عصری چیلنجز اور تعلیم نسواں کی اہمیت

سمیّہ اسلام

انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ حضرات کی قدروقیمت رہی ہے؛ تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش بے بنیاد خواہش ہے، انسان کی نافعیت کے لیے، دینی تعلیم، اسلامی تربیت، ایمانی شائستگی اور انسانی عادات وآداب کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ضرورت مچھلی کے لیے پانی کی ہے، تعلیم وہ نسخہء کیمیا ہے، جس سے مُردوں کی مسیحائی عمل میں آسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیث میں دینی تعلیم کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔

ا سلام کا سورج جب طلوع ہوا اور اس کی ضیا پاش کرنیں پوری دنیا کو روشن کرنے لگیں تو اس نے اپنے ماننے والوں پر سب سے پہلے جو امر نافذ کیا وہ تھا تعلیم یعنی علم حاصل کرنے کا حکم دیا۔ تاکہ امت مسلمہ جہالت کی تاریکیوں سے آزاد ہو سکے اور علم کی روشنی میں نہ صرف سانس لے سکے بلکہ پوری دنیا میں ایک کامیاب اور ترقی یافتہ قوم کی شکل میں ابھر سکے۔ اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر دور میں وہی قومیں سب سے زیادہ کامیاب و کامراں اور ترقی یافتہ رہیں جو تعلیم میں سب سے زیادہ آگے تھیں۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پوری انسانیت کی تعلیم کے لیے اسلام نے بھی جو طریقہ اختیار کیا وہ یہی تعلیمی طریقہ تھا۔

اسلام کے جو بھی احکامات ہیں ان پر عمل پیرا ہونا عورتوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ مردو ں کے لیے ، سوائے اس کے کہ ان میں سے کسی کے لیے کوئی تخصیصی حکم الگ سے نہ آگیا ہو۔ حصول علم کے حوالے سے بھی یہی بات ہے یعنی اس کے حصول کے جو احکام ہیں وہ صرف مردوں کے لیے نہیں بلکہ مردو خواتین دونوں ہی کے لیے یکساں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر ازواج مطہرات کو زیور علم سے اس حد تک آراستہ و پیراستہ کیاکہ ہجرت مدینہ کے بعد ایک طرف جہاں اصحاب صفہ تھے تو وہیں دوسری جانب خواتین کی پہلی مرکزی درسگاہ حضرت عائشہ صدیقہ کی تعلیم گاہ قرار پائی اور جہاں سے مردو زن دونوں ہی نے یکساں طور پر اپنی علمی تشنگی بجھا ئی اور مسائل کا حل تلاش کیے۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ خلفائے راشدین کا زمانہ ہو یا عہد بنی امیہ یا پھر دورِ عباسی، ہر ایک میں تعلیم مرداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں پر بھی توجہ دی گئی اور دونوں ہی کی علمی صلاحیتوںکو تسلیم کیاگیا۔ یہاں تک کہ ان ادوار میں مردوںوخواتین کے علاوہ غلام اور کنیزوں کو بھی کسی سے پیچھے نہیں رکھا گیا۔ خود ہندوستان میں جب مسلمان آئے اور یہاں ان کی حکومت قائم ہو ئی تو مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے بھی تحصیل علم کی جانب توجہ دی اور اس کی بدولت وہ نہ صرف ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہیں بلکہ بہت سی دینی و غیر دینی در سگاہیں بھی قائم کیں ، انھیں اپنے خون جگر سے سینچا اور مسلمانوں کی کامیابی کے لیے راہیں ہموار کیں۔

جدید تعلیم کے جھنڈے تلے جس مسئلے کو سب سے زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ یہی تعلیم نسواں تھی۔ بہت سے لوگوں نے جدید تعلیم اور بالخصوص تعلیم نسواں کی نہ صرف کھل کرمخالفتیں کیں بلکہ ان کے حصول پر کفر کے فتوے تک صادر کر دیے۔ لیکن باوجود اس کے اس عہد میں بھی کچھ لو گ ایسے تھے جو ہر حال میں لڑکیوں کی تعلیم چاہتے تھے اور ان کی خواہش کے بقدر لڑکیاں بھی اعلی تعلیم کے حصول کی راہ پر گامزن تھیں۔

بیسویں صدی کے نصف اول تک آتے آتے تو ہندوستان کا تعلیمی نقشہ ہی بدل گیا۔ اس وقت کے جو زمیندار اور پڑھے لکھے لوگ تھے ، جنھیں آج ہم طبقہء اشرافیہ کے نام سے مو سوم کرتے ہیں، ان کا رجحان غیر معمولی حد تک جدید تعلیم اورنسواں کی طرف ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاںمردوخواتین دونوں ہی میں حصول علم کا رجحان ملتا ہے۔ پھر طبقہء اشرافیہ کی دیکھا دیکھی دیگر طبقات کے لوگ بھی جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس طرح بدلتے ہوئے حالات نے جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کے مخالفین کو بہت زیادہ دنوں تک اپنے موقف پر قائم نہیں ر ہنے دیا اور نتیجتاً وہ بھی تعلیم نسواں کے قائل ہوگئے اور پھر لڑکوں کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لڑکیاں بھی اسکول پہنچ گئیں اور تعلیم نسواں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔

