فکر شیخ الاسلام: دعوت اور تبلیغ میں خواتین کا کردار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

اعلان نبوت کے بعد آقا علیہ السلام کو وسائل کی ضرورت تھی۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے اپنا سارا سرمایہ آپ ﷺ کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ جب آپ شعب ابی طالب میں تھے اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 50 برس کی تھی اس وقت آپ ﷺ اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں قید کردیا گیا۔ اتنے مصائب و آلام آئے جن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بھی اس قید میں ساتھ تھیں۔ 3 سال کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کا وصال ہوگیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے 13 برس تک مسلسل خدمت دین کے لیے خدمات دیں۔

ثابت ہوا کہ مشن مصطفی ﷺ کا تھا اس کے لیے معاون حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ تھیں۔ آپ تبلیغ کے لیے جاتے کفار پتھر برساتے، تیر اندازی کرتے، آپ کے جسد پاک کو لہولہان کرتے۔ طائف کے بازاروں کے بچے پتھروں کی بارش کرتے، قدم مبارک زخمی ہوجاتے جسم پاک لہولہان ہوجاتا اور اتنے زخمی ہوئے کہ قدم پاک اٹھانے کی سکت نہ رہتی اور پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوا عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ پر ظلم کی انتہا ہوگئی۔ اگر آپ کہیں تو طائف کی بستی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر تباہ کردوں۔ فرمایا نہیں میرے صبر کا پیمانہ ابھی لبریز نہیں ہوا۔ ان لوگوں نے مجھ پر پتھر برسائے ہیں۔ میں ان کی اولادوں سے امید رکھتا ہوں۔ آج مجھے نہیں پہچان رہے ممکن ہے کل پہچان جائیں۔

اس دکھ کے ساتھ گھر میں تشریف لاتے تو گھر حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ مسکراتے چہرے کے ساتھ استقبال کرتیں۔ آپ ﷺ کو حوصلہ دیتیں۔ آپ ﷺ کے صبر میں شریک ہوتیں۔ آپ کے مشن میں شریک ہوتیں۔ یہ آپ کے لیے ڈھارس کا باعث ثابت ہوتا۔ اس طرح جب کبھی حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو یاد کرتے بطور رشک حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ عرض کرتیں یارسول اللہ ﷺ ! مدت ہوئی وہ انتقال کرگئیں مگر آپ ﷺ کو آج تک یاد آتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: عائشہ! جتنا احسان حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے اسلام پر کیا ہے میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں۔ جب حضور علیہ السلام قربانی کرتے تو اس کا گوشت حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ انہوں نے اسلام کے لیے اپنا مال وقف کرنے کی بنا پر اس کو محسنہ اسلام کا لقب دیا گیا یعنی اسلام پر احسان کرنے والی، محسن اسلام کا لقب صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو نہیں دیا گیا مگر حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو دیا گیا تو آپؓ نے خواتین کو اسلام کی خدمت کی سنت مہیا کی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مشن مصطفوی فروغ پائے۔ اسلام ایک عظیم قوت بن کر آگے بڑھے۔

مصطفوی انقلاب کا یہ قافلہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے۔ ہمیں پھر سے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی سنت کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی سنت پر چلنا ہوگا۔ اس کو پھر سے زندہ کرکے اسلام کے فروغ اور مصطفوی انقلاب کے لیے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے 8 ہزار صحابہؓ نے روایت کیا ہے اس لیے انہیں نصف دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ حضرت فاطمہؓ کی گود کا فیض ہے جس نے اسلام کو امام حسن و حسینؓ عطا کیے۔ دن کو چکی پیستی ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ خود مشکیزے بھر کر گھر لاتیں۔ جب غزوہ میں جنگی قیدی آئے تو حضرت فاطمہؓ اور مولا شیر خداؓ خود حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے ہاتھ دکھائے کہ ابا جان میرے ہاتھوں پر چکی پیس پیس کر نشان پڑگئے ہیں اور پشت پر مشکیزے اٹھا اٹھا کر نشان پڑگئے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے پوچھا! بیٹا فاطمہ کہنا کیا چاہتی ہو؟ عرض کیا حضور ﷺ ایک خادمہ مجھے بھی عنایت فرمادیں تاکہ گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹھا دیا کرے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

