زیادہ فوائد ہیں ایک فائدہ یہ ہے اگر کوئی پریشان ہے اس سے پوچھیں کیوں پریشان ہے؟ وہ کہتا ہے فلاں کی وجہ سے پریشان ہوں۔ وہ پریشانی کی وجہ باہر تلاش کرتا ہے۔ اگر وہ ساری زندگی بھی پریشانی کا حل تلاش کرتا رہے اس کا حل نہیں تلاش کرپاتا۔ اس کی پریشانی کبھی دور نہیں ہوگی۔ اس کا علاج اس کے من میں ہے جس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔

جب انسان پریشانی کے اسباب دوسروں میں تلاش کرتا رہے گا۔ اس کا کبھی علاج نہیں ہوگا لیکن جب پریشانی کا حل اپنے من میں تلاش کریں اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا مادہ اپنے اندر پیدا کرے گا مثلاً جب دونوں اکٹھے آجائیں تو ٹکرائو ہوتا ہے اگر ایک دائیں ہوجائے دوسرا بائیں ہوجائے تو آسانی سے گزر جائیں گے۔

یہی فلسفہ میاں بیوی کی زندگی کو خوشگوار کرنے کا ہوتا ہے۔ شوہر ایک طرف سے کسی اور خوبیوں کے ساتھ آتا ہے۔ بیوی کسی اور خوبیوں کے ساتھ آتی ہے۔ جب دونوں ایک دوسرے کی بات کو سمجھیں گے تو زندگی آسان ہوجائے گی۔ ہر دو اشخاص میں خوشگواری پیدا کرنے کا یہی اصول ہے کہ اگر فیملی بن کر رہیں اور دکھ، سکھ مل کر برداشت کریں تو زندگی آسان ہوجائے اور کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

جب یہ سوچیں کہ وہ ہماری پریشانی کا باعث ہے تو مسئلہ کبھی حل نہیں ہوسکتا۔ آپ کتنے لوگوں کو بدلیں گے اور اپنی جیسی سوچ کا حامل بنائیں گے یہ آسان نہیں۔ اس طرح آپ کو دس گنا زیادہ مشقت اٹھانا پڑے گی، بہتر ہے آپ ہی بدل جائیں تو آپ کو سارے بدلے ہوئے نظر آئیں گے۔ آپ کو سکون ملنا شروع ہوجائے گا۔ آپ سمجھیں گے کہ وہ بدل گیا ہے۔ وہ سکون آپ کو کئی اور چیزوں میں مدد دیے گا۔ جیسے مالی مشکلات کا حل ہمارے بس میں نہیں۔

اسی طرح ڈپریشن کا ایک حل ہے جو دنیاوی اعتبار سے ہے وہ یہ کہ ہر حال میں خوش رہنا شروع کردیں اگر کوئی امر آپ کی طبیعت کے موافق نہیں ہورہا تو اس کو اللہ کا امر سمجھنا شروع کردیں اس کی رضا کے سمندر میں ڈوب جائیں اور سراپائے شکر و رضا بن جائیں گے تو اس سے بڑی حد تک پریشانی سے اپنے آپ کو چھڑالیں گے۔ ایسے پیکر بنیں گے تو آپ کی فیملی کو اس میں سے حصہ ملے گا۔ کوشش کرتے رہیں یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے اس سے خیر کا راستہ کھلتا ہے کتنی بڑی بات ہے کہ بندے کو پریشانیوں میں بھی سکون ملتا رہے۔ حالات پریشانی کے ہوں لیکن من میں سکون ہو۔ اس کی مشق کرنے سے اللہ تعالیٰ پریشانی میں بھی راحت کا سامان پیدا فرمادیتا ہے۔ بصورت دیگر سب کی طبیعتیں مختلف ہیں۔ ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی برابر نہیں اس میں فرق ہے اس کے علاوہ ایک ہی والدین کے بچوں کی طبیعت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اس لیے یہ نہیں ہوسکتا جیسے آپ ہیں ویسا ہی دوسرا بھی ہو مگر آپ کو تو وہی شخص اچھا لگے گا جو آپ کی طرح ہی سوچے یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن آپ خوش اور پرسکون رہنا چاہتے ہیں تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی گزاریں گے تو پریشانی سے نجات پالیں گے۔