لیکن باوجود اس کے تعلیم نسواں کی طرف اس نوع سے پیش رفت نہیں کی گئی جس طرح سے کہ ہونی چاہئے تھی۔ آج ملک کے آزاد ہوئے کوئی نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر پھر بھی ہماری تعلیمی حالت میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ آج بھی ہم تعلیمی پسماندگی کے شکار ہیں۔ جب ہم اپنے علاقے کے تعلیمی منظر نامے اور بالخصوص مسلمانوں کی شرح تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں توبڑی مایوسی ہوتی ہے بلکہ سر جو ڑ کر رو لینے کا دل کرتا ہے کیونکہ ابھی بھی تعلیم نسواں کی نہ صرف کمی ہے بلکہ سرے سے فقدان ہے۔ وقت اور زمانے کی تمام تر ترقیوں کے باوجود ہمارے یہاں وہ تعلیمی نظام اور تعلیمی ماحول نہیں بن پایا ہے جس کی اس دور میں حد درجہ ضرورت ہے۔

ضرورت اور وقت دونوں اس امر کے متقاضی ہیں کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے مزید بیداری پیدا کی جائے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے؛ لیکن اس سلسلے میں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے لیے محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں ہوں، مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:کہتے تعلیم نسواں ایک مستقل چیز ہے۔ اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیمِ نسواں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہیے؛ تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق وکردار کی مالک بن سکے؛ مگر معاشی اعانت کے لیے عورتوں کی تعلیم کو ذریعہ بنانا غیرفطری بھی ہے اور غیراسلامی بھی؛ اس لیے کہ قرآن حکیم بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی ذمہ داری شرعی فرائض ادا کرنے کے بعد تمام جائز اور مباح امور میں شوہر کی اطاعت کرنا۔

تعلیمِ نسواں کو فروغ دینے میں ایک بڑی رکاوٹ تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر تیزی کے ساتھ عام ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اسی طرح معاشی مسائل کی وجہ سے بھی تعلیمِ نسواں تعطل کاشکار ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک غریب سارا دن محنت، مزدوری کرنے کے باوجود اپنے گھر کا خرچہ پورا نہیں کرسکتا تووہ اپنی بیٹی کوتعلیم دلانے کے لیے بڑی بڑی فیسیں کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ کئی بار بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کو اپنے خوابوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔

ان تمام مسائل کو حل کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں تعلیمِ نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرے۔ اوراسلامی حدود میں رہ کر خواتین کا تعلیم حاصل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کے لیے تعلیمی نظام مہیا کرے۔

تاریخِ اسلام میں ایسی بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کتاب و سنت کے فہم اور علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ اس طرح انھوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ عورتوں کے ناقص العقل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اندرفہم و استنباط اور ابلاغ و ترسیل کی صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں۔

عصری جامعات کا قیام عرب اور مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر ہوا ہے۔ ان میں سے بعض مخلوط تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ ان میں طلبہ کے ساتھ طالبات داخلہ لے کر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بعض تعلیمِ نسواں کے لیے خاص ہیں۔ ان اداروں میں طالبات کے ذریعے اسلامیات پر خاصا کام ہوا ہے اور بڑی تعداد میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالے تیار ہوئے ہیں۔ بر صغیر ہند وپاک میں بھی طالبات میں اعلیٰ تعلیم کے تحصیل کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور وہ عصری جامعات میں داخلہ لے کر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہوں پر عصری جامعات میں دینیات (Theology) اور اسلامیات (Islamic Studies) کی فیکلٹیز قائم ہوئی ہیں اور ان کے تحت قرآن، حدیث، سیرت، اسلامی تاریخ اور دیگر مضامین کے الگ الگ شعبے قائم ہوئے ہیں اور ان کے تحت طالبات نے تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔ خاص طور سے پاکستان کی عصری جامعات میں طالبات کے ذریعہ علوم اسلامیہ پر خاصا کام ہوا ہے۔

گزشتہ صدی کے اوائل سے لڑکیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھا، ان کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور عصری جامعات میں بھی انھیں داخلہ کے مواقع ملے تو ان کی علمی صلاحیتوں کو جلا ملی اور انھوں نے اسلامیات کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے۔ ان سے خواتین کے تخلیقی کمالات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علومِ اسلامیہ کے میدان میں خواتین کی موجودہ پیش رفت کو اطمینان بخش کہا جاسکتا ہے، لیکن ان سے مزید کی توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ان کا ماضی درخشاں اور تاب ناک رہا ہے اسی طرح مستقبل میں بھی امید ہے کہ ان کے ذریعہ علوم اسلامیہ کے مختلف میدانوں میں قابلِ قدر اور معیاری کام سامنے آئے گا۔ اس ضمن میں عصر حاضر میں خواتین کو جدید و قدیم علوم سے مزین کرنے کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مثالی درسگاہیں قائم کی ہیں اور منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ خواتین کی فکری و دینی تربیت کے لیے سرگرداں ہیں۔

آج ہم جس وقت اور زمانے میں سانس لے رہے ہیں وہ پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکا ہے اور اس بدلے ہوئے زمانے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم جدید تعلیم اور تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت کو سمجھیں اور کتاب و سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں بھی دنیاوی ا ور اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کریں۔ آج اگر ہم اپنے سماج کو ظلمت وجہالت اور غلط رسم ورواج سے پاک و صاف کرناچاہتے ہیں تواس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم مرَداں کے ساتھ ساتھ تعلیم نسواں کی طرف توجہ دیں اور لڑکوں کے شانہ بہ شانہ لڑکیوںکو بھی ہرطر ح کے علوم و فنون سے روشناس کرائیں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی اورپیشہ ورانہ ہو یا غیر پیشہ ورانہ، تاکہ وہ بھی ہر طرح کے علوم وفنون کے میدان میں آگے بڑھ سکیں او ر خود کو لڑکوں کی طرح ہمارے سماج و معاشرہ کے لیے مفید اور کار آمد ثابت کرسکیں۔ بقول اکبر الہ آبادی

تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو وہ بے شعور ہے