فاطمہؓ جہاں کئی قیدی آئے ہیں وہاں ابھی کئی گھرانے یتیم بھی ہوگئے ہیں جب تک ان یتیموں کے لیے کوئی سبیل نہیں کروں گا۔ اس وقت تک فاطمہ میں تمھیں کوئی باندی نہیں دے سکتا۔ حضرت فاطمہؓ دن بھر چکی پیستیں، امام حسن و حسینؓ کی تربیت کرتیں، امور خانہ داری نبھاتیں، خدمت دین کرتیں اورر رات بھر نوافل ادا کرتیں۔ اللہ کے حضور سجدہ ریزیاں کرتیں، موسم سرما کی ساری رات، اللہ کی عبادت گزاری اور سجدہ ریزی میں بسر ہوجاتیں ادھر فجر کی اذان کا وقت ہوتا نماز مکمل کرکے ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی مولا! کتنی چھوٹی راتیں بنائی ہیںکہ جی بھر کر سجدہ بھی نہیں کر پاتیں۔ لہذا ان کی زندگیوں میں کتنی مشکلات تھیں کتنی ریاضتیں تھیں، کتنے مجاہدے تھے اسلام کے لیے کتنی محبت تھی۔ ان کے دن کیسے گزرتے ان کی راتیں کیسے گزرتیں اگر ہم زندگیوں کے حالات کا ان سے موازنہ کرنا چاہیں تو موازنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جو احسان انہوں نے اسلام اور حضور علیہ السلام کی امت پر کیا۔ ہم اس کا بدلہ جھکانا چاہیں ساری زندگی اسلام کی نذر کردیں۔ کبھی بھی حضرت فاطمہؓ کے ایک دن کے احسان کا بدلہ نہیں جھکاسکتے۔ بلکہ ان کے اس احسان کا بدلہ نہیں جھکایا جاسکتا۔ ان کی گود نے حضرت امام حسینؓ کو جنم دیا۔ حضرت فاطمہؓ کے اسوہ پر عمل اسی صورت پر ممکن ہے جب ہماری مائوں، بہنوں کی گود تقویٰ کی نظر ہوجائے گی، اس سے جو تقویٰ ان کے اندر آئے گا وہ تقویٰ ان کے وجود تک نہیں رہے گا۔ یہ تقویٰ ان کی اولاد کو منتقل ہوگا۔ باپ کا تقویٰ اولاد کو کم منتقل ہوتا ہے۔ مگر ماں کا تقویٰ اولاد کو زیادہ منتقل ہوتا ہے۔ باپ کو اولاد کی تربیت کا کم موقع ملتا ہے۔ ماں کی گود اپنی اولاد کے لیے ایک مکتب ہے۔ ماںاپنی اولاد کے لیے تربیت گاہ ہے۔ بچوں کے بچپن سے لے کر نوجوانی تک یہ سارا زمانہ ماں کی گود اور تربیت کا زمانہ ہے۔ اس لیے آج ہمارے معاشرے میں خاتون سنور جائے تو معاشرے کو بیٹی میسر آئے گی، خاتون سنور جائے تو ایک بہن میسر آئے گی۔ خاتون سنور جائے تو ایک ماں میسر آئے گی، خاتون سنور جائے تو ایک معاشرہ کو ایک تربیت یافتہ نسل میسر آئے گی۔ جس سے پورے معاشرے کے اندر انقلاب آجائے گا۔ اس لیے حضور علیہ السلام نے فرمایا:

الجنة تحت اقدام امتها.

