عصری تحریکوں میں خواتین کا کردار

رابعہ فاطمہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.

(النساء، 4: 1)

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘

تخلیق آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ہر زمانے میں خواتین کا کردار ہر معاشرے اور خاندان کے لیے نہایت اہم رہا ہے۔ اولاد کی نگہداشت و تربیت کا ذمہ بھی عورت نے کرنا ہے گھر کو سنبھالنا اور دیگر اہل خانہ کی ضروریات کا خیال کرنا بھی عورت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے۔

تاریخ دان لکھتے ہیں کھانا بنانے میں جتنے ذائقہ دار مصالحہ جات استعمال ہوتے ہیں اور گھریلو آرائش وغیرہ یا ابتدائی ادویات سب خواتین کی اختراعات و ایجادات ہیں۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سب وجوہات کی وجہ سے ایسے عزت و احترام سے نوازا جاتا مگر اس کے برعکس عورت کو اس کے اصل کردار اور تشخص سے دور کردیا گیا جس کے ہاتھ میں معاشرے کی لگامیں تھیں اسی کی تربیت کو نظر انداز کردیا گیا۔ اس کا ہر طرح سے استحصال کیا گیا اس کے حقوق نہ دیئے گئے اسے اپنی زندگی پر بھی کوئی حق نہ تھا بعض جگہوں پر اس کے شوہر کے انتقال پر اسے بھی زندہ جلنا ہوتا بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا مختصر کہیں تو اس طرح ہے کہ عورتیں ذلت کے گہرے کنویں میں پھینکی ہوئی تھیں کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔

مغرب کا ماضی تو عورت کی حیثیت سے متعلق انتہائی سیاہ ہے مگر موجودہ روشن خیال نظریات جو کہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں انہوں نے اسلامی معاشروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں وہ اس قدر عورتوں کے لیے سود مند ہیں کہ کوئی بھی ذی شعور ان کے فوائد سے منہ نہیںموڑنا چاہے گا۔ خواتین کو ہمیشہ اپنے درست حقوق کے لیے لڑنا چاہیے نا کہ ناجائز و غلط کاموں کا مطالبہ کرتی پھریں۔

خواتین بحیثیت انسان مردوں کے برابر ہیں اگر یہ نیکی کرتی ہیں تو مردوں جتنا ثواب ملے گا گناہ کا ارتکاب کرتی ہیں تو مردوں جتنی ہی سزا پائیں گی۔ اسلام نے دونوں یعنی مردو عورت میں صنف کے لحاظ کوئی فرق نہیں رکھا نہ کبھی مقابلہ بازی کروائی ہے دونوں کی اپنی اپنی فطری ضروریات و ذمہ داریاں ہیں۔ انہیں پورا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی طرح ایک خوبصورت اور پرسکون معاشرہ تشکیل پاتا ہے جب بھی کسی ملک یا قوم پر برا وقت آتا ہے تو خواتین ہمیشہ اپنے بہادروں کے ساتھ مل کر ملک و قوم کا دفاع کرنے کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہیں۔ تاریخ انسانیت میں بے شمار ایسی مثالیں جو خواتین کی بہادری، دانشمندی، دور اندیشی ثابت کرتی ہیں۔ دنیا میں بہت بڑی بڑی تحریکیں گزری جو خواتین کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہیں۔

اسلام کی نشرو اشاعت میں خواتین کا کردار نہایت اہم ہے۔ آقا علیہ السلام کی زوجہ اول سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے نہ صرف آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لائیں بلکہ ساری زندگی آپ کا ہر قدم پر ساتھ دیتی رہیں۔ آپ نے اپنا سارا مال و دولت بھی اسلام پر قربان کردیا۔ مقاطہ شعب ابی طالب کے دور میں بھی ڈٹ کر کھڑی رہیں حالانکہ اس وقت آپj نہایت علیل ہوگئی تھیں مگر قربان جائیں آپjکے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔

اسی طرح آپ کی سب سے چھوٹی صاحب زادی سیدہ کائنات نے بیٹی ہونے کا حق ادا کردیا کہ آقا علیہ السلام حرم کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ کفارنے گندی اوجھڑی لاکر آپ ﷺ کے مبارک دوش پر رکھ دی۔ سیدہ بھاگتی ہوئی آئیں اور اوجھڑی اتار ی ساتھ ساتھ روتیں اور ساتھ چہرہ انور صاف کرتی جاتیں جب آپ ﷺ کی بیٹی والدہ بنیں تو اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کی کہ اسلام خود ان کا آج تک مقروض ہے۔

سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے درس حدیث سننے والے شاگردوں میں آٹھ ہزار صحابہ کرامؓ بھی شامل ہیں آقا کریم ﷺ نے فرمایا میرا آدھا دین عائشہؓ کی وجہ سے محفوظ ہوگیا۔ مسلمان مائیں اپنے بچوں کو اسلام کے جانثاروں کے ساتھ ساتھ بہادر خواتین کا تذکرہ بھی سنائیں تاکہ یہ بھی ان کے نقش قدم پر چل سکیں۔

حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب آقا کریم ﷺ کی پھوپھو جان جنگ احزاب کے موقعہ پر بچوں اور عورتوں کی حفاظت کررہی تھیں۔ ایک کافر نے حملہ کرنا چاہا آپ نے ایسی دلیری سے مقابلہ کیا کہ اسے واصل جہنم کردیا اور اپنی ذمہ داری پوری کی کہ مسلمان خواتین اپنے مردوں سے جرات و بہادری میں کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔

تحریک آزادی ہو یا تحریک پاکستان یہاں بھی مسلم خواتین کا کردارنہایت شاندار ہے۔ انھوں نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا اپنی جانیں قربان کردیں مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں اس تحریک میں ایک اہم ترین نام محترمہ فاطمہ جناح کا ہے۔ انھوں نے اپنے بھائی کا اپنے ملک کی آزادی کے لیے اس قدر ساتھ دیا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو خود کہنا پڑا کہ میں اپنی بہن کی سالہا سال کی پرخلوص خدمات اور مسلم خواتین کی آزادی کے لیے انتھک جدوجہد کی وجہ سے ان کا انتہائی مقروض ہوں وہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر دن رات کام کرتیں۔ جس پر اللہ رب العزت نے کامیابی عطا فرمائی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا۔

تحریک پاکستان میں خواتین کا کردار:

مسلم خواتین ہمیشہ حریت، بہادری اور جرات کا نشان رہی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ ہر ہر مشکل کا سامنا ڈٹ کر کیا پھر چاہے وہ 1857ء کی جنگ آزادی ہو یا تحریک خلافت خواتین نے اپنی زیورات اور قیمتی سامان بطور فنڈ دے کر ان تحریکوں میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ بعض خواتین تو جب گھر والوں کے لیے کھانا بناتیں تو ایک ہاتھ بھر کا آٹا الگ برتن میں ڈال دیتیں کہ یہ فنڈ میں جائے گا تاکہ جنگ کے اخراجات میں ان گھر میں رہنے والی خواتین کا بھی حصہ شامل ہوجائے۔

جب تحریک پاکستان شروع ہوئی تو اس وقت چند ایک خواتین شامل تھیں لیکن جب 1938ء میں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم خواتین کی سب کمیٹی قائم کی تو پھر ہر صوبے اور علاقے سے خواتین نے بھرپور شرکت کی اور تحریک پاکستان میں باپردہ خواتین نے بھی بھرپور کردار ادا کیا انھوں نے پاکستان کی آزادی کا پیغام ملک کے کونے کونے میں پہنچایا۔ اس کی وجہ سے بچے بچے کی زبان پر تحریک کا پیغام پہنچا اور ان کا نعرہ بن گیا۔

لے کے رہیں گے پاکستان
بٹ کے رہے گا ہندوستان

یہ خواتین مختلف علاقوں میں دو کمروں کا سکول قائم کرتیں تاکہ بنیادی تعلیم ہر ایک بچی بچے تک پہنچ سکے جو خواتین تعلیم یافتہ تھیں وہ بلامعاوضہ یہ خدمت سرانجام دیتیں تعلیم بالغاں کا بھی بہترین بندوبست کیا گیا تھا تاکہ باشعور معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ جلسے جلوس میں باقاعدہ خواتین کی شمولیت بھی ہوتی ان کے خطابات ہوتے۔

یہ باکمال خواتین تھیں اللہ رب العزت نے انہیں بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا کوئی فن تقریر میں طاق تھی تو کوئی نظامی امور کی ماہر کوئی چندہ جمع کرنے اور کوئی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

انھوں نے سب مشکل حالات کا بہت صبرو تحمل سے مقابلہ کیا انہیں جیلوں میں بھی رہنا پڑا آزادی کے بعد مہاجرین کے کیمپوں میں دن رات اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہیں لوگوں کو کھانا اور ادویات بہم پہنچاتیں راستے میں آنے والی ہر مشکل کو پار کرتیں۔

مادر ملت کے علاوہ دیگر بہت سی نامور خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالا۔

اسی طرح اگر موجودہ دور میں بھی دیکھا جائے تو بہت سی تحریکیں اپنے اپنے افعال و مقاصد میں مصروف عمل ہیں کچھ معاشرے کو سنوارنا چاہتی ہیں اور بعض تحریکیں پاکستان و اسلامی اقدارکے منافی بھی کردار ادا کررہی ہیں۔ انہیں اسلام اور پاکستان کے مفاد کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک ادارہ ہے منہاج القرآن اس سے وابستہ خواتین بھی ایک تحریک چلا رہی ہیں۔ ویمن لیگ کے نام سے جو اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے کام کررہی ہیں۔ ابتدائے اسلام کی خواتین کے نقش قدم پر چل کر بغیر کسی ڈر یا خوف کے اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ 5 جنوری 1988ء ادارہ منہاج القرآن کے زیر انتظام اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں باقاعدہ ویمن لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔

ویمن لیگ کے مقاصد:

منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد جن مقاصد پر رکھی گئی وہ درج ذیل ہیں:

خواتین کے اندر مصطفوی انقلاب کی ضرورت واہمیت کا شعور اجاگر کرنا۔

تعلق باللہ اور تعلق بالرسالت میں پختگی۔

مسلم خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنا۔

خواتین کے اندر حقوق کا تحفظ اور فرائض کا احساس پیدا کرنا۔

خواتین کی عملی، فکری، روحانی، اخلاقی اور انقلابی تربیت کا مؤثر اہتمام تاکہ خواتین اس عظیم مشن کی راہ میں ضروری کردار ادا کر سکیں۔

خواتین میں قوم و ملت کے مسائل اور تقاضوں کے حوالے سے احساس و شعور پیدا کرنا۔

منہاج القرآن ویمن لیگ اس وقت ایک عالمی اصلاحی فورم بن چکی ہے جس کی شاخیں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے حوالے سے کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی تنظیموں کو ملکی سطح پر خراج تحسین پیش کیا جائے جو جدید اور قدیم تقاضوں کے مطابق خواتین کی تربیت کررہی ہیں۔