کہ جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے۔

یہ نہیں فرمایا کہ جنت باپ کے قدموں کے نیچے ہے۔ باپ کے لیے فرمایا اللہ کی رضا، باپ کی رضا میں ہے۔ اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے، ماں کے لیے فرمایا اولاد کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ یہاں ماں کو ایک ذمہ داری سونپی جارہی ہے جبکہ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماں کی عزت کرے اگر والدین کم پـڑھے لکھے ہیں، اولاد نوجوان ہوکر پڑھ لکھ گئے ہیں وہ سمجھیں کہ ہمارے والدین کم پڑھے لکھے ہیں شاید وہ عزت و احترام کے قابل نہیں رہے۔ نہیں ماں ماں ہے باپ، باپ ہے۔ والدین کی عزت ان کی تعلیم کی وجہ سے نہیں والدین کی عزت ان کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے بھی نہیں۔ والدین کی عزت ان کی مالداری کی وجہ سے نہیں ہے فرمایا: اولاد کی ذمہ داری ماں باپ پر یہ ہے کہ ان کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ یہ ماں کے اختیار میں ہے اگر اللہ کا فضل ہو ماں چاہے تو وہ اولاد کی ایسی تربیت کرے کہ انھیں جنت کی راہ پر ڈال دے۔ اگر چاہے تو ایسی بری تربیت کرے کہ اسے دوزخ کی راہ پر ڈال دے۔ گھروں میں اچھا ماحول پیدا کرنا یا برا ماحول پیدا کرنا یہ زیادہ خاتون خانہ کے ہاتھ میں ہے۔ ماں اگر گھر کے ماحول کو نیکی والا ماحول کردے۔ دین والا اور اچھی تربیت والا ماحول کردے خودبخود ماں کی تربیت کے باعث اولاد جنت کے راستے پر چل پڑے گی۔

اولاد نیکی اور تقویٰ اور دین داری کی راہ پر چل پڑے گی اگر خود ماں گھر کے ماحول کو دین سے محروم کردے کیونکہ اولاد کا زیادہ وقت ماں کے پاس گزرتا ہے۔

حضور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی پھوپھی ولیہ کامل تھیں، ایک دفعہ اس دور میں قحط پڑتا، بارش نہ ہو رہی تھی گائوں کی عورتیں اکٹھی ہوکر آپ کے گھر آئیں اور عرض کیا، سخت پریشانی ہے کہ اتنے عرصہ سے بارش نہیں ہوئی۔ ہم نے نوافل ادا کیے ہیں، صلوٰۃ استسقاء پڑھی ہے، دعائیں مانگی ہیں مگر قحط ختم نہیں ہوا۔ آپؒ اللہ کے حضور دعا کریں۔ حضرت سیدنا غوث الاعظم کے پھوپھی اتنی بڑی عابدہ، زاہدہ تھیں کہ اٹھیں اور جھاڑو اٹھا کر اپنے صحن میں پھیر دیتی۔ پھر دعا مانگتی مولا! جھاڑو میں نے پھیر دیا ہے تو چھڑکائو کردے۔ اتنے کلمات پر بارش برستی۔

حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کا واقعہ ہے جب آپ جوان ہوئے ایک روز فرمانے لگے: امی جان! اللہ کا شکر ہے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔ میری تہجد قضا نہیں ہوئی۔ ان کی ماں فرمانے لگیں بیٹا فرید! یہ تیرا کمال نہیں تیری ماں کے دودھ کا کمال ہے۔ جب سے تو پیدا ہوا ہے۔ رب ذوالجلال کی قسم میں نے بے وضو کبھی ایک بار بھی تجھے دودھ نہیں پلایا جب ماں ایسی ہو تو پھر بیٹا بابا فرید جیسا ہی پیدا ہوتا ہے۔نیک اولاد و نسل کو پیدا کرنے کا احسان خواتین پر ہے۔ تحریک منہاج القرآن میں ویمن لیگ کو قائم کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اگر تحریک میں صرف مرد ہوں تو کوئی تحریک بھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ مرد نے کبھی رات کو تبلیغ کے لیے جانا ہے کبھی دن کو زیادہ وقت باہر صرف کرنا ہے، کبھی مال و دولت خرچ کرنا ہے، اگر خاتون خانہ اس کے ساتھ تعاون کرنے والی نہ ہو تو مرد دو دن بھی دعوت کا کام نہیں کرسکتا۔

اگر مرد مشن کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیں وہ عورت کے تعاون سے 2 گنا کرسکتا ہے۔ اگر عورت تعاون کرے گی تو لامحالہ انسان کی اولاد بھی اس راہ پر چل پڑے گی تو رفتار 4 گنا ہوجائے گی۔ ویمن لیگ کا قائم کرنا اس لیے ضروری تھا ان کے بغیر کیونکہ مشن کا ایک بازو ہوتا اور ایک نہ ہو تو کبھی جسم سالم تصور نہیں کیا جاتا۔

تحریک منہاج القرآن کا مصطفوی انقلاب اسی صورت میں منزل مقصود تک پہنچے گا جب ہماری خواتین اسلام مائیں، بہنیں اور بیٹیاں، بھائیوں کے شانہ بشانہ چلیں گی۔ گھر کے اندر وہ انقلاب بپا کریں گی۔ مرد،مردوں تک پیغام پہنچائیں گے اور گھر گھر خواتین پیغام پہنچائیں گی۔ باطل طاقتوں سے ٹکر لے لیں گی۔ ایران کی تاریخ ہے کہ جب تک تنہا مرد شاہ ایران کی آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے رہے انقلاب کے لیے راستہ صاف نہ ہوسکا۔ جب عورت باہر نکل آئیں اور عورتوں نے ایران کے انقلاب کے لیے سر پر کفن باندھ لیے۔ گولیاں چلیں، مرد بھی شہید ہوئے، عورتیں بھی شہید ہوئیں مگر قافلہ انقلاب آگے بڑھتا گیا۔ شاہ ایران کی گولیاں قافلہ کا راستہ نہ روک سکیں۔ پھر عورتوں اپنے معصوم بچوں کو سڑکوں پر لے آئیں۔ بچے شہید ہوئے۔ جب جوان بچے اور چھوٹے بچے شہید ہوکر گرے تو عورتوں نے دودھ پیتے بچے ہاتھوں میں اٹھا لیے۔ جب سب میدان میں آئے اس کے بعد اس انقلاب کا راستہ کوئی نہ روک سکا۔ شاہ ایران شکست کھاگیا اور قافلہ اپنی منزل تک پہنچا۔ یہ وہ کام ہے جو مرد تنہا نہیں کرسکتا۔ انقلاب اس وقت آیا جب ماں نے اپنی مامتا تک قربان کردی۔ مصطفوی انقلاب بھی بڑی قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔

پاکستان کے معاشرے میں جو بددیانتی، رشوت، ڈاکہ زنی، لوٹ مار نظر آتی ہے اتنے بگڑے ہوئے معاشرے کو سنوارنا، ظلم کی بڑی طاقتوں سے ٹکرانا، یہ تنہا مردوں کی بات نہیں ہے جس میں 55 فیصد عورتیں ہیں۔ اگر مرد و عورتیں بچے اور بچیاں مل کر عزم مصمم کرکے انقلاب کی راہ پر چل پڑیں تو اس وقت دنیا کی کوئی طاقت مصطفوی انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتی۔ یہ ماں کی مامتا ہے جو انقلاب بپا کرتی ہے۔ اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی۔ پاکستان کا بڑا انحصار خواتین پر ہے۔ اگر خواتین انقلاب کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھائیں گی ان شاء اللہ پہاڑ بھی اس کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ انقلاب کا جھنڈا خواتین کے ہاتھ میں ہوگا تو بڑی بڑی آندھیاں ان کا راستہ نہیں روک سکیں گی تب ان شاء اللہ پاکستان کا مقدر بدل کر رہے گا۔ مگر یہ انقلاب ہمیں اپنے اندر سے بپا کرنا ہے اور اپنے گھروں کے اندر بپا کرنا ہے۔ خدمت دین کے لیے خواتین کو گھروں سے نکلنا ہوگا۔ ہر ایک کو داعی بننا ہوگا۔ دین کی دعوت کو عام کرنا ہوگا۔